

| احکامِ اجتماعی | موسیقی کو کیوں حرام قرار دیا گیا؟!!!

موسیقی کو کیوں حرام قرار دیا گیا؟!!!
الشيخ باسم الحلي
گانوں اور موسیقی کی تاریخ
اوغسطینوس نے اعترافات میں کہا کہ کبھی کبھی موسیقی مجھے ایسی لذت میں لے جاتی ہے جس کا میں اہل نہیں ہوتا تو مجھے خوف ہوتا ہے کہ میں اسے اللہ سے زیادہ نہ چاہنے لگوں۔ (Confessions, Book X, Chapter 33)
یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ جب وہ دوسروں تک اپنی بات پہنچانے یا دل کا مدعا بیان کرنے کے لیے بولتا ہے، تو الفاظ کی ادائیگی میں نرمی، روانی اور ہم آہنگی کو پسند کرتا ہے۔ وہ جملوں کی ترتیب میں تناسب چاہتا ہے اور اپنی بات کو ایسے انداز میں ادا کرتا ہے جو اس کے جذبات سے ہم آہنگ ہو۔خواہ وہ غم ہو یا خوشی، غصہ ہو یا جوش، بہادری ہو یا کمزوری-آواز کی کیفیت ان جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔چنانچہ اس میں بڑا فرق ہے کہ انسان صرف بات کو یوں ہی بےربط انداز میں نہ پھینکے جیسے کوئی پتھر پھینکا جاتا ہے، اور موقع و محل کا کوئی خیال نہ رکھے۔ اس کے برعکس، انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بات خوبصورت، متوازن اور دل سے ہم آہنگ انداز میں پیش ہو، جو اس کی طبیعت، حالات، احساسات اور مقصد سے مطابقت رکھتی ہو۔
مثال کے طور پر جملہ: "میں تم سے محبت کرتا ہوں" اس کے کئی مختلف حالات ہوتے ہیں جو مختلف ارادوں اور مواقع کے مطابق بدلتے رہتے ہیں ،اسی لیے اس کے کئی مختلف لہجے اور انداز ہوتے ہیں۔جیسے ایک بچہ جب اپنی ماں سے کہتا ہے "میں تم سے محبت کرتا ہوں"تو اس کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے اس وقت سے جب ایک شوہر اپنی بیوی سے یا بیوی شوہر سے یہ جملہ کہے تو انداز اور ہوتا ہے۔اسی طرح یہ اس وقت سے بھی مختلف ہوتا ہے جب کوئی دوست اپنے دوست سے، بھائی اپنے بھائی یا بہن سے یا ماں اپنے بیٹے سے یہ بات کہے۔اسی طرح باقی حالات میں بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔مثلاً پیاسا انسان جب شدید پیاس کے بعد پانی پی کر سیراب ہوتا ہے تو کہتا ہے: "آہ" اس کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ مشقت کے بعد حاصل ہونے والی لذت کا اظہار کرے اور یہ ایک خاص آواز ہوتی ہے۔کبھی وہی "آہ" تکلیف یا درد کی وجہ سے کہی جاتی ہے اور اس کی ایک الگ آواز اور انداز ہوتا ہے۔تیسری صورت میں انسان "آہ" کہتا ہے جب وہ ماضی کی کسی یاد میں ڈوبا ہوتا ہے اس کی الگ نغمگی ہوتی ہے۔اسی طرح مختلف مواقع پر "آہ" کا مطلب اور انداز بدلتا رہتا ہے۔
اسی طرح نغمے اور گیت ہیں جنہیں ملاح (کشتی چلانے والے) اپنی ہمت بندھانے کے لیے گاتے تھےاور ان کا ترنم سمندر کی لہروں کے ساتھ خوب میل کھاتا تھا۔اسی طرح جنگ کے جوش و جذبے میں وطن، خون، عزت اور غیرت کے دفاع کے لیے جو نعرے، نغمے اور اشعار پڑھے جاتے تھے وہ بھی مخصوص انداز اور ہم آہنگی کے حامل ہوتے تھے۔جزیرۂ عرب کے لوگوں کا اونٹوں کے لیے گایا جانے والا حدی (روایتی نغمہ) بھی ہے جو صحرا کی سختی، بیابان کی مشقت، اونٹوں کی خوبصورتی کی خوشی اور ریت کے سحر سے پیدا ہونے والی حیرت کے ساتھ بہت ہم آہنگ ہوتا ہے۔یہ فطری نغمے ایسی آوازیں ہوتی ہیں جو ایک طرف سختی اور مشقت کو ظاہر کرتے ہیں، اور دوسری طرف خوشی اور سادگی کا اظہار ہوتے ہیں۔
اسی طرح قرآن کریم کو فطری انداز میں پڑھنا مستحب ہے ایسے پاکیزہ اور فطری آہنگ کے ساتھ ہو جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔جس میں ایک بندہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے جیسے ایک ڈوبنے والا شخص اپنے بچانے والے کے سامنے ہوتا ہےیا ایک بے بس، پریشان حال انسان اُس کے سامنے ہو جس نے اس کی فریاد سن لی ہویا ایک کھویا ہوا بچہ اپنے ماں باپ سے ملے۔ تلاوت ہر قسم کی بناوٹ، غرور، غلط انداز اور نفس کی بیماریوں سے پاک ہونی چاہیے۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی صحیحہ ابن ابی عمیر میں آیا ہے آپ نے فرمایا:"یقیناً قرآن حزن کے ساتھ نازل ہوا ہے، پس اسے حزن کے ساتھ پڑھو"یعنی وہ غم جو تقدس، رجوع الی اللہ (اللہ کی طرف توجہ کا مکمل طور پر رخ کرنا)، عاجزی، تعظیم، تبتل (عبادت میں مشغول ہونا)، عبادت اور اطاعت کے ساتھ مربوط ہو۔
یہ سب باتیں ہمارے موضوع سے باہر ہیں کیونکہ نہ تو یہ شرائع اور مذاہب کے خلاف ہیں، نہ انسان کی اخلاقیات اور فطرت کے خلاف ہیں۔یہ ایک فطری، قدرتی، غیر ارادی اظہار ہے جو انسان کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے یا کم از کم اس کا مقصد عقلی طور پر مناسب ہوتا ہے اور عقل اسے نہ تو برا سمجھتی ہے، نہ نقص، عیب، فحاشی یا بے وقوفی کے طور پر دیکھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ فطری نغمات انسانی معاشروں میں فساد، فحاشی، شراب نوشی، بدتمیزی اور طغیان کا سبب نہیں بنتے۔
ابن خلدون نے جزیرہ نما عرب کے بارے میں کہا:"ان کے رہنما(راہ چلنے والے) اپنے اونٹوں کے لیے حداء (گانے) گاتے تھے اور نوجوان اپنی خلوتوں میں گاتے تھےتو وہ آوازوں کو گونجنے دیتے اور نغمے گاتے۔ گانے کا مطلب تھا کہ وہ شعروں کو گاتے ہوئے ترنم کرتے۔"اور ان کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ چیز ترنم کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور شعر گانا تھا،جو ان کی عادت اور طریقہ تھا۔(تاریخ ابن خلدون: 538)
ابن خلدون نے اپنی مقدمہ میں ذکر کیا کہ ان نغمات سے پیدا ہونے والا گانا دو قسم کا ہوتا ہے:
پہلی قسم: فطری گانا جو انسانی فطرت کے مطابق ہوتا ہے اور جو قدرتی طور پر انسان کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔یہ بغیر کسی نقالی، بناوٹ، قانون، علم یا قواعد کے ہوتا ہے۔
دوسری قسم: صناعی گانا۔یہ وہ گانا ہے جو عیش و عشرت، تفریح اور طغیان کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سلطنتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ گانا جو ایک صنعت، فن، علم اور قواعد کے ساتھ ہوتا ہے، صرف حکام، بادشاہوں اور سلاطین کی حوصلہ افزائی اور خواہش سے وجود میں آ سکتا تھا اور ان کے معاونین، افسران اور چاپلوسوں کی مدد سےگایا جاتا ہے۔
یہ عوامی لوگوں کے لیے نہیں ہوتا ، خاص طور پر غریبوں اور محنت کش لوگوں کے لیے تو بالکل بھی نہیں ہوتا تھا۔ نہ ہی ان کا اس کے علم اور قواعد تشکیل دینے میں کوئی کردار تھا۔یہ فطری نغمات کی نسبت پسندیدہ نہیں تھا کیونکہ یہ ان سے زیادہ خوبصورت اور حکمت پر مبنی نہیں تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عرب کا فطری شعر وہ ہےجو عربوں نے اسلام سے پہلے کہا تھا، یعنی شعر کی بحور اور اس کے ضوابط کے دریافت ہونے سے پہلے، وہ ان تمام اشعار سے زیادہ خوبصورت، فصیح، بلیغ اور حکمت سے لبریز تھا جو بعد میں ان ضوابط کے مطابق کہے گئے۔
ابن خلدون کہتے ہیں:"جب عربوں کے پاس عیش و عشرت آئی اور اُن پر نرم و نازک مزاجی غالب آ گئی جو کہ انہیں مختلف قوموں پر فتوحات سے حاصل شدہ مال غنیمت کے ذریعے نصیب ہوئی تو وہ آرام دہ زندگی، نرم لباس اور فارغ وقت کی لذت کی طرف مائل ہو گئے۔تب فارس اور روم کے گانے والے الگ الگ ہو کر حجاز (جزیرہ عرب کا علاقہ) میں آ گئےاور عربوں کے موالی (تابع) بن گئے۔ انہوں نے عود، طنبور، ساز اور بانسری جیسے آلاتِ موسیقی کے ساتھ گانے گائے۔ عربوں نے ان کی دھنیں سنیں تو انہی دھنوں پر اپنے اشعار ترنم سے پڑھنے لگے۔ یہ گانے بجانے کا فن (موسیقی) تمدن کی ترقی میں سب سے آخر میں دریافت ہونے والا فن ہے کیونکہ یہ ایک لگژری چیز ہےجس کا کوئی عملی مصرف نہیں سوائے خوشی اور فرصت کے لمحات میں دل بہلایا جائے۔یہی وہ پہلا فن ہوتا ہے جو تمدن کے زوال اور بگاڑ کے وقت سب سے پہلے ختم ہوتا ہے۔"
یہ واضح ہو چکا ہے کہ موسیقی سے اس کی تمام دھنیں اور نغمے مراد نہیں ہیں اور نہ ہی اہلِ ادیان (مذاہب کے ماننے والوں) نے موسیقی کی ہر قسم کو حرام قرار دیا ہے۔اس سے مراد صرف وہ موسیقی ہے جو فجور (بے حیائی) پر مبنی ہو۔خاص طور پر جب وہ ایک "علم" بن جائے یعنی جب وہ عیش پرستی، سرکشی، اخلاقی بگاڑ، حیوانی پستی، انسانی گراوٹ، بے حیائی، اخلاقی تباہی، ذہنی جمود، فکری بے حسی، تہذیبی گمراہی، ثقافتی زوال اور آخرکار ایک شدید اور دائمی نفسیاتی بیماری میں تبدیل ہو جائے۔
ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ موسیقی جب ایک "علم" کے طور پر سامنے آنے لگی تو یہ صرف طاقت، اقتدار، دولت، بے حیائی اور فحاشی کے حامل اور ان کے مددگاروں اور حامیوں لوگوں کی علامت بن گئی۔اسی طرح وہ تمام لوگ بھی جو ان کے چاپلوس اور درباری تھے یہ لوگ جو اقتدار کے گرد منڈلانے والی مکھیاں اس کی علامت بن گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی موسیقی ہمیشہ شراب، نشے، فحاشی، فاحشہ عورتوں اور گناہوں کے ارتکاب کے ساتھ ہی وابستہ رہی ہے۔
ہم ہر چیز میں شک کر لیں مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موسیقی کی ترقی انہی معاشروں میں ہوئی جوجہاں عیاش،اخلاقی طور پر تباہ اور زوال کا شکار،دولت اور اقتدار کے پچاریوں اور ان کے حمایتیوں کی کثرت تھی۔ایسے معاشروں کا مشاہدہ کیا جائے تو ان میں فطری طور پر فاحشاؤں کی کثرت، عیاشی کے مقامات، فحاشی کے اڈےاور شراب کی مختلف اقسام میں مہارت عام بات بن جاتی ہے۔
ژاں ژاک روسو نے کہا:جدید موسیقی دل پر اثر انداز ہونے کی بجائے عقل پر بہت اثر ڈالتی ہے اور یہی چیز اخلاقیات کے لیے خطرہ ہے۔"("فرانسیسی موسیقی پر خط" 1753)
موسیقی کا غلبہ پانا، پھیلنا اور غالب آنا ہمیشہ زنا، لواطت اور اخلاقی زوال کی شرح میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ہمیں انسانی تاریخ میں ایسا کوئی معاشرہ نہیں ملتا جہاں زنا اور لواط کا رواج عام ہوا ہو مگر وہاں پر جواں طبقہ غلط موسیقی کی لت میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ یہ بات اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ یہ اثرات اسی غلط موسیقی کی اصل شکل ہیں جو سامنے آ رہے ہیں۔
فریڈرک نطشے نے کہا:"مجھے ایسی موسیقی سے نفرت ہے جو درد کو سستا بناتی ہے یا بے معنی باتوں کو فروغ دیتی ہے۔"(Twilight of the Idols)
وہ معاشرے بھی جو بظاہر مذہبی ہوتے ہیں اور جن کے ہاں مذہب سرکاری طور پر نافذ ہوتا ہے، وہاں بھی جرائم، گناہوں اور اخلاقی گراوٹ میں یہ چیز نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔بعض اقسام کی موسیقی اور کئی سماجی بیماریوں کے درمیان ایک براہِ راست تعلق پایا جاتا ہے،جیسے: تیزی سے غصہ آنا، ڈپریشن، دکھ میں لطف لینے کی ماخوزی کیفیت اور مایوسی کی عادت میں مبتلا ہونا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:"گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے اور غربت کا سبب بنتا ہے۔"(کتاب الخصال، حدیث نمبر: 85) وہ موسیقی جسے مذاہب اور شریعتوں نے حرام قرار دیا ہے دراصل وہ ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی بگاڑ، ذہنی بیماری اور اخلاقی تباہی پیدا ہو جائے۔مثال کے طور پر اداس اور غمگین موسیقی سننے کا سب سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان ایسی کیفیت کا عادی بن جاتا ہےاور اس کا اثر بعض دفعہ چرس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔
ابن خلدون نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون کے مقدمے میں لکھا:"جب کوئی معاشرہ ضرورتوں سے آگے بڑھ کر عیش و آرام میں پڑ جاتا ہے اور فارغ ہو کر لطیف چیزوں کی طرف مائل ہوتا ہےتو وہاں گانے بجانے جیسا فن وجود میں آتا ہے۔یہ چیزیں صرف وہی لوگ تلاش کرتے ہیں جو اپنی تمام بنیادی اور ضروری چیزوں سے فارغ ہو چکے ہوں اور پھر وہ صرف مزے اور لطف کی خاطر ایسے فنون کی طرف جاتے ہیں۔"(تاریخ ابن خلدون، جلد 1، صفحہ 539)
جب تمدن، شہری زندگی اور عیش و آرام نے انسانی تاریخ، تہذیبوں اور سلطنتوں میں جگہ بنائی تو اہلِ عیش و عشرت نے ان نغمات (آوازوں اور دھنوں) کو پسند کرنا شروع کیاتاکہ وہ ان فطری جذبات کا اظہار بن سکیں لیکن اس حیثیت سے کہ یہ نغمات اب محض تفریح اور عیش کے لیے ہیں۔چنانچہ انہوں نے اس کے لیے اصول اور ضابطے بنائےاور یوں یہ ایک باضابطہ "علم" بن گیاجسے ہم علمِ موسیقی کہتے ہیں۔
فریڈرک نطشے نے جرمن قوم کے بارے میں کہا:"یہ قوم تقریباً ایک ہزار سال سے جان بوجھ کر جمود کا شکار ہے۔اس نے شراب اور عیسائیت جیسے دونوں مشہور یورپی نشے بہت زیادہ اور غلط طریقے سے کیے ہیں۔ ان دونوں کے ساتھ ایک تیسرا نشہ بھی شامل ہو گیا وہ موسیقی ہے۔یہ نشہ اتنا ہے کہ یہ انسان کے سنجیدہ، تیز اور متحرک ذہن کو بھی مفلوج کرنے کے لیے کافی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن قوم کا ذہن رفتہ رفتہ بھاری، کند اور بے حس ہوتا جا رہا ہے۔"(کتاب: افول الأصنام، صفحہ 66)
موسیقی اور گانے کے عیش و عشرت والے پہلو کو حرام قرار دیے جانے کی مجموما اور مربوط وجوہات درج ذیل ہیں:
پہلی وجہ:یہ انسان کو فحاشی، بے حیائی اور اخلاقی زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کا اثر ہر انسان پر اس کی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق ہوتا ہے۔یہ حیا، غیرت اور اخلاقی شرم کو کمزور کر دیتی ہےاور انسان کو ان تمام اقدار کے برخلاف لے جاتی ہے جو اخلاقی تربیت کی بنیاد ہیں۔
دوسری وجہ:یہ نفسانی خواہشات اور جنسی جذبات کو ابھارتی ہےاور شہوت پرستی کے رجحانات کو بڑھاوا دیتی ہے جیسے ہم اسے یورپ کی عیاش، فارغ البال اور برے خاندانوں میں واضح طور پر دیکھتے ہیں۔
تیسری وجہ:یہ دماغ میں خوشی کے ہارمون (ڈوپامین) کو ایسے طریقے سے متحرک کرتی ہے جیسے نشہ آور چیزیں کرتی ہیں مگر یہ روحانی نشہ ہوتا ہے ایسا نشہ جیسے فحش فلموں کی لت ،جو انسان اس حد تک لگا لیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو مٹا کر اسی میں کھو جاتا ہےاور یہ جسمانی نشے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔تحقیقی مطالعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دماغ کے درمیانی حصے میں کچھ خاص مقامات ایسے ہیں جو خوبصورت آوازوں کے گانے سننے یا خود گانے سے متحرک ہو جاتے ہیں اور خوشی کے ہارمون خارج کرتے ہیں اور اگر یہ سب فطری، متوازن انداز میں ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن اگر یہی عمل عیاشی، بے مقصد تفریح اور اخلاقی زوال کے تناظر میں مسلسل دہرایا جائے،تو یہ آہستہ آہستہ نشے کی طرح عادت بن جاتا ہے،جس کے نتیجے میں نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں جیسے:دائمی اداسی تنہائی پسندی ڈپریشن اور خاص طور پر مایوسی کے ساتھ دکھ میں لطف لینا جو ماخوزی کیفیت کہلاتی ہے۔
چوتھی وجہ:موسیقی انسان کے اندر "ماخوزی رجحان" (یعنی غم اور تکلیف میں لذت محسوس کرنے کی کیفیت) کو طاقت دیتی ہے۔اس طرح انسان اصل خوشی کی تلاش کی بجائے دکھ اور درد سے جھوٹی لذت لینا سیکھ لیتا ہےیعنی درد کو ختم کرنے کے بجائے اس سے لذت لینا شروع کر دیتا ہے جو ایک غلط اور خطرناک احساس ہے۔
پانچویں وجہ:موسیقی غلط خیالات کو حقیقت کا روپ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے یعنی سننے والا خود کو کسی مشہور گلوکار یا اداکار کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی نوجوان جو عشق و محبت کے گانوں اور گلوکاروں کی شہرت سے متاثر ہوتے ہیں،وہ انہی کی طرح سوچنے، بولنے اور زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر کے پاس تو کھانے کو روٹی بھی نہیں ہوتی۔
چھٹی وجہ:موسیقی انسان کو اصل حقیقت سے دھوکہ دیتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے۔یہ فرق ہمیں عام لوگوں اور ذہین و باصلاحیت افراد کے درمیان واضح طور پر نظر آتا ہے۔کیونکہ جو لوگ فحش موسیقی کے عادی ہوتے ہیں،وہ اکثر کم عقل، کم محنتی اور غیر تعمیری ہوتے ہیں،جبکہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور دیگر ذہین افراد عام طور پر ایسی موسیقی سے دور رہتے ہیں۔تاریخ کے تمام ادوار میں ہمیں کوئی بھی عظیم دماغ، عبقری، ماہر یا حقیقی عالم ایسا نہیں ملا جو عیش و عشرت کی موسیقی اور گانے کا دلدادہ یا متاثر ہو۔ ایسے شوق اور لگاؤ صرف کم درجے کے لوگوں میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ غریب ہوں یا اقتدار اور دولت کے مالک۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو موسیقی فطری حد سے بڑھ جائے خاص طور پر عشق و رومانس کے گانے جب نشے کی حد تک سننے کی عادت بن جائے تو وہ انسان کے لیے توجہ بٹنے ، ارتکاز کی کمزوری، ذہانت کی کمی، اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے کمزور ہونے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ اثرات خاص طور پر نوجوانوں اور کم عمر لڑکوں میں دیکھے جاتے ہیں جو بعد میں تعلیمی اور تخلیقی کارکردگی میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، تنہائی، ذہنی انتشار اور ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماریاں بھی عام ہو جاتی ہیں۔
شوپن ہاور (Schopenhauer) نے کہا: "موسیقی انسان کی اندرونی خواہشات اور ارادے کی گہرائیوں کو ظاہر کرتی ہےیعنی وہ اندھی طاقت جو ہر چیز کو حرکت دیتی ہے… لیکن یہی موسیقی بعض اوقات انسان کو جذبات کے سامنے ہار ماننے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔" (کتاب: The World as Will and Representation, Volume 1)
آٹھواں: موسیقی اور گانے کا عادی بننا، مختلف نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، جن میں سب سے اہم بیماری تنہائی ہے، جو لوگوں سے دوری اور معاشرتی تعامل میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ یہ نہ صرف فطری ماحول بلکہ معاشرے اور افراد کے ساتھ صحت مند تعلقات کی کمی کا سبب بنتی ہے۔توماس کارلائل نے کہا: "موسیقی آج کل سوچنے سے بچنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔"( On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History)
تو، وہ گانے جو غمگین یا پرتشویش پر مبنی ہوتے ہیں، وہ شخصی حالت کے مطابق ڈیپریشن یا پریشانی کی شدت کو بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر ان افراد میں جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
نوواں: موسیقی اور گانے کا تعلق جنسی انحراف سے بھی ہوتا ہےجیسے سحاق یا لواط یا دیگر قسم کے انحرافات۔ لہذا گانے اور موسیقی کا عادی ہونا، ان برائیوں کے پھیلاؤ کا ایک اہم سبب بن سکتا ہے۔ارسطو نے کہا: "موسیقی لذت پیدا کر سکتی ہےلیکن یہ اخلاقی فساد بھی پیدا کر سکتی ہے۔"( Politics, Book VIII)
ایک نظر عربی ادب کی کتابوں پر کریں خصوصاً عباسی سلطنت کے وسط یا آخر کے دور میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ غنا اور موسیقی کے قوانین کا ارتقاء ہوا جن کے ساتھ جنسی انحرافات جیسے سحاق یا لواط کا فروغ بھی تھاوہ ایک ہی وقت میں سامنے آئے۔یہی صورت حال رومن اور یونانی تہذیب کی تاریخ میں بھی رہی۔ اسپارٹا کی سلطنت میں، جہاں موسیقی، گانے، حرم اور غلاموں کا فیشنی طور پر رواج تھا، وہاں لواط کو قانونی طور پر اجازت دی گئی تھی۔
یہ حقیقت ہے خاص طور پر یورپ کی تاریخ میں جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا خصوصاً وسطی دور سے لے کر آج تک یہ بات معروف ہے کہ یورپی معاشروں میں موسیقی کی سب سے بلند ترین سطح وہ تھی جو موزارٹ، بیتھوون، شوپان اور ان جیسے دیگر مشہور موسیقاروں کا دور تھا۔ اگر ہم ان ادوار کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اخلاقی فساد اپنے عروج پر پہنچ چکا تھایہاں تک کہ وہ گراوٹ کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔
سوال کیا جاتا ہے: کیا امریکہ اور یورپ انسانوں کی تمام تہذیبوں کے حقیقی ورثاء ہیں؟ ہم اس پر بحث نہیں کر رہےلیکن یہ ورثہ رکھنے والے معاشروں نے موسیقی کے علم کی ترقی کوسب سے اعلیٰ سطح تک پہنچایا۔ اس میں اتنی پیشرفت کی کہ اس نے ہم جنس پرستی کے قانون کو فخر اور اعزاز کے ساتھ تسلیم کیا۔
نواں: مزاج اور سلوک کا انحراف۔اگر ہم سوال کریں: کہاں ہمیں انسانی طرز زندگی میں انحرافات نظر آتے ہیں جیسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات، محارم کے ساتھ نکاح، برہنہ افراد کا جنسی استحصال، غیر متصور حد تک منشیات کا استعمال، انسانوں کا گوشت کھانے کی لذت، جرائم کی کثرت یا شدت جیسے کہ قاتلوں کا مسلسل سامنے آنا، یا فحش فلموں کی صنعت میں اجارہ داری؟آج ہم یہ سب کچھ اس کی انتہائی شدت میں صرف یورپ، امریکہ اور ان کے مانند معاشروں میں دیکھتے ہیں جو موسیقی اور تفریحی گانے میں ترقی یافتہ ہیں۔
تحقیقات نے ثابت کیا ہے اور حقیقت بھی اس کی گواہ ہےکہ ایک خاص قسم کی موسیقی، جسے افلاطون نے "جامحة" یعنی بے قابو موسیقی کہااور جس میں ایک خاص لحن اور ردھم ہوتا ہے کا تعلق قدیم یونانی اور رومی سلطنتوں سے ہے۔ اس موسیقی میں ایسا جادوئی مواد ہوتا ہے جو عقل کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جنسی تشدد یا غیر قانونی تعلقات میں سب سے اعلیٰ لذت حاصل کر رہا ہے، خاص طور پر محارم کے ساتھ تعلقات میں۔ یہ موسیقی انسان کے جارحانہ رویے کو بڑھا سکتی ہے یا غیر قانونی اور غیر منظم تعلقات کی طرف راغب کر سکتی ہے۔
افلاطون نے کہا: "وہ موسیقی جو جذبات کو بے قابو کر دیتی ہے، اس پر پابندی لگانی چاہیےکیونکہ یہ روح کو خراب کرتی ہے اور انسان کے ارادے کو کمزور کر دیتی ہے۔" (جمہوریہ افلاطون، کتاب III)افلاطون نے مزید کہا: "جب موسیقی کے انداز بدلتے ہیں تو پورے معاشرتی نظام میں تبدیلی آ جاتی ہے۔" (جمہوریہ افلاطون، کتاب IV)
فریڈریک نطشے نے کہا: "فاغنر کی موسیقی صرف ایک نشہ ہےجو انسان کے اندر موجود خلا کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو جدید انسان محسوس کرتا ہے۔" (مضمون: فاغنر کا معاملہ، 1888)
ریچارد فاغنر (1883) ایک ماہر موسیقار اور جرمن اوپیرا کے سرپرست تھے، جن کی موسیقی نے نازی ازم اور یہودی دشمنی کی تحریکوں کو متاثر کیا۔