

| تاریخِ اسلامی | الہامی تاریخ کا فلسفہ: مابین جبر و اختیار

الہامی تاریخ کا فلسفہ: مابین جبر و اختیار
الشيخ باسم الحلي
تاریخ کا فلسفہ، جیسا کہ نظریہ جبر کے فلاسفہ نے پیش کیا ہے، اس کا مختصر احوالَ واقعی یہ ہےکہ تاریخ، معاشرہ اور انسان کا مطالعہ تین زمانی جہات(ماضی، حال، اور مستقبل)میں کیا جائے یعنی ماضی اور حال کا مطالعہ کرنا تاکہ مستقبل کی بہتر پیشن گوئی کی جا سکے کہ وہ کیسا ہوگا، یا اس میں تبدیلی کے امکانات کو جانچنا جاسکے۔ اور یہ سب ماضی کے واقعات اور حالیہ حقائق سے اخذ کردہ ان قوانین کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جو کسی منطقی اصول اور سنجیدہ فکری تجزیے پر مبنی ہوں۔۔
کارل پوپر (Karl Popper)اس بارے میں لکھتے ہیں کہ :تاریخی نقطۂ نظر سے سماجیات نظری تاریخ ہے، جس کی پیش گوئیاں قوانین پر مبنی ہونی چاہئیں،نیزحقیقی سماجی قوانین عمومی طور پر پوری انسانی تاریخ پر لاگو ہونے چاہئیں، مگر ایسا کوئی سماجی قانون وضع نہیں ہو سکتا جو انفرادی ادوار سے ماورا درست ثابت ہو(اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسانی معاشرت مسلسل بدلتی رہتی ہے، اور ہر دور کے اپنے منفرد حالات ہوتے ہیں، اس لیے کوئی ایسا سماجی قانون وضع نہیں ہو سکتا جو ہر زمانے میں یکساں طور پر لاگو ہو سکے۔) (عقم المذهب التاريخي، کارل پوپر: صفحہ 55)
تاریخ کا فلسفہ ان بنیاد ی قوانین پر قائم ہے جو سماجی تغیرات اور ان کی ترقی کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں، اور یہ قوانین ماضی اور حال سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ معاشرہ اور تاریخ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جوایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جا سکتے۔
کارل پوپر، جو فلسفۂ تاریخ اور نظریہ جبر کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، اس حوالے سے لکھتے ہیں:" تاریخ، جسے تاریخ دان اور سماجیات کے ماہرینِ ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، صرف ماضی کی طرف نظر نہیں ڈالتی بلکہ مستقبل کی جانب بھی جھانکتی ہے۔ اس تناظر میں، علمِ تاریخ عمومی طور پر مؤثر قوتوں اور خاص طور پر سماجی ارتقا کے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔تاریخی نظریے کے مطابق، مکمل طور پر درست سماجی قوانین درحقیقت وہی تاریخی قوانین ہوتے ہیں، جو تبدیلی اور ارتقا کے قوانین ہونے چاہئیں۔ ان قوانین کی وجوہات کو سمجھ کر، لوگ مستقبل میں ہونے والی متوقع تبدیلیوں کے لیے تیار ہو سکتے ہیں اور ان قوانین سے پیش گوئیاں اخذ کر سکتے ہیں۔ (عقم المذهب التاريخي، کارل پوپر: ص60)
یہاں اس نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ فلسفۂ تاریخ کے مفکرین دو اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں:
پہلی قسم ان فلاسفہ پر مشتمل ہے جو تاریخی نظریہ جبر پر یقین رکھتے ہیں اور اسی نظریے کی روشنی میں تاریخ، معاشرت اور انسانی ترقی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس گروہ میں ہیگل، مارکس، اشپنگلر، ٹوائن بی، اور اوگست کومت جیسے مفکرین شامل ہیں، جن میں سے ہر ایک نے اپنی مخصوص منطق اور فکری زاویے کے مطابق نظریہ جبر کی تاریخ کی وضاحت کی ہے۔
اور کچھ مفکرین نے نظریہ جبر پر شدید تنقید کی ہے، جن میں نمایاں ترین کارل پوپر ہیں، جنہوں نے پیشن گوئی اور پیش بینی میں فرق واضح کیا ہے۔ ان کے مطابق تاریخی پیشن گوئی (یعنی تاریخی جبریت) سائنسی پیش بینی سے مختلف ہے، کیونکہ تاریخی پیشن گوئی میں کوئی سائنسی پیشن گوئی کے برعکس یقینی "طبعی" اصول موجود نہیں، جیسے کہ موسمیات میں ہوتا ہے۔ اور جب ایسا ہے تو تاریخی جبریت کو فرض کرنا قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔
ہیگل کا نظریہ یہ تھا کہ تاریخ میں رونما ہونے والے انسانی تصادم، ان کی جدلیاتی منطق (Dialectical Logic) کی روشنی میں، لازمی طور پر مستقبل میں انسانی فکر کی ترقی کا سبب بنیں گے، اور یہی آزادی، عقلانیت اور اصل روح تک پہنچنے کا جبری راستہ ہے۔
ہیگل کے نزدیک ہر تاریخی مرحلہ انسانی شعور کی ترقی کے لیے ایک لازمی قدم ہے، اور ریاست اس شعور (عقل) کی مجسم صورت ہے۔ تاریخ کا سفر مطلق روح (Absolute Spirit) کے ادراک کی طرف جاری ہے، جو آزادی اور فکری ارتقا کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔
مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ طبقاتی جدوجہد، جو مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان جاری ہے، ان کی جدلیاتی منطق کی روشنی میں (جو کہ ہیگل کی جدلیات سے ماخوذ مگر ترمیم شدہ ہے)، ناگزیر طور پر کمیونزم کو جنم دے گی۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں وسائل مساوی طور پر تقسیم ہوں گے، اور کوئی طبقاتی یا سرمایہ دارانہ نظام باقی نہیں رہے گا۔
اشپنگلر کا نظریہ یہ ہے کہ تہذیبیں اور ریاستیں، جاندار اجسام کی طرح، ایک فطری دائرے سے گزرتی ہیں—پیدائش، شباب، بڑھاپا، اور پھر زوال و فنا۔ اور یہ ایک جبری قانون ہے، جس سے کوئی تہذیب مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔
آرنلڈ ٹوائن بی کا کہنا ہے کہ تہذیبوں کا عروج و زوال ایک جبری عمل ہے، جو ان کے چیلنج اور ردِ عمل کے نظریہ کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یعنی ہر تہذیب ایک چیلنج کا سامنا کرتی ہے، اور اس کے ردِ عمل میں جو اقدامات کیے جاتے ہیں، وہی اس کی بقا یا زوال کا تعین کرتے ہیں۔ یہ اصول جبری قانون کے طور پر کام کرتا ہے۔
اوگست کومٹ اپنے تین مراحل کے نظریہ (Law of Three Stages)کے تحت یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انسانی معاشرہ تین ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے:
مذہبی مرحلہ جہاں خرافات اور دیومالائی عقائد غالب ہوتے ہیں۔فلسفیانہ مرحلہ جہاں انسان ان خرافات کو ماورائی دلائل (Metaphysical Reasoning) سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔سائنسی/انسانی مرحلہ جہاں انسان ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ ماضی کی خرافات اور مابعد الطبیعیات محض جہالت پر مبنی تھیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔کومٹ کے نزدیک یہ ایک جبری قانون ہے، جو انسانی معاشروں کی تاریخی پیش رفت کے سائنسی استقراء پر مبنی ہے، بالکل اسی طرح جیسے سائنسی تجربات میں اصول اخذ کیے جاتے ہیں۔نفساتی میدان میں، سگمنڈ فرائیڈ کا نظریہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال جبلت (Instinct) کے تابع ہیں، اور یہ بھی ایک جبری قانون ہے، جس کی بنیاد پر وہ انسانی مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
ان سب نظریات کے علاوہ بھی کئی دیگر فکری تصورات موجود ہیں، جن کی تفصیل کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ فلسفۂ تاریخ کے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ فلسفۂ تاریخ کی اساس معاشرتی حرکت پر ہے، جو انسانی تاریخ کے تمام پہلوؤں—سیاسی، اقتصادی، مذہبی، تہذیبی، عسکری، اور نفسیاتی—میں کارفرما ہے۔ یہ تمام تغیرات جبری قوانین کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں، اور ان کے اسباب اور اثرات مخصوص اصولوں کے مطابق متعین کیے جا سکتے ہیں۔اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ فلسفۂ تاریخ، وہ جبری قوانین ہیں جن کے ذریعے انسانی معاشرے کے مستقبل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے، اور وہی مستقبل ناگزیر طور پر وقوع پذیر ہوگا۔
فلسفۂ تاریخ پر تنقید
کارل پوپر فلسفۂ تاریخ پر تنقید کرتے ہوئے—تھوڑی ترمیم کے ساتھ—لکھتے ہیں:"مستقبل میں تاریخ کی سمت کی قطعی پیش گوئی ناممکن ہے، اور اس کی وجہ خالص منطقی اصول ہیں۔ انسانی تاریخ کا انحصار انسانی علم کی ترقی پر ہے، مگر چونکہ علم مسلسل بڑھتا اور تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لیے تاریخی جبریت کے قوانین قبل اور بعد از علمی ارتقا یکساں نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا، تاریخ کے مستقبل کی حتمی پیش گوئی ناممکن ہے۔ تاہم، یہ دلیل تمام سماجی پیش گوئیوں کو رد نہیں کرتی، جیسا کہ مخصوص شرائط کے تحت اقتصادی پیش گوئیاں ممکن ہیں۔ (بؤس الآيديولوجيا: 9، کارل پوپر)
یہ موقف فلسفۂ تاریخ کے جبری قوانین پر سوال اٹھاتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ انسانی تاریخ جامد اصولوں کے تابع نہیں بلکہ مسلسل تغیر پذیر ہے، اور اس تغیر کو کسی یقینی قانون کے تحت قید نہیں کیا جا سکتا۔
تمام مذکورہ بالا فلاسفۂ تاریخ مستقبل میں کسی نہ کسی جبری قانون کے تحت وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر یقین رکھتے ہیں، ہر فلسفہ اپنے مخصوص موضوع اور دائرۂ کار میں جبریت کو تسلیم کرتا ہے۔ مگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو ان تمام فلسفیانہ مکاتب میں مشترک چیز صرف جبریت (Determinism) کا اصول ہے، نہ کہ اس کا مواد یا حقیقی معنی۔ کیونکہ ہر فلسفہ مختلف چیزوں کو "ناگزیر" قرار دیتا ہے، جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی بھی مذکورہ جبری نظریے کو قطعی اور کلی طور پر درست نہیں کہا جا سکتا۔
اگر ہیگل کے نظریے کو دیکھا جائے—جو انسانی شعور کی ترقی اور مطلق روح کے ناگزیر ارتقا پر مبنی ہے—تو بظاہر یہی سب سے منطقی اور عقلی معلوم ہوتا ہے۔ مگر تاریخ کا عملی مشاہدہ اس نظریے کی تصدیق نہیں کرتا کیونکہ اگر انسانی شعور واقعی اپنی ترقی کر چکا ہوتا، تو کیا اتحادی افواج اور روسیوں نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برلن کی آزادی کے نام پر 20 لاکھ خواتین کی آبروریزی کی ہوتی؟! اور کیا 80 ملین انسان محض ایک جنگ میں مارے جاتے، جو انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں ہونے والی تمام جنگوں میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہیں؟!
اور اگر عقل و شعور کی ترقی جبری اصول پر مبنی ہوتی، تو ہمیں ویتنام، افغانستان، اور فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم اور الجزائر میں فرانسیسی قبضے کے نتیجے میں ایک ملین شہداء جیسے واقعات دیکھنے کو نہ ملتے۔ یہ تمام تاریخی حقائق ہیگلیائی جبریت کے خلاف جاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ تاریخ محض ترقی اور ارتقا کا سیدھا خط نہیں بلکہ پیچیدہ، غیر متوقع، اور غیر جبری عوامل کا مجموعہ ہے۔
تمام مذکورہ فلسفۂ تاریخ ایک یک سو سوچ (Monolithic Thinking) کے مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔مثلا مارکس کی معاشی مساوات کا نظریہ، زبان سے سننے میں جتنا دلکش لگتا ہے، وہ عملی طور پر اس کے نتائج بالکل برعکس ثابت ہوئے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص سوویت یونین یا چین کے ماو زے تنگ دورِ حکومت اور اس کے بعد کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالے، تو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مارکسی معاشرے میں انسانی وقار اپنی بدترین حالت میں رہا ہے۔
فرض کر لیں کہ مذکورہ بالا تمام تاریخی جبری نظریات اپنی جگہ درست ہیں، تو بھی وہ بنیادی اصلاح اور ازسرِ نو جائزے کے محتاج ہیں۔
یہ معاملہ نیوٹن کے قانونِ کشش ثقل (Newton’s Law of Gravity) کی طرح ہے۔ یہ کم رفتار اجسام اور بڑی کمیت والے اجسام پر جبری اور درست قوانین کے طور پر کام کرتے ہیں، مگر جب ہم روشنی کی رفتار کے قریب پہنچتے ہیں، یا جب ہم نہایت چھوٹے ذرات جیسے نیوٹرون، فوٹون، اور الیکٹران پر غور کرتے ہیں، تو نیوٹن کے قوانین ناکام ہو جاتے ہیں۔اسی طرح، فلسفۂ تاریخ کے یہ جبری اصول ایک محدود دائرے میں کارگر ہو سکتے ہیں، مگر انہیں آفاقی اور کلی قوانین سمجھنا غلطی ہوگی، کیونکہ تاریخ میں غیر متوقع، غیر جبری، اور تغیر پذیر عوامل ہمیشہ کارفرما رہتے ہیں۔
لہٰذا، ان فلسفیانہ نظریات کو مطلق اور قطعی حقیقت سمجھنا ممکن نہیں، چاہے وہ اپنی محدود حد میں جزوی طور پر درست ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریات مسلسل ترمیم اور درستگی کے محتاج ہیں، اور ان کے لیے انتہائی باریک بینی اور مسلسل غیر منقطع مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہی عمل آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافت (General Relativity) نے بھی انجام دیا، جہاں اس نے نیوٹن کے قوانین میں ترمیم اور وسعت پیدا کی، مگر اس کے باوجود یہ نظریہ بھی حقیقت کی مکمل ترجمانی نہیں کر سکتا۔اور یہ بھی مسلسل نظرِ ثانی، تجربات اور مشاہدات کا متقاضی ہے۔
کارل پوپر اسی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:"یہ تاریخی قوانین، اگر دریافت ہو بھی جائیں، تو یہ ہمیں دور دراز کے واقعات کی پیش گوئی کا موقع دیتے ہیں، مگر اس پیش گوئی میں جزئیات کی کوئی قطعی درستگی نہیں ہوتی۔(عقم المذهب التاريخي، کارل پوپر: ص55)
اسی وجہ سے، تجربے اور مشاہدے پر مبنی سائنسی فلسفے کے بعض مفکرین نے فلسفۂ تاریخ کو یکسر مسترد کر دیا اور جبریت پر شدید تنقید کی۔ ان میں سب سے نمایاں کارل پوپر ہیں، جنہوں نے قدرتی علوم، سیاسیات، سماجیات اور نفسیات سمیت ہر میدان میں جبریت کو سختی سے رد کیا۔
پوپر کے نزدیک، "مطلق جبریت" اور "حتمی مستقبل" کا کوئی وجود نہیں۔ وہ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ حقیقی علم وہی ہو سکتا ہے جو ہمیشہ امکان، مسلسل مشاہدے، اور جاری تجربے پر مبنی ہو۔
کارل پوپر کی لادریت (Indeterminism)
کارل پوپر (1902-1994)، جو کہ آسٹریا کے معروف فلسفی تھے، بیسویں صدی کے نمایاں سائنسی فلسفیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
وہ ان چند فلسفیوں میں شامل تھے، جنہوں نے فلسفۂ طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم میں جبریت پر شدید تنقید کی اور اس کے بالمقابل لادریت کا نظریہ پیش کیا۔
پوپر کا ماننا تھا کہ یہ دنیا مکمل طور پر پیش گوئی کے قابل نہیں اور سائنسی علم کی بنیاد "اثباتِ مطلق" پر نہیں بلکہ "تخطیہ" (Falsification) پر ہے۔ یعنی کسی سائنسی نظریے کو سچ ماننے کی بجائے، اسے غلط ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کی جانی چاہیے۔چونکہ مطلق اور حتمی صداقت کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں، اس لیے پوپر کا پورا فلسفہ "اثبات" (Verification) کی بجائے "ابطال" (Falsification) کے اصول پر استوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم ہمیشہ ممکنہ غلطیوں کے تسلسل میں پروان چڑھتا ہے، اور کبھی بھی مکمل و حتمی یقین کی حالت تک نہیں پہنچ سکتا۔اسی بنا پر، کارل پوپر کو لادری فلسفیوں میں شمار کیا جاتا ہے، بالکل ڈیوڈ ہیوم کی طرح۔
پوپر کا مؤقف یہ تھا کہ اللہ کے وجود کو ثابت کرنا ممکن نہیں، کیونکہ کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے مطلق یقین درکار ہوتا ہے، جو کہ تجربی اور سائنسی فلسفے میں ممکن نہیں۔تاہم، وہ خدا کے وجود کا انکار بھی نہیں کرتا تھا، کیونکہ کسی چیز کا قطعی انکار بھی مطلق یقین کا متقاضی ہوتا ہے، اور اس کا سائنسی (تکنیکی) فلسفہ اس یقین کو بھی حاصل کرنے سے قاصر تھا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پوپر کے نزدیک، ہر سائنسی دعوے کی صداقت یا کذب کا تعین تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ہوتا ہے، اور تاحال نہ کوئی تجربہ خدا کے وجود کو ثابت کر سکا ہے، نہ کوئی تجربہ اس کے عدمِ وجود کو قطعی طور پر ثابت کر پایا ہے۔چونکہ نہ اثبات ممکن ہے نہ نفی، اس لیے پوپر کا پورا فلسفہ "علم کی عدمِ قطعیت" اور "مطلق سچائی کی ناممکنیّت" پر قائم تھا۔یہ کارل پوپر اور تمام ملحدین و لادریوں کی ایک واضح غلطی ہے، کیونکہ جتنا بھی شک کیا جائے، یہ ممکن نہیں کہ ہم اس حقیقت پر شک کریں کہ ہر چیز کسی نہ کسی شے سے وجود میں آئی ہے۔
اگر یہ تسلیم نہ کیا جائے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ کوئی چیز عدم سے خود بخود وجود میں آ سکتی ہے، جو کہ نہ صرف مشاہدے اور تجربے کے خلاف ہے بلکہ طبیعیات کے مسلمہ قوانین بھی اس کو رد کرتے ہیں۔یہاں تک کہ کارل پوپر جیسے لادری، یا دیگر ملحدین بھی اس وقت تک اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے، جب تک کہ وہ فزکس کے بنیادی قوانین ہی کا انکار نہ کر دیں۔کیونکہ کائنات میں موجود چار بنیادی قوتیں۔
قوتِ ثقل (Gravity)، برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic Force)، ایٹمی قوتِ قویہ (Strong Nuclear Force)، ایٹمی قوتِ ضعیفہ (Weak Nuclear Force)
یہ سب تبھی قابلِ فہم ہیں جب ان کا تعلق کسی موجود شے سے ہو۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ قوتیں کسی شے کے بغیر از خود وجود میں آ گئیں، تو یہ سائنسی طور پر ناقابلِ قبول ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ کارل پوپر یا کوئی بھی ملحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ کائنات واقعی "عدم"سے پیدا ہوئی ہے۔لہٰذا، یہ قطعی ہے کہ ہر چیز کسی نہ کسی شے سے آئی ہے، چاہے انسانی عقل اس بنیادی شے کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہی کیوں نہ ہو۔
نظریۂ عظیم دھماکہ (Big Bang Theory)، چاہے ماہرینِ طبیعیات اس کی تشریح میں جتنا بھی اختلاف کریں، ایک بنیادی حقیقت پر سب کا اتفاق ہے:زمان و مکان، مادّہ، تمام ابعاد حجم ، اور شکل ابتدا میں سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔یہ سب کچھ عدم سے نمودار ہوا، یا یوں کہہ لیں کہ یہ کسی شے کے ذریعے وجود میں آیا، جس کے بارے میں طبیعیات آج تک مکمل وضاحت دینے سے قاصر ہے۔البتہ، طبیعیات دان اتنے یقین کے ساتھ یہ ضرور مانتے ہیں کہ کوئی ایسی قوت یا چیز موجود تھی جس سے یہ سب کچھ پیدا ہوا، یا یہ سب کچھ اُسی سے نکلا ہے۔
اس حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک مثال:
جدید طبیعیات میں، ماہرینِ فلکیات نے ایک ایسی چیز کا حتمی طور پر اعتراف کر لیا ہے جسے وہ " تاریک مادّۂ " (Dark Matter) کہتے ہیں، حالانکہ کسی نے اسے دیکھا نہیں!یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ کائنات بنیادی طور پر دو چیزوں پر مشتمل ہے:مادّہ اورتوانائی اب، سائنسی تخمینوں کے مطابق:عام مادّہ صرف 4.9% ہے، یعنی جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے وہ کائنات کا محض چھوٹا سا حصہ ہے۔مادّۂ تاریک (Dark Matter) 26.8% ہے، یعنی ایک بڑی مقدار میں ایسا مادہ موجود ہے جسے ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔ باقی ماندہ 68.3% حصہ تاریک توانائیٔ (Dark Energy) پر مشتمل ہے، جس کے بارے میں بھی سائنس زیادہ نہیں جانتی۔انہوں نے اس کے وجود کو یقینی طور پر تسلیم کیا، حالانکہ یہ نہ تو کوئی روشنی خارج کرتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی تابکاری، اور نہ ہی اب تک دنیا کے سب سے طاقتور دوربینوں اور عدسات سے دیکھا جا سکا ہے۔انہوں نے اس کے وجود کو یقینی طور پر تسلیم کیا کیونکہ کائنات میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ موجودہ معلوم مادّے سے وضاحت نہیں پاتا، اس لیے یہ ضروری ہو گیا کہ ایک "غیر مرئی مادّہ" فرض کیا جائے۔
اس کی سب سے بڑی دلیل کہکشاؤں میں ستاروں کی غیر متوقع رفتار ہے:اگر کہکشاؤں میں صرف وہی مادّہ موجود ہوتا جو ہمیں نظر آتا ہے، تو اس کا کل وزن بہت کم ہونا چاہیے تھا۔نیوٹن اور آئن سٹائن کی طبیعیات کے مطابق، مرکز سے دور موجود ستاروں کو آہستہ حرکت کرنی چاہیے تھی۔لیکن جب سائنسدانوں نے ستاروں کی رفتار ناپی تو وہ توقع سے کہیں زیادہ تیز نکلے!یہ تضاد صرف اسی صورت میں حل ہوتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ کہکشاؤں میں "مزید اضافی مادّہ" موجود ہے، جو نظر نہیں آتا مگر اپنی کششِ ثقل سے ستاروں کو تیزی سے حرکت دے رہا ہے۔لہٰذا، اگر سائنس محض مشاہدے اور اثرات کی بنیاد پر "مادّۂ تاریک" جیسے غیر مرئی عنصر کا وجود تسلیم کر سکتی ہے، تو اسی سائنسی اصول کے تحت، ایک "غیر مرئی خالق" یا "مطلق سببِ اوّل" کے امکان کو بھی یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔
پیش گوئی اور پیشین بینی
کارل پوپر پیش گوئی اور پیشین بینی میں فرق کرتا ہے۔ وہ پہلی کو "سائنسی یا تکنیکی پیش گوئی" کہتا ہے، جو سائنسی تجربات اور مشاہدات کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، موسم کی پیشن گوئی مخصوص سائنسی قوانین، تجربات اور ریاضیاتی ماڈلز کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے۔پوپر کے مطابق، اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنسی پیش گوئی مشاہدے اور تجربے کے ذریعے قابلِ تصدیق ہوتی ہے، جبکہ تاریخی پیشین گوئی (جسے وہ "تاریخی حتمیت" کہتا ہے) ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی تبدیلیوں، سیاسی تحولات اور تاریخی ارتقاء کو کسی سائنسی یا تکنیکی اصول کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔پوپر کہتا ہے:تاریخیت پسند، جو سماجی تجربات کو ناممکن اور بے فائدہ سمجھتے ہیں، تاریخی پیشین گوئی کو ترجیح دیتے ہیں، یعنی وہ سماجی، سیاسی اور نظامی ارتقا کی پیش گوئی کرنا چاہتے ہیں۔(عقم المذهب التاريخي، ص 59(
پوپر کا مقصد اس بات کا انکار کرنا ہے کہ تاریخ میں کوئی مطلق حتمیت موجود ہے، جیسا کہ فلاسفۂ تاریخ کا دعویٰ ہے۔ وہ اگرچہ اس امکان کو مکمل طور پر مسترد نہیں کرتا کہ بعض اوقات تاریخی پیشین گوئی ممکن ہو سکتی ہے، لیکن اسے ایک حتمی اور قطعی قانون کے طور پر تسلیم کرنا اس کے نزدیک ناممکن ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی معاشروں اور ان کے رویّوں کو—خواہ مثبت ہوں یا منفی—کسی ایک مستقل طبیعیاتی (فزیکل) قانون کے تحت نہیں لایا جا سکتا، جیسا کہ موسم کی پیش گوئی یا کسی سیارے کی رفتار معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اسلام میں حتمیت
اسلام نے اگرچہ حتمیت کو تسلیم کیا ہے، بلکہ اس کی دعوت بھی دی ہے، اور یہ بیان کیا ہے کہ انسانی معاشرے کا مستقبل ایک روشن انجام کی طرف ضرور جائے گا—کسی نامعلوم وقت میں، جیسا کہ قرآن نے بارہا ذکر کیا—لیکن اس کے باوجود، اسلام نے انسان کی آزادیِ کو نہیں چھینا۔انسان کو اپنے تاریخی مستقبل کی تشکیل میں اختیار دیا گیا ہے، اور معاشرہ بھی اپنی بہت سی تقدیر شدہ (محتوم سمجھی جانے والی) صورتِ حال کو بدلنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، برخلاف اس نظریے کے جو فلاسفۂ تاریخ نے پیش کیا، جس میں معاشرے کو ایک بے جان مشین سمجھا گیا ہے، جو بجلی ملنے پر لازماً پانی کو ٹھنڈا کر دیتی ہے، جیسے ایک فریج کا اصول۔
قرآن انسانی سماج کو ایسی زرخیز زمین کی مانند دیکھتا ہے، جو میٹھے پھل اور عمدہ پیداوار دے سکتی ہے—بشرطیکہ انسان اس میں محنت کرے، بیج بوئے، ضروری وسائل فراہم کرے اور رکاوٹوں کو دور کرے۔اسی زمین پر اگر غفلت برتی جائے، تو یہی زمین نقصان دہ جڑی بوٹیوں اور بے فائدہ پودوں سے بھر سکتی ہے۔ اسی طرح انسانی سماج بھی ترقی اور زندگی پا سکتا ہے، یا پھر زوال کا شکار ہو کر مردہ ہو سکتا ہے، اور اس کا انحصار خود انسان کے اختیار اور معاشرتی ارادے پر ہے۔یہ ممکن تھا کہ انسانی معاشرہ ایڈز جیسی بیماری سے محفوظ رہتا، اگر وہ زنا اور لواطت سے باز رہتا، خاص طور پر جانوروں کے ساتھ بدفعلی سے، لیکن جب اس نے بندروں اور کتوں جیسے جانوروں کے ساتھ یہ عمل کیا تو ایڈز پھیل گیا۔
اسی طرح، اگر انسان اپنی سرکشی اور پاگل پن کو قابو میں رکھتا اور تابکار مادوں اور جوہری ری ایکٹرز کو صرف ایٹمی ہتھیار بنانے کے بجائے احتیاط سے استعمال کرتا، تو کئی اقسام کے سرطان سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ وہ جگر کی خرابی سے بھی بچ سکتا تھا، اگر شراب نوشی ترک کر دیتا۔یہ بھی ممکن تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں 80 ملین انسان ہلاک نہ ہوتے، اگر نازی ازم، فاشزم، کمیونزم، مغربی سرمایہ داری اور جاپانی سلطنت کی جنونیت زیادہ انسانی اور کم وحشی ہوتی۔ جبکہ ایسا کرنا سب کے لیے ممکن تھا۔
قرآن میں دو طرح کی حتمیت . سلام کی فلسفۂ تاریخ
ہم یہ سوال کرتے ہیں: کیا انسانی معاشرے میں یہ ممکن ہے کہ انسان اپنے بھائی انسان کے ساتھ انسانیت، عقل، نرمی، رحم، محبت اور تعمیر و ترقی کے ساتھ پیش آئے؟ کہ وہ اپنے بھائی کو قتل نہ کرے، اس کی عزت نہ پامال کرے، اس کے حقوق نہ چھینے، اور فطرت کو تباہ نہ کرے، تاکہ وہ فرشتوں جیسا ہو جائے؟!!اور دوسری طرف، کیا یہ بھی ممکن ہے کہ انسان بدترین درندہ بن جائے؟ کہ وہ خنزیر کی طرح اپنی ہی غلاظت کھائے، یا بھوک لگنے پر اپنی ہی اولاد کھا جائے؟ کہ وہ چوہے کی طرح اپنی ماں سے جنسی تعلق قائم کرے، یا محض اقتدار کے لیے اپنے باپ کو قتل کر دے؟ جیسا کہ بعض شہزادیاں، جو تخت کے وارث کو جنم دینے کے لیے اپنے بھائیوں سے تعلق قائم کر لیتی تھیں؟!!
قرآن انسان کو اسی متغیر حالت میں پیش کرتا ہے، جہاں اس کی تقدیر اس کے اپنے اختیار سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں کوئی ایسی مطلق حتمیت نہیں جو ہر چیز پر ہمیشہ کے لیے حاوی ہو، نہ مثبت طور پر اور نہ ہی منفی طور پر، نہ خیر میں اور نہ ہی شر میں۔ بلکہ، دونوں راستے انسان اور معاشرے کی پسند پر منحصر ہیں۔ قرآن یقیناً حتمیت کا قائل ہے، لیکن قریبی حتمیت اچھی ہوگی یا بری، یہ مکمل طور پر انسان کے اختیار پر منحصر ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود، قرآن دو طرح کی حتمیت کا اعلان کرتا ہے:
پہلی: حق کی بقا اور باطل کی موت۔قرآن کہتا ہے(:وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ) (اللہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے نور کو مکمل کرے، چاہے کافر اسے ناپسند کریں)۔یہاں "کافر" کا مفہوم صرف اللہ کے وجود کا انکار کرنے والے تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کی وسیع تعبیر کے مطابق، اس میں ہر ظالم، سرکش، فرعونیت کا شکار، حق کا انکار کرنے والا، اور انسانیت کی حرمت پامال کرنے والا شامل ہے۔یہ آیت کوئی محض مابعدالطبیعیاتی نظریہ نہیں، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جس قدر بھی شک کریں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری انسانی تاریخ میں تمام لوگ ظلم اور جہالت کو بُرا اور علم، انصاف، اور رحم کو اچھا سمجھتے رہے ہیں۔
یہی وہ مخفی اصول ہے جو تاریخ میں ہر ظالم سلطنت کے زوال کا سبب بنا۔ اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے گا (چاہے ہمیں اس کا وقت معلوم نہ ہو) جب انسان تمام حقیقی اسباب اور حقائق کو جان لے گا جو ظلم سے پاک ہوں گے، اور انہیں قبول کرے گا۔ یہاں تک کہ کارل بوبر اور دیگر "لاحتمیت" (Indeterminism) کے قائلین بھی اس امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔
تو ہم یہ نہیں سمجھتے کہ پروفیسر بوبر اور دیگر "لاحتمیت" کے قائلین نو ہزار سالہ انسانی تاریخ کے اس تجربے کا انکار کریں گے، جس میں ہر ظالم سلطنت اور جابرانہ نظام ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔ ان کے زوال کی واحد وجہ یہی تھی کہ وہ انصاف، علم، اور رحمت—جو بقا کے بنیادی اصول ہیں—سے محروم تھے۔یہ وہ حقیقی انسانی علم ہے جو رحم اور شعور سے مزین ہو، اور جس کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی، خون کا سرطان، ایڈز، ایبولا، کورونا، اور جنگوں میں لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام نہ ہو۔
یورپ میں طاعون نے لاکھوں انسانوں کو ختم کر دیا تھا، یہاں تک کہ یورپ کی ایک تہائی آبادی ختم ہو گئی، لیکن آج وہ طاعون خود مٹ چکا ہے، اور انسان باقی ہے۔ اسی طرح، انسانی تاریخ میں ظلم و ستم کے نظام اور شیطانی سلطنتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہیں، اور آخرکار انسان ہی اس جدوجہد میں کامیاب رہا، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ چکانی پڑی ہو۔
قرآن کہتا ہے:("وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ، وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ)(اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور بنا دیے گئے لوگوں پر احسان کریں، انہیں پیشوا بنائیں اور انہیں وارث بنائیں، اور زمین میں انہیں اقتدار عطا کریں، اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس کا انہیں ڈر تھا)۔
دوسری: مادہ کی فنا
قرآن میں ایک اور حتمی اور ابدی یقین پایا جاتا ہے، جو کہتا ہے: "كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ"(ہر چیز فنا ہو جائے گی سوائے اُس کے چہرے کے)۔یہ "وجه الله" محض کوئی مابعدالطبیعیاتی تصور نہیں، بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ ان حقیقتوں کو بھی شامل کرتا ہے جنہیں لیبارٹری پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے، مگر ان کے وجود پر سائنس کو یقین ہے۔"وجه الله" کا وسیع مفہوم، کائنات کے مرئی وجود کی علتِ اولیٰ پر بھی محیط ہے۔ جدید طبیعیات کے کچھ ماہرین کے مطابق، بگ بینگ تھیوری یہ بتاتی ہے کہ کائنات کی ایک ایسی ابتدا تھی جو مادی نہیں تھی، یعنی وہ وقتاور مکان کے تابع نہیں تھی۔ اسی طرح، انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ کائنات کی ایک غیر مادی انتہا بھی ہونی چاہیے جو وقت اور مکان کے قوانین سے آزاد ہوگی۔
گویا، جو بھی چیز ایک نقطۂ آغاز رکھتی ہے، اس کا ایک اختتام بھی لازمی ہے۔ یہ ایک حتمی فطری سائیکل ہے، جس سے فرار ممکن نہیں۔بے شک، ماہرینِ طبیعیات اس بات پر متفق تو ہیں کہ کائنات کی ایک ابتدا تھی، لیکن وہ اس کے حقیقی سبب (Cause) کو سمجھنے کے مقابلےمیں اب تک حیران ہیں۔ان کا سوال یہ ہے کہ یہ ابتدا کیسے ہوئی؟ کیوں ہوئی؟ اور کب ہوئی؟ اگرچہ ان سوالات پر کوئی قطعی حتمیت نہیں، لیکن ایک چیز حتمی ہے: اس کائنات کے وجود کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہے۔
یہ ایک ایسی ناقابلِ انکار حقیقت ہے جسے کارل پوپر (Karl Popper) جیسے فلسفی بھی رد نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر زمان اور مکان وجود میں آئے ہیں ، تو لازمی طور پر ان کے لیے کوئی ایسا سبب (Cause) ہونا چاہیے جو خود ان دونوں سے ماورا ہو، جو "قبل از وقت" (Timeless) اور "غیر مکانی" ہو، اور جو اس پوری کائنات کو ایک نقطۂ انفرادیت سے وجود میں لانے پر قادر ہو۔