| دوسروں سے رابطے ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) | اچھی ہمسائیگی۔۔۔۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے معاشرتی بنیادیں
اچھی ہمسائیگی۔۔۔۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے معاشرتی بنیادیں
انسان مدنی الطبع ہے یعنی انسانی زندگی معاشرتی زندگی ہے کوئی بھی فرد اکیلا زندگی نہیں بسر کرسکتا۔ معاشرتی سطح پر موجود اصولوں میں سے ایک ہمسایوں سے اچھے روابطہ اور تعلق قائم رکھنا ہے۔ خونی اور قریبی رشتہ داروں کے بعد معاشرہ سازی میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسلام نے ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنے پر سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ کیونکہ اچھا معاشرہ درحقیقت انسانوں اور خاص کر ہمسایوں کے ساتھ اچھے روابط اور تعلقات رکھنے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن مجید نے باقی عبادات جیسے والدین پر احسان کرنا، رشتہ داروں ، یتیموں اور مساکین وغیرہ کا خیال رکھنے کے بعد اعلیٰ دستور قرار دیا ہے ۔جیساکہ اللہ تعالی فراتے ہیں:
((وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي القربى واليتامى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي القربى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا))(النساء ـ36).
اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔
اسلام نے معاشرتی تعلقات استوار رکھنے کے لئے ایک خاص نقطہ نطر اور طریقہ اپنایا ہے بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے معاشرتی مسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے جدید معاشرتی نظریات اور اصول کو وضاحت کے ساتھ بیان کرکے ان اصولوں کو اپنانے پر زور دیا ہے۔
ان اصولوں میں سے ایک ہمسایوں کے حقوق ہے۔ جس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے ہمسائے کے لئے جو حقوق وضع کئے ہیں وہ صرف مسلمانوں تک محدد نہیں ہے بلکہ یہ حقوق عقائد و نظریات سے بالاتر ہے۔ جیساکہ پیغمبر اسلام ﷺ فرماتے ہیں
"الجيران ثلاثة: فمنهم مَن له ثلاثة حقوق: حق الجِوار، وحق الإسلام، وحق القرابة، ومنهم مَن له حقّان: حق الإسلام، وحق الجوار، ومنهم مَن له حق واحد: الكافر له حق الجوار".
تین قسم کے ہمسائے ہوتے ہیں: ان میں سے ایک کے لئے تین حقوق حاصل ہیں: ہمسایے کا حق، مسلمان کا حق، اور رشتہ داری کا حق۔ ان میں سے کچھ کے لئے دو حقوق حاصل ہیں: مسلمان کا حق، ہمسائے کا حق۔ اور تیسرے قسم کے ہمسائے کے لئے صرف ایک حق حاصل ہے اور وہ ہے کافر اس کے لئے ہمسائے کا حق حاصل ہے۔
اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے اہل بیت علیہم السلام اورآصحاب کرام رضوان اللہ علیہم کو ہمسائے کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "
ما زال جبرئيل عليه السلام يوصيني بالجار حتى ظننت أنّه سيورّثه"،
رسول اللہ ۖ کاارشاد ہے کہ جبرئیل نے مجھ کو پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہوگیاکہ پڑوسیوں کوبھی وراثت میں حقدار قراردے دیاجائے۔
اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو پڑوسیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں :
ما آمن بي مَن بات شبعان وجاره جائع"
وہ شخص مومن نہیں، جو خود تو آسودہ ہو، مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ اور روایات مین یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے خلیفہ برحق امام علی علیہ السلام ، اور سلمان، ابوزر، اور مقداد رضوان اللہ علیھم کو مسجد سے بآواذ بلند یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ :
لا إيمان لمَن لم يأمن جاره بوائقه" فنادوا بها ثلاثاً، ثمّ أومأ بيده إلى كلّ أربعين داراً من بين يديه، ومن خلفه، وعن يمينه وعن شماله"
"وہ شخص جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو وہ مومن نہیں ہے" پس انہوں نے تین دفعہ اعلان کیا پھر اپنے دیئں بایئں، اور شمال و جنوب کی طرف چالس گھرانوں اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا۔اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمسائے کو ازیت دینا درحقیقت جنت میں جانے سے رکاوٹ ہے ۔جیساکہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
"من كان مؤذياً لجاره من غير حقّ، حرمه الله ريح الجنة، ومأواه النار، أَلا وإنّ الله عزَّ وجلَّ يسأل الرجل عن حق جاره، ومَن ضيّع حق جاره فليس منّا".
جو بندہ اپنے ہمسائے کو ناحق اذیت دیتا ہے تو اللہ تعالی اس پر جنت کی ہوا حرام کردیتا ہے اور اس کاٹھکانہ جہنم ہوگا، اور آگاہ ہوجاؤ؛ قیامت کے دن اللہ تعالی بندوں سے ہمسائے کے بارے میں پوچھے گا ،اور کوئی بھی ہمسایے کا حق ضائع کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے"
اسی طرح امام علی علیہ السلام بھی وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والله الله في جيرانكم، فإنّهم وصية نبيكم، مازال يوصي بهم حتى ظنّنا أنّه سيورّثهم".
اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔
یہ اسلام کی ابتدائی تعلیمات تھی جس میں نبی اکرم ﷺ نے معاشرتی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
ا ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے مہاجرین، اور انصار کے درمیان معاہدہ کیا اور بھائی چارہ گی کی بنیاد رکھی : اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ ہمسایہ اپنے جسم کی مانند ہے جس کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایئں ، ہمسایہ کا تقدس ماں کی تقدس جیسی ہے" اسی طرح آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کا احترام کرنا مومن کی نشانی ہے ۔ اسی طرح آپﷺ فرماتے ہیں؛
"مَن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره".
جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمسایوں کا احترام کرو"
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
’’علیکم بحسن الجوار فان اللہ عزوجل امر بذٰلک‘‘
تم پر واجب ہے کہ تم پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ اچھے ہمسائگی مادی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اچھي ہمسائيگي شہروں کو آباد اور عمروں کو لمبا کر ديتي ہے۔
ہمسایوں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اذیت پر صبر کرنا بھی حکم الھی ہے تاکہ پڑوسی کے ساتھ تعلقات برقرار رکھا جاسکے، جیساکہ امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
ليس حُسن الجِوار كفّ الأذى، ولكن حُسن الجِوار الصبر على الأذى"
اچهی ہمسائیگی یہ نہیں ہے کہ ہمسایوں کو اذیت نہ پہنچائے بلکہ اچھی ہمسائیگی یہ ہے کہ اگر ہمسایہ اذیت دے تو اس پر صبر کرے.
قرآن و فرامین معصومین علیھم السلام میں بہت سے توجیھات ہمسائے کے حقوق کے بارے میں ذکر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ہمارے چوتھے امام، امام ذین عابدین علیہ السلام نے ایک کامل باب ہمسائے کے حقوق کے بارے میں، رسالت الحقوق میں بیان فرمایا ہے۔ امام علیہ السلام نے ہمسایوں کے ساتھ اچھے اور اخلاقی طور پر برتاؤ کے لئے ایک جامع اور مربوط طریقے بیان کئے ہیں۔ جس اخلاق کے لئے پیغمبر اسلام ﷺ مبعوث برسالت ہوئے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
وأمّا حق الجار فحفظه غائبا، وكرامته شاهدا، ونصرته ومعونته في الحالين معا، لا تتبع له عورة، ولا تبحث له عن سوءة لتعرفها، فإن عرفتها منه عن غير إرادة منك ولا تكل ، كنت لما علمت حصنا حصينا وسترا ستيرا، لو بحثت الأسنة عنه ضميرا لم تتصل إليه لانطوائه عليه، لا تستمع عليه من حيث لا يعلم، لا تسلمه عند شديدة ولا تحسده عند نعمة، تقبل عثرته، وتغفر زلته، ولا تدّخر حلمك عنه إذا جهل عليك ولا تخرج أن تكون سلما له ترد عنه لسان الشتيمة، وتبطل فيه كيد حامل النميمة، وتعاشره معاشرة كريمة، ولا قوة إلاّ باللّه".
ہمسایہ کا حق یہ ہے کہ اس کی عدم موجود گی میں اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرو اور اس کی موجودگی میں اس کا احترام کرو اور ہرحال میں اسکی مدد و معاونت کرو اس کے راز کی ٹوہ میں نہ رہو اور اس کی کمزوریوں کی تلاش میں نہ رہو پھر اگر نہ چاہتے ہوئے بھی آسانی سے تمہیں اس کی کمزوری معلوم ہو جائے تو تم اس کے لیے محکم و مضبوط قلعہ اور ایسا ضخیم و دبیز پردہ بن جاؤ کہ اگر اسے نیزوں سے بھی تلاش کیا جائے تو بھی اس کا سراغ نہ ملے کیونکہ وہ پیچیدہ اور مستور ہے۔ اور اس کے خلاف باتوں پر کان نہ دھرو کہ اس کو خبر تک نہ ہو اور اسے سختیوں اور مشکلات میں چھوڑ کر الگ نہ ہوجاؤ اور جب اس کے پاس کوئی نعمت دیکھو تو اس پر حسد نہ کرو۔ اس کی لغزشوں سے درگزر اور اس کے گناہوں سے چشم پوشی کرو اور اگر وہ تمہارے بارے میں جہالت کر بیٹھے تو تم اسے برداشت کرو اور اس کے ساتھ مسالمت و صلح آمیز برتاؤ کرو، اس پر سب و شتم نہ کرو اور اگر کسی ناصح نے اسے دھوکا دیا ہے تو تم اس کا سدباب کرو اس کے ساتھ شریف کی طرح بسر کرو۔ ولاقوۃ الا باللہ
اسلام نے ہمسائے کو معاشرتی تعلقات میں دوسرا ہم ترین ذریعہ قرار دیا ہے اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل میں ہمسائے سے مظبوط تعلقات قائم کرنے پر زیادہ زر دیا ہے۔