20 محرم 1447 هـ   16 جولائی 2025 عيسوى 7:55 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  باطن سے ظاہر تک: عقیدے کی روشنی میں انسانی کردار کی تعمیر
2025-07-15   6

باطن سے ظاہر تک: عقیدے کی روشنی میں انسانی کردار کی تعمیر

الشيخ معتصم السيد أحمد

اسلامی عقیدہ ایک مربوط فکری اور اقداری نظام ہے، جو صرف ذہنی تصورات یا محض نظریاتی معلومات تک محدود نہیں ، بلکہ یہ زندگی کے لیے ایک ہمہ گیر نظریہ حیات ہے۔ یہ انسان کو کائنات میں اس کا مقام متعین کرتا ہے، اور اسے ایک ایسا قطب نما(Compass)فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے وجودی سفر میں راہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ اکثر اوقات عقیدے کو غلط طور پر  صرف ایک ذہنی بحث کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مثلاً خدا کے وجود یا رسولوں کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کو عقیدہ کہا جاتا ہے ۔

جبکہ عقیدے کا گہرا اثر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ ایک جامع کائناتی نظریہ بن کر روزمرہ زندگی میں عملی طور پر ظاہر ہو ، یعنی عقیدہ انسان کے رویوں کی تشکیل کرے، جذبات پر قابو پائے، اور انسان کے اپنے نفس اور دنیا کے ساتھ تعلق کو درست کرے۔ اسی لیے عقیدے کے اثرات کا مطالعہ، اس کے دلائل کے مطالعے سے کسی طرح کم اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ یہی عملی اثرات انسان کے ایمان کی صداقت اور اس کے باطنی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ کوئی بھی انسان زندگی میں بے ہنگم اور کسی کائناتی نظریے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ہر فیصلہ جو وہ کرتا ہے، اور ہر راستہ جو وہ اختیار کرتا ہے، وہ درحقیقت اُس فکری نظام کا براہِ راست نتیجہ ہوتا ہے جو وہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہ نظامِ فکر اس کے اللہ، کائنات، انسان، اور انجام (آخرت) کے بارے میں نظریات اور تصورات سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر یہ نظریہ توحید، نبوت، معاد، عدل اور امامت جیسے اصولوں پر مبنی ہو، تو پھر انسان کا طرزِ عمل انہی اصولوں سے ہم آہنگ اور مربوط ہوگا۔ کیونکہ اقدار کا سرچشمہ عقائد ہوتے ہیں،اورثقافت اقدار کا عکس ہوتی ہے،جبکہ سلوک، اسی ثقافت کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔

وہ انسان جو یہ ایمان رکھتا ہے کہ وہ غیب سے آیا ہے اور اُسے ایک دن غیب ہی کی طرف لوٹ جانا ہے، اور یہ کہ آمد اور واپسی کے درمیان کا وقت محض ایک مختصر امتحان ہے جس پر اس کی ابدی تقدیر کا انحصار ہے، تو ایسا انسان اپنی زندگی کے فیصلے نہ سطحی انداز میں کرے گا، نہ وقتی خواہشات کے تحت، بلکہ اس کے تمام فیصلے ذمہ داری اور بصیرت پر مبنی ہوں گے۔

قرآن کریم نے بھی اسی حقیقت کو بارہا بیان کیا،

جہاں اس نے ایمان کو عملِ صالح کے ساتھ جوڑا ہے، تاکہ واضح ہو جائے کہ ایمان کوئی محض خیال نہیں، بلکہ عمل کی محرّک قوت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً﴾

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی کے طور پر ہوں گے۔"

اسی طرح قرآن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ امن اور ہدایت صرف انہیں نصیب ہوتی ہے۔ جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ﴾

"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا، تو ایسے ہی لوگوں کے لیے امن ہے، اور وہی راہِ ہدایت پانے والے ہیں۔"

اور اسی لیے ایسا ایمان جو نیک عمل میں ڈھل کر ظاہر نہ ہو، ایک کھوکھلا تصور ہی سمجھا جائے گا، اور اسی طرح وہ عمل جو مضبوط عقیدے سے جنم نہ لے، اس سے آخرت میں کسی اجر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایمان اور عمل کے درمیان یہ جدلیاتی ربط حقیقی دینداری کا نہایت دقیق میزان ہے، کیونکہ بہت سے لوگ اعتقاد کا اظہار تو کرتے ہیں، لیکن ان کا طرزِ عمل اس کے تقاضوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اعتقاد اور عمل، ظاہر اور باطن کے درمیان یہ خلا دینی شعور کے بحران کی ایک خطرناک ترین صورت ہے، جہاں عقائد ذہن میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں، وہ زندگی میں تحرک پیدا نہیں کرتے ، یوں عقائد ایک مؤثر قوت کے بجائے ایک تاریخی بوجھ یا محض ایک رسمی شناخت بن کر رہ جاتے ہیں۔اس فکری و عملی تضاد کا علاج صرف عقیدے کے عقلی و نقلی دلائل پر زور دینے سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ عقیدے کے اقداری اور زندگی بخش پہلو کو انسان کے باطن میں زندہ کیا جائے۔ کیونکہ مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان حقیقت کو جان لے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس حقیقت کے مقابل ایک عملی موقف اپنائے۔ اسلام میں علم و معرفت بذات خود کوئی حتمی مقصد نہیں، بلکہ وہ ہدایت اور بصیرت کا ذریعہ ہے۔اسی لیے قرآن مجید نے ایمان کو ایسا نور قرار دیا ہے جس کے ذریعے مؤمن لوگوں کے درمیان راہ چلتا ہے:

﴿وَيَجْعَل لَّكُمْ نُوراً تَمْشُونَ بِهِ﴾

اور وہ تمہارے لیے ایک نور بنا دے جس کے ذریعے تم چلتے ہو۔ (سورہ الحدید: 28) اور فرمایا:

﴿وَجَعَلْنَا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ﴾

اور ہم نے اس کے لیے ایک نور بنا دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے۔” (سورہ الأنعام: 122)

پس مؤمن وہ ہے جو اپنے عقیدے کی روشنی میں صحیح راستہ دیکھتا ہے، اور اسی نور سے رہنمائی پا کر درست موقف اختیار کرتا ہے۔اور یہ نور اُس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک عقیدہ بصیرت میں نہ بدل جائے، یعنی جب تک معرفت دل کی گہرائیوں سے جڑ نہ پکڑ لے اور ایک زندہ، متحرک یقین میں تبدیل نہ ہو جائے جو انسان کو تبدیلی پر آمادہ کرے۔ مثال کے طور پر، اللہ پر ایمان صرف اس بات کی تصدیق نہیں کہ ایک خالق موجود ہے، بلکہ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان ہر اُس زمینی طاقت کو رد کرے جو اسے غلام بنانا چاہے، کیونکہ سچا ایمان انسان کو ایک حقیقی وجودی آزادی عطا کرتا ہے۔ یہ ایمان انسان کو خواہشات اور ظالموں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں لے آتا ہے، اور یہی حقیقی آزادی ہے۔

اسی آزادی کو قرآن نے یوں بیان فرمایا:

﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾

اور وہ ان سے ان کے بوجھ اور وہ طوق اتار دیتا ہے جو ان پر تھے۔ (سورہ الأعراف: 157)

یہی وہ نورِ ایمان ہے جو انسان کو خودی، آزادی اور بندگیِ حق کی راہ دکھاتا ہے۔اسی طرح، جس توحید کا انسان دعویٰ کرتا ہے، وہ صرف ذہنی طور پر اللہ کو واحد مان لینے سے مکمل نہیں ہوتی۔ ابلیس بھی یہ جانتا تھا — بلکہ اس سے کہیں زیادہ جانتا تھا— مگر پھر بھی وہ حق کے میزان میں موحد نہ تھا۔کیونکہ توحید صرف ایک ذہنی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی حاکمیت کو زندگی کے ہر گوشے میں مکمل طور پر تسلیم کرنے اور اس کے سامنے سراپا اطاعت بننے کا نام ہے۔اور یہ تبھی ممکن ہے جب انسان اللہ کے رسولوں اور اس کے اولیاء کی پیروی کرے، کیونکہ یہی حضرات زمین پر اللہ کی مشیئت اور اس کے احکام کا عملی مظہر ہوتے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا:

﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ﴾

تمہارا ولی (سرپرست و رہنما) تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول، اور وہ مومن جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکات دیتے ہیں۔ (سورہ المائدہ: 55)

یہی حقیقی توحید ہے: اطاعتِ الٰہی کا مکمل التزام، اس کے رسول اور اولیاء کی ولایت کو تسلیم کرتے ہوئے۔ پس یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی عقائد کوئی الگ تھلگ جزیرے نہیں، بلکہ ایک مربوط نظام ہیں جو توحید سے شروع ہوتے ہیں، نبوت اور امامت سے تکمیل پاتے ہیں، اور معاد (یومِ آخرت پر ایمان) کے ساتھ تاج پہنتے ہیں۔ ان تمام عقائد پر عدل کی روح حاکم ہوتی ہے، جو انسان کے تمام اختیارات اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔اسلامی تصور میں عدل کوئی اضافی قدر یا محض اخلاقی آسائش نہیں، بلکہ یہ خود عقیدے کی جان اور اس کا اعلیٰ ترین مقام ہے، اور براہِ راست اللہ پر ایمان کا مظہر ہے۔

جو شخص یہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور یہ کہ ہر مخلوق اپنی حرمت اور اپنے حق کی حامل ہے، تو اس کے سلوک میں لازماً ان حقوق کا احترام موجود ہونا چاہیے۔قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ تمام آسمانی رسالتوں کا مقصد ہی عدل کا قیام ہے:

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾

یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔” (سورہ الحدید: 25)یہی ہے اسلام کا عدل پر مبنی ہم آہنگ عقیدتی نظام، جو انفرادی، اجتماعی اور عالمی سطح پر انسان کو ایک متوازن اور بامقصد زندگی کی دعوت دیتا ہے۔جو شخص ایمان کا دعویٰ کرے لیکن اس کے دل اور عمل میں عدل موجود نہ ہو، وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے، کیونکہ سچا ایمان ہمیشہ حق کا ساتھ دینے کا تقاضا کرتا ہے، چاہے حالات کتنے ہی سخت ہوں، حتیٰ کہ دشمنوں کے مقابل بھی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى﴾

کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ (سورہ المائدة: 8)

اور جو شخص یہ جاننا چاہے کہ اس کے دل میں عقیدہ کتنا راسخ ہے، تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی کے فیصلوں پر غور کرے۔

اگر وہ دیکھے کہ اس کی زندگی اس قرآنی اعلان کی عملی تفسیر بن چکی ہے:﴿قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيايَ وَمَماتِي للهِ رَبِّ الْعالَمِينَ﴾

کہہ دو! بے شک میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔” (سورہ الأنعام: 162) تو وہ اپنے ایمان میں سچا ہے۔لیکن اگر وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں مگر خود کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ وہ کتاب بھی پڑھتا ہے، تو وہ یقیناً عقیدے کی روح اور اس کے جوہر سے غافل ہے۔

جہاں تک اُن ذرائع کا تعلق ہے جن کی طرف رجوع کر کے ان اثرات کو سمجھا جا سکتا ہے، تو اس کا دائرہ صرف کتابوں کی تلاش پر محدود نہیں، کیونکہ یہ بحران دراصل علمی (معرفتی) سے زیادہ ارادی اور نفسیاتی ہے، اور اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ انسان کس حد تک آمادہ ہے کہ اپنے عقیدے کو اپنی زندگی کا نور بنا کر اس کے ساتھ چلے۔تاہم، اس کے باوجود، قرآنِ کریم اور اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث ان حقائق کو سمجھنے کا سب سے اہم اور گراں قدر سرچشمہ ہیں، کیونکہ یہ صرف مفاہیم بیان نہیں کرتیں، بلکہ دلوں کو جلا بخشتی ہیں اور بصیرتوں کو جگاتی ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ اُس نے توبہ اور رجوع کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں، اور لغزشیں اُس وقت تک انسان کو صراط مستقیم سے باہر نہیں نکالتیں، جب تک وہ اُس راہ پر چلنے کے عزم پر قائم ہے۔اور آخر میں، اسلام میں عقیدہ کوئی قید نہیں بلکہ ایک نجات دہندہ ہے، کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک نور ہے، اور وہ میزان ہے جس سے انسان کی دنیا اور آخرت کا وزن کیا جاتا ہے۔

پس اگر کوئی مسلمان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی بامعنی ہو، اور وہ دنیا میں اثر انگیز اور آخرت میں ماجور ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی عقیدے کے ساتھ باشعور تعلق کو دوبارہ زندہ کرے — نہ صرف اس دفاع کے دائرے میں، بلکہ اسے اپنے عمل، کردار اور حقیقتِ زندگی میں فعال بنا کر۔یہاں تک کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے: ﴿يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ﴾ جن کا نور ان کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔ (سورہ التحریم: 8) یہی لوگ ہیں جو حقیقی مؤمن ہیں، یہی ہیں زندہ عقیدے کے حامل ہیں ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018