19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 11:53 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-04-04   1028

روزے کی حکمتیں

دین اسلام ایک عقلی و منطقی دین ہے اس میں تمام عبادات کا ایک فلسفہ و حکمت ہوتی ہے۔یہ منطقی و فلسفی بنیادیں ہی دراصل انفرادی اور اجتماعی زندگی کو منظم کرتی ہیں۔روزہ بھی اسی طرح سے ہے۔

روزہ کا بھی انتہائی گہرا فلسفہ ہے جس کی بہت سی بنیادیں ہیں۔روزہ کی شرعی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ  اس میں حکمتیں بھی موجود ہیں اور حکمتیں وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی  ہیں۔ہم نبی اکرمﷺ اور ائمہ اہلبیتؑ کے فرامین کی روشنی میں ان  حکمتوں کو بیان کریں گے۔

امام رضاؑ اپنے آباء و اجداد سے اور وہ امام علیؑ اور وہ رسول اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے لوگو! اے لوگو خدا کا برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے، یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں اس کے ساعات ولحظات تمام ساعات ولحظات سے افضل ہیں ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ  کی دعوت پر بلایا گیا ہے اور اس میں تم  اللہ کی کرامات کے حامل قرار دیے گئے ہو۔ اس میں تمہارا سانس لینا عبادت ہے اور تمہارا سونا بھی عبادت ہے۔اس میں تمہارے اعمال قبول ہوتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہے۔ خدا سے نیک نیتی اور پاکیزہ دل  سے یہ دعا مانگو کہ وہ تمہیں اس مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نبی اکرم نے ماہ مبارک رمضان کے جن فضائل کا تذکرہ فرمایا کہ یہ مہینہ برکت،رحمت اور مغفرت کا مہینہ ہے اور یہ آپﷺ اس ماہ کے فضائل بیان کر رہے ہیں۔آپ نے اس ماہ کو سب سے افضل ماہ قرار دیا ،اس کے دنوں کو سب سے افضل دن قرار دیا۔ آپ اسے دعاوں کی قبولیت کا مہینہ قرار دیا اور فرمایا: تو خدا سے نیک نیتی اور پاکیزہ دل سے یہ دعا مانگو کہ وہ تمہیں اس مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس میں کو شک و شبہ نہیں ہے کہ روزے کے روزہ دار پر بہت زیادہ اثرات ہوتے ہیں یہ اثرات انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔اس  کے اثرات کو مندجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

روزہ اور شریعت

روزہ،سائنس اور صحت

روزہ تربیت اور تہذیب

روزہ اور شریعت :

اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ روزہ اسی کی طرف سے واجب ہے جس کی طرف سے  اسلام آیا ہے۔روزہ اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔روزہ انسان کی  تربیت اور انہیں اللہ کی طرف پلٹانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔علمائے کرام روزہ کی اس حیثیت پر بہت زیادہ بات کرتے ہیں اور بڑی گہرائی میں اس کی حدود قیود کو واضح کرتے ہیں۔یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ  مکلف کی ذمہ داری اللہ کے ہاں ادا ہو جائے اور اس کا ذمہ بری ہو جائے۔

روزہ کی اقسام :

علما نے روزے کی چار اقسام کی ہیں:

فرض روزے:اس میں ماہ مبارک رمضان کے روزے،نذر اور اس کے علاوہ بھی روزے شامل ہیں۔

مستحب روزے:اس میں بہت زیادہ روزے ہیں جیسے ہر ماہ کی یکم کا روزہ،درمیان اور آخرہ ماہ کا روزہ ،لیالی بیض کا روزہ اور اسی طرح شعبان اور رجب کے مہینوں کے روزے۔

حرام روزے:اس میں عید الفطر کا روزہ اور قربانی کے دن کا روزہ شامل ہے۔

مکروہ روزے:دس محرم کا روزہ کیونکہ بنو امیہ نے اسے رواج دیا تھا اوراس دن  ان کی اہلبیت سے دشمنی واضح ہے۔

وہ امور جو روزہ کو  باطل دیتے ہیں:

فقہاء نے کچھ امور کا ذکر کیا ہے کہ جب روزہ دار ان میں سے کوئی کام کرتا ہے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہیں:

پہلا:کھانا،یہ اس وقت روزہ کو باطل کرے گا جب عمدا کھانا صادق آئے اور اس میں تھوڑا زیادہ کا فرق نہیں ہے۔

دوم:پینا،یہ اس وقت روزہ کو باطل کرتا ہے جب  عمدا  پینا صادق آئے اور اس میں بھی کم زیادہ میں فرق نہیں ہے۔

سوم:جماع،اس میں حشفہ کا داخل ہونا شرط ہے انزال ہو یا نہ ہو،جماع کرنے والے میں فاعل و مفعول کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے جو بھی انجام دے گا اس کاروزہ باطل ہو جائے گا۔

چہارم:اللہ پر ،نبی اکرمﷺ پر اور ائمہؑ پر چھوٹ باندھنے اس سے بھی روزہ باطل ہو جاتا ہے یہ کسی دینی امر کے بارے میں جھوٹ ہو یا دنیاوی امرکے بارے میں جھوٹ ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

پنجم:طلوع فجر تک  جنابت کی حالت پر باقی رہنا روزے کو باطل کر دیتا ہے یہ روزہ ماہ رمضان کا ہو یا قصائے ماہ رمضان کا ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ہر واجب روزے میں اسی طرح ہے۔

ششم:کسی بھی فعل کو شہوت سے انجام دینا جس سے منی خارج ہو جائے اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

ہفتم: کسی سیّال چیز سے حقنہ (انیما) کرنا ۔

ہشتم:جان بوجھ کر قے کرنا ۔

نہم:نیت کو  توڑ دینا ۔

روزہ کس پر واجب ہے؟

روزہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں مندرجہ ذیل شرائط پائی جاتی ہوں:

پہلی:بالغ ہونا،کسی بھی بچے پر روزہ واجب نہیں ہے۔

دوسری:عقل،کسی بھی پاگل پر روزہ واجب نہیں ہے۔

تیسری:مقیم،کسی بھی مسافر پر  روزہ فرض نہیں ہے۔

چوتھی:بے ہوش نہ ہو۔

پانچویں: ان امراض سے پاک ہو جن میں روزہ رکھنا نقصان دہ ہوتا ہے۔

چھٹی:عورت حیض اور نفاس سے پاک ہو۔

ماہ مبارک رمضان کے روزے اور سائنس و صحت :

سائنسدانوں اور میڈیکل کے ماہرین نے روزے سے کے اثرات پر کافی تجربات کیے ہیں۔اس سے انہیں بہت سے کیمیائی اور بائیالوجیکل اثرات کا پتہ چلا ہے جو روزہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھوک اور دیگر کیفیات سے روزہ دار پر مترتب ہوتے ہیں۔بہت سے اثرات ایسے ہیں جو تمام روزہ داروں پر ہوتے ہیں اور وہ بہت ہی واضح ہیں اور کچھ ایسے اثرات ہیں جو پوشیدہ نوعیت کے ہیں۔سب سے اہم یہ ہے کہ جگر کی شوگر میں تبدیلی آتی ہے اور جلد کے نیچے ذخیرہ شدہ چربی پر اثر پڑنے لگتا ہے۔ انسان روٹین میں کھانا کھاتا ہے تو بہت پروٹین پیدا ہوتے ہیں جس سے جگر اور دیگر اعضا حرکت کرتے ہیں۔ کچھ فاسد مادے جمع ہو جاتے ہیں جن سے جسمانی اعضا متاثر ہوتے لگتے ہیں روزہ کے نیتجے میں یہ فاسد مادے ختم ہونے لگتے ہیں اور دل و جگر محفوظ ہو جاتے ہیں۔جسم کو جس چیز کی جتنی ضرورت ہوتی ہے وہ اتنی مقدار میں ملنے لگتی ہے۔

ان میڈیکل فوائد پر  میڈیکل کے کافی ماہرین کی آراء موجود ہیں:

پروفیسر نیکولائف بیلوی کہتے ہیں بڑے شہروں میں رہنے والے تمام لوگ اگر صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو وہ مکمل بھوک کی مشق کریں یعنی روزہ رکھیں۔ یہ ہر سال تین سے چار ہفتے تک ہونی چاہیے تاکہ جسم فاسد اور زہریلے مادوں سے چھٹکارا پا لے۔

ڈاکٹر بندکٹ جو امریکہ کے مشہور ماہر طب ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے غلطی کی جو کہتے ہیں جب انسان کچھ کھاتا نہیں ہے تو اسے غذا نہیں ملتی۔حقیقت یہ ہے کہ انسان جب روزہ سے ہوتا ہے تو جسم میں بڑی مقدار میں موجود مواد کو کھاتا ہے وہ مواد دل اور دیگر اعضا کے اردگرد موجود ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روزہ کا رکھنا جسم کے لیے بہترین عمل ہے جس میں جسم میں اعضا کے اردگرد موجود فاسد مادے جو جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں ان کو کھا لیتا ہے۔روزہ معدے میں موجود  فاسد مواد سے بھی نجات دیتا ہے اور اعضا کو مختلف بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ روزہ کی حالت میں انسانی جسم اپنی خوراک  ان اجزاء سے حاصل کرتا  ہے جو بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح روزہ جسم میں موجود بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔ معدے اور دیگر مقامات پر موجود اندرونی زخموں سے نجات دیتا ہے اس لیے ڈاکٹرز اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ روزہ رکھا جائے تاکہ روزہ میں جسم کے اندر موجود یہ تمام امور انجام پا سکیں۔

دوسری طرف ڈاکٹر حامد بدری کہتے ہیں کہ پورا سال انسان کا معدہ فرصت نہیں پاتا کہ وہ کچھ ضروری کاموں کو انجام دے سکے جس وجہ سے انسان بیمار ہو جاتا ہے تو وہ معدہ بیماری کی حالت میں وہ کام کرتا ہے اور اس کا روز مرہ کا کام بہت متاثر ہوتا ہے۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ معدے کو کچھ وقت دیا جائے اور روزہ کی صورت میں بہترین انداز میں مل جاتا ہے۔

ڈاکٹر فاک فادون جو ان عالمی ماہرین میں سے جنہوں نے روزہ پر بات کی ہے کہتے ہیں ہر انسان روزہ کا محتاج ہےاگرچہ وہ مریض نہ بھی ہو کیونکہ غذاوں اور دوائیوں کے زہریلے مادے انسانی جسم میں رہ جاتے ہیں یہ انسان کو مریض کی طرح بنا دیتے ہیں۔ اس سے اس کی زندگی پر جوش نہیں رہتی اور پھر جب انسان روزہ رکھتا ہے تو ان زہریلے مادوں سے شفاء پا لیتا ہےاس طرح اس کی خوشگوار زندگی پوری قوت و طاقت کے ساتھ پہلے کی طرح اس کی طرف لوٹ آتی ہے۔

اس طرح روزہ وہ پہلا اصول بن گیا ہے جس کی ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔زمانہ قدیم سے آج تک طبی ماہرین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں عظیم فلسفی بقراط  کہتے ہیں تھکاوٹ سے بچنا اور صحت کو برقرار رکھنا ہے تو معدہ کو خالی رکھنا ہو گا۔

جن امور کا تذکرہ کیا گیا یہ طبعی اور سائنسی حوالے سے ہیں۔ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے آپﷺ فرماتے ہیں: روزہ رکھو  صحت  مند رہو۔

ماہ مبارک رمضان کا روزہ اور تہذیب و تربیت:

روزہ تربیت کا ایک بڑا مدرسہ ہے اور اس سے براہ راست استفادہ کیا جاتا ہے۔روزہ دار روزہ سے صبر،ارادہ ، مجاہدہ نفس اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز سیکھاتا ہے۔ روزہ کے ذریعے انسان کو ایسے ماحول سے آشنا کیا جاتا ہے جس میں ضرورت مندوں کی مدد کے جذبے کو پیدا کیا جاتا ہے کہ انسان اپنے سے کمزور لوگوں کی مدد کرے۔

حضرت جعفریہ طیارؑ صاحبِ ذولجناحین کے بارے میں ہے جب وہ جنگ موتہ میں گِر پڑے تو عبداللہ بن رواحہ ایک پیالہ پانی کا لائے لیکن حضرت جعفرؑ نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا کہ میں روزہ دار ہوں اسے میرے سرہانے رکھ دو اگر میں غروب تک زندہ رہا تو افطار کروں گا نہیں تو میں اللہ سے روزہ کی حالت میں ملاقات کروں گا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت جعفر طیار ؑ روزہ پر باقی نہیں رہی کہ اسی حالت میں اپنے رب سے ملاقات کریں مگر انہوں نے پانی کے موجود ہونے اور زخموں سے خون جاری ہونے کے باوجود روزے پر اصرار کیا۔وہ اپنے رب کی طرف چلے گئے اور ان کی روح  اپنے رب سے مطمئن تھی۔

امام سجاد ؑ سے مروی ہے کہ  میں نے اپنی  پھپھی زینبؑ کو شام کے راستے میں بعض مقامات پر دیکھا آپ بیٹھ کر نماز ادا کر رہی تھیں میں نے پوچھا ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہوں تین راتیں ہو گئی ہیں کہ یہ لوگ مجھے ایک دن رات میں صرف ایک روٹی دیتے ہیں میں وہ بچوں میں تقسیم کر دیتی ہوں۔

یہ وہی صورتحال ہے جو آپ کے بابا امیر المومنینؑ اور آپ کی والدہ حضرت فاطمہ زہراءؑ کے ساتھ ان کے گھر میں پیش آئی تھی۔اس پر اللہ نے  گواہی دیتے ہوئے قرآن کی آیات کو نازل کیا تھا اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾‏ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾

۸۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ۹۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔

منھال بن عمرو دمشقی سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں میں دمشق کے بازار میں چل رہا تھا میں نے دیکھا کہ علی بن حسینؑ عصا کے سہارے چل رہے تھے وہ پاوں پر آہستہ چل رہے تھے اور ان کی پنڈلیوں سے خون جاری تھا اور آپ پر زردی چھائی تھی۔منھال کہتا ہے مجھ پر عبرت طاری ہو گئی اور میں نے آپ سے پوچھا اے رسول اللہ ﷺ کے فرزند آپ نے کیسے صبح کی؟اے منھال اس کی صبح کیسے ہو گی جو یزید بن معاویہ کا اسیر ہو؟ اے منھال ! اللہ کی قسم جب سے میرے والد شہید ہوئے ہیں، ہماری خواتین کے پیٹ نہیں بھرے اور نہ ان کے سروں پر چادریں ہیں وہ دن کو روزے رکھتی ہیں اور رات کو قیام کرتی ہیں۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018