18 ذو القعدة 1446 هـ   16 مئی 2025 عيسوى 4:04 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | دین کیوں؟ |  سائنس، دین کی نعم البدل
2025-04-10   142

سائنس، دین کی نعم البدل

السيد علي العزام الحسيني

"ایک نشے میں دھت شخص سڑک کے دائیں جانب ایک لائٹ کے نیچے اپنی گم شدہ چابی تلاش کر رہا ہےحالانکہ اس کی چابی سڑک کے بائیں طرف گم کی تھی،جب چابی بائیں جانب گم ہوئی تو یہ دائیں جانب کیوں تلاش کر رہا تھا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی صرف دائیں طرف تھی!"

یہ منظر (جسے نقل کیا گیا ہے) اس خیال کو مختصر طور پر پیش کرتا ہے نشے میں دھت شخص علم کی بجائے سائنسزم (Scientism) کی نمائندگی کرتا ہے یہ ایک ایسی سوچ ہے جو نیچرل علوم میں تحقیق کے طریقوں سے کسی بھی حقیقت کو رد کرتی ہے جو ان کے طریقوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ یہ مکتبہ فکر وجودی مسائل کو سائنسی وسائل کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ مکتب فکر یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وضعی علم تمام دیگر علوم بشمول مذہب کے لیے متبادل ہو سکتا ہے۔ ان کا آخری نعرہ یہ ہوتا ہے کہ سائنس کو مذہب کا متبادل بنانا چاہیے! سب سے پہلے ہمیں اس کی نعرے  کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کیا ہے؟

سائنس کو مذہب کا متبادل سمجھنے کی وجوہات:

تصور کریں کہ ایک خاتون افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہے اور افریقیوں کا عیسائی ہونے کا عمل سست رفتاری سے جاری تھا۔ پھر ایک دن ایک بچہ ایک متعدی بیماری میں مبتلا ہوگیا جس کے علاج کے لیے قبائلی ڈاکٹروں نے مل کر کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا! بچہ کی حالت بگڑتی گئی اور اس کی زندگی موت کی طرف بڑھنے لگی۔ اسی وقت وہ تبلیغ کرنے والی خاتون اچانک یاد کرتی ہیں کہ ان کے سفر ی بیگ میں کچھ پنسلین کی گولیاں موجود ہیں۔ وہ فوراً وہ گولیاں بچے کو دیتی ہیں اور چند ہی لمحوں میں بچہ بیماری سے صحت یاب ہو جاتا ہے!

آبليارد کہتا ہے: "اس فرد (واحد) کے عمل کے ذریعے پوری قبائلی ثقافت کا خاتمہ ہوگیا اور انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی تمام ثقافت کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی! اگر وہ قبائل صرف اتنا سوچ پاتے اور اپنے آپ سے کہتے کہ مبلّغہ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ہمارے جسموں کے بارے میں وہ چیزیں جانتی ہے جو ہم نہیں جانتےاس پر ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہمیں اس سوال کا جواب یہ دوا نہیں بتاتی کہ ہم کون ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم اس دنیا پر کیوں موجود ہیں؟ ہمیں یہاں کیا کرنا چاہیے؟ اور جب ہم مر جائیں گے تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنے کی کوئی منطقی وجہ نہیں ہے، ہم صرف اس کا علاج قبول کریں گےساتھ ہم اپنے دین کی عزت و احترام کرتے رہیں اور اس کے عظیم اصولوں کے مطابق چلیں گے۔( لماذا الدين ضرورة، ص86).یہ قبائل (سائنسزم) کی نمائندگی کرتے ہیں اور پنسلین کی گولیاں وہ مسائل ہیں جو سائنسی تاریخ میں "دین اور سائنس کے درمیان تنازعہ" کے طور پر موجود ہیں۔یہاں سائنس نے کچھ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ مسائل سائنس کو دین کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کے لیے بطور جواز پیش کیے جاتے ہیں ہم تین اہم جواز پیش کرتے ہیں:

جغرافیائی نقطہ نظر کے مطابق زمین کا ئنات کا مرکز ہے اور ساکن بھی ہے۔یہاں سائنس نے بظاہر مذہبی نقطہ نظرپر  واضح کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ جب کلیسا نے بطلیموس (87 – 150 عیسوی) کے زمین ساکن ہے اور دیگر سیاروں کے مقابلے میں اس کی مرکزیت کے نظریے کو قبول کرلیا۔ تاہم، یہ نقطہ نظر بعد میں کوپرنیکس (مر: 1543 عیسوی) کے نظریے اور گلیلوے (مر: 1642 عیسوی) کی دوربین سے مشاہدات کے ساتھ بدل گیا۔ کلیسا نے گلیلوے کو کفر کا مرتکب قرار دیا اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں معروف ہےجس کے نتیجے میں گلیلوے کو مجبوراً کلیسا کے سامنے توبہ کا اعلان کرنا پڑا۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس نظریہ میں اسلام کس طرف ہے؟جب ہم اسلامی نصوص میں زمین کے ساکن ہونے یا مرکزیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں ایسی کوئی بات موجود ہے جو اس حقیقت کے خلاف ہو یا اسے مسترد کرے۔

بیالوجی میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء، جس کے مطابق انسان کو کسی خدائی عمل سے براہ راست پیدا نہیں کیا گیا جیسا کہ مذہب یہی کہتا ہے۔ڈارون کے مطابق یہ تخلیق مسلسل ارتقاء کے عمل کا نتیجہ ہے۔جب ڈارون کی کتاب "اصل انواع" شائع ہوئی، اس سے ایک سال بعد 1860 میں علمِ حیات کے ماہر تھامس ہکسلی (جو 1895 میں وفات پا گئے) اور آکسفورڈ کے بشپ سیموئیل ویلبرفورس (جو 1873 میں وفات پا گئے) کے درمیان سائنس اور عیسائیت کے درمیان مشہور ترین مناظرہ ہوا۔ بشپ ویلبرفورس نے بار بار ڈارون اور اس کے نظریے کی مذمت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس اسقف نے اپنے خطبے میں فخر سے کہا کہ وہ انسانوں سے بندر کی نسل سے نہیں آیا! ہکسلی نے جواب دیتے ہوئے کہا: "اگر مجھے انتخاب کا حق دیا جائے تو میں ترجیح دوں گا کہ میں کسی نچلی نسل کے بندر کی عورت سے ہوں بجائے اس کے کہ میرا ولاد انسان ہو جو اپنی خطابی طاقت کا استعمال ان لوگوں کو حقیر کرنے میں کرے جو سچائی کی تلاش میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔" (بین دین اور سائنس، ص186)۔

بیشتر علما اور مفکرین اس تصور کو "تطوير"، "مقصد کے ساتھ ارتقاء" یا "توحیدی ارتقاء" کا نام دیتے ہیں۔یہ تمام اصطلاحات ایک ایسے رجحان کی عکاسی کرتی ہیں جسے فرانسس کولنز جو "انٹرنیشنل ہیومن جینوم پروجیکٹ" کے صدر ہیں انہوں نے یوں بیان کیا:

اللہ  تعالی جو کسی وقت یا جگہ میں محدود نہیں ہے، وہی ہے جس نے اس کائنات کو پیدا کیااور وہی ہے جس نے اس کے قوانین کو وضع کیا ہے۔ اس کائنات میں جاندار مخلوقات لانے کے لیےاللہ نے ارتقاء کے طریقہ کار کو منتخب کیا تاکہ مختلف قسم کے خوردبین جاندار، پودے اور جانور تخلیق کرے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اللہ نے اسی طریقہ کار کو اس منفرد مخلوق کو پیدا کرنے کے لیے بھی منتخب کیا جس کے پاس ذہانت ہو اور جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ (زبانِ خدا، ص219)۔

ایک اور انداز میں سمجھتے ہیں: یہاں ایک منطقی غلطی جو ایک قسم کی تشخیصی غلطی ہے وہ موجود ہے ،یہ اس خیال میں پائی جاتی ہے کہ اللہ کا تصور اور حیاتیاتی ارتقاء ایک دوسرے کو مسترد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء ایک حیاتیاتی ذریعہ ہے جبکہ اللہ تعالی خالق ہے جو اس آلے کے پیچھے کارفرما فاعل اور اس ارتقاء کے عمل کو ڈیزائن کرنے والا ہےاور وہی ہے جو حیاتیاتی قوانین تخلیق کرتا ہے جن کے تحت جاندار مخلوقات کام کرتی ہیں۔ جیسے کہ فورڈ کار کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنا یہ دلیل نہیں بنتا کہ مسٹر فورڈ خود موجود نہیں، اسی طرح کسی آلے کا وجود یہ دلیل نہیں بناتا کہ اس آلے کے پیچھے کسی ڈیزائن کرنے والے فاعل کا وجود نہیں۔ (العلم ووجود الله، ص153)۔

سائنس کے ذریعے دین سے بے نیاز ہونا ایک نیا نظریہ ہے جو اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب " کائنات کے بڑے سوالات کے نئے جوابات" (جو 2018 میں شائع ہوئی) کے ساتھ سامنے آیا ہے جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں دین کی ضرورت نہیں ہے۔

کائنات کی وضاحت میں خدا کی موجودگی کی ضرورت اس بات میں سمٹی ہوئی ہے کہ کس طرح عدم سے وجود کی ابتدا ہوئی؟ خاص طور پر بڑے دھماکے (Big Bang) کے نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہےجہاں انہوں نے کائنات کے متعلق متعدد نظریات کو پیش کیا اور کہا کہ کائنات خود سے کچھ پیدا نہیں کر سکتی ہے اور یہ سب فزکس کے قوانین کی بدولت ممکن ہے ، خاص طور پر کشش ثقل کے ذریعے سے ممکن ہے۔

یہ ایک سائنسی فکشن کی کوشش ہے، جو سائنسی حقیقت سے قریب نہیں ہے۔ مسئلے کو جڑ سے پکڑیں اور کائنات کی تخلیق کے متعدد نظریات کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ "لاشی" کا اصطلاحی مطلب مطلق عدم نہیں ہے بلکہ فزکس کے حوالے سے یہ "کوانٹم خلا" (Quantum Vacuum) کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سائنسی قوانین جیسے کہ کشش ثقل کا کام صرف وضاحت اور بیان کرنے کا ہے ان کا کوئی فاعلی کردار نہیں ہے، یعنی یہ تخلیق یا پیدا کرنے کا عمل نہیں انجام دیتے۔ اس خیال کی مزید وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

سائنس اور دین کا دائرہ:

پرانے وقتوں میں فلسفیوں نے علل کو چار میں تقسیم کیا تھا مادی، صورتی، فعلی اور غائی۔ اس بنیاد پر دین اور سائنس کے دائرے کو آسانی سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک طبیعیات کے علوم کا تعلق ہے، یہ صرف مادی اور صورتی علل کی دائرے میں کام کرتے ہیں۔ تاہم دین کا دائرہ اور اس کی حدود ان موضوعات تک پہنچتی ہیں جو علم کے دائرے سے باہر ہیں اور جنہیں سائنسی تحقیق نہیں پہنچ سکتی۔ دوسرے الفاظ میں بیان کریں تو سائنس اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ یہ کیا ہے؟ اور یہ کیسے ہوتا ہے؟ جبکہ دین اس کے پیچھے کے سوالات کا جواب دیتا ہے، جیسے: اس کے پیچھے کون ہے؟ اور یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس طرح انسان میں دینی رجحان بنیادی طور پر دو عقلانی اصولوں پر استوار ہوتا ہے: سببیّت (Cause) اور غائیّت (Purpose)۔یہ دونوں اصول نہ سائنسی ہیں اور نہ مادی طور پر قابلِ پیمائش ہیں۔ جب ان اصولوں کو پوری طرح سمجھا جاتا ہےتو یہ دینی عقائد تک پہنچتے ہیں یعنی توحید اور موت کے بعد کی زندگی کا عقیدہ۔(بحوث ممهدة في تاريخ الأديان، ص104)

ہم نظریہ کی درست تفہیم کے لیے فرض کریں کہ ہمارے گھر کی ایک خاتون نے ایک مزیدار اور دیدہ زیب کیک تیار کیا، پھر ہم اسے اوون سے نکال کر دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں کے پاس لے گئے تاکہ اس کا تجزیہ کریں اور ہم نے ان سے اس کیک کی تفصیل پوچھیں۔سب سائنسدان اپنے اپنے تخصص میں کام کرنے لگے۔ غذائیت کے ماہرین ہمیں بتائیں گے کہ اس کیک میں کتنی کیلوریز ہیں اور اس کا غذائی اثر کیا ہے؟ حیاتیاتی کیمسٹری کے ماہرین ہمیں اس کیک میں موجود پروٹینز، چکنائیاں اور دوسرے اجزاء کی ترکیب بتائیں گے۔ کیمیا کے ماہرین اس کیک کے اجزاء اور ان کے کیمیائی روابط کی تفصیل دیں گےجبکہ فزکس کے ماہرین اس کیک کے بنیادی ذرات کا تجزیہ کر کے ان کی خصوصیات بیان کریں گے اور ریاضی دان ہمیں ان ذرات کے سلوک کو بیان کرنے والے مختلف ذہین معادلات فراہم کریں گے۔اس تجزیے کا مقصد صرف ایک خاص پہلو پر فوکس کرنا ہے لیکن یہ تجزیہ اس کیک کی حقیقت یا اس کے بننے کے مقصد کا جواب نہیں دے گا۔

اب جب کہ ان ماہرین نے ہمیں کیک کا مکمل تعارف اپنے اپنے فن کی روشنی میں  فراہم کیا ہےکیا اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کیک کی مکمل وضاحت مل گئی؟ یقیناً، ہمیں یہ سمجھ آیا ہے کہ کیک کیسے بنایا جاتا ہے اور اس کے مختلف اجزاء آپس میں کس طرح جڑے ہوئے ہیں لیکن اگر آخر میں ان ماہرین سے ایک سوال پوچھوں کہ کیک کیوں بنایا گیا؟

اس سے جواب کی منتظر عورت کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے گی وہ جواب جانتی ہے کیونکہ اس نے خود ہی کیک بنایا ہے اور اس کا ایک مقصد تھا۔ لیکن دنیا کے ماہرین جیسے غذائیت، بایوکیمیاء، کیمسٹری، فزکس اور ریاضی کے ماہرین اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ یہ سب جاننے کے بعد بھی سائنسز کی اہمیت کو کم نہیں ہوتی۔ ان کے شعبے کیک کی نوعیت اور ساخت کے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں یعنی جو سوالات کیسےکے بارے میں ہیں ان کا جواب دے دیں گے لیکن کیوں کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے جو کیک بنانے کے مقصد سے متعلق ہے۔

اصل جواب حاصل کرنے کا واحد ذریعہ وہ عورت ہے جس نے کیک بنایا اگر وہ جواب نہ دے تو یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قسم کے سائنسی تجزیے سے ہمیں اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔

پیٹر برائن میڈور (ت: 1987م) جنہیں طب کے شعبے میں خدمات پر نوبل انعام مل چکا ہے وہ لکھتے ہیں: "سائنس کی حدود اس کی اس کمی میں ظاہر ہوتی ہیں کہ وہ بنیادی اور بچوں جیسے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے وہ سوالات جو آغاز ِتخلیق اور اختتامِ تخلیق سے متعلق ہیں جیسے ہر چیز کا آغاز کیسے ہوا؟ ہماری موجودگی کا مقصد کیا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟" (علم و وجود اللہ، ص71)۔

اس سب کا مقصد یہ ہے کہ جدید سائنس کا کام اس بات کی تفصیل فراہم کرنا ہے کہ کیا ہو رہا ہے نہ یہ کہ اس واقعے کی وجہ کو سمجھانا۔ سائنس کا اصل سوال یہ ہے: یہ کیا ہے؟لیکن اس کے پاس جواب نہیں ہوتا کہ یہ کیوں ہے؟ ہم جس تفسیر کی بات کر رہے ہیں وہ دوسرے سوال سے متعلق ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے ہم ایک سادہ مثال لیتے ہیں: مرغی کا بچہ چند دنوں تک انڈے کی مضبوط قشریں میں رہتا ہے اور پھر اس سے باہر آتا ہے جب یہ چھلکے کو توڑتا ہے۔ قدیم انسان یہ مانتا تھا کہ اللہ نے اس کو باہر نکالا۔ آج ہم جب اس منظر کو دیکھتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ انڈے کے اکیس دن چوزے کی چونچ پر ایک چھوٹی سی ہڈی نظر آتی ہے جسے وہ انڈے کے چھلکے کو توڑنے کے لیے استعمال کرتا ہےاور پھر کچھ دنوں بعد وہ ہڈی غائب ہو جاتی ہے۔

یہ منظر مخالفین کے دعویٰ کے مطابق اس قدیم خیال کو غلط ثابت کرتا ہے جو کہتا تھا کہ خدا ہی چوزے کو انڈے سے نکالتا ہےکیونکہ ہم نے یقیناً دیکھا کہ اکیس دن کا قانون ہی اس عمل کو وقوع پذیر کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ نیا مشاہدہ ہمیں صرف واقعے کی نئی کڑیاں دکھاتا ہے اور اس کے اصل سبب کو بیان نہیں کرتا۔ اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور سوال اب انڈے کے ٹوٹنے کے بارے میں نہیں، بلکہ ہڈی کے بارے میں ہے؟ اصل سبب تب سامنے آجائے گا جب ہم اس علت کو تلاش کریں جو اس ہڈی کو پیدا کرنے کا سبب بنی، وہ علت جو یہ جانتی تھی کہ چوزے کو انڈے سے باہر نکالنے کے لیے اس ہڈی کی ضرورت ہوگی۔ ہم اس آخری صورتحال کو (جو ہم نے مائکروسکوپ سے دیکھی) صرف واقعے کو وسیع دائرے میں دیکھنے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ اس کا حقیقی تفسیر نہیں ہے۔

ایک امریکی ماہر حیاتیات پروفیسر سسیل بایس ہیمن کہتے ہیں: "جو عمل پہلے خوراک کے بدن میں تبدیل ہونے کے دوران حیرت انگیز طور پر خدا کے ساتھ منسلک سمجھا جاتا تھا، وہ آج کی نئی مشاہدات کے مطابق ایک کیمیائی تعامل بن چکا ہے۔ کیا اس سے خدا کے وجود کو رد کیا جا سکتا ہے؟ وہ کون سی قوت ہے جس نے کیمیائی عناصر کو اس طرح کے مفید تعامل میں بدل دیا؟... جب خوراک انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہے تو وہ خودکار نظام کے تحت کئی مراحل سے گزرتی ہےاور یہ حیرت انگیز نظام محض اتفاق سے نہیں ہو سکتا۔ ان مشاہدات کے بعد ہمیں یہ یقین کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ خدا اپنے عظیم قوانین کے ذریعے جو زندگی کو تخلیق کرنے کے لیے وضع کیے گیے ہیں، کام کرتا ہے!"

یہ بات کی گئی کہ قدیم زمانے کا انسان جانتا تھا کہ آسمان سے بارش آتی ہے لیکن ہم آج سمندر میں پانی کے بخارات بننے کے عمل سے لے کر پانی کے قطرات کے زمین پر گرنے تک سب کچھ جانتے ہیں۔ ان تمام مشاہدات سے ہمیں صرف واقعات کی تصاویر ملتی ہیں، اور یہ خود میں تفسیر نہیں ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ یہ واقعات و قوانین کیسے بنے؟ اور کیسے زمین اور آسمان کے درمیان یہ مفید اور حیرت انگیز تعلق قائم ہوا؟یہاں تک کہ سائنسدان ان سے سائنسی قوانین اخذ کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان نے قدرتی نظام کو دریافت کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کائنات کی تفسیر دریافت کر لی ہے تو یہ خود کو فریب میں مبتلا کر دینے والی بات تھی کیونکہ اس نے اس دعوے کے ذریعے درمیانی کڑی کو آخری کڑی کی جگہ پر رکھا۔ (اسلام تحدی کرتا ہے، ص 32)۔ اگر معاملہ اتنا واضح ہے تو پھر یہ کیسے اور کب ہوا؟ اوراس تضاد کا آغاز کس نے کیا؟

سائنس کے ذریعے دین کی ضرورت کو ختم کرنے کا نظریہ کب پیش کیا گیا؟

دین کی ضرورت کو ختم کرنے اور اس کے بغیر زندگی گزارنے کے تصور کو انیسویں اور بیسویں صدیوں میں فلسفۂ وضعی نے مستحکم کیا، جس کی بنیاد فرانسیسی فلسفی کانٹ (وفات: 1857م) نے رکھی۔ انہوں نے انسان کے فکری ارتقاء کو تین مراحل میں تقسیم کیا: دینی، فلسفی اور سائنسی۔ ان کے مطابق ہر نیا مرحلہ پچھلے مرحلے کو پیچھے دھکیل کر ختم کر دیتا ہے۔

آخر میں سائنسی مرحلہ ہے جو کہ وصفیت کے طریقہ کار پر مبنی ہے، جسے عموماً وصفیت کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انسان نے ماضی میں جب تک واقعات کی وجوہات اور ظاہری اسباب کو نہیں سمجھا تھا اس وقت تک دین پر انحصار کیا۔ جیسے جیسے علم کی ترقی اور اس کی مدد سے حقیقتیں کے اسباب کا پتا چلتا گیاویسے ویسے دین کی ضرورت کم ہوتی گئی اور آخرکار انسان کو دین کی ضرورت نہیں رہی اور سائنسی مرحلہ/وصفیت نے دین کی جگہ لے لی۔

کانٹ کے تجزیہ کو 150 سال سے زیادہ گزر چکے ہیں اور اس وقت تک سائنس نے آج کے مقابلے میں آدھی بھی ترقی نہیں کی تھی موجودہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی میں اضافہ ہوتا گیاویسے ویسے انسانیت کا روحانی خلا بھی بڑھتا گیا اور دین کی ضرورت میں مزید شدت آئی۔ یہاں تک کہ بعض سماجی سائنسدانوں نے یہ مانا کہ دنیا کی جدیدیت اور عہد سازی کے عمل کے ساتھ ایک روحانی بیماری جڑی ہوئی ہے جسے انہوں نے الانسلب یا خود سے بیگانگی کہا۔ یہ بیگانگی اس بات سے متعلق ہے کہ جدید دنیا میں وہ تمام انسانی خصوصیات جو زندگی کے وجودی حقائق کا حصہ ہیں جیسے حسن و قبح، محبت و نفرت وغیرہ نظر انداز کی جاتی ہیں۔ یہ سب زندگی کے حقیقی پہلو ہیں مگر اس سائنسی نقطہ نظر میں جو کانٹ کی وصفیت نے پیش کیا ان کو موضوعی حقیقتوں کے طور پر تسلیم کرنا غلط سمجھا جاتا ہے۔

اس تناظر میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کانٹ نے جو مراحل بیان کیے تھے وہ بالکل الٹ ہیں، یعنی پہلا مرحلہ "وضعت" / سائنسی ہے اور آخری مرحلہ "دینی" ہے۔یہ اس طرح ہے کہ انسان کی بڑھتی ہوئی ذہنی ترقی اس کے علم کے مراحل کا عکس ہوتا ہے۔ بچپن میں انسان مادّی وجود کو حسیاتی طور پر سمجھنا شروع کرتا ہے، پھر جیسے جیسے وہ بڑھتا ہےاس کے عقلی ادراکات وسیع اور گہرے ہوتے جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ حسیاتی علم محدود ہے اور وجود مادّہ سے وسیع تر ہے۔ اس کے بعد وہ ایک نئی مرحلے کا آغاز کرتا ہےجس میں وہ وجودی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے باوجودوصفیت کے کچھ آثار باقی رہ گئے اور کئی علماء اور فلسفی ابھی تک اس نظریہ پر قائم ہیں یہ کوشش کرتے ہوئے کہ اس کے مراحل کو آج بھی اپنایا جائےجیسا کہ ( سائنس) کی شکل میں۔ مذہبی مرحلے سے فلسفی مرحلے میں منتقلی کا ممکنہ اشارہ یہ تھا کہ: "اللہ مر چکا ہے..." اور مزید صاف الفاظ میں اسٹیفن ہوکنگ کہتا ہے: "قدیم دور میں قدرتی واقعات کی وجوہات کے بارے میں جاہلیت نے لوگوں کو خدا کی تخلیق کی طرف مائل کر دیا تھا" پھر اگلے مرحلے میں فلسفے کے مرنے کی تبلیغ کی گئی اور اس کی جگہ سائنس نے لے لی۔ ہوکنگ مزید کہتا ہے: "فلسفہ مر چکا ہے... جدید سائنس کی ترقیات کے سامنے، خاص طور پر فزکس کے میدان میں..." (عظیم ڈیزائن، ص 14)۔

بعض دوسرے علماء اس کے برعکس یہ موقف اپناتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سائنسی ترقی کے ساتھ ایمان کی ضرورت اور زیادہ بڑھتی ہےاور یہ موقف منطقی طور پر دیگر علما کے موقف سے زیادہ مستحکم اور معقول ہے کیونکہ جو علم سائنسدانوں کے زیرِ مطالعہ ہے وہ دراصل خدا کا علم ہے۔ایسٹرن ایسٹرن فلکیاتی سوسائٹی کے رکن ہوتن کہتے ہیں: "اور خدا ہی سائنس کی پوری کہانی کا ذمہ دار ہے..." کائنات کی سائنسی وضاحت کی جو ترتیب، ہم آہنگی، استحکام اور پیچیدگی کی خصوصیات ہیں، وہ دراصل اسی امر کی عکاس ہیں جو خدا کے کام میں موجود ہے یعنی ترتیب، ہم آہنگی، استحکام اور پیچیدگی۔ (علم اور خدا کا وجود، ص33)

مذکورہ بالا نظریہ صرف دین اور فلسفہ کو ہی ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ تمام ایسے میدانوں کو ختم کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو اپنے طریقہ کار میں قدرتی علوم (جیسے فزکس اور حیاتیات) کے طریقہ کار پر انحصار نہیں کرتے جو مشاہدہ، رصد اور تجربے پر مبنی ہیں۔ اس میں ریاضی، منطق، فلسفہ اور دیگر عقلی علوم شامل ہیں جو استنباطی طریقے اور عقل سے استدلال پر انحصار کرتے ہیں جو کہ بظاہر تجریدی اور غیر تجرباتی عقل پر مبنی ہوتے ہیں! اس کے علاوہ اخلاقیات، جمالیات، جذباتی اور انسانیت سے متعلق دیگر علوم جیسے سماجیات، نفسیات اور تاریخ بھی اس میں شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود سائنس اپنے میدان میں اپنی ناکامی کو تسلیم کرتی ہے اور قدرتی اسرار کو حل کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے۔ آخر میں  ہم خود بھی قدرت کا حصہ ہیں اس لیے ہم اس اسرار کا حصہ ہیں جسے ہم حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ نظریہ کوانٹم کے بانی، میکس پلانک (ت: 1947م) نے کہا تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سائنس کو کسی دوسرے میدان میں یعنی ماوراء طبیعت میں شامل کیا جائے؟!

ان موضوعات کو ختم کرنا جن میں عقلی بدیہیات بھی شامل ہیں خود سائنس پر اثرانداز ہوگا اور اس کی بنیادوں کو کمزور کرے گا اور یہ ایک انتہائی اہم نقطہ ہے۔ اس لیے میں اسے ایک مثال کے ذریعے آسان کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہم سگریٹ کی ڈبیہ پر یہ وارننگ لکھی ہوئی دیکھتے ہیں : سگریٹ پینا سرطان، پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کا ایک بڑا سبب ہےتو یہ بیان سائنسی طور پر صحیح اور بلا شک و شبہ درست ہے۔ تاہم، جو قابلِ توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ سگریٹ پینے والے لوگوں پر اس بات کے لیے تجربات نہیں کیے گئے کہ آیا وہ سگریٹ پینے کے نتیجے میں ان بیماریوں میں مبتلا ہوئے یا نہیں!! تو پھر کس طرح اس تنبیہ کو ان کے بارے میں درست اور صحیح مانا گیا؟! اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر یہ حکم قانونِ سببیت کے تحت لگایا گیا حالانکہ "مبدا العلیہ" ایک سائنسی تجرباتی نظریہ نہیں ہےبلکہ یہ ایک فلسفیانہ عقلی قانون ہے جو تجربہ کے دائرہ کار سے باہرہےکیونکہ تمام سائنسی نظریات اس پر انحصار کرتے ہیں اور یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے ۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ ہر سائنسی استدلال جو تجربے پر مبنی ہوتا ہے اس میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ عمومی اور جامعیت کا حامل نہیں ہوتا۔ (فلسفہ ہمارا، ص 356)۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018