

| دین کیوں؟ | کیا دین کا رازِ بقاء مبنی بر تعصب ہے؟

کیا دین کا رازِ بقاء مبنی بر تعصب ہے؟
الشيخ معتصم السيد أحمد
بعض ملحدین کا یہ دعویٰ ہے کہ مذاہب کے صدیوں تک قائم رہنے کی ایک بڑی وجہ "تعصب" ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعصب نہ ہوتا تو شاید مذاہب بھی قدیم داستانوں اور افسانوں کی طرح مٹ چکے ہوتے۔ اس مضمون میں ہم اس نظریے کا تجزیہ کرتے ہوئے مفاہیم میں فرق واضح کرنے، تعصب کی حقیقت کو بیان کرنے اور مذہبی رجحانات میں اس کے تناسب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، نیز آخر میں اس دعوے میں موجود فکری مغالطے پر تنقیدی نظر ڈالیں گے۔اس دعوے کو سمجھنے کے لیے کہ تعصب ہی مذاہب کو باقی رکھنے کا ذریعہ ہے، سب سے پہلے خود "تعصب" کے مفہوم پر غور کرنا ضروری ہے۔ عموماً تعصب کو ایک منفی مفہوم کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، اور یہ تصور عام ہے کہ ہر تعصب لامحالہ تنگ نظری، جہالت اور سچائی کے انکار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاہم جب ہم اس اصطلاح کے معنی کا بنظر عمیق جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کی نوعیت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اور اس پر کسی حتمی منفی حکم کا اطلاق تبھی درست ہو سکتا ہے جب اس کی قسم، ماخذ اور محرکات کا واضح تعین کیا جائے۔
لوگوں کے مابیں رائج الفاظ کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلی قسم وہ الفاظ ہیں جن کا مطلب بذاتِ خود اچھا یا بُرا ہوتا ہے، جیسے 'انصاف' جو خود اچھائی کی علامت ہے، یا 'ظلم' جو خود برائی کی علامت ہے۔ یہ قسم اس قدر واضح ہے کہ یہ مزید کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتی
دوسری قسم کے الفاظ وہ ہیں جو اصل میں اچھے یا بُرے سمجھے جاتے ہیں، مگر بعض حالات میں ان کا حکم بدل سکتا ہے۔ مثلاً 'سچ بولنا' عمومی طور پر اچھا ہے، لیکن اگر سچ بولنے سے کسی بےگناہ کی جان خطرے میں پڑ جائے، تو اس وقت سچ بولنا پسندیدہ نہیں رہتا۔ اسی طرح 'جھوٹ بولنا' عمومی طور پر بُرا ہے، لیکن اگر کسی بے گناہ کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولا جائے تو یہ قابل تعریف بن سکتا ہے۔
تیسری قسم کے الفاظ وہ ہیں جو اپنی ذات میں نہ اچھے ہوتے ہیں نہ برے، بلکہ ان کی اچھائی یا برائی کا تعلق اس موقع یا مقصد سے ہوتا ہے جس کے لیے وہ استعمال کیے جائیں۔ جیسے 'مارنا'، 'روکنا'، 'سختی'، یا 'تعصب' ۔ ہم ان کے بارے میں اچھا یا بُرا فیصلہ نہیں دے سکتے جب تک یہ نہ جان لیں کہ یہ کیوں اور کیسے کیے گئے۔ اگر مارنا تربیت یا انصاف کے لیے ہو تو اچھا سمجھا جائے گا، اور اگر صرف تکلیف دینے کے لیے ہو تو برا ہوگا۔ اسی طرح تعصب، اگر حق کے لیے ہو تو قابلِ تعریف ہے، اور اگر باطل کے لیے ہو تو قابلِ مذمت ہے۔
تعصب بطورِ صفت ایک ایسی نفسیاتی اور عملی کیفیت ہے جو کسی خیال یا موقف پر اصرار کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ اصرار کبھی علم و بصیرت پر مبنی ہوتا ہے اور کبھی جہالت، جبلّت یا محض جذبات کی بنیاد پر۔ چنانچہ جو شخص حق کو پہچان کر اور یقین کے ساتھ اس سے وابستہ ہے، وہ اس شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو خواہش نفس، خوف، یا خاندانی و سماجی دباؤ کے تحت باطل سے تعصب برتتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر انسان کا سچائی پر یقین مضبوط ہوتا ہے، اسی قدر اس کی وابستگی اور ثابت قدمی پُر ا عتماد ہوتی ہے۔اس صورت حال کے تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اصرار کو بھلاکس طرح مذموم تعصب کہا جا سکتا ہے؟ نیزحق پر ثابت قدمی کو بھی بصیرت کے اندھے پن سے تعبیر کرنا درست نہیں کیونکہ یہ تو درحقیقت بصیرت کی صحت اور سلامتی کی علامت ہے۔
اسی بنیاد پر، یہ کہنا درست نہیں کہ "تعصب" اپنی ہر صورت میں منفی مفہوم رکھتا ہے، بلکہ اس کے درست یا غلط ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ بھلا کس چیز کے لیے تعصب برتا جا رہا ہے، اور یہ کہ وابستگی کن اسباب سے پیدا ہوئی ہے۔ یعنی آیا وہ عقلی قناعت کا نتیجہ ہے یا محض جذباتی جوش کا؟ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مذاہب، خصوصاً اسلام، محض جذبات یا خواہشات پر مبنی تعصب کی تائید نہیں کرتے، بلکہ وہ اس رویے پرنظرثانی، غوروفکر اور عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں، حتیٰ کہ سخت ترین حالات میں بھی۔
اسلام نے اپنے ابتدائی دور ہی سے مؤمن فرد کی ایسی تربیت کی کہ وہ خواہشات نفس کی بجائے حق کا پابند اور جبلّت کی بجائے عدل کا تابع ہو۔ قرآن مجید نے تو انصاف کا ایسا معیار مقرر کیا ہے جو ذاتی اور خاندانی مفادات سے بھی بلند تر ہے، اور اس نےعدل پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے، خواہ یہ پیمانہ عدل اپنی جان یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ)
"اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو، چاہے وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔" (النساء: 135)
پھر دشمنوں کے معاملے میں بھی انصاف کی تاکید فرمائی: (وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا)
"اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔" (المائدة: 8)
تو کیا ایسے دین پر، جو اپنے پیروکاروں کی ایسی اعلیٰ سطح کی انصاف پسندی پر تربیت کرتا ہے، یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اندھے تعصب پر قائم ہے؟
دوسری جانب، اسلام نے حق کی پابندی کے معاملے کو ذاتی اجتہاد یا بدلتے ہوئے مفادات و خواہشات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس نے اسے ہر مؤمن کےلئے ایک دینی اور اخلاقی فریضہ قرار دیا ہے۔حتی کہ اس میں کوتاہی کرنا دینی شناخت کو خطرے میں ڈالنے اور صراطِ مستقیم سے انحراف کا سبب تک بن سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
﴿فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ﴾،"یہی اللہ تمہارا سچا رب ہے، پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ جاتا ہے؟" (یونس: 32)
چنانچہ حق پر ثابت قدمی کو ہٹ دھرمی یا تنگ نظری نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ اس شعور اور بصیرت کا ثمرہ ہے، جو اس راسخ ادراک سے پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز حق کے خلاف ہے وہ باطل ہے، اور جو عدل سے ہٹ جائے وہ ظلم ہے۔
چنانچہ ایک سچا مؤمن اپنے دین سے محض تقلید، وراثت یا تنگ نظری کی بنیاد پر وابستہ نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے وابستہ ہوتا ہے کہ جس پر وہ ایمان لایا ہے، اس تک وہ دلیل اور گہرے اطمینان بخش یقین کے ذریعے پہنچا ہے۔ یہی بات قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے:(وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ)
"اور تاکہ وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے، جان لیں کہ یہ (قرآن) آپ کے رب کی طرف سے حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں۔" (الحج: 54)
جہاں تک یہ دعویٰ ہے کہ دین محض تعصب کی بدولت باقی رہا ہے، تو یہ ایک دوہری مغالطہ آرائی پر مبنی ہے:
اولاً، یہ کہ تعصب کو مطلقاً منفی معنی میں سمجھا گیا ہے۔
ثانیاً، یہ کہ ان حقیقی عوامل کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جن کی بدولت دین باقی رہا، جیسے اس کی معقولیت، اس کی معنوی گہرائی، اور انسان کی روحانی اور اخلاقی ساخت میں اس کا بنیادی مقام۔ پس اگر دین محض تعصب پر قائم ہوتا، تو تعصب کے حالات کے ختم ہوتے ہی وہ بھی ختم ہو جاتا، جیسے بہت سی فکری تحریکیں اور وقتی سیاسی نعروں پر مبنی تحریکیں حالات کے بدلنے کے ساتھ ہی مٹ گئیں۔
نیز یہ کہ وہ دین جو حق پر قائم ہو اور جو ایک مکمل علمی اور اخلاقی نظام کی بنیاد بھی رکھتا ہو، اسے محض تعصب کے رجحان میں سمیٹ دینا ممکن نہیں۔ بلکہ وہ تو ایک مکمل طرزِ حیات کا منصوبہ ہے جو عدل پر مبنی ہے، رحمت کی دعوت دیتا ہے، عقل سے مکالمہ کرتا ہے، نفس کی تربیت کرتا ہے اور انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خواہشاتِ نفس سے بلند ہو جائے۔
پس ایسا دین نہ تو اپنے پیروکاروں کے بعض انفرادی رویوں تک محدود ہو سکتا ہے،اور نہ ہی چند جاہل افراد کے غلط طرز عمل کی بنیاد پر اس پر الزام دھرا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس کے تسلسل اور بقا کو محض کسی اجتماعی نفسیاتی کیفیت یعنی تعصب کا نتیجہ سمجھنا بھی ایک بڑی غلطی ہے۔
پس یہی کہا جا سکتا ہے کہ دین کو تعصب کے ساتھ جوڑنا ایک بہت سادہ اور غلط خیال ہے۔ دراصل یہ الزام خود ایک قسم کے مخالف تعصب کو ظاہر کرتا ہے، جو نہ تو حقیقت پر مبنی ہوتا ہے اور نہ ہی کسی سائنسی طریقے سے سوچا جاتا ہے۔جہاں کچھ لوگ دین کو بغیر سوچےسمجھے اختیار کرتے ہیں، وہیں بہت سے لوگ گہری غور و فکر اور تحقیق کے بعد ایمان لاتے ہیں، اور وہ دین سے اس لیے جڑے رہتے ہیں کیونکہ انھیں اس کی حقیقت، انسان کی فطرت سے ہم آہنگی اور روحانی ضرورتوں کی تکمیل کا کامل یقین ہوتا ہے، نہ کہ باہر کے کسی دباؤ کی وجہ سے۔دین پر ثابت قدم رہنا تنگ نظری یا تعصب نہیں ہوتا، بلکہ یہ زیادہ تر شعور، سمجھ اور ذاتی تجربے کا نتیجہ ہوتا ہے، جو انسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ دین صرف تفریح یا وقت گزاری کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ زندگی کی ایک ضروری حقیقت ہے، جو انسان کے اندر کی گہری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
اسی لیے دین کا باقی رہنا تعصب کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسان کی روح کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔