24 جمادي الثاني 1446 هـ   26 دسمبر 2024 عيسوى 11:11 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | دین اسلام کیوں ؟ |  دین اور سائنس: مادی و روحانی توازنِ فکر کے امین
2024-11-18   167

دین اور سائنس: مادی و روحانی توازنِ فکر کے امین

تعارف: تہذیبوں کی تشکیل میں مذہب کا کردار:

الشيخ معتصم السيد أحمد:

دین انسانی تہذیبوں کی تشکیل میں ہمیشہ مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اخلاقی و روحانی بنیادیں فراہم کرتا ہے بلکہ علمی ترقی کی راہیں بھی استوار کرتا ہے۔

اسلامی تہذیب میں دین اور علم کے امتزاج کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، مثلا علماء نے علمی تحقیق کو خدا کی عظمت اور اس کی قدرت کے ادراک کا ذریعہ سمجھا۔ اورپھراسی تصور نے تحقیق کے عمل کو ایک مقدس مقصد کی حیثیت دی، اور یوں ایمان اور عقل کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔

ایمان اور عقل کے اس امتزاج نے اسلامی دنیا میں طب، فلکیات، ریاضیات اور فلسفہ جیسے مختلف علمی میدانوں میں بے مثال ترقی کو جنم دیا۔ یہ ترقی نہ صرف دینی عقیدے کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ انسانی معرفت کو وسعت دینے کی خواہش کی بھی عملی مظہر ہے۔

اسلامی تہذیب اپنی ابتدا ہی سے تکاملی بنیادوں پر استوار تھی، جہاں علم کو دین کا مخالف یا اس کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ اسے دین کے فہم اور خالقِ کائنات کی تخلیقی عظمت کے ادراک کا ذریعہ تصور کیا جاتا تھا۔مثلا مشہور مسلم علماء جیسے جابر بن حیان، الخوارزمی، ابن سینا، اور الفارابی نے علم کو خدا کے قریب تر ہونے اور کائناتی نظام کو سمجھنے کا ایک ذریعہ قرار دیا۔ اس ہم آہنگی نے اسلامی تہذیب میں علم اور عقل کو معرفت کے ایسے پیرائے میں ڈھالا، کی جس نے  علمی ترقی اور ثقافتی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے دورِ عروج میں علمی تحریکات کے لیے ایک منبعِ الہام ثابت ہوئی۔

اس کے برعکس، یورپ میں دینی تصور ایک مختلف راہ پر گامزن رہا، خصوصاً دورِ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے آغاز سے۔ اس عرصے میں یورپی فکر میں گہرے انقلابات رونما ہوئے۔ جیساکہ وہ دور کہ جب کلیسا علم اور فلسفے سمیت مختلف شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے تھا، تو اس کی سائنسی معاملات میں مسلسل مداخلت تنقید کا نشانہ بننے لگی۔اس تناظر میں، غالیلیو، کوپرنیکس، اور دیگر ماہرینِ علم و فلسفہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ سائنسی حقائق کسی  مذہبی تشریح کے تابع نہیں ہو سکتے۔ یہ اختلافات اس بات کا پیش خیمہ بنے کہ الحادی اور وضاحتی فکر کو فروغ ملے، جس نے دین کو انسانی عقل کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر پیش کیا۔

اس طرح سے اہل یورپ نے اُس تاریخی دور میں دین پر علمی پسماندگی اور فکری زوال کی ذمہ داری عائد کردی ۔ اس طرح  سائنس پر اس مذہبی غلبے نے عقل اور عقیدے کے درمیان تقسیم کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کے باعث یورپی فکر ایک تنقیدی الحادی رخ اختیار کر گئی تاکہ سائنسی معاملات میں مذہبی مداخلت سے بچا جا سکے۔ جدید عقلانیت نے ان پابندیوں سے بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا جو مذہبی اقتدار نے مسلط کی تھیں۔

لہذا، اسلام اور یورپ کے درمیان دین اور علم کے تعلق کے حوالے  سے  کر ایک بنیادی فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب میں دین اور عقل کے گہرے تعلق نے ایک شاندار علمی انقلاب کو جنم دیا، جبکہ یورپ میں اس حوالے سے ایک کشمکش دیکھنے میں آئی، جس نے دین کو سائنس اور عقل سے الگ کر دیا۔ اس جدائی نے الحادی فکر کو بطور عقلانیت ایک متبادل نظریہ کی طور پر ابھرنے میں مدد دی۔

وضاحتی فلسفے اور انسانی تاریخ کے علمی تشریحات:

یورپ میں عصرِ روشن خیالی کے دوران فکری اور عقلی میدانوں میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کا ایک پہلو فلسفیوں کی یہ کوشش تھی کہ علم کی بنیادوں کو ازسرِنو تشکیل دیا جائے اور دنیا کا ایک وضاحتی (positivist) نظریہ پیش کیا جائے۔ اس ضمن میں، فرانسیسی فلسفی اوگست کونٹ نے انسانی فکر کی تاریخ کا ارتقائی نظریہ پیش کیا، جسے انہوں نے تین متواتر مراحل میں تقسیم کیا: الٰہیاتی (theological)، ماورائی (metaphysical)، اور وضاحتی (positivist) مرحلہ۔ یہ تصور انسانی عقل کے ارتقا کی وضاحت کے لیے ایک انقلابی کوشش تھی، خاص طور پر مذہبی فکر پر تنقید اور اس کی جگہ ایک نئی عقلی اور سائنسی روش اپنانے کے لیے بطور خاص اختیار کی گئی۔

الٰہیاتی مرحلہ: اوگست کونٹ کے مطابق، اس مرحلے میں انسان نے قدرتی اور زندگی کے مظاہر کی وضاحت کے لیے مذہبی تصورات اور غیبی قوتوں پر انحصار کیا۔ ہر چیز کو الٰہی ارادے یا ماورائی طاقتوں سے جوڑا جاتا تھا۔ یہ نظریہ قدیم ادوار میں غالب تھا، جہاں انسان یہ سمجھتا تھا کہ تمام مظاہر، خواہ وہ کائناتی ہوں یا انسانی، کسی الٰہی مداخلت کا نتیجہ ہیں اور ان کی وضاحت صرف ایمان کے ذریعے ممکن ہے۔ کونٹ کے نزدیک، یہ انسانی فکر کی طفولیت کا دور تھا، جہاں دنیا کی تفہیم کے پیچھے مذہبی عقائد کارفرما تھے۔

ماورائی مرحلہ: یہ مرحلہ یورپ میں فکری انقلاب اور عقلی فلسفوں کے ظہور کے بعد شروع ہوا۔ اس دور میں انسان مذہبی تشریحات سے بتدریج آزاد ہونے لگا اور مظاہر کو زیادہ تجریدی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جانے لگی۔ اس مرحلے میں مظاہر کی وضاحت کے لیے ایسے تصورات استعمال کیے گئے جو مذہب سے ہٹ کر قوتِ عقل یا ماورائی اصولوں پر مبنی تھے۔ تاہم، اس مرحلے میں بھی انسانی سوچ مشاہدے اور عملی تجربے کی بجائے محض تجریدی عقل پر انحصار کرتی رہی، جس کے باعث یہ تشریحات بھی مکمل طور پر سائنسی فکر نہ بن سکیں۔

وضاحتی مرحلہ: کونٹ کے نزدیک یہ انسانی فکر کے ارتقا کی بلند ترین سطح ہے، جہاں مشاہداتی سائنس اور حسی تجربات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسانی فکر نے مذہبی اور ماورائی تشریحات کو ترک کر کے صرف سائنسی مشاہدات اور تجرباتی اعداد و شمار کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا ذریعہ بنایا۔ کونٹ نے اس طریقے کو فطرت، انسانی رویوں اور دنیا کی تفہیم کے لیے سب سے مؤثر حل قرار دیا۔ ان کے نزدیک، مظاہر کی وضاحت صرف ان کے براہِ راست مشاہدے اور ان پر حکمرانی کرنے والے قوانین کو سمجھنے سے  ہی ممکن ہے۔

یہ فلسفہ انسانی تاریخ کے علمی اور فکری ارتقا کا نہ صرف ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے بلکہ مذہب اور علم کے تعلق پر گہری بصیرت بھی فراہم کرتا ہے۔

اوگست کونٹ کا یہ تصور مذہب کو محض انسانی فکر کے ابتدائی اور غیر ترقی یافتہ مرحلے کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے طے کرکے عقلانی اور سائنسی فکر کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریے میں مذہب کو انسانی عقل کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور ایک غیبی عنصر کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو جدید عقلانی بنیادوں سے  متصادم ہے اور علم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

تاہم یہ تصور اسلامی روایت سے بنیادی طور پر مختلف ہے، جو دین اور عقل کے درمیان کسی تصادم کا قائل نہیں۔ مغربی تصور کے برعکس، جس نے دین کو علم کے لیے رکاوٹ سمجھا، اسلامی فقہا اور علما نے دین اور علم، ایمان اور عقل کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا۔ اسلامی تہذیب کے سنہری دور میں یہ ثابت ہوا کہ دین نہ صرف علمی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بلکہ علم کے حصول کی جستجو کو تقویت دیتا ہے۔ اسلام درحقیقت عقل کے خلاف نہیں، بلکہ انسان کو اس کے اطراف کے مادی اور روحانی مظاہر کو سمجھنے کے لیے عقل کے استعمال پر ابھارتا ہے۔

چنانچہ، کونٹ کا مذہب اور علم کا تصور اس تاریخی دور کی عکاسی کرتا ہے جس میں مغربی فکر نے جنم لیا، جہاں عقل اور علم کو مذہب سے الگ سمجھا گیا۔ اس کے برعکس، اسلامی روایت ایک مختلف ماڈل پیش کرتی ہے، جہاں علم ایک مکمل مذہبی تصور کا لازمی حصہ ہے۔

علم اور اس کی حدود: وہ سوالات جن کا تجرباتی طریقہ جواب نہیں دے سکتا:

اگرچہ وضاحتی فلسفہ (Positivism) نے قدرت، معاشرت اور تاریخ کے کئی مظاہر کی وضاحت میں نمایاں پیش رفت کی ہے، لیکن یہ معرفت کے ایک محدود تصور تک مقید رہا، جو حسی مشاہدے اور براہِ راست سائنسی تجربے پر انحصار کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر، جس نے علم کو کسی بھی غیبی یا روحانی پہلو سے محروم کر دیا، ان بنیادی سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہا جو انسانی وجود اور زندگی کے مقصد سے متعلق ہیں۔ وضاحتی فلسفہ جہاں مادی دنیا کو سمجھنے اور قدرتی مظاہر کی تشریح کے لیے مؤثر وسائل فراہم کرتا ہے، وہیں یہ زندگی کے معنی، وجود کی غایت، اور انسان کے حتمی انجام جیسے سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکتا۔ یہ مسائل، جو حسی تجربے کی حدود سے ماورا ہیں، بالآخر و ضاحتی فلسفے کی پہنچ سے باہر رہتے ہیں۔

علم کو حسی مشاہدے اور تجربے کی حدود میں مقید کرنا انسان کو ان گہرے اور اہم سوالات سے دور لے جاتا ہے جو ازل سے اس کے ذہن میں گردش کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ نوبل انعام یافتہ سر پیٹر میڈاور نے کہا:

"علم ان بدیہی سوالات کا جواب نہیں دے سکتا جو بچے ہم سے پوچھتے ہیں: یہ کائنات کیسے شروع ہوئی؟ ہم یہاں کیسے آئے؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور بہت کچھ۔ ان سوالات کا جواب صرف فلاسفہ اور مذہبی رہنما ہی دے سکتے ہیں۔"

یہ حقیقت عصرِ حاضر کے ایک پریشان کن پہلو کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں انسان کو تکنیکی سوالات کے اس محدود دائرے میں مقید کر دیا گیا ہے، جو اس کے روحانی اور جذباتی وجود کی گہرائیوں پر توجہ نہیں دیتا۔ سائنسی تجربہ نہ صرف ان بڑے سوالات کو جواب کے بغیر چھوڑ دیتا ہے بلکہ انہیں عقلی سوچ کے دائرے سے باہر دھکیلنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

وضاحتی فلسفے کی ان گہرے سوالات کے جواب دینے میں ناکامی دین کو انسانی زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بنا دیتی ہے۔ دین صرف دنیا کو اس مادی مظاہر کے مجموعے کے طور پر نہیں دیکھتا جس کی سائنسی وضاحت ممکن ہو، بلکہ یہ انسان کے لیے زندگی کے معنی اور کائنات میں اس کے کردار پر غور و فکر کے لیے ایک وسیع تر افق فراہم کرتا ہے۔ دین کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو ایک گہری مقصدیت  دے سکتا ہے اور وجودی سوالات کے ساتھ ایک روحانی تعلق قائم کر سکتا ہے، جو اس کے دنیاوی اور روحانی فہم میں اضافہ کرتا ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ وضاحتی فلسفہ، جو صرف مادی دنیا تک محدود ہے، انسان کو ایک بڑے علمی خلا میں چھوڑ دیتا ہے، اور اسے روحانی اور جذباتی خلا کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان فطری طور پر ایسے جوابات کی تلاش میں رہتا ہے جو حسی مشاہدے سے باہر ہوں، اور ایسے وقت میں دین ہی وہ پہلا ذریعہ بنتا ہے جو ان وجودی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

آخر میں، یہ حقیقت واضح ہے کہ وضاحتی فلسفہ انسانی وجود کی ایک جامع وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا دائرۂ کار محض مادی امور تک محدود ہے، جبکہ انسانی زندگی کے بڑے سوالات ایک ایسے علمی نظام کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دائرے سے آگے کا احاطہ کرے۔

کوئی ایسا تصور کہ دین کا کردار وجود کی وضاحت میں حتما  ختم کر دیا جائے اور صرف سائنسی تجربے پر اکتفا کیا جائے، نہ صرف انسان کے فہم کو مادی سطح تک محدود کر دیتا ہے بلکہ اس کے وجود کی یکجائی اور کائنات کے تئیں اس کی کلی بصیرت کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔ انسان صرف ایک مادی شے نہیں ہے، نہ ہی وہ صرف ایک مادی مخلوق ہے جس کی مشاہدہ کی جانے والی اور ناپی جانے والی حسیات تک کوئی محدود ہو، بلکہ وہ ایک روحانی مخلوق ہے جس کا ارادہ اور مقصدیت بھی وجود رکھتی ہے، اور جو ہمیشہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرتا ہے جو مادی دنیا کی حدود سے آگے بڑھتے ہیں۔ انسان فطری طور پر معنی، مقصد، اور بلند اقدار کی تلاش میں رہتا ہے جو اس کے وجود کے معیار کو بلند کر سکیں ، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو صرف سائنسی تجربہ فراہم نہیں کر سکتا۔

اس ضمن میں، ڈاکٹر میکس نوردوہ نے اس روحانی جذبے کو انسانی فطرت کے ایک لازمی حصے کے طور پر بیان کیا ہے، اور کہا:

یہ احساس ایک اصلی اور فطری پہلو ہے جسے انسان غیر متمدن معاشروں میں بھی پاتا ہے جیسے کہ سب سے زیادہ سوچنے والے اور بدیہی افراد میں۔ جب تک انسانیت موجود رہے گی، مذاہب بھی موجود رہیں گے، اور ان کی ترقی انسانیت کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو گی، اور ہمیشہ اس ثقافتی سطح کے مطابق جواب دیں گے جسے کوئی جماعت حاصل کرتی ہے۔

یہ دینی احساس کوئی سطحی یا وقتی خصوصیت نہیں بلکہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے، خواہ یہ اعلی ٰ ترقی یافتہ معاشروں میں ہو یا کم ترقی یافتہ ماحول میں۔ روحانیت کا یہ احساس اور بلند تر مقصد کی طرف جستجو انسان کی سب سے گہرے اور طاقتور محرکات میں سے ایک ہے، جو محض مادی علم پر اکتفا نہیں کر سکتا، بلکہ اسے اپنے روحانی اور فلسفیانہ ابعاد کو سمجھنے کے لیے ایک گہرے فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔

چناں چہ دین انسانیت کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے جو سائنسی علم کے مکمل ہونے والی کمی کو پورا کرتا ہے اور عقل و دل کی روحانی ضروریات کو تسکین پہنچاتا ہے۔ یہ ضرورت وقت و مکان کی حدود سے بالاتر ہے، اور جب تک انسان اپنی زندگی اور اس کے بعد کے وجود کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرے گا، دین ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا۔

فلسفیات وضعی کا جدید نقطہ نظر: دین کی دوبارہ اہمیت:

بیسویں صدی میں انسانی علوم کے ارتقاء اور علم میں اضافے کے ساتھ، بہت سے مغربی مفکرین نے زندگی میں دین کے کردار کا از سرِ نو جائزہ لیا۔ اس عرصے میں مغربی فلسفے میں ایک بڑا موڑ آیا، خاص طور پر اس وقت جب فلسفے کی وضعی حکمت عملیوں پر تنقید کی گئی جو بیسویں صدی کے پہلے نصف میں غالب تھیں، اور یہ طرز فکرمغربی فکری ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ اسی تناظر میں، سر الفریڈ آئر کا پانچویں دہائی کے دوران "فلسفہ وضعی کی موت" کا اعلان دین اور سائنس کے درمیان تعلق کے بارے میں نظرئیے میں تبدیلی کا باعث بنا۔ آئر اور دیگر مفکرین نے یہ سمجھا کہ فلسفہ وضعی، جو تمام شعبوں بشمول انسانی علوم اور دینیات پر تجرباتی تحقیق کے اصولوں کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا تھا، انسان کے وجود یا دینی ایمان کی معقول اور جامع وضاحت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

آئر نے اس بات کی نشاندہی بھی  کی کہ تجرباتی علوم جیسے کیمیا اور طبیعیات، جو حواس اور براہِ راست تجربے پر مبنی ہیں، ان کو انسانی یا دینی علوم پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی علوم جیسے فلسفہ، منطق، اور اخلاق میں اصول اور خیالات غیر قابلِ پیمائش یا ناقابل تجربہ ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مذہبی تصورات کو سائنسی تجرباتی معیاروں سے سمجھنا ممکن نہیں۔ جیسا کہ آئر نے کہا: "ہم تجرباتی سائنس کے اصولوں کو جو حواس (کیمیاء اور طبیعیات) پر مبنی ہیں، انسانی علوم (جیسے فلسفہ، منطق اور اخلاق) پر لاگو نہیں کر سکتے۔"

یہ نقطہ نظر اس وقت اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہم ان دینی تصورات کے بارے میں بات کرتے ہیں جو حسی تجربے اور مادی مشاہدے سے آگے بڑھ کر ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کوئی مومن یہ کہتا ہے کہ "اللہ ہر جگہ موجود ہے - کُل وجود"، تو اس تصوّر کی وضاحت کے لیے "مقام" یا "زمانہ" جیسے طبیعیات کے مفاہیم کا استعمال کرنا ایک روایتی کوشش ہے جو کہ مادی دائرے میں حقیقتوں کو منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس کے نتیجے میں مابعد الطبیعیاتی تصورات اور سائنسی تصورات کے درمیان بنیادی فرق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

اس طرح، آئر یا دیگر معاصر مفکرین نہ تو سائنس کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو رد کرتے ہیں، بلکہ وہ علم کے دائرے کو وسیع کرنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ان شعبوں کو بھی شامل کیا جا سکے جو تجرباتی طریقہ سے وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ ان کے خیال میں، دین اور سائنس دونوں اپنے اپنے میدان میں کسی تصادم کے بغیر ایک ساتھ رہ سکے ہیں۔ دین روح، وجود، معنی اور غایت جیسے تصورات سے متعلق ہے، جب کہ سائنس مادی دنیا میں قدرتی مظاہر کی وضاحت کرتی ہے۔ اس زاویہ سے دیکھا جائے تو ہم اس جدید مغربی فلسفہ میں دین اور سائنس کے درمیان مکالمہ اور ہم آہنگی کی دعوت دیکھ سکتے ہیں، نہ کہ آپس میں تصادم یا ایک دوسرے کو  مٹانے کی کوشش۔

اگر ہم اس خیال کو وسیع تر انداز میں دیکھیں، تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ معاصر فلاسفہ اور سائنسدانوں نے سائنس اور دین کے تعلق پر دوبارہ غور کرنا شروع کیا ہے، جہاں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں مختلف نوعیت کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔وہاں  قدرتی سائنس اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اس کائنات میں چیزیں کیسے ہوتی ہیں، جب کہ دین انسان کے لیے بنیادی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے، جیسے: چیزیں کیوں ہو رہی ہیں، انسان کیوں پیدا ہوا، اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کا حتمی انجام کیا ہوگا؟ سائنس اور دین کے درمیان یہ ہم آہنگی ہمیں اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم دونوں کے مابین تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کشادہ  ذہن اپنائیں، اور یہ دیکھیں کہ ہر ایک کس طرح انسان کے تجربے کو مزید پُر مغز بنا سکتا ہے۔

مجموعی طور پر، سائنس اور دین کو دو ہم آہنگ راستوں کے طور پر دیکھنا تضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی  تکمیل ہے،اگر چہ یہ  کئی روایتی تصورات کے لیے ایک چیلنج ہے، تاہم  یہ ہمیں جدید دور میں انسان کے فکری ارتقا پر غور کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ سائنس چیزوں کے "کیسے" ہونے کی وضاحت کر سکتی ہے، جبکہ دین ہمیں بتاتا ہے کہ یہ چیزیں "کیوں" موجود ہیں۔ اس معنی میں، ہم سائنس اور دین کو انسانیت کے سب سے بڑے سوالات کو سمجھنے کی کوشش میں ایک ساتھ شراکت دار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو مادی اور روحانی توازن کے فکری احیاء کی جانب رہنمائی کرتا ہے

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018