| دین اسلام کیوں ؟ | ہاتھی اور نابینا۔۔۔۔۔۔کیا دوسرے مذاہب کی پیروی درست ہے؟ تنقیدی جائزہ
ہاتھی اور نابینا۔۔۔۔۔۔کیا دوسرے مذاہب کی پیروی درست ہے؟ تنقیدی جائزہ
ابوحامد غزالی نے ایک مثال دی ہے،جس میں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ اندھے لوگ ہیں جو کسی اندھیرے کمرے میں موجود ہاتھی کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہاتھی کیا ہوتا ہے؟اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں یہ ایک ایسے لوگوں کا گروہ ہے جو پیدائشی اندھے ہیں اور یہ تاریک کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہیں ایک ہاتھی بھی موجود ہے وہ ہاتھی کو جاننے کے لیے چھونے کی حس کا استعمال کرتے ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہے؟ہر اندھے کا ہاتھ ہاتھی کے جس حصے پر لگتا ہے وہ اسی کو ہی ہاتھی سمجھتا ہے ۔ایک اندھے کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ کو لگتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ ہاتھی ایک مضبوط ستون کی طرح ہے۔ دوسرے کا ہاتھ ہاتھی کی سونڈ پر لگتا ہے تو وہ سمجھتا ہے ہاتھی سانپ کی طرح کا جانور ہے جو نرم اور تیز حرکت کرنے والا ہوتا ہے۔ایک اندھے کا ہاتھ ہاتھی کے کانوں کو لگتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہاتھی بڑے سے پنکھے کی طرح کا کوئی جانور ہے۔ ہر ایک کے پاس ہاتھی کی نامکمل تصویر ہے اور ایک نامکمل تفصیل ہے مگر ہر ایک سچ بول رہا ہے۔
اس طرح، پچھلی صدی کے وسط میں ایک گروہ نے مذہبی تکثیریت کے نظریے کو پیش کیا، ان کا دعویٰ تھا کہ تمام مذاہب ایماندار اور سچے ہیں، اور ہر ایک کے پاس سچائی کا ایک حصہ ہے۔
لہٰذا، اس نظریہ کے پیشرو جان ہِک کا خیال ہے کہ تمام مذاہب صرف ایک سچائی کی نامکمل تشریحات ہیں، اس لیے وہ غیر مسیحیوں کو "بے نام مسیحی" کہتا ہے، کیونکہ وہ ایک ہی سچائی کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن اس کے مطابق جو وہ سمجھتے ہیں۔
اس نظریہ کے پیدا ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
مذہبی تکثیریت کے نظریہ کے ظہور کے پیچھے کئی سیاسی اور سماجی وجوہات تھیں، جن میں اہم یہ ہیں:
چرچ جس طرح سے سائنسی نظریات سے نمٹا جو نشاۃ ثانیہ کے دور کے آغاز میں اس کے روایتی نظریات سے متصادم تھے، اس نے مذہب اور سائنس کے درمیان تنازعہ پیدا کر دیا تھا۔مغرب میں بہت سے لوگ ایسے پیدا ہوگئے جنہیں مذہنی علم کے یقینی ہونے اور اس کی صداقت پر ہی شک ہو گیا۔
لبرل پروٹسٹنٹ ازم کا ظہور ہوا، جو بائبل کی سائنسی تشریح کو قبول کرنے کی ضرورت پر یقین رکھتا ہے، اور اس کی تشریح میں عقلی طریقوں کے ناقابل اعتبار ہونے پر یقین رکھتا ہے کہ جو بھی اس کے مقابل سائنسی تشریح ہے وہ ناقابل اعتبار ہے۔
اسی طرح لبرل پروٹسٹنٹ ازم کے ظہور سے سیاسی لبرل ازم کا ظہور ہوا جس نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے مذہبی تکثیریت کی حمایت کی۔
بہت سی مذہبی اور دوسری جنگیں، خاص طور پر دو عالمی جنگیں اور ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے سانحات اور فتنوں نے بھی ایسی ثقافتوں کی تلاش کی ضرورت میں حصہ ڈالا جو دوسروں کو قبول کرنے اور مذہبی اختلافات کو کم کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔
اس تاریخی راستے پر چل کر بہت سے مغربی عیسائی مفکرین نے مذہبی تکثیریت کو ایک فکری محور اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد کے طور پر اپنانے پر مجبور کیا ہے اور یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نظریہ کی متحرک موجودگی پرامن بقائے باہمی پر مبنی ہے جس کی وجہ سے اس نظریہ کے حامیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کیوں ہوا ہے۔
مغرب میں اس نظریہ کے زیادہ پھیلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نے فکری یا ثقافتی اتفاق رائے حاصل کرلیا ہے، بلکہ یہ آج بھی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے، شاید اس کے سب سے بڑے نقاد مذہبی مفکر الوین پلانٹنگا ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو 1997 میں کیان میگزین کے شمارہ 36 میں شائع ہونے والے ڈاکٹر عبد الکریم سوروش کے ایک مضمون نے ایران کے مذہبی اور ثقافتی حلقوں میں ایک بڑے ہنگامے کو جنم دیا۔ اس مضمون میں مصنف نے مذہبی تکثیریت کا دفاع کیا اور اس کی بنیادوں پر روشنی ڈالی۔ اور اسے "صراط مستقیم" کے نظریہ کا نام دیا ہے، اس کے بعد اس کے حق میں اور اس کے خلاف بہت سی تحریریں لکھی گئیں۔
متعدد محققین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سوروش نے جو کچھ لکھا وہ ڈاکٹر محمد ارکون اور فضل الرحمان کی تحریروں کی تجدید اور اصلاح ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایرانی محقق میمندی نژاد نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے آغاز میں ایرانی معاشرے میں مذہبی تکثیریت کا نظریہ سروش سے کافی پہلے پیش کیا تھا۔
نظریہ پر اہم دلیلیں
نظریہ کے لیے سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ مذہبی متن کی تشریح کا انحصار متعدد لسانی اور فطری علوم پر ہے اور یہ علوم مسلسل ترقی اور تبدیلی کی حالت میں ہیں، اس لیے علم میں ترقی سے ان کی تشریح بدل جائے گی۔ یہاں سے ہم اپنے مرکزی نقطہ کی طرف جا سکتے ہیں جس کی ہم تلاش کر رہے ہیں کہ حقیقت کی تفہیم کی کُلیت تک توسیع ہے، یعنی مکمل دینی فہمی متن کی متعدد آراء اور تشریحات پر مشتمل ہےاور ایک ہی نص کی کئی تفاسیر پر ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک تفسیر کولے لیں اور دوسری کو چھوڑ دیں ایک فہم کو قابل اعتبار جانیں اور دوسرے کو رد کر دیں۔ہر تفسیر اپنے حصے کی حقیقت کی حامل ہوتی ہے۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کی یہ دلیل ادیان و مذاہب کی کثرت کا سبب بیان کر رہی ہے نہ کہ وہ یہ بتا رہی ہے کہ تمام کے تمام مذاہب حق ہیں اور تمام کے تمام مذاہب سچے ہیں۔اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ نص ایک ہے اور اس کی تفاسیر مختلف ہیں تو بھی یہ اس بات کا سبب بن جائے گا کہ آراء ایک سے زیادہ ہیں۔ یہاں بھی یہ ماننےمیں کونسی بات رکاوٹ بنتی ہے کہ یہ تمام تفاسیر یا ان میں سے بعض تفاسیر غلط نہیں ہیں؟!
دوسری دلیل جس کی اہمیت پہلی دلیل سے کم ہے وہ یہ کہ ہر دین اپنے موسس کے لیے ایک تجربہ دینی ہوتا ہے۔انبیاء اور غیر انبیاء تمام لوگ جنہوں نے نے ادیان کی بنیادیں رکھی ہیں وہ رابطے رکھتے ہیں۔اس تجربہ کی ماہرین نے مخصوص تفاسیر کی ہیں۔ان مذاہب کے موسسین میں سے ہر ایک کو حقیقت کا ایک حصہ ملا ہے جیسے ہاتھی والی مثال میں اس کی تشریح گزر چکی ہے۔
دینی تجربے سے مراد ایک اعلی اور مطلق ذات سے روبروی ہے۔اس تجربے کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں جس میں ایک عام انسان کا رب سے ایک تعلق ہے۔اسی طرح عرفاء کا روحانی رابطہ ہے اور اسی طرح انبیاء اور رسولوںؑ کے تجربات ہیں اور ان میں سب سے اعلی تجربہ نبی آخرالزمان کا معراج پر تشریف لے جانا ہے اور وہاں پروردگار سے ملاقات ہے۔
یہ دلیل بھی پہلی دلیل کی طرح دعوی پر دلالت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی دعوی بڑا اور اس کی دلیل تمام دعوی کا احاطہ نہیں کرتی۔اگر ہم اسے زمینی ادیان کے لیے قبول بھی کر لیں جیسے بت پرستوں کے لیے تو بھی اسے ادیا ن حق کے لیے قبول کرنا مشکل ہے۔کبھی کبھی جادو گروں اور کاہنوں کو جن اور شیاطین بعض چیزوں کی تفسیر بتاتے ہیں اور ان کے پیروکار اسے دین کی شکل دے لیتے ہیں۔تمام ادیان کے موسسین اس کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔یہاں ایک معصوم نبی موجود ہے اور اس پر اللہ نے ایسی کتاب نازل کی ہے جو معصوم ہے۔اس کی موجودگی میں دیگر کی طرف رجوع درست نہیں ہے۔
یہ دلیل مذہبی تجربے کی انسانی خصوصیت پر مبنی ہے۔اور تجربے کی تشریح کرنے سے ہمارا مطلب زبان کے ذریعے اسے سمجھانا اور اسے مفاہیم کی شکل میں رکھنا ہے۔
اسلامی نظریہ
ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ڈاکٹر عبدالکریم سوروش نے یہ نظریہ اپنایا، اور انہوں نے اسے "صراط مستقیم" کا نظریہ کہا۔پروفیسر محمد لیگن ہاسن نے اسے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ "مذہبی تکثیریت" کا نظریہ درحقیقت جان ہُک کی طرف سے عیسائی مذہب کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جو لوگ مسیحی تاریخ کو جانتے ہیں اور بالخصوص مسیحیوں کے ثواب و عقاب کے نظریات سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان مشکلات کو حل کرنا کس قدر ضروری تھا۔مثال کے طور پر، قرون وسطیٰ کے زمانے میں یہ مانتے تھے کہ صرف وہی لوگ جنت میں داخل ہو سکتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو چرچ میں بپتسمہ دیا تھا۔ اور ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ اور ابراہیم علیہ السلام ان کے لیے کلیسیا کے احترام کے باوجود اہل جنت میں سے نہیں تھے۔ چونکہ وہ نہ نہلائے گئے اور بپتسمہ نہیں لیا گیا، وہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک ایسے علاقے میں رہنے پر مجبور ہوں گے جسے ان کے ادب میں (لمبو) کہا جاتا ہے، اسلامی عقائد کے مطابق اس مقام کو اعراف کہا جاتا ہے۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق قیامت کے دن حضرت عیسیؑ خود تشریف لائیں گے تاکہ حضرت ابراہیم اور موسی علیھما السلام کو جنت میں داخل کریں۔
یہ نظریہ عیسائیت میں رائج روایتی فکر کے مقابلے میں ایک متبادل پوزیشن کے اظہار کے لیے آیا۔اس نظریہ کا ایک تاریخی بیک گراونڈ ہے،اس کا سیاق و سباق ہے اور ایک خاص ماحول میں میں ایک ردعمل کے طور پر آیا اور اسے قبول کیا گیا۔
مغرب میں اس نظریہ کا خاص بیک گراونڈ تھا جس کی تفصیل ذکر کر دی اب جب اس نظریہ کو اسی صورت میں اسلامی معاشرے میں لایا جاتا ہے تو یہاں یہ تحریفات اور تضادات کا باعث بنتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کلیسا کی طرح انتہا پسندانہ خیالات نہیں رکھتا کہ جنہیں چھپانے کے لیے اس طرح کے نظریات کی ضرورت پیش آئے کہ مذہبی تکثیریت کو بطور حل پیش کیا جائے۔اسلامی فکر اپنی بقا اور ترقی میں کسی طور پر مجبور نہیں ہے کہ اسے اپنی اصلاح کے لیے اور اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لے اس فکر کی ضرورت پڑے۔اسلامی فکر اتنی طاقتور ہے کہ درپیش چیلنجز سے خود نمٹ سکتی ہے اور اسی مسیحیت کی طرح مذہبی تکثیریت کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اپنے آپ کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تکثیریت کے تصور کو قبول کرنے پر مجبور نہیں سمجھتاہے ۔اسلام میں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نظام موجود ہے۔ مذہبی تکثیریت کا نظریہ جان ہِک نے پیش کیا، جو برطانیہ میں پریسبیٹیرین فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک عیسائی پادریہیں، اور اپنے نظریہ کے ساتھ اس نے سب سے پہلے عیسائی فکر کی اصلاح کے عمل کو انجام دینے کی کوشش کی۔
مغرب میں پیدا ہونے والے بہت سے نظریات ایسے ہی ہیں جو مغرب میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پیش کیے گئے وہ مشکلات جو مغرب کی زمین پر بسنے والوں انسانون کو ایک خاص دور میں پیش آئیں۔
جب ایسے نظریات کو دوسرے معاشروں اور تہذیبوں میں ٹھونسا جاتا ہے تو یہ علاج نہیں رہتے بلکہ کئی نئے مسائل کو جنم دیتے ہیں اور پھر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ایسی غلطیوں کی بہت سے مثالیں ان میں نمایاں نظریہ سیکولرازم کا نظریہ ہے ۔اب اسے اسلامی بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ جب یہ نظریہ مغرب میں آیا تو اس کا خاص تاریخی پس منظر تھا۔جب قرون وسطی میں چرچ کی آمریت قائم تھی اس کے متبادل کے طور پر یہ نظریہ پیش کیا گیا۔چر چ کے پاس نظام زندگی کو چلانے کے لیے کوئی موثر نظام نہیں تھا۔چرچ کے پاس جو احکامات تھے ان کا تعلق فقط روحانی اور اخلاقی امور سے تھا۔اس کے برعکس اسلام تو فرد اور معاشرے کے نظام کو منظم کرنے کے احکامات دیتا ہے۔اس کا مطلب واضح ہے جہاں اسلام کی واضح اور اعلی تعلیمات موجود ہیں وہاں چرچ کے جبر کے خلاف پیدا ہونے والے سیکولرازم کے نظریے کو ٹھونسنا عقل مندی نہیں ہے۔اگر ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پھر بھی سیکولرازم کو نافذ کیا جائے تو اس سے نئے مسائل جنم لیں گے جو لے رہے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے نئی کوششیں کرنا ہوں گی۔
کیایہ نظریہ ایک حقیقت پسندانہ خیال ہے؟
پروفیسر محسن غرویان نے نشاندہی کی کہ جب کسی معاشرے کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے یعنی وہ ہر طرح کے نظریات و افکار کے لیے سبزی منڈی بنا ہوا ہے،یہ ویسے ہی ایک غیر حقیقت پسندانہ خیال ہے، عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔بہت سے ممالک یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے لبرل ممالک ہیں مگر جب ان پر کوئی بات آتی ہے تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ ہماری جمہوری اقدار ہیں اور اس طرح کے دیگر نعرے لگاتے ہوئے میدان میں آ جاتے ہیں ۔یہ بتاتا ہے کہ لبرازم فقط نعرہ ہے امریکہ میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی ۔اگر لبرل معاشرہ ہے تو پھر ہر طرح کے خیالات کو آنے دیں مگر نہیں آنے دیں گے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فقط نعرہ ہی ہے ۔
شیخ مقداد الربیعی۔۔محقق و استاد حوزہ علمیہ