18 ذو القعدة 1446 هـ   16 مئی 2025 عيسوى 3:02 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  اسقاط حمل : دینی اور مادی نظریات کا موازنہ
2025-05-01   125

اسقاط حمل : دینی اور مادی نظریات کا موازنہ

الشيخ معتصم السيد أحمد

اسقاطِ حمل کا موضوع فکری، دینی اور قانونی حلقوں میں ہمیشہ ایک وسیع بحث کا مرکز رہا ہے، کیونکہ یہ انسان کی شناخت، فرد کے حقوق اور اخلاقی ذمہ داریوں کے پیچیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ عموماً اس موضوع پر مذاہب کا موقف اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسےوہ قطعی اور غیر متزلزل ہے، اور وہ حقیقت کی تفصیلات یا انسانی حالات کی پیچیدگیوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ "بویضة" (یعنی وہ ابتدائی انڈہ) ہی دراصل بچہ ہے اور اسقاط حمل قتل کے مترادف ہے، پس جیسے ہی یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے،  تو بحث ختم سمجھی جاتی ہے۔ مگر کیا یہ تصور حقیقتاً درست ہے؟ کیا مذہبی موقف میں اس موضوع پر کوئی نرمی، تفصیل یا رحم کی گنجائش نہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ آسمانی مذاہب میں اسقاطِ حمل کو محض ایک عارضی یا جداگانہ حکم نہیں سمجھتے، بلکہ یہ ایک جامع نظامِ اقدار کا حصہ ہے جس میں انسان، زندگی اور کرامت کی گہری تفہیم پوشیدہ ہے۔ تمام بڑے مذاہب جنین (رحم مادر میں موجود بچے) کو ایک انسان تصور کرتے ہیں جو نشوونما کے عمل میں ہے، اور اسے زندگی کا بنیادی حق حاصل ہے جسے بغیر کسی معقول وجہ کے ختم نہیں کیا جا سکتا، بالکل اسی طرح جیسے ایک بالغ انسان کو مارنا جائز نہیں۔ یہ مؤقف کسی حقیقت سے غافل یا اخلاقی ضد کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ زندگی کی قدر و قیمت کی گہری پہچان سے پیدا ہوتا ہے، کیونکہ زندگی کو ایک خدائی عطیہ سمجھا جاتا ہے جسے کوئی اپنی مرضی سے چھین نہیں سکتا۔ اسی لیے اسقاطِ حمل کی ممانعت کو سختی یا تنگ نظری نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے زندگی کے تحفظ کے ایک جامع نظام کا حصہ سمجھنا چاہیے، جو زندگی کے آغاز سے ہی اس کی حفاظت کرتا ہے۔

دین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ حقیقت اتنی سادہ نہیں کہ اسے کسی ایک اصول میں سمو دیا جائے۔ جب کہ جنین کی زندگی ماں کی زندگی سے متصادم ہو، تو شریعت حقیقی زندگی کو ممکنہ زندگی پر فوقیت دیتی ہے اور خطرے سے بچنے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت دیتی ہے، تاکہ کم سے کم نقصان کا انتخاب کیا جا سکے۔ یہ موقف اخلاقی لچک کو ظاہر کرتا ہے جو اقدار کو ترک نہیں کرتا اور ان کی ترجیحات کو نظرانداز نہیں کرتا۔ اس لیے ان استثناءات میں بھی انسانیت کا پہلو نمایاں ہے، جو اس فیصلے کی نوعیت کو تقویت بخشتا ہے، نہ کہ اسے مسترد کرتا ہے۔

یہاں مذہبی موقف اور مادی موقف میں واضح فرق سامنے آتا ہے۔ جہاں مذہبی نظریہ انسان کو ایک  ایسی معزز مخلوق سمجھتا ہے، جس کی ذاتی  قدر و قیمت ہے اور جو صرف اس کے شعور یا احساسات تک محدود نہیں، وہاں مادی نقطہ نظر انسان کو صرف ایک حیاتیاتی موجود کے طور پر دیکھتا ہے جو دیگر مخلوقات سے ترقی کر کے آیا ہے اور جو صرف اپنی حیاتیاتی صلاحیتوں کی بنا پر کسی امتیاز کا حامل ہے۔ اس تصور کے مطابق، جنین صرف ایک زندہ خلیہ ہوتا ہے جس نے ابھی  زندگی کے حق کو حاصل نہیں کیا، اور جب تک وہ  درد کے  احساس کو بیدار نہیں کرتا، اس کی زندگی کا خاتمہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ فیصلہ ماں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے؛ اگر وہ چاہے تو اسے چھوڑ دے، اور اگر چاہے تو اس کی زندگی ختم کر دے۔

رچرڈ ڈاکنز نے اس صورت حال کو پوری و ضاحت سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسقاطِ حمل کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں ہے، جب تک وہ درد کا سبب نہ بنے، بلکہ اس نے تو یہاں تک کہا کہ انسانی جنین (بچہ دانی میں پلنے والا بچہ) ایک بالغ سور سے بھی کم انسانی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بیان نہ صرف اقدار کے اختلاف کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ "انسانیت" کے تصور میں ایک مکمل تبدیلی کی نشاندہی بھی کرتا ہے ۔ یعنی انسانیت کو ایک فطری جوہر سمجھنے کی بجائے صرف ایک عصبی یا حسی کارکردگی کے طور پر دیکھنے کی طرف جھکاؤ ہے۔

یہاں دونوں نقطۂ نظر کے درمیان تفریق مزید واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ ایک مسلمان مؤمن کے نزدیک انسان وہ مخلوق ہے جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے اور اسے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ نیز، اللہ نے انسان کو ایسی عزت و عظمت عطا کی ہے جو کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔ اسی وجہ سے اسقاطِ حمل صرف اس لیے قابلِ اعتراض نہیں کہ یہ ایک ناتمام زندگی کو ختم کرتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ انسان کو دی گئی خدائی عزت و شرف کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے برعکس، مادّی نقطۂ نظر میں اس عزت یا جوہر کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ زندگی کو صرف ایک حیاتیاتی عمل سمجھا جاتا ہے، جس کے بارے میں ضرورت اور مفاد کے مطابق فیصلے کیے جا سکتے ہیں

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسقاط حمل پر بحث اس وقت زیادہ شدت اختیار کرتی ہے جب اسے دو متضاد زاویوں سے دیکھا  جاتا ہے ، ایک زاویہ وہ ہے جو انسان کو ایک مقدس مخلوق سمجھتا ہے، اور دوسرا وہ جو انسان کو قدرتی ارتقاء کا نتیجہ مانتا ہے، جس کی کوئی بلند تر قیمت نہیں۔ جب اس تقدس کا شعور ختم ہو جاتا ہے، تو جنین کو صرف ایک ممکنہ انسان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے مستقبل کا فیصلہ محض ماں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔

آخرکار، اسقاط حمل کے بارے میں موقف کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فلسفی فکری اساس کی طرف رجوع کریں جو انسان کے مفہوم اور زندگی کی قیمت کو واضح کرتی ہے۔ جہاں زندگی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، وہاں اسقاط حمل ایک سنگین عمل ہے جو صرف انتہائی ضروری حالات میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب عزت و حرمت کو صرف احساس یا پیداواری صلاحیت تک محدود کر دیا جاتا ہے، تو زندگی کو ایک ایسا انتخاب سمجھا جاتا ہے جسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ یہاں پر مذہبی نظرئیے کی اہمیت نافقط فیصلہ صادر کرنے میں بلکہ اصل حقیقت انسان کی حفاظت کے ضمن میں بھی  ظاہر ہوتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018