22 ربيع الاول 1447 هـ   15 ستمبر 2025 عيسوى 3:17 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تاریخِ اسلامی |  بعد رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلافت کا بحران اور مستقبل کا سوال
2025-09-08   257

بعد رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلافت کا بحران اور مستقبل کا سوال

الشیخ معتصم السید احمد

دین مقدس اسلام کے ظہور نے جزیرہ نمائے عرب میں ایک عظیم سیاسی انقلاب برپا کیا، جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اسلام کی آمد  سے قبل عرب قبائل باہمی نفاق اور جنگ و جدال میں زندگی گزار رہے تھے، ان کے پاس نہ کوئی مرکزی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی منظم انتظامی ڈھانچہ۔ غارت گری اور لوٹ مار کی ثقافت غالب تھی، جہاں طاقتور قبائل کمزور قبائل پر حملہ آور ہوکر ان کا سب کچھ چھین لیا کرتے تھے، جبکہ لوگوں کے باہمی تعلقات کو منظم کرنے کے لیے کوئی قانونی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں تھا۔

اسی طرح اسلام سے قبل عربوں کے ہاں سیاسی نظم و نسق کی کوئی نمایاں صورت نہ تھی، سوائے چند ایک قبائلی معاہدوں اور سمجھوتوں کے، جیسے "حلف الأحابیش"، "حلف المطيّبين"، "لعقة الدم"، اور سب سے مشہور "حلف الفضول"۔ یہ سب محض ابتدائی نوعیت کی کوششیں تھیں تاکہ حرج و مرج کی صورتحال کو کسی حد تک قابو میں رکھا جاسکے اور کم از کم  قبائلی تعاون کی حد تک کسی نظام کو یقینی بنایا جا سکے۔ مگر اس قسم کے زیادہ تر معاہدے مکہ یا اس کے قبائل تک محدود تھے۔

سیدہ فاطمہ زہرا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جاہلی دور کی اس حقیقت کو اپنے مشہور خطبے میں نہایت جامع انداز میں بیان کیا، جو آپ نے اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد ارشاد فرمایا۔ آپ نے بعثت نبوی سے پہلے عربوں کی حالت کو یوں بیان فرمایا:

(و كنتم على شفا حفرة من النار، مذقة الشارب، ونهزة الطامع، وقبسة العجلان، وموطئ الأقدام، تشربون الطرق، وتقتاتون القدّ والورق، أذلّة خاسئين، تخافون أن يتخطفكم الناس من حولكم، فأنقذكم الله تعالى بمحمد صلى الله عليه وآله..(

"اور تم جہنم کی آگ کے کنارے پر کھڑے تھے، پینے والے کے بچا ہوا تھوڑا سا پانی پیتے تھے، ہر لالچی کے نشانے پر تھے، ہر جلد باز کی جھپٹ کا شکار تھے، دوسروں کے قدموں کے نیچے روندا جاتے تھے، گندے تالابوں کا پانی پیتے تھے، سخت اور خشک چیزوں اور پتوں پر گزارا کرتے تھے۔ ذلیل اور رسوا تھے، تمہیں اپنے اردگرد سے اچک لئے جانے کا خطرہ رکھتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تمہیں نجات عطا فرمائی..." (الاحتجاج، ج1، ص131-146)

اس بلیغ خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس عظیم تہذیبی انقلاب کی تصویر کشی کی جو اسلام نے برپا کیا۔ کس طرح وہ بکھرا ہوا معاشرہ ایک امت میں بدل گیا، جو خدائے واحد کی بندگی کرنے لگی، رسول کی قیادت کے تابع ہو گئی، اور شریعت کے پرچم تلے زندگی گزارنے لگی، جہاں عدل و مساوات، عزت و کرامت اور آزادی میسر آئی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب معاشرے کی ساخت میں ایک بنیادی اور ہمہ گیر تبدیلی پیدا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کو، جو مختلف رجحانات اور خواہشات میں بٹی ہوئی ایک بستی تھی، ایک اس پہلی اسلامی ریاست میں تبدیل کر دیا جو عقیدہ، عدل، اور سیاسی و سماجی تنظیم کے پائیدار اصولوں پر قائم تھی۔ ہجرت سے پہلے مدینہ محض قبائلی کشمکش اور مقامی جھگڑوں کا میدان تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی قیادت کی برکت سے یہ ایک ایسا مستحکم مرکز بن گیا ، جہاں ایک نئی امت کی بنیاد رکھی گئی، جو قبائلی رشتوں اور موروثی عصبیتوں سے آگے بڑھ کر اسلام کے پرچم، اس کی اقدار اور اصولوں کے تحت متحد ہوئی تھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا معاشرہ قائم کیا جو اخوت پر مبنی ہو اور توحید و مساوات کے اصولوں پر استوار تھا  نہ کہ خون اور نسب کے رشتوں پر۔

اسی پس منظر میں، مدینہ میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست محض ایک وقتی تجربہ یا عارضی وجود نہ تھی، جسے کسی مخصوص تاریخی لمحے نے جنم دیا ہو؛ بلکہ یہ ایک شعوری طور پر بنایا گیا تہذیبی منصوبہ تھا، جو اپنے اندر ایک عالمگیر پیغام اور ایک عظیم تاریخی مشن رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تجربہ صرف صحابہ کے عہد تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ ایک تاریخی ذمہ داری تھی جو ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے فطری اور منطقی بات یہ تھی کہ  سیاسی جھگڑوں، ذاتی خواہشات اور اقتدار کے لالچ ، یا صدمے کے دباؤ اور اقتدارپرستوں  کی خواہشات کے سامنے اسے ضائع کرنے کی بجائے  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمان متحد ہو کر اس عظیم منصوبے کی حفاظت کرتے، اس کے بنیادی اصولوں اور اقدار کا دفاع کرتے، اور اس سفر کو آگے بڑھاتے۔

یقیناً اسلام ایک عالمگیر نجات دہندہ منصوبہ تھا، جس نے لوگوں کو جہالت، غلامی اور تفرقے کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت، عقل اور وحدت کے نور کی طرف راہنمائی کی۔ اور اس منصوبے کو رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ضائع کر دینا، یا اس کے مستقبل کو خواہشات اور ذاتی اندازوں کے حوالے کر دینا، دراصل اس عظیم تہذیبی انقلاب سے پیچھے ہٹ جانا ہے، اور اس ذمہ داری سے غداری ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا اور جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ہر چیز قربان کر دی۔

رسالت خاتم ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ  تمام جہانوں کے لیے دی گئی، صرف آپ کی حیاتِ مبارکہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا جاری و ساری منصوبہ ہے جس کی حفاظت اور ترقی مسلمانوں کے ذمہ ہے، اور جسے نسل در نسل منتقل کرنا ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملاً اس تسلسل کی بنیاد رکھی، جب آپ نے اپنے اصحاب کو فارس و روم کی فتوحات کی بشارت دی، اور دنیا کے بادشاہوں کے نام خطوط بھیجے، انہیں اسلام کی دعوت دی اور اس حقیقت کو واضح کیا کہ آپ کا پیغام نہ تو مقامی ہے اور نہ ہی کسی قوم تک محدود، بلکہ یہ ایک عالمگیر اور سرحدوں کی قید سے سے ماورا دعوت ہے۔

اسی لیے یہ سوال کہ "نبی کے بعد امت کی قیادت کون کرے گا؟" کوئی غیرضروری یا محض اقتدار کی کشمکش پر مبنی سوال نہ تھا، بلکہ یہ دراصل رسالت کے منصوبے کے مستقبل پر سنجیدہ غور و فکر کا حصہ تھا۔ کیونکہ وہ ذمہ داریاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انجام دے رہے تھے، صرف تبلیغ تک محدود نہ تھیں، بلکہ ان میں تربیت و تعلیم، معاشرتی نظم و نسق، لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا، لشکروں کی قیادت، ریاست کا نظام چلانا اور ایک ہمہ جہتی اقداری ڈھانچے کی بنیاد رکھنا بھی شامل تھا۔

اسی پس منظر میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد امت کوگروہ بندی اور زیاں سے بچانے کے لیے ایک واضح طریقۂ کار کی شدید ضرورت تھی۔ نیز بعد میں مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا اختلاف اسی بات پر ہوا کہ اس سیاسی و قیادی تسلسل کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ چنانچہ اہل سنت کے اکثریتی نقطۂ نظر کے مطابق "شوریٰ" کو خلیفہ منتخب کرنے کا معیار قرار دیا گیا، یا پھر اقتدار ان کے نزدیک اسی کا حق تھا جو طاقت اور تلوار کے ذریعے غالب آ جائے۔ اس کے برعکس اہل بیتؑ کے پیروکاروں کی رائے یہ تھی کہ قیادت کو حالات کی سیاسی مجبوریوں اور انسانی اجتہادات کے سپرد نہیں چھوڑا جا سکتا، بلکہ اس کا تعین نصِ نبوی اور الٰہی منصوبہ بندی کے ذریعے ہونا چاہیے، کیونکہ یہ نبوت کے وظیفے کا تسلسل ہے، اگرچہ بذاتِ خود نبوت نہیں۔

شہید محمد باقر الصدر نے اس اختلاف کو اپنی اہم کتاب "بحث حول الولاية" میں نہایت باریک بینی سے زیر بحث لایا ہے، جہاں انہوں نے تینوں احتمالات یعنی: عدمِ تعیین، عمومی تعیین اور خصوصی تعیین کا تجزیہ اور ان کا تجزیہ کیا ۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ خصوصی تعیین — یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے جانشین کی طرف  براہِ راست نشاندہی- ہی واحد ضمانت ہے جو رسالت کے تسلسل کو انحراف سے محفوظ رکھ سکتی ہے، خصوصاً اس لیے کہ اسلام دینِ خاتم ہے، اور اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو کسی انحراف کی اصلاح کرے یا دوبارہ بنیاد رکھے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جو سیاسی ترجیحات کے تعین میں اضطراب اور اچانک اقتدار کی منتقلی دیکھنے میں آئی، وہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں کوئی متحد یا واضح لائحہ عمل نہ ہونا نوخیز امت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ  ہم آج جب  اس دور کو دوبارہ پڑھے اس نظر سے بھی دیکھیں کہ یہ محض اقتدار کی کشمکش ہی نہیں تھی، بلکہ امت کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا، جس میں پورے اسلامی منصوبے کا مستقبل طے ہونا تھا: آیا وہ اپنے اصولوں کا وفادار رہتا ہے، یا محض ایک ایسی حکومت میں بدل جاتا ہے جس پر اقتدار کے ہجاری دین کے نام پر قبضہ جماتے ہیں۔

در حقیقت، رسول  خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت کا سوال خود دین کے مستقبل کا سوال ہےکہ  دین کو ایک مکمل رسالی و اقداری نظام کے مطابق چلایا جانا چاہیے، یا پھر سیاسی غلبے اور اقتدار کی منطق کے مطابق ؟ اور یہی وہ سوال ہے جس کی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔ بالآخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کے لمحات کی طرف مڑ کر دیکھنا محض ایک تاریخی رجوع نہیں ہے، بلکہ ایک ایسے سرنوشت ساز سوال کی یاد دہانی ہے جو آج بھی امت کی قسمت پر سایہ فگن ہے،  دین کس طرح ایک ہمہ گیر تہذیبی منصوبہ بن کر باقی رہ سکتا ہے، اگر اس کی قیادت رسالت کے منہج سے کٹ کر محض اقتدار کی کشمکش میں بدل جائے؟

ہم نے یہاں اس امر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ "پیغام رسالت کے مستقبلِ" کے بارے میں سوچنا خود منصوبۂ نبوی کا بنیادی حصہ ہے، نہ کہ کوئی بیرونی یا اضافی مسئلہ۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف مبلغ نہ تھے بلکہ ایک قائد، مربی اور ایک نئی جماعت کے معمار بھی تھے۔ لہٰذا آپ کی غیر موجودگی میں اس پورے نظام کو کسی بھی  شرعی ادارہ جاتی تسلسل کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا جو آپ کے بعد یہ ذمہ داری سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور اگرچہ تاریخ میں تعینِ قیادت اور شوریٰ کے درمیان اختلاف دیکھنے میں آیا، لیکن آج ہمیں سطحی مسلکی مباحث سے آگے بڑھتے ہوئے سوال کے اصل جوہر تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے ایک حریت ساز اور اقدار پسند منصوبے کے طور پر باقی رہنے کی اصل ضمانت کیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سیاسی قیادت کو اُس روحانی اور تشریعی مرجعیت سے الگ کر دیا جائے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں مجسم کر دکھایا؟

اسی تناظر میں، اس بحث سے نکلنے والی چند اہم سفارشات یہ ہیں:

ابتدائی خلافت کی تاریخ کو "رسالی منصوبے" کے زاویے سے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف غلبے یا رسمی مشروعیت کے تناظر میں۔

امامت و خلافت کے تصور پر علمی اور فکری بحث کو وسیع کیا جائے، اور اسے صرف فقہی یا تنگ سیاسی جدال کے دائرے تک محدود نہ رکھا جائے۔

ایک ایسے نئے اسلامی شعور کی بنیاد رکھی جائے جو یہ سمجھ سکے کہ دین کا مستقبل اس قیادت کی نوعیت سے مشروط ہے جو اسے سنبھالتی ہے، اور یہ کہ سیاسی اصولوں سے انحراف دراصل معاشرے میں رسالی روح کے زوال کی ابتدا ہے۔

مسئلہ صرف قیادت کے فقدان کا نہیں تھا بلکہ اس شعور کے فقدان کا بھی تھا کہ قیادت کا تسلسل نبوی منہج ہی پر ہونا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو خلافت و امامت کے مسئلے کو ایک گزرے ہوئے تاریخی واقعے کے بجائے ایک ایسا کھلا سوال بنا دیتی ہے جو آج بھی مستقبل پر سایہ فگن ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018