

| احکامِ اجتماعی | انسان پرستی انسانیت کوختم کر دیتی ہے

انسان پرستی انسانیت کوختم کر دیتی ہے
السيد علي العزام الحسيني
لفظ "انسانیت" ادبی لحاظ سے"انسان" سے ماخوذ مصدر ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے "وطنيت" (قوم پرستی) "وطن اور "حیوانیت" "حیوان"سے ماخوذ ہے۔ یوں مصدر کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب اس اسم کے ساتھ جُڑی صفت کو خالص ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ یعنی "انسانیت" اس انسان کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اپنی بنیادی اور فطری اقدار کے حامل ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اور حیوانی فطرت سے ممتاز ہوتا ہے۔ یہ وہ مفاہیم ہیں جو انسانی ضمیر میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں بشرطیکہ انہیں عارضی اثرات اور بیرونی صفات سے الگ کر دیا جائے۔اسی معنیٰ میں آج کے دور میں انسانی اقدار کی دعوت عام ہوچکی ہے۔ "انسانیت" کا لفظ ایک عمومی معیار اور مشترکہ اخلاقیات کے اظہار کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو انسانوں کے رویّوں کے بارے میں بتاتا ہے۔انسانیت اعمال و اشخاص کو پہچاننے کے لیے ایک حوالہ بن چکا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ یہ عمل انسانی ہے،وہ غیر انسانی ہے، فلاں انسانیت کا کام کر رہا ہے، یہ معاشرہ غیر انسانی ہے اور وہ معاشرہ انسانی ہےوغیرہ۔
انسانیت کی دعوت کا مطلب ہے ایسی ہمہ گیر عالمی اقدارکی طرف بلانا جو پوری دنیا کےلیے قابلِ قبول ہوں اور ایسے اخلاقی اصولوں کو معیار بنانا جنہیں سب اس بنیاد پر تسلیم کریں کہ یہ کسی خاص دین سے وابستہ نہیں اور نہ ہی انسانوں کے کسی مخصوص طبقے کے ساتھ مختص ہیں۔ان تمام نےانسان کی فطرت سے ہی جنم لیا ہے۔ لوگ اس لفظ کو اچھی نیت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تاکہ رحم، سخاوت، تعاون، شفقت اور دیگر بلند اخلاقیات اور عظیم انسانی اقدار کی طرف اشارہ کریں جو انسان کو حیوانات سے ممتاز بناتی ہیں۔ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ لفظ کسی خاص فکری نظریے یا فلسفیانہ رجحان کی نمائندگی نہیں کرتا اور اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دین یا ربِّ العالمین پر ایمان کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے بلکے وہ اکثر اس پہلو کی طرف متونہ ہی نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے اس لفظ کے پیچھے ایک مادّی و دہری (الحادی) نقطۂ نظر چھپا ہوتا ہے جو انسانی اقدار کے نعرے کے ذریعے اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے۔ وہ لفظ "انسانیت" کو سطحی انداز میں نہیں لیتےبلکہ اسے اپنے مخصوص نظریے اور زاویۂ نظر کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے اس مخصوص نظریے کو (Humanism) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے نہ کہ "انسانیت" سے پکارا جائے جو اب ان دونوں تناظرات میں مشترک بن چکی ہے۔یہی بات ہے جس کی وجہ سے دونوں مفاہیم کے درمیان الجھن اور خلط پیدا ہو گیا ہے۔
اگر ان دونوں کے درمیان فرق کو واضح کرنا چاہیں تو اس کی سب سے بہترین مثال سائنس (Science) اور سائنس پرستی (Scientism) کے درمیان فرق میں ملے گی۔ سائنس اپنی فطرت میں غیر جانب دار ہوتا ہے وہ خود سے کسی فلسفیانہ نظریے کا دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی مختلف فکری مذاہب میں سے کسی سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن سائنس پرستی ایک جانب دار فلسفیانہ نظریہ ہےجوبغیر کسی سائنسی دلیل کےیہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو چیز سائنس اور تجربے سے ثابت نہ ہووہ حقیقت ہی نہیں رکھتی!اسی بنا پر وہ چھوٹا سا اضافہ، یعنی تین حروف پر مشتمل لاحقہ (Ism) پورے مفہوم کو بدل دیتا ہے،چاہے وہ "سائنس پرستی" (Scientism) ہو یا "انسان پرستی" (Humanism)کیونکہ یہ دونوں ایمان باللہ اور غیب پر ایمان سے خالی ایسی انسانیت کی طرف دعوت ہیں جو خالق سے بے نیاز ہو۔
وہ انسانیت جو خالق سے بے نیاز ہو (یعنی انسانویت) ایک مخصوص فلسفیانہ نظریہ ہے جو ایک عقیدہ ہے جس کے ماننے والے عالمی تنظیموں کےذریعےدنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور مختلف تحقیقی مراکز موجود ہیں۔ یہ نظریہ کائنات، زندگی اور انسان کے بارے میں ایک خالص مادّی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔یہ اپنی فکر کو ایک ایسے نئے اصطلاحی لبادے میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر لوگوں کے ہاں کوئی منفی تاثر یا بدنامی نہ ہو۔یہ نظریہ غیب کو مکمل طور پر رد کرتا ہے،ماورائے طبیعت کا کلی طور پر انکار کرتا ہے اور مطلق (یعنی خدا) کا مکمل انکار کر کے انسان کواس کے مادی پہلو کے ساتھ خدا کی جگہ پر رکھتا ہے۔ چونکہ یہ نظریہ اپنے لیے "انسانیت" سے مشتق نام استعمال کرتا ہے، اس لیے وہ بلا شبہ ان فطری معانی اور بلند اقدار کو غصب کر لیتا ہے جو انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہیں اور جنہیں خالق نے اپنی صاحب شرف مخلوق میں رکھا ہے۔
انسانویت کا فلسفہ اس کے نظریہ پردازوں کے مطابق سات اصولوں پر قائم ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ خدا اور یومِ آخرت پر ایمان نہ رکھا جائے۔یہ ان پر کوئی الزام نہیں لگا رہےبلکہ یہ بات خود ان کے اپنے بیانات سے واضح ہے۔ مثلا اسٹیفن لوجو عصر حاضر میں اس فلسفے کے داعی ہیں واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:"انسانویت کے ماننے والے یا تو دہریے ہوتے ہیں یا کم از کم لاادری۔ وہ خدا کے وجود کے دعوے پر شک کرتے ہیں۔"اسی طرح وہ اپنے فلسفے کے اصولوں میں بغیر کسی الجھاو کے یہ بھی واضح کرتے ہیں:"ایمان رکھا جاتا ہے کہ یہ زندگی ہی ہماری واحد زندگی ہے۔ ہماری روحیں مرنے کے بعد دوبارہ جسموں میں واپس نہیں آتیں۔ نہ کوئی جنت ہے اور نہ دوزخ۔"پھر وہ مزید کہتے ہیں Humanist ایک یقینی ایمان رکھتی ہے کہ اخلاقی اقدار کا وجود اور ان کی اہمیت واقعی ہے (انسانویت، صفحہ 10، اشاعت: مؤسسہ ہنداوی، سال 2016ء)۔
جب Humanist اپنی اخلاقی اقدار کے وجود اور ان کی اہمیت پر کامل ایمان رکھنے پر زور دیتا ہے تو اس کے علمبرداروں کے سامنے سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ان کا فلسفہ جو مطلق (یعنی خدا) کے وجود کا انکار کرتا ہے اور صرف مادی زندگی کو تسلیم کرتا ہے انسانی مفاہیم کے لیے کوئی واضح فلسفیانہ تصور اور ایک مربوط اخلاقی اقدار کا نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد افراد کا اخلاقی محاکمہ کرنا بالکل نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض مؤمن افراد نیک نہیں ہوتے اور بعض لا دینی یا دہریے افراد اچھے اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اخلاقی اقدار ایمان دارانہ تصورِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں جب کہ دہریت (الحاد) اپنے اندرونی تضاد کے ساتھ ان انسانی اقدار کی بنیاد رکھنے اور ان کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لا دینی شخص کے اخلاقی رویّے بھی درحقیقت ایک ایسے دین سے ماخوذ ہوتے ہیں جو ماضی میں کسی دور میں موجود تھاپھر بھلا دیا گیا مگر اس کی بنیادی نشانیاں آج بھی مختلف مظاہر کے ذریعے موجود ہیں جیسے خاندان، ادب، فلمیں اور طرزِ تعمیر وغیرہ۔ سورج واقعی غروب ہو چکا ہےمگر رات کی گہرائیوں میں جو حرارت محسوس ہوتی ہےدراصل وہ گزرے ہوئے دن کے سورج ہی کی باقیات ہیں۔(مراجعة کے لیے دیکھیے: الإسلام بين الشرق والغرب، صفحہ 209)۔
اس پہلو سے(یعنی الحاد یا انسانویت کی بنیاد پر اخلاقی نظام کی تشکیل) کام کرنا نہایت دشوار بلکہ تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ ہمارے سامنے مختصر الفاظ میں بیان ہوئے کچھ نظریات موجود ہیں جن سے ہمیں مسئلے کی گہرائی کا پتہ چلے گا۔موجودہ دور کے بڑے دہریے ریچرڈ ڈاکنز خود لکھتے ہیں:"مذہبی بنیادوں کے بغیر مطلق اخلاقیات کا دفاع کرنا مشکل ہے۔"(وهم الإله، صفحہ 234)اسی طرح فوكوياما نے بھی شک ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا واقعی کوئی ایسی سیکولر (لادینی) بنیاد موجود ہے جس پر یہ عقیدہ قائم کیا جا سکے کہ انسان ایک مخصوص اخلاقی مقام یا عزت کا مستحق ہے؟(نهاية الإنسان، صفحہ 217)
پس، انسانویت کے نظریے کو درپیش سب سے بنیادی فکری مشکل یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور عمل میں بعض مطلق انسانی اخلاقی اقدارجیسے عدل، خیر اور حق کو معیار بناتا ہےحالانکہ یہ معلوم ہے کہ ایسی اقدار کے لیے کسی خالق اور واجب الوجود بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کو وجود عطا کرے اور جس سے وہ اپنی مطلقیت حاصل کریں۔یہی دلیل تھی جس نے فرانسيس كولنز (جو انسانی جینوم پراجیکٹ کے سربراہ تھے) کو دوبارہ ایمان کی طرف لَوٹایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ انہی اخلاقی دلائل کی وجہ سے اُنہیں اندازہ ہوا کہ خدا کے وجود کے خلاف ان کا موقف صرف بچگانہ خیالات پر مبنی تھا اور ان کی یہ سوچ علم اور ایمان دونوں کے بارے میں ان کے سابقہ خیالات کی بنیادوں کو ختم کر گئی۔(فرانسيس كولنز - لغة الإله، صفحہ 27، پہلی اشاعت: 2016ء)۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر اللہ، دین اور غیب سے مکمل طور پر ناطہ توڑ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں انسانی کرامت یا بلند مقام کے لیے کوئی متبادل بنیاد قائم کرنا لازم آتا ہےوہ بنیاد جس سے رحم، ہمدردی، تعاون اور دوسروں کے ساتھ احسان جیسی اخلاقی اقدار جنم لیتی ہیں۔تاہم، اس مقام پر جو بھی متصورہ متبادل پیش کیے جاتے ہیں چاہے یہ کہا جائے کہ انسانی اقدار فطرت سے پیدا ہوئی ہیں یا یہ ارتقائی خود غرضی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہیں یا یہ محض انسانی سماجی معاہدات کا نتیجہ ہیں تو یہ سب نظریے ان اقدار کی مضبوطی کو ختم دیتے ہیں اور ان کا خارجی معروضی معیار مٹا دیتے ہیں، یوں یہ اقدار وہم، نسبیت اور غیر یقینی میں گم ہو جاتی ہیں اور محض سراب بن کر رہ جاتی ہیں۔اس کے مقابل دینی نقطۂ نظر ان اقدار کو اس فطرت سے جوڑتا ہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور انہیں رحمتِ الٰہی سے منسلک کرتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے:"بیشک اللہ عزّ و جلّ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت اس نے زمین پر اتاری، جسے اس نے اپنی مخلوق کے درمیان تقسیم کر دیااور اسی سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے اور شفقت کرتے ہیں جبکہ ننانوے رحمتیں اپنے لیے رکھ چھوڑی ہیں، جن سے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ (تفسیر الصافی للکاشانی، جلد 1، صفحہ 82)۔