10 جمادي الاول 1447 هـ   1 نومبر 2025 عيسوى 6:12 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدالت |  دنیا میں"شر" کا وجود ذمہ دار خدا یا انسان؟
2025-10-20   3

دنیا میں"شر" کا وجود ذمہ دار خدا یا انسان؟

الشيخ معتصم السيد أحمد

"شر" کا سوال فلسفے کے قدیم ترین سوالات میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ عقلوں کو حیران اور اہلِ ایمان و ملحدین، دونوں کے درمیان بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ معترضین یہ سوال کرتے ہیں: اگر اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے، نیز ہر چیز پر قادر بھی ہے، تو پھر اس دنیا میں درد، بیماری، غربت اور ظلم کیوں موجود ہیں؟ کیوں بے گناہ لوگ قتل ہوتے ہیں اور ان کا خون بہایا جاتا ہے؟   کیوں اللہ ظالموں کو روکنے یا مظلوموں کی تکلیف دور کرنے کے لیے مداخلت نہیں کرتا؟ اگر اللہ قادرِ مطلق اور رحیم ہے، تو وہ زلزلوں، آتش فشانوں اور طوفانوں کو کیوں ہونے دیتا ہے، اور بچوں کو بھوک یا بیماری سے مرنے کیوں دیتا ہے؟ یہاں سے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ دنیا میں" شر" کا وجود، قادر اور رحیم خدا کے وجود کے منافی ہے، اور وہ غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خدا یا تو قادر نہیں، یا رحیم نہیں، یا پھر سرے سے موجود ہی نہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ اعتراض فکری اور نظری مغالطے پر قائم ہے، کیونکہ پہلے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ براہِ راست اللہ کے ارادے سے ہوتا ہے، اور یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ انسان جن بہت سے شرور اور برائیوں کا مشاہدہ کرتا ہے، وہ دراصل خود انسان کے اعمال کا نتیجہ ہیں نہ یہ فطرت کا عمل ہے، نہ اللہ کی براہِ راست مشیت۔

تباہ کن جنگیں، ظالمانہ نظام، قتل و غارت، ظلم و فساد  یہ سب انسان کے غلط فیصلوں کے پھل ہیں، جو خود غرضی، لالچ اور آزادی کے غلط استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو برا پیدا نہیں کیا، بلکہ اس میں خیر اور شر، دونوں کی صلاحیت رکھی، اور اسے انتخاب کی آزادی دے کر آزمایا، تاکہ وہ اپنے انتخاب کے مطابق بدلہ پائے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

﴿إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً

ہم نے اسے راستہ دکھایا، چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا۔

پس انسان کے اعمال ہی اس کی قسمت طے کرتے ہیں، نہ کہ کوئی جبری الٰہی ارادہ۔اللہ تعالیٰ نے نہ ظلم کا ارادہ کیا ہے اور نہ زیادتی کا، بلکہ اس نے چاہا کہ انسان مکلف ہو، اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہو، تاکہ عدل کا نظام زبردستی پر نہیں بلکہ استحقاق پر قائم ہو۔ اس لیے انسان کے اختیارات سے پیدا ہونے والی برائیاں، اللہ کے عدل کے منافی نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان ایک آزاد مخلوق ہے، جسے خیر و شر کے درمیان انتخاب کا حق دیا گیا ہے، اور جسے زمین کی آبادکاری یا بربادی کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

چنانچہ انسان کے اپنے کیے ہوئے شر کا بوجھ اللہ پر ڈالنا دوہرا ظلم ہے ایک ظلم خالق پر، جس نے انسان کو عقل اور آزادی کی نعمت دی، اور دوسرا ظلم خود انسان پر، جو اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم گہرائی سے ان چیزوں پر غور کریں جنہیں "قدرتی آفات" یا " نیچرل ڈیزاسٹرز" کہا جاتا ہے، جیسے زلزلے، طوفان، آتش فشاں اور وبائیں، تو ہم دیکھیں گے کہ ان کو "شر" کہنا دراصل انسان کے محدود نقطۂ نظر کے مطابق ایک تعبیر ہے مگر کائناتی نظام کی وسعت میں اگر دیکھا جائے تو یہ نہ صرف شر نہیں ہیں بلکہ ان میں خیر ہی کے پہلو پوشیدہ ہیں ۔ یہ تمام مظاہر دراصل زمین کے توازن اور زندگی کے تسلسل کے لیے بنائے گئے نہایت دقیق نظام کا حصہ ہیں۔

مثلاً زلزلے اگرچہ بظاہر سخت اور خوفناک ہیں لیکن وہ زمین کی پرت کو تازہ کرنے، پہاڑوں کی تشکیل، معدنیات کی تقسیم، اور زمینی ساخت کے توازن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی زلزلے زمین کے اندرونی حصوں کو ساکت اور منجمد ہونے سے بچاتے ہیں، کیونکہ اگر اندرونی حرکت رک جائے تو زمین ایک بے جان، منجمد پتھر بن جائے جس میں زندگی ممکن نہ رہے۔ اسی طرح آتش فشاں، جنہیں لوگ تباہی کی علامت سمجھتے ہیں، دراصل وہی ہیں جنہوں نے ابتدا میں زمین کے اندر سے گیسیں اور پانی باہر نکالا، اور فضا کی وہ پرت تشکیل دی جو آج زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ یہی حال طوفانوں اور آندھیوں کا ہے یہ فضاء کو صاف کرنے، حرارت اور نمی کو براعظموں اور سمندروں کے درمیان منظم طور پر تقسیم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

لہٰذا یہ قدرتی مظاہر اپنی ذات میں "شر" نہیں ہیں، بلکہ ایک مربوط نظامِ کائنات کا حصہ ہیں جو نظام اسباب و مسببات پر قائم ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل پیدا ہو جائے، تو اس سے کہیں زیادہ بڑا فساد جنم لے سکتا ہے۔ یہ واقعات انسان کی انفرادی نظر میں برے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کائنات کے عمومی توازن میں یہ خیر اور حکمت سے بھرپور ہیں۔

جیسے بارش زمین کو زندگی بخشتی ہے لیکن کبھی کسی کھیت کو تباہ بھی کر دیتی ہے، اسی طرح خیر اور شر کی صورتیں زاویۂ نظر کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں۔ اللہ کے فعل میں نہ ظلم ہے نہ ہی بے مقصدیت۔ اگر اللہ ہر اُس موقع پر قدرتی قوانین کو معطل کر دے جب کوئی شخص ان سے متاثر ہو، تو پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے، اور زندگی میں نہ استحکام باقی رہے نہ امتحان و آزمایش کا سلسلہ۔

مزید یہ کہ جسے ہم "قدرتی آفات" یا "طبیعی شر" کہتے ہیں، وہ صرف اُن لوگوں کے لیے آزمائش نہیں جنہیں اس سے نقصان پہنچتا ہے، بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے ایک امتحان اور موقع بھی ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان رحم، ہمدردی اور باہمی تعاون کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے، عقلوں کو تحقیق اور ایجاد کی طرف ابھارتا ہے، اور دکھ و تکلیف کی گہرائیوں سے علم و عمل کی عظیم توانائیاں جنم دیتاہے۔

اگر وبائیں نہ ہوتیں تو طب (میڈیکل سائنس) میں ترقی نہ ہوتی، اگر خشک سالی نہ آتی تو جدید آبپاشی کے طریقے ایجاد نہ ہوتے، اور اگر زلزلے نہ آتے تو انسان مضبوط اور محفوظ تعمیراتی انجینئرنگ نہ سیکھ پاتا۔ یوں ہر مصیبت دراصل انسانی شعور کے لیے ایک عطیہ ہے، جو اس میں صبر، تخلیقی قوت اور حالات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کو بیدار کرتی ہے، اور اسے یہ سکھاتی ہے کہ وہ فطرت کے مقابلے میں ایک فعال کردار ادا کرے،نہ کہ صرف اس کا بے بس شکار بن کر رہ جائے۔ یوں واضح ہوتا ہے کہ جو چیز ہمیں اپنی ظاہری حالت میں "شر" نظر آتی ہے، وہ دراصل اپنے وسیع تر تناظر میں خیر اور حکمت پر مبنی ہوتی ہے، کیونکہ کائنات سراسر اُن مضبوط اور دقیق قوانین کے تحت چل رہی ہے جنہیں اللہ نے اپنی حکمت و عدل کے تقاضے کے مطابق مقرر فرمایا ہے۔

اللہ نے یہ کائنات اس لیے پیدا نہیں کی کہ وہ ساکن اور تغیر سے خالی ہو، بلکہ اسے ارتقاء و تکامل کا میدان بنایا، تاکہ اس کی تبدیلیوں سے تجربہ، نشوونما اور آزمائش کے اسباب پیدا ہوں، اور اس طرح تخلیق کا وہ عظیم مقصد پورا ہو کہ انسان اپنی فضیلت کو ظاہر کرے اور مشکلات کے سامنے اپنے ایمان کی سچائی ثابت کرے۔ جہاں تک سماجی برائیوں کا تعلق ہے، جیسے ظلم، غربت اور بھوک، تو چیخ چیخ کر خود اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ان کے اصل خالق انسان ہی ہے۔

 اللہ نے زمین کو اتنی وسعت اور نعمتوں سے بھرا ہوا بنایا کہ وہ آج کے انسانوں سے کئی گنا زیادہ کی بھی کفایت کر سکتی ہے، مگر سرکشی، حرص، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے لاکھوں انسانوں کو محرومی میں مبتلا کر دیا۔کتنے ٹن کھانے پینے کی چیزیں روزانہ کچرے میں پھینک دی جاتی ہیں، جب کہ دوسری طرف انسان بھوک سے مر رہے ہیں! کتنی زرخیز زمینیں بے کار پڑی ہیں یا چند ہاتھوں کے قبضے میں ہیں! پھر یہ کیسا انصاف ہے کہ اللہ پر انسان کے فساد کی ذمہ داری ڈالی جائے، یا اُس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اُس بگاڑ کو درست کرے جسے انسان خود ٹھیک کر سکتا ہے مگر نہیں کرتا۔ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ غربت اور پسماندگی تقدیر کا فیصلہ نہیں، بلکہ سستی، بے عملی اور بدانتظامی کا لازمی نتیجہ ہے۔

جاپان، سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ جیسے ممالک نے نہ طبیعی دولت  ورثے میں پائی، نہ زمین زرخیز تھی اور نہ موسم مثالی، مگر یقین، منصوبہ بندی، محنت اور ایجاد کے ذریعے وہ عالمی طاقتیں بن گئیں۔ یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اللہ نے انسان کو ترقی کے تمام وسائل عطا کیے، اور پھر اُسے ان کے استعمال کی آزادی دی۔ جس نے انہیں بروئے کار لایا، وہ آگے بڑھا؛ اور جس نے انہیں ضائع کیا، وہ پیچھے رہ گیا۔ چنانچہ قرآن کریم نے اس اصول کو یوں بیان کیا ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ

بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔

الٰہی رحمت کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ انسان کی جگہ وہ کام خود انجام دے جو انسان کو ذمہ داری کے طور پر سونپا گیا ہے، اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ لوگوں کی خواہشات پوری کرنے یا ان کے اعمال کے نتائج روکنے کے لیے کائناتی قوانین کو معطل کر دیتا ہے۔ بلکہ اللہ کی حقیقی رحمت یہ ہے کہ اُس نے انسان کے لیے عمل اور تخلیق کے تمام اسباب مہیا کیے، اُسے عقل، ارادہ اور انتخاب کی قوت عطا کی، اور آسمان و زمین کی ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کر دیا تاکہ وہ انہیں آباد کرے اور ان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے۔ پس اصل ذمہ داری انسان پر ہے کہ وہ ان نعمتوں کو خیر اور تعمیر کے راستے میں استعمال کرے، نہ کہ انہیں ظلم اور فساد کا ذریعہ بنائے۔ اور یہ سمجھے کہ کمال کوئی ایسی چیز نہیں جو باہر سے عطا کی جائے، بلکہ یہ سعی، جدوجہد اور محنت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سوچنا چھوڑ دے، بلکہ ایمان عقل کو صحیح سمت دیتا ہے تاکہ وہ کائنات میں اللہ کے قوانین اور نظمِ قدرت کو حقیقت کے ساتھ سمجھے، اور یہ جان لے کہ زندگی کے حالات، تغیرات اور دکھ درد بے معنی نہیں، بلکہ ایک منظم نظام کا حصہ ہیں جو انسان کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ صبر یا بے صبری، تعمیر یا تخریب میں سےاپنی آزادی کے ساتھ اپنا رویہ خود چُنے ۔جو شخص شر کو بہانہ بنا کر اللہ کے وجود کا انکار کرتا ہے، وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ چیلنجز اور آزمائشیں ہی زندگی کو اخلاقی معنی بخشتی ہیں، کیونکہ خیر کی پہچان اسی وقت ممکن ہے جب شر بھی موجود ہو، اور ایمان اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب انسان کو آزمایا جائے۔

اللہ بندوں کو تکلیف دینے کے لیے نہیں آزماتا، بلکہ اس لیے کہ اُن کے اندر صبر، رحمت اور عدل جیسی صفات ظاہر ہوں، اور تاکہ وہ مخلص لوگ جو صبر و ایمان پر قائم رہتے ہیں، ان کے درجات بلند ہوں، جبکہ وہ لوگ جو اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ کر شر کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ان پر حجت تمام ہو جائے۔ یوں تکلیف اور آزمائش کے لمحات انسانیت کے امتحان کا میدان بن جاتے ہیں، اور انسان کو اللہ کی رحمت، عدل اور حکمت کو مزید گہرائی سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

خلاصہ:

دنیا میں شر کا وجود اللہ کی عدم موجودگی کی دلیل نہیں، بلکہ اس کی حکیمانہ مشیت اور عدل کی علامت ہے، جس کے تحت انسان کو آزادی اور ذمہ داری کے ساتھ آزمایا جاتا ہے۔ اللہ سے اُس کے افعال کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا، کیونکہ وہ بے مقصد کچھ نہیں کرتا۔ البتہ انسان سے ضرور سوال ہوگا کہ اس نے کیا چُنا اور کیا کیا۔ اگر اللہ ہر شر کو روک دیتا، تو انسان کی آزادی اور اختیار ختم ہو جاتا، اور ثواب و سزا کا کوئی مفہوم باقی نہ رہتا۔ لہٰذا دنیا میں شر کا وجود اللہ کی قدرت میں کمی کی نہیں، بلکہ اُس کے عدلِ کامل کی دلیل ہے۔کیونکہ اسی سے خیر کی قدر پہچانی جاتی ہے، اسی سے انسان کے دل آزمائے جاتے ہیں، اور اسی کے ذریعے انسان اپنی عقل، ذمہ داری اور کرامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اللہ نے اس دنیا کو امتحان کا میدان بنایا ہے، نہ کہ ہمیشہ کی نعمتوں کی جنت۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018