

| احکامِ اجتماعی | تصورِآزادی کی بابت مغربی فلسفیانہ اساس کا تنقیدی جائزہ

تصورِآزادی کی بابت مغربی فلسفیانہ اساس کا تنقیدی جائزہ
تحریر: الشيخ مقداد الربيعي
بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے انسانی آزادی کو مجروح کیا ہے، اور ایسے قوانین کی توثیق کی ہے جو آزادی کو بگاڑتے اور مکدر کرتے ہیں۔ وہ اس موقف کے حق میں کچھ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں، جیسے: غلامی کو جائز قرار دینا، ابتدائی جہاد، اور ارتداد کی سزا وغیرہ۔
یہاں ہمارا مقصد ان اعتراضات کی تفصیل میں جانا نہیں ہے، نیز ان پر گفتگو سے پہلے یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ 'آزادی' کا تصور بھی 'رواداری' کی طرح ایک نسبتی (نسبی) تصور ہے، جو ہر فرد اور تہذیب میں مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اسلام پر 'آزادی' کے نام پر تنقید کرتے ہیں، وہ دراصل اسلام کو اپنے مخصوص تصورِ آزادی کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، جو اُن کی اپنی فکری اور تہذیبی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کا محاسبہ کسی دوسرے ملک کے قانون کی بنیاد پر کیا جائے۔ہمارے نزدیک لادینی (سیکولر) فکر میں آزادی کا تصور چند مخصوص بنیادوں پر قائم ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے:
پہلی بنیاد: انسانی تعلقات کو منظم کرنے اور زندگی کے معاملات سنوارنے میں الہامی رہنمائی پر اعتماد کرنے کی بجائے، یہ فکر کسی آسمانی (الٰہی) مرجعیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، وہ انسان کو ہی سب سے بڑا مقام دیتی ہے، اور اُسے اپنی زندگی کے راستے کا واحد فیصلہ کن اختیار سمجھتی ہے۔
جدید مغربی فکر میں ایسے فلسفیانہ رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں جو انسان کو اپنی زندگی کے راستے کے تعین میں حتمی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں، اور کسی بھی الہامی ہدایت یا آسمانی مرجعیت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔"
جیسا کہ جان لاک کہتا ہے: "معاشرے میں انسان کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسی قانون ساز طاقت کے تابع نہ ہو، جسے اس کی رضامندی سے قائم نہ کیا گیا ہو۔(ماخوذ از: دو مقالات برائے حکومت)
"فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر (1905–1980) کو اس فکر کا ایک نمایاں نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: 'انسان آزادی پر مجبور ہے، کیونکہ جیسے ہی اُسے اس دنیا میں پھینکا جاتا ہے، وہ اپنی تمام تر حرکات و سکنات کا خود ذمہ دار ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف، جرمن فلسفی فریڈرک نطشے (1844–1900) 'خدا کی موت' کے تصور کو اس بات کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ مذہب اور خدا کی ہدایات کا اثر انسانی زندگی پر ختم ہو چکا ہے۔ وہ کہتا ہے: 'خدا مر چکا ہے! اور ہم نے اُسے قتل کیا ہے!تو پھر کیا ہمیں خود خدا نہ بن جانا چاہیے تاکہ ہم اس عظیم فعل کے لائق ہوں؟
اسی تناظر میں، برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل (1872–1970) انسانی عقل پر زندگی کی رہنمائی کے لیے انحصار کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: 'میں نہ کسی خدا پر ایمان رکھتا ہوں، نہ موت کے بعد کسی زندگی پر؛ اور میرا ماننا ہے کہ اخلاقیات محض ایک انسانی معاملہ ہے، جس کا کسی مافوق الفطرت طاقت سے کوئی تعلق نہیں۔'
دوسری بنیاد: اس زندگی میں کوئی بلند تر مقصد نہیں سوائے جسمانی لذت حاصل کرنے، عارضی خوشی کے حصول، اور دوسروں کی ہر قید سے آزاد ہوجانے کے۔ جیسا کہ ایپکورس (341-270 ق.م) کہتا ہے: 'لذت خوشحال زندگی کی ابتدا اور انتہا ہے۔' اس نے یہ بھی کہا: 'ہم صرف ایک مرتبہ پیدا ہوتے ہیں؛ لہذا، ہمیں زندگی کا لطف اٹھانا چاہیے، اور شک و تردد کے لیے وقت نہیں ہے۔'
تیسری بنیاد: سب لوگ حقوق اور انفرادی ذمہ داریوں میں برابر ہیں، چاہے ان کے درمیان نسل، خیالات، عقائد یا کوئی اور فرق ہو۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ عدل مساوات کے ذریعے نہیں آتا، کیونکہ مرد کے پاس کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو اسے ایسی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل بناتی ہیں جو عورت کے لیے مشکل ہو سکتی ہیں، اور اسی طرح عورت کے پاس بھی ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو مرد کے لیے مشکل کاموں میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ جان لوک (1632–1704) کہتا ہے: 'تمام انسان آزاد اور مساوی حقوق کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور انہیں کسی ایسی طاقت کے تابع نہیں ہونا چاہیے، سواۓ اس کے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کا انتخاب کریں۔'ماخوذ از: دو مقالات برائے حکومت
"اور تھامس جیفرسن (1743–1826) کہتے ہیں: 'ہم ان حقائق کو بدیہی سمجھتے ہیں، کہ تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں، اور انہیں اپنے خالق کی جانب سے وہ حقوق دیے گئے ہیں جنہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ (ماخوذ از: امریکی اعلامیہ آزادی)اس میں مرد و عورت یا کسی بھی دوسرے فرق کی بناء پر کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔
چوتھی بنیاد: انفرادی آزادی کی کوئی حد نہیں، سوائے اس صورت کے جب دوسروں کو مادی نقصان پہنچایا جائے۔ جب تک کہ آپ کسی کو جسمانی یا مالی طور پر نقصان نہیں پہنچا رہے اس وقت تک آپ آزاد ہیں جو چاہیں کریں۔ جون اسٹوارٹ مل (1806–1873) اپنی کتاب 'آزادی کے بارے میں' میں کہتے ہیں: 'وہ واحد وجہ جو کسی فرد یا جماعت کو دوسرے افراد کی آزادی میں مداخلت کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے، وہ حفاظت خود اختیاری ہے۔یعنی وہ واحد مقصد جو کسی فرد کے خلاف اختیار استعمال کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے، وہ دوسرے لوگوں کو نقصان سے بچانا ہے۔ یہ اصول اسلام کے آزادی کے اصولوں سے بالکل متصادم ہیں، کیونکہ یہ یکسر مختلف بنیادوں پر قائم ہیں:
پہلا اصول: حاکمیت صرف اللہ کی ہے: انسان کو اللہ کی ہدایات اور اس کی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ اسے اپنی زندگی کو آسمانی رہنمائی سے الگ تھلگ نہیں چلانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ َلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾(یوسف: 40)
دوسرا اصول: اللہ کی عبادت ہی سب سے بلند مقصد ہے: انسان کا اس زندگی میں مقصد اللہ کی عبادت کرنا، اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اور ہر قول و فعل کے ذریعے اس کے قریب جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ)(الذاریات: 56) اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے
"تیسرا اصول: عدل آزادی کا معیار: اسلام میں آزادی کا ضابطہ عدل ہے، یعنی ہر شخص کو اس کا حق دیا جائے، اور یہ صرف لوگوں کے درمیان مطلق مساوات کے بارے میں نہیں ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾(النحل: 90)
"اللہ تمہیں عدل، حسن سلوک، اور رشتہ داروں کو ان کا حق دینے کا حکم دیتا ہے، اور فحش، برے کاموں اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔"
چوتھا اصول: مادی و معنوی نقصان کی ممانعت: اسلام میں آزادی اس بات سے مشروط ہے کہ فرد یا معاشرے کو کوئی بھی مادی یا معنوی نقصان نہ پہنچے، چاہے وہ نقصان انسان کے اپنے رب کے ساتھ تعلق میں ہو یا دوسروں کے ساتھ تعلقات میں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں آزادی کا تصور سیکولر فکر سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ایک متوازن تصور ہے، جو فرد کونافقط اپنی زندگی کے راستے کے انتخاب کا حق دیتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی اللہ کی حدود اور اس کی شریعت کی پیروی کرنے کی پابندی عائد کرتا ہے، جو انسان کی دنیا و آخرت میں حقیقی خوشی کو یقینی بناتی ہے۔ پس جو بھی گفتگو 'آزادی' کے تصور پر توکی جائے، مگر اس کے اصولوں پر بات نہ کی جائے، اور ان کا تجزیہ کر کے صحیح اور غلط کو واضح نہ کیا جائے، تو وہ ایک بیکار گفتگو ہے، جو کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔ کیونکہ سادہ الفاظ میں، گفت و شنید کرنے والوں کے درمیان کوئی مشترک بنیاد نہیں ہوتی، ہر ایک شخص آزادی کے ایک مختلف تصور کی بات کر رہا ہوتا ہے، جو مختلف اصولوں اور بنیادوں پر قائم ہوتا ہے، جو دوسرے سے مختلف ہیں۔
اس لیے،آزادی کے حوالے سے اسلام پر تنقید کرنے والوں کے ساتھ کسی بھی مکالمے میں سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ان فکری اصولوں کی طرف توجہ دلائی جائے جن پر وہ اپنے اعتراضات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان اصولوں پر گفتگو کے بغیر محض تفصیلات پر بحث کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس طرح یہ مکالمہ محض لاحاصل بحث میں بدل کررہ جائے گا۔