23 ربيع الثاني 1447 هـ   16 اکتوبر 2025 عيسوى 8:57 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تاریخِ اسلامی |  ابتدائے اسلام کی جنگیں ارتداد کے خلاف تھیں یا اقتدار کی کھینچا تانی تھی؟
2025-09-08   88

ابتدائے اسلام کی جنگیں ارتداد کے خلاف تھیں یا اقتدار کی کھینچا تانی تھی؟

الشيخ معتصم السيد أحمد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اقتدار کی منتقلی کسی طور پر بھی پُرامن نہ تھی، چنانچہ مدینہ سیاسی ہلچل اور بے چینی کے واقعات سے گونج رہا تھا۔ نئی ابھرتی ہوئی حکومت پوری کوشش کر رہی تھی کہ بنی ہاشم اور ان کے حامیوں کو اپنے ساتھ ملا لے۔ ایسے ہی تناؤ اور اضطراب کے ماحول میں مدینہ سے باہر ایک وسیع پیمانے پر بغاوت ابھری، جسے بعد کے ادوار میں "حروبِ مرتدین" کے نام سے موسوم کیا گیا۔ لیکن یہ اصطلاح حقیقت کی غیر جانبدارانہ عکاسی نہیں تھی، بلکہ اس وقت کی ایک سیاسی حکمتِ عملی تھی، تاکہ اصل اختلاف (جو دراصل اقتدار کی شرعی و قانونی حیثیت کا تھا) کو دین سے بغاوت کا رنگ دیا جا سکے۔ اس طرح مخالفین کو "مرتد" قرار دے کر ان کے خلاف طاقت کا استعمال ایک دینی فریضہ بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں نہ فکری مکالمے کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی سیاسی گفت و شنید کو اہمیت دی گئی۔

یہ طریقہ کار اسلامی تاریخ میں کوئی یگانہ مورد نہیں تھا کیونکہ ہر بغاوت یا حکومت مخالف تحریک کو حاکم وقت کے خلاف اُٹھنے پر ارتداد یا زندقہ کا الزام ہی دیا جاتا تھا۔ امام حسین بن علیؑ کو بھی یہی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئ نعوذ باللہ جیسے وہ اپنے نانا کے دین سے نکل گئے ہوں۔ یاد رکھیں حق کی روشنی ہمیشہ پروپیگنڈے پر غالب آتی ہے اور یہ زیادہ روشن ہوتی ہے۔

ہم اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو صاف پتہ چلتا  ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو "ارتداد" کا نام دینا یا اسے مرتدین کے ساتھ جوڑ دینا دراصل ایک سیاسی حربہ تھاتاکہ اسے مذہبی رنگ دے کر اسے محدود کیا جا سکے۔ یہ تاثر پیدا کیا جاسکے کہ مخالفین اللہ اور اس کے حکم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ یوں حکومت کو ایک دینی جواز فراہم ہوگیا کہ وہ فکری مکالمے یا سیاسی مذاکرات کی بجائے طاقت کے ذریعے اس مخالفت کو ختم کرے۔ یہی کچھ ہوا، جب مالک بن نویرہ اور ان کے قبیلے کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب انہوں نے حکومت کے خلاف تلوار تک نہ اٹھائی تھی۔ انہیں دھوکے سے قتل کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کتنی جلدی میں تھی اور شدت سے مخالفین کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جنگ پر ہی اصرار محض دینی جذبے کے تحت تھا کیونکہ دین کے کسی بھی حکم میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ممکن تھا کہ بڑے صحابہ کو بھیج کر ان سے بات کی جاتی یا اگر ان کے پاس کوئی دلیل تھی تو ان پر حجت قائم کی جاتی۔ یہی توقع مالک بن نویرہ کے ساتھیوں اور دیگر مانعینِ زکوٰۃ کو تھی۔ اس لیے انہوں نے نہ فوجی تیاری کی، نہ ہی جنگ کا آغاز کیا۔ لیکن وہ اس وقت حیران رہ گئے جب اپنی ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی فوج نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ قیدی ہونے کے باوجود قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد ان سے ایسا انتقام لیا گیا جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں تھی۔ ان کے سروں کو کاٹ کر دیگوں کے نیچے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ ایسا عمل تھا جس کی نہ تو توجیہ کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی معقول دلیل دی جا سکتی ہے۔ تاہم، خلافت کے حامی مکتب نے اس واقعے کو ایسے پیش کیا جیسے یہ سب خلیفہ اسلام کی حفاظت کے لیے کر رہے ہوں اور اسے بڑے کارنامے کے طورپر پیش کیا گیا اور اس پر فضائل گھڑ کر بڑی کامیابی میں شمار کیا گیا۔

وہ معاشرہ جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید کی بنیاد پر متحد کیا تھا، اس کے اندر اب بھی قبائلی سوچ کی گہری جڑیں موجود تھیں اور یہ آسان نہ تھا کہ وہ رسول اللہؐ کے بعد کسی نئی قیادت پر آسانی سے متفق ہو جائے۔ اسی وجہ سے بہت سے قبائل نے قبائلی بنیادوں پر ہی ردعمل دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے قریش نے خود سقیفہ میں یہ دلیل دی تھی کہ ہم جانشین ہونے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلے والے ہیں تو ہم سے کون جھگڑ سکتا ہے؟ خلافت کے حق میں قریش کا یہ قبائلی معیار درست مان لیا گیا تو پھر دوسرے قبائل کو کس طرح صرف اسی بنیاد پر غلط ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اپنے لیے مساوی حق سمجھتے تھے یا قریش کی سیاسی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے؟

ہم ارتداد کے وجود کا انکار نہیں کرتے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی ظاہر ہوئے ہیں جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو اپنی طرف بلایا، جیسے مسیلمہ، طلیحہ، اسود عنسی اور سجاح۔ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں رونما ہوا۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جو فضا پیدا ہوئی اور جس نے خلیفہ کو جلدی جنگ کے فیصلے پر آمادہ کیا اس کی اصل وجہ ایک طرف زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کی تحریک تھی اور دوسری طرف کچھ وہ قبائل تھے جو اقتدار کی خواہش میں مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس لیے ان تمام واقعات کو محض دینی زاویے سے نہیں بلکہ سیاسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

واقعات کو زیادہ درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن تحریکوں کے رجحانات کا تجزیہ کیا جائے اور اُن کے محرکات کو الگ کیا جائے تاکہ ہم تاریخ کو تنگ نظری یا تعصب کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اسی طرح ہم ہر تحریک کو اس کے مخصوص مقاصد اور حالات کے دائرے میں رکھ کر بہتر طور پر جانچ سکیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا لازم ہے کہ کن عوامل نے انہیں متحرک کیا اور کن حالات نے کی تحریک کو وسعت دی اور تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔اس طرح کی معروضی تحقیق ہی ہمیں حقیقت کے قریب لے جائے گی اور درست راستے کی نشاندہی کرے گی۔

شیخ طوسی نے اپنی کتاب المبسوط میں مرتدین کے درمیان فرق بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "رسول اللہ (ص) کے بعد اہلِ رِدہ دو قسم کے تھے: ایک وہ لوگ جنہوں نے اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کیا جیسے مسیلمہ، طلیحہ، اسود عنسی اور ان کے پیروکار، یہ سب کے نزدیک دین سے خارج ہو کر مرتد ہو گئے تھے۔ دوسرے قسم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام پر قائم رہتے ہوئے زکوٰة دینے سے انکار کیا۔ ان سب کو اہلِ رِدہ کہا گیا لیکن حقیقت میں یہ ہمارے نزدیک اور اکثر علما کے نزدیک مرتد نہیں تھے" (المبسوط، الطوسي: 7/267)۔

ابن عبد البر نے بھی ارتداد کی اقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:"ارتداد تین طرح کا تھا: ایک گروہ وہ تھا جو کفر میں واپس لوٹ گیا اور اپنی پرانی بت پرستی کی طرف پلٹ گیا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو مسیلمہ پر ایمان لے آیا یہ اہلِ یمامہ تھے۔ تیسری قسم وہ تھی جنہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کیا اور کہا: ہم اپنے دین سے تو نہیں پھرے لیکن ہم اپنے مال پر بخل کرتے ہیں۔ انہوں نے آیتِ قرآنی ﴿خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً﴾ کی یہ تاویل کی کہ اس حکم کا مخاطب صرف رسول اللہ ہیں کوئی اور نہیں" (الاستذکار، ج3، ص213)۔

زکوٰة سے انکار کرنے والوں نے دراصل اس لیے ابو بکر کو زکوٰة دینے سے انکار کیا کیونکہ وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جائز اور شرعی خلیفہ نہیں مانتے تھے۔ ان قبائل نے غدیر خم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے حضرت علیؑ کی بیعت کی تھی اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ علیؑ ہی رسول اللہ کے جانشین ہیں۔ جب اچانک ابو بکر کو خلیفہ بنا دیا گیا تو وہ حیران رہ گئے۔ اسی لیے ان کا زکوٰة نہ دینا دراصل ایک احتجاج اور نئی حکومت کے خلاف سیاسی موقف تھا۔ اس کی ایک مثال مالک بن نویرہ کا واقعہ ہےجو مدینہ آیا اور ابو بکر کو نبی کے منبر پر بیٹھے دیکھا تو اعتراض کیا اور کہا: "وہ علیؑ کہاں ہیں جن کی اطاعت کا ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تھا؟" اس پر ابو بکر نے جواب دیا اور ان کے درمیان گفتگو ہوئی مگر ابو بکر نے فوراً خالد بن ولید کو حکم دیا کہ مالک کو مسجد سے نکال دے اور اسے مرتد قرار دے دیا۔

جب ابو بکر نے خالد بن ولید کو طلیحہ کے خلاف بھیجا تو اسے خاص طور پر ہدایت کی کہ مالک بن نویرہ کو قتل کر دےکیونکہ اسے ڈر تھا کہ وہ ابو بکر کی خلافت کے خلاف بغاوت بھڑکا سکتا ہے اور اس کے گرد بنو تمیم جمع ہو جائیں گے۔ خالد نے وہاں پہنچ کر چالاکی اور فریب سے مالک کو شہید کر دیا اور پھر اس کی بیوی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس واقعے پر لشکر میں موجود بعض صحابہ جیسے عبداللہ بن عمر اور ابو قتادہ انصاری نے شدید اعتراض کیالیکن خالد نے ان کی بات کی پرواہ نہ کی۔ عمر بن خطاب نے بھی اس فعل کو غلط قرار دیا اور ابو بکر سے خالد کے خلاف قصاص لینے کا مطالبہ کیاکیونکہ اس نے ایک بے گناہ مسلمان کو ناحق قتل کیا اور اس کی عزت پر بھی دست درازی کی۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ تاریخ طبری میں مذکور ہے جس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم ان واقعات سے مکمل تصویر بنانے کی کوشش کریں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ بغاوت کا دائرہ یمن تک پھیل گیا تھا اور اس کی لپیٹ سے صرف مکہ، مدینہ اور طائف محفوظ رہ سکے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تمام عرب مرتد ہو گئے تھے سوائے ان دو شہروں کے باسیوں کےیعنی مکہ اور مدینہ (البداية والنهاية، ج6، ص312)۔ایک اور روایت سيف بن عمر سے منقول ہے جس میں کہا گیا: "زمین کفر سے بھر گئی، آگ بھڑک اٹھی اور عرب کی ہر بڑا اور چھوٹا قبیلہ مرتد ہو گیا، سوائے قریش اور ثقیف کے" (تاریخ الطبری، ج3، ص242)۔ ان دونوں روایات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بیشتر قبائل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام لاچکے تھے اور ان کے وفادار بن گئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قریش کی حکمرانی کو قبول کرنے سے انکار کر گئے اور کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کر دیا۔ یہ دراصل ایک وسیع اور بڑی تحریک تھی جو پورے جزیرۂ عرب میں پھیل گئی اور ایک شدید سیاسی و سماجی بحران کی شکل اختیار کر گئی۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ تمام بغاوت کرنے والے قبائل نے مرکزی اقتدار کے مقابلے میں اپنے اپنے قبائلی نعروں کو بلند کیا۔ اس رجحان کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سقیفۂ بنی ساعدہ کی طرف رجوع کریں اور یہ دیکھیں کہ وہاں خلافت کے استحقاق کے معیار کس بنیاد پر طے کیے گئے تھے۔ سقیفہ میں انصار نے اپنی قبائلی شناخت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ خلافت اور قیادت کے سب سے زیادہ حق دار وہی ہیں کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کی تھی۔ دوسری طرف مہاجرین نے دلیل دی کہ قریش چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبیلہ ہے اس لیے خلافت کا سب سے پہلا حق انہی کا ہے۔

اسی دوران ایک بنیادی سوال اٹھا کہ باقی قبائل نئے اقتدار کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ کیا وہ قریش کی قیادت کو قبول کر لیں گے؟ اس خدشے کو عمر بن الخطاب نے قریش کے حق میں استعمال کیا اور کہا: "خدا کی قسم! عرب ہرگز اس پر راضی نہ ہوں گے کہ تمہیں امیر بنائیں جبکہ نبی تم میں سے نہ تھے۔ عربوں کے لیے لازم ہے کہ وہ قیادت اسی کو دیں جس میں نبوت آئی اور جس کے لوگ صاحبانِ امر ہوں۔ ہمارے پاس ان قبائل کے مقابلے میں ظاہر دلیل اور واضح اقتدار ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختیار اور میراث ہم سے کوئی چھین نہیں سکتاکیونکہ ہم ان کے اولیاء اور قریبی رشتہ دار ہیں" (تاریخ الطبری، ج2، ص455-460)۔یہ واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خلافت کی بنیاد مذہبی یا روحانی اصولوں پر نہیں بلکہ قبائلی استحقاق اور نسبی وابستگی پر رکھی گئی تھی جس نے بعد میں مختلف قبائل میں مزاحمت اور بغاوت کو ہوا دی۔

جو کچھ پیش آیا وہ یہ تھا کہ قبائل نے قریش کی قیادت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ سمجھا کہ قریش نے ان پر فضیلت جتا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ نتیجتاً انہوں نے بغاوت کا اعلان کیا اور اپنے پرانے قبائلی معاہدوں اور حلفوں کی طرف لوٹ گئے۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں نقل کیا ہے:"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو عیینہ بن حصن نے غطفان میں قیام کیا اور کہا: میں نہیں جانتا کہ غطفان کی سرحدیں کہاں ختم ہوتی ہیں جب سے ہمارا اور بنی اسد کا تعلق منقطع ہوا ہے۔ میں اس قدیم حلف کو دوبارہ زندہ کر رہا ہوں جو ہمارے درمیان تھا اور طلیحہ کی پیروی کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! ہمارے نزدیک یہ زیادہ پسندیدہ ہے کہ ہم دونوں حلیف قبائل میں سے کسی کے نبی کی پیروی کریں بجائے اس کے کہ ہم قریش کے نبی کی پیروی کریں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وفات پا گئے اور طلیحہ ابھی باقی ہے۔ تو سب نے اس بات پر اس سے اتفاق کیا" (تاریخ دمشق، ج25، ص156)۔یہ روایت واضح کرتی ہے کہ بغاوت محض دینی اختلاف کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ قبائلی غیرت، پرانے اتحادوں اور قریش کی بالادستی کے خلاف ردعمل کا نتیجہ تھی۔

قبیلۂ اسد خزیمہ کے لوگ سب کے سب طلیحہ بن خویلد کی نبوت کے دعوے پر ایمان لے آئے اور اس کی پیروی کرنے لگے۔ ان کے بعد دوسرے قبائل نے بھی ایک کے بعد ایک اس کا ساتھ دینا شروع کیا۔ بنو فزارہ کے سردار عیینہ بن حصن بھی اپنے قبیلے کے ساتھ طلیحہ سے جا ملے اور کھلے الفاظ میں کہا: "ہمیں اپنے حلیف قبیلے اسد کا نبی قریش کے نبی سے زیادہ پسند ہے"۔اس کے بعد طے، خزاعہ اور دیگر قبائل کے کئی گروہ بھی اس کے ساتھ مل گئےیہاں تک کہ سمیراء اور بزاخہ (جو موجودہ حائل کے قریب علاقے ہیں) ان کی بھیڑ سے بھر گئے۔ وہیں انہوں نے اپنا مرکزی لشکری کیمپ قائم کیا اور پھر مدینہ کے قریب ذی القَصَّہ کے مقام پر دوسرا کیمپ بنایا۔ اسی مقام سے طلیحہ نے اپنے بھائی کو ایک بڑے لشکر کی قیادت دے کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے روانہ کیا۔

مدینہ پر حملہ کرنے سے پہلے طلیحہ نے قبیلۂ اسد، فزارہ، بنو حنیفہ اور طے کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ابوبکر کے پاس بھیجا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان سے زکوٰة نہ لی جائے، اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو وہ مدینہ پر قبضہ کر لیں گے۔ اصل نکتہ زکوٰة نہ دینا دراصل اس بات کی علامت تھا کہ وہ مدینہ کی مرکزی حکومت کی بالادستی تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ زکوٰة کی ادائیگی ریاستی اقتدار کو ماننے کے مترادف تھی، اور اس سے انکار بغاوت اور آزادی کے اعلان کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ خود کفیل قبائل جو اپنی بستیوں میں آزادانہ رہتے تھے، ان کے لیے اس بات کی چنداں اہمیت نہ تھی کہ مدینہ میں کون حکمران ہے جب تک کہ وہ اس کو کچھ نہ دیتے ہوں۔ اس لیے ان کا انکار بخل کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ قریش کی شرعی حیثیت کو نہ ماننے کی وجہ سے تھا۔ اگرچہ اسلام نے لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر جوڑ کر قبائلی تعصبات کو توڑا تھالیکن قریش نے سقیفہ میں خلافت کا دعویٰ اپنے قبیلے کی بنیاد پر پیش کیا کہ "محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سلطنت پر ہمارا حق ہے کیونکہ وہ ہمارے قبیلے سے ہیں"۔ تو پھر کیسے دوسرے قبائل کے قبائلی بنیادوں پر احتجاج کو دین سے انحراف اور ارتداد قرار دیا جا سکتا ہےجبکہ قریش کے لیے یہی منطق دلیل کے طور پر تسلیم کی گئی؟ اگر ارتداد کا کوئی آغاز ماننا ہے تو اس کی پہلی جھلک تو سقیفۂ کے مقام پر قریش ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہی قریش، جنہوں  نے سقیفہ میں اپنی قبائلی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیا بعد میں خود امیرالمؤمنین علیؑ کے خلاف کھڑے ہوگئے، ان کی خلافت سے بغاوت کی اور جنگ جمل و صفین میں ان سے لڑے۔ یہی نہیں بلکہ بعد میں انہوں نے ان کی اولاد اور ذریت کا بھی پیچھا کیا اور کبھی زہر اور دھوکے سے اور کبھی تلوار کے ذریعے انہیں شہید کیا جیسا کہ امام حسینؑ کے ساتھ کربلا میں ہوا۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس صورتحال پر اللہ کی بارگاہ میں شکایت کی اور فرمایا: "پروردگارا! میں قریش اور ان کے مددگاروں کے خلاف تجھ سے فریاد کرتا ہوں، انہوں نے میرے رشتے ناتے کاٹ ڈالے، میرا حق غصب کیا اور سب نے مل کر میرے حق کے خلاف سازش کی حالانکہ میں اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ کوئی مددگار نہیں سوائے میرے اہل بیت کے مگر میں نے انہیں موت سے بچانے کے لیے خاموشی اختیار کی۔ اس طرح آنکھوں میں کانٹے اور دل میں زہر لیے صبر کیااور وہ کڑوا گھونٹ پیا جو زہرِ قاتل سے زیادہ تلخ اور دل کو تلوار کی چبھن سے زیادہ تکلیف دہ تھا" (شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج11، ص109)۔

امیرالمؤمنین علیؑ نے فرمایا:"اے اللہ! تو قریش کو میرے ساتھ ان کے برتاؤ کا بدلہ دے۔ انہوں نے میرے رشتے ناتے کوکاٹ ڈالا، میرے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی، مجھے میرے حق سے محروم کیا، اور میرے چچازاد بھائی (رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت و سلطنت کو مجھ سے چھین کر ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو نہ قرابت میں میرے برابر ہے اور نہ اسلام میں میری سبقت جیسی سبقت رکھتا ہے۔ ہاں، سوائے اس کے کہ کوئی دعویٰ کرے جسے میں نہیں جانتااور نہ ہی مجھے گمان ہے کہ اللہ اسے جانتا ہو۔ ہر حال میں اللہ ہی کے لیے حمد ہے" (شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید: ج2، ص119)۔

خلاصہ یہ ہے کہ جن جنگوں کو "مرتدین کی جنگیں" کہا گیا وہ خالصتاً دینی نہیں تھیں بلکہ ایک پیچیدہ تاریخی واقعہ تھا جس میں کچھ محدود عقیدتی انحرافات شامل ضرور تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وسیع سیاسی عوامل بھی تھے جو سقیفہ میں قائم ہونے والی قبائلی معیاروں پر مبنی حکومت کی شرعیّت کے خلاف اٹھے۔ زکوٰة کی ادائیگی سے انکار، زیادہ تر صورتوں میں، ایک سیاسی موقف تھا جو نئی حکومت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کو ظاہر کرتا تھا نہ کہ دینی فریضے کا انکار تھا۔ صاحبان ِاقتدار نے ان تحریکوں پر "ارتداد" کا لیبل لگا دیا تاکہ تلوار کے استعمال کے لیے مذہبی جواز فراہم کیا جا سکے بجائے اس کے کہ ان سے فکری مکالمہ یا سیاسی بات چیت کی جاتی۔ اگر ہم اس واقعے کو معروضی نظر سے دیکھیں تو یہ دراصل اقتدار کی مشروعیت پر جھگڑا تھا، ایسے معاشرے میں جس کی رگ و پے میں قبائلی عصبیت ابھی بھی گہری تھی اور ایک ایسی سیاسی تجربہ گاہ تھی جس میں دینی اور سیاسی عناصر آپس میں گڈمڈ ہو گئے تھے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018