3 شوال 1446 هـ   2 اپریل 2025 عيسوى 2:37 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  اسلام میں غلامی: قانونی اور تاریخی پس منظر
2025-02-19   97

اسلام میں غلامی: قانونی اور تاریخی پس منظر

الشيخ معتصم السيد احمد

غلام اور لونڈیوں کا مسئلہ تاریخ کے مختلف ادوار میں بنیادی تبدیلیوں سے گزرتا رہا ہے۔ مختلف تہذیبوں میں اس کے بارے میں نقطۂ نظر وقت کے ساتھ بدلتے رہے، کیونکہ جو روایات اور طرزِ عمل قدیم معاشروں میں عام اور قابلِ قبول تھے، وہ فکری، سماجی اور معاشی ترقی کے باعث رفتہ رفتہ مسترد کر دیے گئے اور قابلِ مذمت قرار پائے۔ غلامی بھی انہی رواجوں میں شامل تھی۔اسلام سے پہلے غلامی کو معاشرتی اور اقتصادی نظام کا لازمی جزو سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کے بغیر کسی معاشرے کے استحکام کا تصور بھی محال تھا۔ اگر اس دور میں کوئی شخص اچانک غلاموں کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتا تو غالباً اسے شدید مخالفت اور طنز و استہزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ بلکہ وہ خود بھی سماجی دباؤ کے باعث اسی رائج نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہو سکتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں غلامی ایک مسلمہ حقیقت تھی، جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تھا۔

لہذا،لونڈیوں کے معاملے میں اسلام کے طرزِ عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان قدیم معاشرتی حالات کو مدنظر رکھیں، جن میں یہ مسئلہ موجود تھا۔ غلامی کوئی عارضی یا معمولی مسئلہ نہیں تھی، بلکہ یہ سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے کا ایک بنیادی جزو تھی۔ جنگوں میں قیدی بننے والے افراد غلام بنا دیے جاتے، جبکہ معیشت کا دارومدار زرعی، تجارتی، مویشی بانی اور گھریلو خدمات جیسے شعبوں میں غلام مزدوروں پر ہوتا تھا۔اس کے علاوہ، اس وقت کے طبقاتی نظام میں غلاموں کا ایک مخصوص درجہ تھا، جو اعلیٰ طبقے کی خدمت کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ غلامی کو اس دور میں ایک لازمی اور ناگزیر حقیقت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔اسی بنیاد پر، اگر غلامی کے اس نظام کو اچانک اور یکسر ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جاتی، تو یہ شدید سماجی و معاشی بحران کا سبب بنتی۔ خاص طور پر اس وقت کے اجتماعی شعور میں غلامی کو ناگزیر سمجھا جاتا تھا، اور لوگ اس کے بغیر کسی معاشرتی ڈھانچے کا تصور کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔

لہٰذا، اگر ثقافتی اور زمانی فرق کو مدنظر رکھے بغیر قدیم معاشرتی سوچ کا موازنہ جدید دور کے نظریات سے کرے تو اس سے سماجی تبدیلیوں کی نوعیت کو صحیح طورپر  سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ یہی اصول لونڈیوں کے معاملے پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں اسلام نے اچانک تصادم کی پالیسی کے بجائے تدریجی اصلاحات کا راستہ اختیار کیا، تاکہ غلامی کو بتدریج ختم کیا جا سکے اور معاشرہ اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

اسلام اور لونڈیوں کے معاملے میں تدریجی اصلاحات

درحقیقت، اسلام نے غلامی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ وہ ایسے معاشرے میں آیا جہاں غلامی ایک رائج اور مستحکم نظام کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کو فوری ٹکراؤ کے بجائے تدریجی اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ یہی تدریجی انداز دیگر معاشرتی تبدیلیوں، جیسے شراب کی ممانعت، میں بھی اختیار کیا گیا۔ اسلام نے شراب کو یکدم حرام قرار دینے کے بجائے مرحلہ وار اس کے نقصانات کو اجاگر کیا، تاکہ معاشرہ ذہنی اور عملی طور پر اسے ترک کرنے کے لیے آمادہ ہو سکے۔اسی طرح، غلامی کو ختم کرنے کا مقصد صرف قانونی احکام نافذ کرنا نہیں تھا، بلکہ سماج میں ایسا گہرا فکری اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا تھا کہ لوگ خود اس رواج کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ جیسا کہ روایات میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی نبی کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک یہ طے نہ کر لیا کہ جب اس کا دین مکمل ہو جائے گا تو اس میں شراب کی حرمت شامل ہو گی۔ تاہم، یہ حرمت یکدم نافذ نہیں کی گئی بلکہ تدریجاً لوگوں کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف منتقل کیا گیا تاکہ وہ یکدم احکام کی سختی سے دوچار ہو کر دین سے دور نہ ہو جائیں۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی مہربان نہیں، اور اسی مہربانی کا تقاضا تھا کہ اس نے لوگوں کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف منتقل کیا، کیونکہ اگر تمام احکام یکبارگی لاگو کر دیے جاتے، تو لوگ ہلاک ہو جاتے(الکافی، ج6، ص 395)۔

اسی لیے، اسلام نے لونڈیوں کے نظام کو فوراً ختم نہیں کیا بلکہ اس متعلق سخت قوانین وضع کئے، تاکہ غلامی کے ناجائز استحصال کو روکا جا سکے۔ اسلام نے غلاموں کی آزادی کو فروغ دینے کے لیے کفارات، مستحب اعمال اور دیگر ترغیبی ذرائع متعارف کرائے۔ ساتھ ہی، غلام بنانے کے ذرائع کو محدود کیا اور آزاد افراد کو غلام بنانے کی سختی سے ممانعت کی، تاکہ غلامی کا یہ نظام بتدریج ختم ہو جائے۔اسلام کے اس تدریجی اصلاحی طرزِ عمل کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے آقا اور غلام کے درمیان انسانی حقوق میں مساوات قائم کی اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔

اسلام نے غلاموں کو خاندانی افراد کی طرح برتاؤ کرنے کی تلقین کی، نبی اکرم کا فرمان ہے: "تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ہاتھوں کے تحت رکھا ہے۔ پس جو شخص اپنے بھائی کو اپنے قبضے میں رکھے، تو اسے چاہیے کہ جو خود کھاتا ہے، وہی اسے بھی کھلائے، اور جو خود پہنتا ہے، وہی اسے بھی پہنائے۔ ان پر ایسی مشقت نہ ڈالو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، اور اگر کوئی سخت کام لو، تو خود بھی ان کی مدد کرو۔"(شرح رسالة الحقوق، ص 539)

سیاسی انحرافات اور غلامی کے تسلسل پر اس کے اثرات

اگر حالات اسلامی اصولوں کے مطابق چلتے، جو نبی اکرم نے وضع کیے تھے، تو غلامی وقت کے ساتھ خود بخود ختم ہو جاتی۔ مگر سیاسی انحراف کی وجہ سے یہ عمل رک گیا۔ رسول اکرم کی وفات کے بعد اقتدار ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں چلا گیا جنہوں نے عسکری فتوحات کو بنیادی ترجیح دی۔ ان فتوحات کے نتیجے میں ہزاروں جنگی قیدی اسلامی ریاست میں لائے گئے، جنہیں غلام بنا لیا گیا۔ اس پالیسی نے غلامی کے مکمل خاتمے کے بجائے، اسے مزید مستحکم کر دیا۔

اموی اور عباسی ادوار میں غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد غیر معمولی حد تک بڑھ گئی، یہاں تک کہ باقاعدہ بازارِ غلام قائم ہو گئے۔ ان بازاروں میں غلاموں کی خرید و فروخت عام ہوتی تھی، اور خلفاء اپنی پسندیدہ لونڈیوں کو قریبی درباریوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرتے تھے۔اس سیاسی روش کا ایک نمایاں ثبوت وہ تاریخی واقعات ہیں جنہیں البلاذری نقل کرتا ہے۔ اس کے مطابق، مدینہ میں پہلا قافلہ، جس میں جنگی قیدی شامل تھے، حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں آیا، جسے خالد بن ولید نے بھیجا تھا۔ بعد ازاں، اموی دور میں لونڈیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاویہ نے ایک ہی وقت میں چار ہزار لونڈیاں مدینہ بھیجیں، جبکہ شمالی افریقہ میں موسٰی بن نصیر کی فتوحات کے دوران ایک لاکھ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا۔ بعد کی فتوحات میں یہ تعداد بڑھتی گئی، اور بعض مواقع پر غلاموں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔یہ تمام عوامل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ایسی سیاسی بے راہ روی نے غلامی کے خاتمے کے بجائے اسے مزید جڑیں پکڑنے کا موقع فراہم کیا۔

یہ طرزِ عمل اصل اسلامی تعلیمات کا تسلسل نہیں تھا، بلکہ ان سے انحراف تھا۔ حکمرانوں نے غلامی کو بطور سیاسی اور اقتصادی ہتھیار استعمال کیا، جس کی وجہ سے یہ سلسلہ کئی صدیوں تک جاری رہا، حالانکہ اگر اسلامی اصولوں پر عمل کیا جاتا تو غلامی مختصر عرصے میں ختم ہو سکتی تھی۔لہٰذا، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ "غلامی اور لونڈی" کا نظام اسلام کی پیداوار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو متعارف نہیں کرایا، بلکہ اسے ایک موجودہ حقیقت کے طور پر پایا اور اسے تدریجی اصلاحات کے ذریعے ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔

اسی بنیاد پر، جو شدت پسند گروہ جدید دور میں اس نظام کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت اسلامی شریعت پر نہیں بلکہ تاریخی سیاسی مظاہر پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا حوالہ اسلامی اصول نہیں، بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے غلامی کو اپنے اقتدار اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

نتیجہ

اس تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "غلامی اور لونڈی"کا نظام کوئی اسلامی قانون یا نظام نہیں تھا، بلکہ یہ ایک گہری سماجی حقیقت تھی جسے اسلام نے تدریجی اصلاحات کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کی۔ اسلام نے اسے اس وقت کے عقلی اصولوں کے تحت مخصوص حدود میں رکھا، لیکن ساتھ ہی غلاموں کی آزادی کی حوصلہ افزائی کی تاکہ بالآخر یہ نظام ختم ہو جائے۔تاہم، نبی اکرم کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی انحرافات نے غلامی کے مکمل خاتمے کے عمل کو روک دیا۔ عسکری فتوحات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں قیدی غلام بنا لیے گئے، جس کی وجہ سے غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اور تاریخی روایات اصل اسلامی اصولوں سے مختلف ہو گئیں۔لہٰذا، اس معاملے کو انصاف پر مبنی اور غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی سنجیدہ تجزیے میں یہ فرق کیا جانا چاہیے کہ شریعتِ اسلامی اور بعد کے سیاسی اقدامات دو الگ چیزیں ہیں۔ غلامی کوئی ایسا نظام نہیں تھا جو اسلام نے متعارف کرایا ہو، بلکہ یہ ایک پہلے سے موجود سماجی ڈھانچہ تھا جو سیاسی اور عسکری عوامل کی وجہ سے برقرار رہا، نہ کہ اسلامی قوانین کی بنا پر۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018