

| احکامِ اجتماعی | شریعت کا قانون اور قانون کی شریعت

شریعت کا قانون اور قانون کی شریعت
سيد علي العزام الحسيني
کسی حکیم سے پوچھا گیا کہ قانون اور اخلاق میں کیا فرق ہے؟ تو اُس نے جواب دیا: "قانون کے مطابق انسان اس وقت گناہ گار ہوتا ہے جب وہ دوسروں کے حقوق پامال کرے، جبکہ اخلاقیات میں انسان محض ایسا سوچنے سے ہی گناہ گار ہو جاتا ہے! اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نظر میں مثالی حد یہ ہے کہ جرم کو روک دیا جائے، چاہے زبردستی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ جبکہ اخلاقیات میں مثالی معیار اس سے کہیں بلند ہے — وہ یہ ہے کہ جرائم کی بنیاد کو ہی ختم کر دیا جائے، برائی کی وجوہات کو دور کیا جائے، اور نیکی کی صفت کو دلوں میں راسخ کیا جائے۔اور یہ اعلیٰ درجہ صرف دین کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتا ہے، کیونکہ اگر آخرت پر ایمان نہ ہو، تو انسان کو اپنی خواہشات کی پیروی سے روکنے والا کوئی اصل محرک باقی نہیں رہتا۔ انسان کی فطرت تو اپنی چاہتوں کی تکمیل چاہتی ہے، نہ کہ دوسروں کے فائدے کی چیزیں۔ (المیزان، جلد 4، صفحہ 111)
یہ گفتگو قانون کی ماہیت پر منطق کی اُن کلاسیکی اصطلاحات، جیسے"هل البسيطة"،"كان التامة"یا"ما الشارحة"کے تناظر میں نہیں ہو رہی؛ گویا یہ سوال زیرِ بحث نہیں کہ آیا قانون کی ضرورت ہے یا نہیں۔ بلکہ یہ ایک ایسا بدیہی اور مسلمہ اصول ہے جس پر اہلِ خرد کا اجماع ہے، اور جس کے انکار کی جسارت صرف وہی کر سکتا ہے جو ضد، تعصب یا عقلی انکار کی روش پر ہو۔ قانون سازی اور سماجی نظم و نسق کو جو شرف و وقار حاصل ہے، وہ دراصل اُس عظیم مقصد کی وجہ سے ہے، کیونکہ قانون کا مقصد عدل کا قیام، نظام و امن کا تحفظ، سماجی استحکام، اور حقوقِ انسانی کی نگہبانی ہے۔ اسی لیے اس پہلو پر طولِ کلام کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح قانون کی تعریف بھی واضح اور روشن ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:"قانون اصول و قواعد کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جو کسی بالاتر مقتدر اتھارٹی کے ذریعے افراد اور اقوام کے باہمی تعلقات کو منظم کرنے، ان کے حقوق کی حفاظت کرنے، اور نظامِ جزا و سزا کے نفاذ کے لیے مرتب کیا جاتا ہے، جسے ریاست عدالتوں کے ذریعے نافذ کرتی ہے۔"
اس سوال کے جواب میں اختلاف کہ "قانون بنانے والا (مشرّع) کون ہے؟" قانون و شریعت کی نوعیت میں بھی اختلاف کا باعث بنتا ہے۔ اگر قانون کا ماخذ خود انسان ہو، تو ایسے قوانین کو "وضعي قوانین" کہا جاتا ہے، جیسا کہ آج کی جدید ریاستوں اور موجودہ نظاموں میں رائج ہیں۔لیکن اگر قانون بنانے والا وہ ذات ہو جو انسان کی خالق ہے، اور وہ اپنے احکام کو وحی کے ذریعے بندوں تک پہنچاتی ہو، تو ایسے اصول و احکام "الٰہی و شرعی قوانین" کہلائیں گے۔
وضعي قوانین اور الٰہی قوانین کے درمیان منطقی نسبت عموم و خصوص من وجه کی ہے، یعنی دونوں مفاہیم بعض مواقع پر باہم مشترک ہوتے ہیں، اور بعض مواقع پر ایک دوسرے سے مختلف۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض صورتوں میں وضعي قوانین، دینی قوانین اور احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں، اور بعض اوقات ان سے مطابقت نہیں رکھتے۔یہ عدم مطابقت دو صورتوں میں سامنے آتا ہے:کبھی یہ اختلاف اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ دونوں میں تضاد اور ٹکراؤ ہوتا ہے،اور کبھی ایسا نہیں ہوتا ۔یوں تین صورتیں بنتی ہیں:
پہلی صورت: وہ ہے جس میں شرع اور قانون دونوں ایک ہی چیز کو ممنوع اور حرام قرار دیتے ہیں، یعنی آسمان اور زمین کے قوانین دونوں اس کے منع کرنے پر متفق ہیں، جیسے چوری، قتل، دوسروں پر ظلم، حقوق کا چھیننا، اور اس طرح کے دیگر اعمال۔ اس قسم کی بیشتر مثالوں میں عقل خود ان برائیوں کی شناخت کرتی ہے اور ان سے اجتناب کا حکم دیتی ہے، اور شرع آ کر عقل کے فیصلے کو تقویت دیتی ہے، کیونکہ اس معاملے میں عقل کا فیصلہ ابتدائی طور پر درست ہوتا ہے، اور اچھائی یا برائی کا تعین بنیادی طور پر عقل پر منحصر ہوتا ہے، نہ کہ صرف شرعی حکم پر۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل کا یہ حکم تمام افعال پر محیط نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو عقل کے ذریعے عبادات کی تمام جزئیات جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ کی حقیقت کو سمجھنا ممکن ہوتا۔ عقل کا دائرہ ان افعال میں صرف اتنی حد تک ہوتا ہے کہ وہ بعض افعال کے حسن یا قبح کا ادراک کر سکے، نہ کہ تمام افعال کا۔ اور جب عقل کسی فعل کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمام انسان اس پر متفق ہیں، جیسے وہ عدل کی خوبی اور ظلم کی برائی پر متفق ہیں۔یہ اتفاق کسی اتفاقی یا بے وجہ نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ انسانوں کے مشترکہ روحانی جوہر اور فطرت کا نتیجہ ہے، جو خداوند متعال نے ان میں پیدا کی ہے۔ہم یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وضعی قوانین میں سے کوئی قانون اس نوعیت کا ہو، تو اس کا اصل مرجع خالق و مشرع ہے، وہی جو ہر چیز کا خالق اور تدبیر کرنے والا ہے، اور جو ہدایت کا سبب بنا، اور اس کے ساتھ ہی اس نے عقلوں کو ظاہر کیا، یعنی انبیاء اور رسل کو بھیجا، اور ہر فرد کے اندر ایک باطن میں نبی (عقل اور فطرت) رکھا۔
دوسری صورت: وہ ہے جس میں کوئی ایسی چیز ہے جس کا مخصوص قانونی حکم تو جدید نظاموں میں موجود ہے، لیکن شریعت میں اس کے بارے میں کوئی خاص شرعی حکم (جیسے فرضیت یا حرمت) نہیں ہے۔ ایسی حالت میں شریعت کا بنیادی حکم اس کے بارے میں اجازت (اباحہ) ہوتا ہے، جیسے عوامی اراضی کا احیاء، غیر ملکی مصنوعات کا درآمد، ٹریفک کے قوانین کی پابندی وغیرہ۔ ان معاملات میں شریعت کا ابتدائی حکم اجازت ہوتا ہے، اور ان پر حرمت کا کوئی حکم نہیں ہوتا۔
لیکن وضعی قوانین انہیں کسی بھی وجہ سے ممنوع قرار دے سکتے ہیں۔ یہ معاملات دراصل مختلف شرائط، حالات، مفاسد اور مصالح کی بنیاد پر فقیہ کی نظر میں طے کیے جاتے ہیں، خاص طور پر معاصر شیعہ فقہ میں، جہاں ان امور پر غور کرکے حکم دیا جاتا ہے۔اور جو شخص فقہاء کے فتاویٰ کا مطالعہ کرے گا، اس کے سامنے ایک واضح عنوان آئے گا: "احکام اور قوانین کی پابندی"، جہاں احکام سے مراد شرعی احکام ہیں اور قوانین سے مراد حکومتی قوانین ہیں۔ چونکہ "پابندی" کا مطلب ہے کہ ان پر عمل کرنا ضروری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے اور ریاست کی طرف سے وضع کردہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنا حرام ہے۔
فقہاء نے شرعی واجبات کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: واجبِ نظامی، یعنی وہ واجب جو لوگوں کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، جیسے وہ تمام صنعتیں جو لوگوں کی روزمرہ زندگی کے لیے اہم ہیں؛ اور واجب غیرِ نظامی، یعنی وہ واجب جو صرف فردی مفادات یا مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہوتا ہے، جیسے عبادات جن میں قصدِ قربت ضروری ہوتا ہے، اور واجباتِ توصلیہ جن میں قصد قربت کے ساتھ انجام دینا ضروری نہیں لیکن اگر قصد قرنت کے ساتھ اس واجب کو انجام دیا جاتا ہے تو بیشتر ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ (تقریر بحث نائینی للآملی"، جلد 1، صفحہ 32)
فقہ سے یہ بات واضح ہے کہ نظام کا تحفظ یا اس کی مخالفت سے بچنا — بشرطیکہ یہ اسلام کے احکام کے خلاف نہ ہو — ایک ثانوی عنوان ہے جو کسی موضوع کے حکم کو تبدیل کر سکتا ہے، یعنی کسی غیر لازمی حکم کو لازمی میں تبدیل کر سکتا ہے اگر کوئی ایسی صورتحال پیش آجائے جو اس پر اثر انداز ہو۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ضرر، تقیہ، حرج اور دیگر ثانوی عناوین، جب یہ عناوین تحقق پاتے ہیں تو قوانین اولیہ فعلی نہیں ہوتے اور قوانین ثانویہ پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ بعض علما نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ مقصد جس کی بنا پر عقلاء بعض افعال کے حسن یا قبح پر متفق ہوئے، وہ یہ ہے کہ عدل کو نظام کے تحفظ کے عنوان سے سمجھا گیا ہے، اور ظلم کو نظام کے اختلال کے عنوان سے۔ اور عدل کے متوقع فوائد میں سے ایک نظام کا تحفظ ہے، اور اس کے برعکس ظلم کے نتیجے میں معاشرتی اور سماجی نظام کا اختلال پیدا ہوتا ہے جو ایک قسم ایک کا مفسدہ ہے۔ (الإصفهاني-نهاية الدراية، ج4، ص40)۔
تیسری صورت: وہ ہے جہاں قانونِ وضعی اور شریعتِ ثابتہ کے درمیان تضاد اور ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، جیسے زنا، سود خوری، شراب نوشی، اسقاط جنین، ہم جنس پرستی کا قانونی جواز، اور حمل کا خاتمہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بعض جدید ریاستوں کے قوانینِ وضعیہ میں قانونی طور پر جائز ہیں، جبکہ آسمانی شریعتوں، خاص طور پر دینِ اسلام میں ان کی حرمت ضروریات اور مسلمات میں ہے جن کے جواز کا کوئی احتمال نہیں دیا جاسکتا ۔ ایسی صورتحال میں میں انسان اور انسانی معاشرہ کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں: یا تو وہ انسان کی طرف سے وضع کردہ زمین کے قوانین کو اپنائیں، یا خدا کی طرف سے جعل کرہ آسمان کے قوانین کی پیروی کریں۔ہم یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ: اسلامی معاشروں میں بالخصوص جہاں ریاست عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینِ اسلام سے ہی جڑے رہے اور اس سے ہٹ کر نہ جائے، اور نہ ہی اپنے لیے بہتر چیز کو کم تر سے تبدیل کرے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیوں؟
الہی قانون عموماً ایمانی بنیادوں پر استوا ہوتا ہے اور یہ انسان کی اندرونی اور بیرونی اصلاح پر یکساں توجہ دیتا ہے۔ جہاں تک ذاتی اور عوامی زندگی کے نظم و ضبط کا تعلق ہے، جو کہ قانونِ وضعی اور الہی قانون کا مشترک پہلو ہے، وہاں شریعت کے احکام ایک اضافی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ضمانت اس طرح ہے کہ ان کے نفاذ اور ان عمل عمل در آمد کا انعام دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت میں ملتا ہے، اور اگر ان کی خلاف ورزی کی جائے تو اس کا عذاب بھی آخرت میں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ دنیاوی قوانین سے بچ نکلنا یا ان کی خلاف ورزی کرنا الہی قوانین میں ممکن نہیں۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں آخرت کے دن گرفت میں لینا یقینی ہے۔
اگرچہ کوئی بھی قانون کتنا ہی مضبوط اور سخت ہی کیوں نہ ہو، اور حکومت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، اگر افراد کے اندر کوئی داخلی رکاوٹ اور محرک نہ ہو، تو وہ قانون کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ قانون خود افراد کو چھپ کر خلاف ورزی کرنے یا اس سے بچنے سے نہیں روک سکتا۔ اسی لیے، جرائم کی روک تھام کے لیے مستقل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ حکومتی نگرانی سے چھپ کر کئے جانے والے جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے کئی ممالک نگرانی کے خفیہ کیمروں کا استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ یہ مکمل حل نہیں ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس دین کا اثر یہ ہے کہ افراد کے دلوں میں قانون کا احترام پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اسے ایک مقدس چیز سمجھتے ہیں، اور بغیر کسی خفیہ کیمرے اور نگرانی کے قوانین پر خود عمل پیراہوتے ہیں ، اور انسان کے اندار ایک رواحانی جذبہ پیدا کرتا ہے جو اسے قوانین کی خلاف ورزی روکتا ہے ۔
اس بنیاد پر، جب دین اور ایمان کی طاقت سے قانون کو الگ کر دیا جاتا ہے تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قانون کی پیروی صرف نگرانی کرنے کی صورت ممکن ہوسکتی ہے ، اور افراد کی خود نگرانی کی کمی قانون کے مکمل نفاذ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ قدیم چینیوں نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے دیوار چین بنائی تھی ، اور اس دیوار کی وجہ سے چین باہر سے حملے کرنے والے غزات اور قابض فوجوں سے محفوظ رہا۔ لیکن یہ عظیم دیوار کی تعمیر شہر کی مکمل حفاظت کے لیے کافی نہیں تھی۔ دراصل، ملک کے غدار داروغوں نے حملہ آوروں کو دیوار چین کے مرکزی دروازے سے شہر میں داخلہ کیا، اور انہیں ایک بھی اینٹ نہ توڑنے کی نوبت نہ آئی ، کیونکہ دروازے کے پہرہ داروں نے ان کے ساتھ مل کر انہیں راستہ دے دیا تھا۔
اسی طرح، وہ لوگ بھی غلط فہمی کا شکار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ معاشرے صرف قانون کے ذریعے بنائے جا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کا تحفظ بھی دیوارِ چین کی طرح ہے؛ یہ صرف سطحی تحفظ فراہم کرتا ہے اور اندرونی ضمیر (وازع) کی مضبوطی پر انحصار نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی حفاظت صرف بیرونی سطح پر ہوتی ہے، جبکہ اندرونی عزم اور ضمیر کو جگائے رکھنا اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
اس سےبڑھ کر، بعض اوقات چالاکی، فراڈ اور زیرکی کے نتیجے میں قانون کی خلاف ورزی کرنے کے باوجود نگرانی کرنے والی اتھاڑتی کی نظر سے مجرم بآسانی بچ نکلتا ہے، جیسا کہ بیان کیاجاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ایک کہانی میں ملتی ہے، جس میں تین چور ایک امیر آدمی سے چوری کرتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ محل سے نکلیں، انھوں نے چوری کی گئی رقم ایک میز پر رکھی اور اس کے گرد چار کرسیاں لگا کر ان پر قمار کے پتوں کے ڈبہ رکھ دیے۔ جب امیر آدمی نے انھیں دیکھا، تو اس نے اپنے ہتھیار نکالے اور ان کو پکڑ کر پولیس کو اطلاع دی۔ یہاں چوروں کا منصوبہ کامیاب ہو گیا۔ پولیس افسر نے ان سے تفتیش کی، اور چوروں نے بتایا کہ وہ قمار کھیل رہے تھے اور جب وہ سارا پیسہ ہار گیا تو انھوں نے اسے باندھ کر پولیس کو بلایا۔ اس طرح چوروں نے قانون کے ذریعے امیر کا پیسہ چھین لیا، اور امیر آدمی کو حملے کا مجرم قرار دے کر جیل بھیج دیا۔
یہ کہانی ایک تمثیل ہے، لیکن یہ ہمارے معاشرتی اور سیاسی حالات کی عکاسی کرتی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ صرف وضعی قوانین پر انحصار کرنا ایک ناکام حکمت عملی ہے، کیونکہ یہ صرف ان جرائم کا پیچھا کرتی ہے جو عوامی طور پر ظاہر ہوتے ہیں، نہ کہ وہ جو پوشیدہ طور پر کیے جاتے ہیں۔
الہی احکام بے مقصد نہیں ہوتے، بلکہ یہ مکمل حکمت اور مقصد کے ساتھ انسان کی فلاح اور خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیے جاتے ہیں۔ ہر واجب حکم کسی نہ کسی اچھے عمل کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور ہر حرام حکم کسی بڑے نقصان یا برائی سے بچنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس طرح، علماء اصول کے مطابق، شرعی احکام مصالح اور مفاسد واقعیہ پر مشتمل ہوتے ہیں یعنی حقیقی فوائد اور نقصانات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
الہی قانون کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ثابت، مستحکم اور انسان کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا۔ اس کے برعکس، موجودہ دور کے وضعی قوانین فرد کی ذاتی آزادی اور مفاد پر زیادہ زور دیتے ہیں، بشرطیکہ وہ دوسروں کی آزادی میں خلل نہ ڈالیں۔ لیکن یہ عملی طور پر بہت سی صورتحال میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، کوئی نظام اپنے شہریوں کو خودکشی کرنے یا اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اور نہ ہی وہ ان کی حفاظت کے معاملے میں غفلت برت سکتا ہے، جیسے کہ گھر میں آگ بجھانے کا آلہ یا گاڑی میں سیٹ بیلٹ نہ ہو، تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ صرف ذاتی آزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات مفادات کے ٹکراو کی صورت میں جانبداری، تعصب، اور ذاتی تعلقات و ترجیحات کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جبکہ الٰہی قوانین میں یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل جمہوریتوں میں یہ تضادات پائے جاتے ہیں، اور یہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
موجودہ وضعی قوانین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تضادات اور عدم استحکام کا شکار ہیں، حالانکہ انہیں فطرت کے مطابق ثابت قدم اور ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کچھ ممالک نے ایسا قانون بنایا ہے جو جنسی انحراف کو جائز قرار دیتا ہے، اور معاشرہ میں موجود گمراہ کن لوگوں کو جو نہایت ہی کم ہیں، ان کی خواہشات کی تسکین کی خاطر نظامِ فطرت کے خلاف جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت اور ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی بے راہ روی کو علانیہ طور پر کرسکے۔ بلکہ ان کے لیے قانون بنایا گیا ہے جس کے تحت وہ ہم جنس سے شادی بھی کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف، جہاں یہ قوانین غیر قانونی جنسی تعلقات، بشمول متعدد عاشقاؤں کے تعلقات کی اجازت دیتے ہیں، وہیں وہ مردوں کو متعدد بیویوں رکھنے سے منع کرتے ہیں! مجھے آج بھی ایک شامی مہاجر کا قصہ یاد ہے جو یورپ آیا اور وہ چار بیویوں کا شوہر تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یورپ میں داخلے کے دوران اس نے اپنی متعدد بیویوں کو کیسے چھپایا، تو اس نے بتایا کہ اس نے حکام کو بتایا کہ وہ صرف ایک بیوی کا شوہر ہے اور باقی تین اس کی دوستیں ہیں۔ اس کے بعد اُسے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
یہ قوانین جنسی انحراف کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہاں بسنے والے افراد چاہے مرد ہو یا عورت ، اپنی مرضی کے مطابق متعدد افراد سے جنسی تعلقات کی آزادی دیتے ہیں، بشرطیکہ دونوں فریقین کی رضا اس میں شامل ہو اور وہ ذاتی آزادی کے دائرے میں آئیں، چاہیے وہ پہلے سے کسی اور زوجیت میں ہی کیوں نہ ہو، لیکن ایک بات جو ان قوانین میں نہیں آتی، وہ ہے الہی قانون کے مطابق متعدد بیویوں کا نظام، چاہے وہ دونوں طرف سے رضا مندی سے ہو۔اسی طرح، کچھ ممالک میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے، جیسے ہالینڈ میں "مارجوانا" کا استعمال قانونی طور پر تسلیم کیا گیا اور یوروگوئے میں "قنّب" کی کاشت کی اجازت دی گئی۔ یہ سب کچھ کئی سالوں کی قانونی پابندیوں کے بعد ہوا، اور یہ تمام مثالیں وضعی قوانین میں تضادات اور فطرت سے انحراف کو ظاہر کرتی ہیں۔ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موجودہ وضعی قوانین میں جو تضادات اور فطرت سے انحراف موجود ہے، وہ ان کی ناکامی کی طرف واضح اشارہ ہے۔
ایک اور مسئلہ جو دنیا کے وضعی قوانین میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جہالت کو معاف نہیں کرتے اور غافلوں کی حفاظت نہیں کرتے۔ اس بارے میں ایک مشہور کہاوت ہے: "قانون غافلوں کی حفاظت نہیں کرتا"۔ اس کی ایک مثال بھی ہے: ایک امریکی شخص نے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس میں کہا گیا: "جو شخص اس ایڈریس پر ایک ڈالر بھیجے گا، وہ امیر بن جائے گا."۔ لوگ اس پر پیسے بھیجتے گئے اور یہ رقم لاکھوں تک پہنچ گئی، اور اس شخص نے ان پیسوں سے اپنی دولت بنا لی۔ جب لوگوں کو اس کی حقیقت کا پتا چلا تو انہوں نے اس کے خلاف عدالت میں شکایت کی، لیکن عدالت نے کہا: "قانون غافلوں کی حفاظت نہیں کرتا"۔
اب، ہم اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ "قانون غافلوں کی حفاظت نہیں کرتا" کتنی درست ہے، لیکن یہ کہنا کہ "قانون اُن لوگوں کو معاف نہیں کرتا جو اسے نہیں جانتے" قانونی طور پر درست ہے، کیونکہ قانون کسی کو معاف نہیں کرتا جو اس سے ناواقف ہو۔
اس کے برعکس، اسلامی شریعت جہالت کو معاف کرنے کا اصول رکھتی ہے اور اس کا مقصد آسانی فراہم کرنا اور نقصان سے بچاؤ ہوتا ہے۔ یہ اصول شریعت کے قوانین میں شامل ہے۔ ایک مشہور حدیث "رفع عن أمّتي تسعة" میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میرے اُمتی سے نو چیزیں اُٹھا دی گئی ہیں: خطا، بھولنا، جبر، وہ جو وہ نہیں جانتے، وہ جو نہیں کر سکتے، اور وہ کام جسے انجام دینے پر کسی کو مجبور کیا گیا ہو، اسی طرح وہ عمل جسے انجام نہایت ضروری ہوہو۔" اس حدیث کی بنیاد پر فقہاء نے مختلف اصول نکالے ہیں، جن میں سے ایک اہم اصول "اصالة البراءة" ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر مشکوک عمل کے لئے حرمت یا وجوب کو ثابت کرنے کے لئے واضح دلیل چاہیے اور اگر دلیل نہ ہو تو اشیاء میں اصل ابتدائی اباحہ ہے، یعنی جائز ہے، اور کسی بھی حکم یا تکلیف کو نافذ کرنے کے لیے واضح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔