18 ذو القعدة 1446 هـ   16 مئی 2025 عيسوى 4:04 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  الٰہی اور مغربی فکر میں "انسانیت" کا تصور
2025-05-01   91

الٰہی اور مغربی فکر میں "انسانیت" کا تصور

شیخ معتصم سید احمد

جب بھی "انسانیت" کا تذکرہ کیا جاتا ہے، تو سب سے پہلے وہ اعلیٰ اقدار ذہن میں آتی ہیں جو انسان کے شعور، جذبات اور اخلاقی حس کی بنیاد پر احترام انسانی کو محور بناکر اس کے گرد گھومتی ہیں، جیسے عزت، رحم، ہمدردی، بھلائی کی جانب رجحان، اور مظلوموں کی حمایت۔ کیونکہ یہی اقدار انسان کو زندگی میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔تاہم، جب ہم اس اصطلاح کی فکری بنیادوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفہوم اتنا سادہ یا یکساں بھی نہیں جتنا بظاہر محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ "انسانیت" کا تصور  درحقیقت مختلف فکری اور مذہبی مکاتبِ فکر، بالخصوص جدید مغربی سیاق و سباق میں، مختلف اور کبھی یکسرمتضاد تشریحات و تعبیرات کے مراحل سے گزرا ہے۔

مغربی اصطلاح(Humanity-انسانیت) اپنے تاریخی پس منظر سے چشم پوشی کے نتیجے میں جنم نہیں لیتی، بلکہ یہ اُس تلخ تاریخی تجربے کا نتیجہ ہے، جو یورپی انسان نے کلیسائی جبر اور استبداد کے تحت جھیلا۔ کلیسا نے بعض ادوار میں مذہبی پیشوائی کو ایک سخت گیر سلطنت میں بدل دیا تھا، جس نے انسان کی فکری آزادی چھین کر اس کی روح کو جامد رسم و رواج اور سخت گیر تعبیرات کے حصار میں قید کر دیا تھا۔چنانچہ اس کلیسائی اقتدار اور جبر و استبداد سے لوگوں کو نجات دینے کےلئے ایک فکری تحریک اٹھی، جسے ہیومنٹی (انسانیت)کہا گیا، جس نے کلیسائی اقتدار کے مقابلے میں انسان کو اس کا مقام واپس دلانے کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک نے فرد کی حیثیت، ارادے کی آزادی، اور مذہب کے غلبے سے ذہنی خودمختاری جیسے تصورات کو مرکزی حیثیت دی اور یہ سب دراصل اُس وقت کے مذہبی نظام کی روحانی راہ سے انحراف کے خلاف ایک فکری ردِعمل تھا۔ چنانچہ مغربی فلسفے نے رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی بجائے انسان کو کائنات کا محور قرار دینا شروع کر دیا۔

اسی دور سے انسان کی تعریف کو نہ فقط دنیاوی اور مادّی پیمانوں میں از سرِ نو متعین کیا جانے لگا۔ بلکہ انسانیت کی قدر و قیمت کا تعیّن بھی اس کے عقلی شعور، جمالیاتی ذوق، یا پھر اُن کی ذات کو مکمل کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر کیا جانے لگا۔ یہ زاویۂ نظر مختلف مکاتب فکر میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوا: کچھ نے انسان کو محض ایک معرفتی وجودکے طور پر دیکھا، تو کچھ نے اس کے جمالیاتی یا اخلاقی پہلو کو فوقیت دی۔تاہم، ان تمام تصورات کی اساس ہی ایک محور پر گھومتی رہی کہ خالق سے انسان کو حاصل شدہ وابستگی کی وجہ سے حاصل تقدس کو چھین لیا جائے اور اُسے ایک ایسی خودمختار اور خود انحصار ہستی کے طور پر پیش کیا جائے، جو خود ہی اپنے وجود کا باعث ہے اور کسی اعلیٰ مصدر سے اس کے وجود کو کوئی  فیض نہیں ملا۔

یہ  تصورصرف ایک فکری یا فلسفی نظریہ کی حد تک محدود نہ رہا ، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گہرے سماجی و سیاسی انقلابات بھی رونما ہوئے، بالخصوص یورپی نشاۃ ثانیہ کے بعد انسانی عقل کو اقدار و معانی کی تشکیل میں ایک ایسا مرکزی مقام حاصل ہو گیا کہ عقل ہی کو تمام اقدار کا مرجع اعلیٰ ، بلکہ ایک نئے "خدا" کے طور پر پیش کیا گیا۔ اُس کے ماورائے طبیعیات پہلو کو یا تو مکمل طور پر پسِ پشت ڈال دیا گیا یا اُسے فرد کی داخلی اور نجی دنیا تک محدود کر دیا گیا کہ جو انسان کی اجتماعی زندگی میں کسی قسم کی رہنمائی کی صلاحیت نہیں رکھتا۔پھر جدید دور آیا، جو صنعتی انقلابات، عالمی جنگوں اور شدید انسانی بحرانوں پر مشتمل تھا۔ ان حالات نے انسان کو یہ احساس دلایا کہ اسے کسی ایسے مضبوط اخلاقی نظام کی ضرورت ہے جو انسان کے وقار کا تحفظ کر سکے۔ تاہم اس بار بھی دین کی طرف توجہ نہیں دی گئی ، بلکہ جمہوریت، انسانی حقوق، لبرل ازم، اور سیکولرازم جیسے اصولوں کو ہی نئے دور کی اقدار کے طور پر متعارف کرایا گیا، اور انہیں کومذہبی اقدار کے متبادل کے طور پر فروغ دیا گیا۔

اس طرح یہ تمام تبدیلیاں ہمیں اس تصور (انسانیت) پر نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس تصور کو یکسر ردکرنے یا اُن کو مختلف توجیہات اور شبہات کی نظر سے دیکھنے کی بجائے ایک نہایت سنجیدہ، متوازن اور عقلی بنیادوں پر اس تصور کا جائزہ لیں ، جو باہمی اشتراک کے امکانات کو تلاش کرے اور اختلاف کے اصل مقامات کی نشاندہی کرے۔ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا جدید انسانی فلسفے اور اسلامی تصورِ انسان کے مابین کوئی بنیادی تضاد موجود ہے؟ یا یہ اختلاف محض باہمی غلط فہمیوں اور ناقص تعبیرات کا نتیجہ ہے؟

درحقیقت یہ صورتحال جو ہم اسلام اور جدید تصورِ انسانیت کے مابین بظاہر ایک تصادم کی صورت میں دیکھتے ہیں، وہ دراصل دو متضاد جوہروں کے درمیان کشمکش نہیں، بلکہ یہ اُس نقطۂ نظر اور فکری بنیادوں میں اختلاف کا مسئلہ ہے۔ جب مغربی تصور انسانیت کو اس طرح پیش کیا جائے کہ اگر اس سے مراد انسان کی قدر و منزلت کو بلند کرنا، اس کا احترام کرنا، اور اس کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، تو اسلام نہ صرف اس تصور سے متصادم نہیں، بلکہ اسے من و عن قبول کرتا ہے اور اسی کو اپنے عقیدے اور شریعت کی بنیادوں میں شمار کرتا ہے ۔ جیسا قرآنِ کریم کی آیات میں جابجا یہ حقیقت نمایاں ہے کہ انسان کو کائنات میں ایک مرکزی مقام حاصل ہے، عقل کی اہمیت کو سراہا گیا ہے، اور رحم، عدل، احسان، اور باہمی تعاون جیسے اخلاقی اصولوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

اسلام نے انسان کے لیے ایک ایسا ہمہ جہت اور متوازن تصور پیش کیا ہے، جو نہ تو اس کے فطری تقاضوں کا انکار کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی مادی ضروریات کو نظرانداز کرتا ہے۔ بلکہ وہ اس کے روحانی اور مادی دونوں پہلوؤں کو آپس میں مربوط کرکے انسان کو ایک کامل ہستی بناتا ہے۔ اسلام کا یہی تصور نہایت واضح طور پر اُس قرآنی آیت میں جلوہ گر ہے، جہاں فرمایا گیا:

(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا) (سورۃ الإسراء، آیت 70)

یہ آیت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ انسان کی اصل انسانیت کا سرچشمہ اُس کا الہٰی تکریم یافتہ ہونا ہے۔ یہ عزت و حرمت انسانوں کا کوئی خودساختہ امتیاز نہیں، بلکہ یہ اس کی تخلیق کے ساتھ لازمی طور پر منسلک ایک بنیادی وصف ہے، جو اس کے وجود کا حصہ ہے۔

اس تناظر میں اگر "تصورانسانیت" (Humanism) سے مراد انسان کی عزت و تکریم، اس کے حقوق کا تحفظ، اور زندگی میں اس کی آرزوؤں کی تکمیل ہو تو اسلام اس تصور کی کسی قسم کی مخالفت نہیں کرتا۔ بلکہ اسلام ان تمام اقدار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، البتہ اسلام اس تصور میں بھی انسان کو اس کے خالق سے جوڑتا ہے، اور انسان اور اس کے خالق کے درمیان اس تعلق کو کسی قسم کی پابندی سمجھنے کی بجائے اسے انسان کی کرامت کا اصل ماخذ قرار دیتا ہے۔پس اسلام کے مطابق، اخلاقی اقدار محض سماجی اتفاقات یا وقتی رجحانات نہیں ہیں، بلکہ یہ ابدی الہٰی اصولوں کا وہ عکس ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ انسان ہمیشہ انسان ہی رہے گا، چاہے وہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کرے یا بدل جائے۔

لہٰذا، مسئلہ "انسانیت" کی اصطلاح میں نہیں، بلکہ اس اصطلاح کے استعمال کے طریقے اور اس پر استوار تصورات کا ہے۔  یعنی اگر انسانیت کو دین کی متبادل اقدار کے نظام کے طور پر پیش کیا جائے، یا اسے ایک ایسے منصوبے میں تبدیل کر دیا جائے جس میں اللہ کو خارج سمجھا جائے تو یہ اپنے حقیقی معنوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ اعلیٰ اقدار کے اصل ماخذ سے جدا ہو کر محض ایک ایسا دلفریب بیانیہ بن کر رہ جاتی ہے، جو کہ بعض اوقات ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں یا سیاسی و ثقافتی رجحانات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے جو کسی جواز کے قابل نہیں ہوتیں۔

اسلام اور بعض جدید انسانی نظریات کے مابین فرق یہ ہے کہ اسلام انسان کو ایک ایسا وجود سمجھتا ہے جو اللہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے معزز ہے اور اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ بعض انسانی نظریات انسان کو ایک ایسی خودمختار ہستی کے طور پر دیکھتے ہیں، جو کسی غیبی مرجع کی ضرورت نہیں رکھتا۔ پس یہیں سے اسلام اور دیگر انسانی نظریات کے درمیان "انسانیت" کے اس مفہوم میں فرق ظاہرہونا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ فاصلہ ایک ایسی رکاوٹ بن جائے جسے عبور نہ کیا جا سکے۔ بلکہ اسے آپس میں مکالمے، باہمی تکامل، اور تصحیح کا دروازہ کھولنے کا ایک موقع بھی بنایا جاسکتا ہے۔

اسلام ایک منفرد اور ہمہ گیر انسانی ماڈل پیش کرتا ہے جو عقل اور ایمان، آزادی اور ذمہ داری، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا کی بنیاد رکھتا ہے جہاں روحانی اقدار  اور سماجی اقدار  میں  ہم آہنگی ہو۔ اس میں انسان نہ تو اللہ کا دشمن ہوتا ہے، اور نہ ہی دین انسان کا مخالف۔ بلکہ دونوں مل کر انسان کی بہتر زندگی کے لیے کام کرتے ہیں اور اسے وہ عزت و کرامت فراہم کرتے ہیں جس کا وہ حق دار ہے۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ "تصورِ انسانیت" پر بات چیت کا مقصد دین اور عقل، یا ایمان اور آزادی کے درمیان تصادم پیدا کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہونا چاہیے جہاں وہ نظریات آپس میں ملیں جو حقیقتاً ایک معزز، باخبر، آزاد، اور ذمہ دار انسان کی تشکیل کی کوشش کرتے ہیں۔ اور انسان تب ہی ایسا ہوسکتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے ماخذ سے جڑا رہے، اور اس تعلق سے اپنی اقدار، بصیرت، اور زندگی کا مقصد اخذ کرے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018