12 جمادي الاول 1447 هـ   3 نومبر 2025 عيسوى 12:18 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآن کریم کا متن |  کیا قرآن ہم جنس پرستی کو جائز قرار دیتا ہے؟ اُلفة یوسف اور ہم خیال مفکرین کے نظریات کا تنقیدی جائزہ
2025-10-11   129

کیا قرآن ہم جنس پرستی کو جائز قرار دیتا ہے؟ اُلفة یوسف اور ہم خیال مفکرین کے نظریات کا تنقیدی جائزہ

الشيخ مقداد الربيعي

اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ دانشور جو دینی متون کو سمجھنے میں عام اور متفقہ فہم سے ہٹ گئے ہیں اور ایسی عجیب و غیر مانوس تفسیریں پیش کرتے ہیں جو مسلمانوں کی اکثریت کے فہم کے خلاف ہیں ان نئے لکھنے والوں میں کیا چیز مشترک ہے ؟ تو میرا جواب وہی ہوگا جو خود قرآنِ کریم نے فرمایا ہے:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ  فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ(آل عمران: 7)

۷۔وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ کسی ایسے متن کو پکڑ لیتے ہیں جس کے ایک سے زیادہ معنی ممکن ہوںمگر کسی واضح اور قطعی آیت کی طرف نہیں جاتے کہ اصل معنی سمجھ سکیں۔ وہ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹا لیتے ہیں پھر اپنی خواہش کے مطابق اس سے وہ مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو وہ خود چاہتے ہیں۔

اس کی ایک مثال تُونسی مصنفہ اُلفہ یوسف کا طرزِ عمل ہےجس نے اپنی کتاب"حِیرةُ مُسلِمة"میں یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ مبارک سے استغفراللہ ہم جنس پرستی کا مفہوم نکلتا ہے:

(زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ..) آل عمران: 14

لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے،

اس نے آیتِ قرآنی کی ایسی ہی تشریح کی ہے کہ لفظ "الناس" میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں،لہٰذا اُس کے بقول تمام انسانوں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ان کے لیےعورتوں کی محبت اور شہوت کو دلکش بنا دیا گیا ہے(یعنی عورت کا عورت سے جنسی تعلق درست ہے۔)چنانچہ اُس نے کہا: اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ عزوجل نے مذکورہ خواہشات کی محبت تمام انسانوں کی طرف منسوب کی ہے اور ان ہی خواہشات میں عورتوں کی رغبت بھی شامل ہے۔(حِیرةُ مُسلِمة، صفحہ 177)

اس کے بعد کوشش کرتی ہے کہ مسلمان قاری پر اس نئی تفہیم کے بوجھ کو کچھ ہلکا کر دےاور یہ ظاہر کرے کہ اُس کا مقصود ہم جنس پرستی کے جنسی عمل کو جائز ٹھہرانا نہیں بلکہ صرف محبت یا قلبی میلان کے وجود کو بیان کرنا ہے۔

چنانچہ وہ کہتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ عورتوں کو جو "الناس"میں شامل ہیں عورتوں ہی کی خواہش کا شوق دیا گیا ہے؟آخر ایسا کیوں نہ سمجھا جائے؟ لفظ "الناس" کے عمومی انتخاب میں اور ‘النساء کو ان کی خواہشات میں شامل کرنے میں ایک گہرا اور حکیمانہ اشارہ پوشیدہ ہے۔ جو شہوانی یا جنسی عمل کے مفہوم سے آگے بڑھ کر دو عورتوں کے درمیان ممکنہ شوق یا باطنی میلان کی ایک رمزی و علامتی جہت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (ماخذ: حِیرةُ مُسلِمة، صفحہ 180)

اگرچہ یہ بات اپنے انداز اور مفہوم میں اس قدر ناقابل قبول ہے کہ وہ عورتیں جنہیں اللہ تعالیٰ نےحیا اور وقار سے مزین فرمایا ہےاسے سن کر ہی ناگواری محسوس کرتی ہیں۔مگر کچھ ایسی ہیں کہ اس قسم کی بری باتوں نے ان کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے جو بدکاری کو جواز دینے کے لیے کسی بہانے یا دلیل کی تلاش میں ہیں۔

معنی کی درستگی

اگر ہم واقعی قرآنِ کریم کی اس آیتِ مبارکہ کے درست اور مقصود معنی تک پہنچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اسے اس فکری اختطاف (تحریف و سیاق سے علیحدگی) سے آزاد کرنا ہوگاجو محققہ اُلفہ یوسف نے کیا ہے۔ اسےاس کے اصل سیاق و سباق میں واپس لانا ہوگا کیونکہ یہ آیت اُن آیات میں سے ہے جو مشرکین کے خلاف جہاد پر ابھارتی ہیں اور انسان کے اندر نفس کی خواہشات اور لذتوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ. زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ. قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ) آل عمران: 13 ـ 14.

تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جو (جنگ بدر کے دن) باہم مقابل ہوئے ایک نشانی تھی، ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا وہ (کفار) ان (مسلمانوں) کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہے تھے اور خدا جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے اس کی تائید کرتا ہے، صاحبان بصیرت کے لیے اس واقعے میں یقینا بڑی عبرت ہے۔۱۴۔ لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ کہدیجئے:کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

ان آیاتِ کریمہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ انسان کو جہاد پر اُبھارتی ہیں اور اسے آرام، سہولت اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جانے سے روکتی ہیں۔ جب ہم اس مجموعی سیاق کو پیشِ نظر رکھتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں لفظ "الناس" سے مراد عام انسان نہیں بلکہ وہ افراد ہیں جو جہاد کے مکلف ہیں اور یہ مرد ہوتے ہیں۔ لہٰذا آیتِ مبارکہ کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ مردوں کے لیے عورتوں، بیٹوں اور دیگر دنیاوی لذتوں کی محبت کو دلکش بنا دیا گیا ہے۔

قرآنِ کریم میں کسی عام لفظ کا استعمال کر کے اس سے کسی خاص طبقے یا گروہ کو مراد لینا ایک معروف اسلوب ہےاور ایسی کئی مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔ ذیل میں چند نمونے ملاحظہ فرمائیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ)آل عمران: 173(

جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں پس ان سے ڈرو تو (یہ سن کر) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور وہ کہنے لگے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ چنانچہ اس کے فرمان "قال لهم الناس" (لوگوں نے ان سے کہا) سے مراد یہ نہیں کہ تمام انسانوں نے کہاکیونکہ یہ بات عقلاً ناممکن ہے کہ دنیا کے تمام انسان جمع ہو کرمسلمانوں سے کوئی بات کہیں۔

(إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ)

بلکہ شانِ نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرادایک ہی دیہاتی (اعرابی) شخص ہے جس نے یہ بات کہی تھی۔اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ایک اور فرمان ہے:

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ)المائدة: 116)

اور (وہ وقت یاد کرو ) جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو خدا بناؤ؟ عیسیٰ نے عرض کی: تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق ہی نہیں؟ اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو تجھے اس کا علم ہوتا، کیونکہ تو میرے دل کی بات جانتا ہے لیکن میں تیرے اسرار نہیں جانتا، یقینا تو ہی غیب کی باتیں خوب جاننے والا ہے۔ یقیناً یہاں سوال تمام انسانوں سے متعلق نہیں بلکہ ایک مخصوص گروسے ہے یعنی اُن لوگوں سے جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کا دعویٰ کیا۔لہٰذا آیت میں لفظ “الناسسے تمام انسانوں کی مراد لینا درست نہیں۔

اسی طرح اللہ عزوجل کے اس فرمانِ بلیغ میں بھی یہی اسلوب پایا جاتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ (الأعراف: 116)

موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔

کوئی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اُن عام لوگوں میں شامل تھے جو ڈر گئے اور خوف زدہ ہوئے،

لہٰذا یہاں بھی لفظ "الناس"سے تمام لوگوں کی مراد نہیں بلکہ ایک خاص گروہ ہی مراد ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ لفظ "الناس"قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور اکثر مواقع پر اس سے تمام انسانوں کے بجائے کسی خاص گروہ یا طبقے کو مراد لیا گیا ہے۔ اسی طرح زیرِ بحث آیت میں بھی “الناس سے مرادوہ لوگ ہیں جو جہاد کے مکلف ہیں اور ان میں سے بعض کے دل عورتوں، بیٹوں اور مال و دولت جیسی نفسانی خواہشات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس بنا پر محققہ کا یہ استدلال باطل ٹھہرتا ہے کہ آیت میں لفظ "الناس"میں عورتیں بھی شامل ہیں۔

عورتوں میں جنسی انحراف کے محرکات

مصنفہ عورتوں میں ہم جنس پرستی کے لیے فکری جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ اُن حقیقی عوامل کا ذکر کیا جائے جو بعض خواتین کو اس غیر اخلاقی رجحان کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس بارے میں ماہرینِ نفسیات نے واضح طور پر تحقیق کی ہے، جن میں امریکہ کی نیشنل ایسوسی ایشن فار ریسرچ اینڈ تھیراپی آف ہوموسیکسویلیٹی (NARTH) کے سربراہ ڈاکٹر جوزف نیکولوسی کا کہنا ہے کہ عورتوں میں ہم جنسیت کا رجحان یا سحاق کی بنیادی وجوہات مخصوص نفسیاتی اور جذباتی محرکات ہیں۔

اولاً: لڑکی کا اپنی نسوانی شناخت سے انکار،اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹر جوزف نیکولوسی کے مطابق:“وہ عورتیں جو سحاق (عورتوں میں ہم جنس پرستی) کی طرف مائل ہو جاتی ہیں وہ لاشعوری طور پر یہ فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں کہ عورت ہونا یا تو کوئی ناپسندیدہ شے ہے یا پھر غیر محفوظ حیثیت رکھتا ہے۔ بعض اوقات اس رویّے کی جڑیں اس جنسی ہراسانی یا بدسلوکی میں ہوتی ہے جو لڑکی اپنے بچپن میں کسی مرد کی طرف سے برداشت کرتی ہے۔(کتاب: الرجولة إنجاز – دليل الآباء لوقاية الأبناء من الشذوذ الجنسي، صفحہ 230)

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ایلر بویكوبھی اس سبب کی تصدیق کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں: میرا خیال ہے کہ عورتوں میں سحاق (ہم جنس پرستی) کی طرف مائل ہونے کی عمومی وجہ ایک ایسےنفسیاتی رویّے یا ذہنی رجحان کا بن جانا ہے جو نسوانیت کا انکار کرتا ہے۔ یہ رویّہ عموماً اُن سابقہ واقعات یا تجربات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جو یہ پیغام دیتے ہیں کہ عورت ہونا غیر محفوظ اور ناپسندیدہ بات ہے۔ (ماخذ: الرجولة إنجاز دليل الآباء لوقاية الأبناء من الشذوذ الجنسي، صفحہ 234)

ثانياً: برے والدین یا والدین سے خراب تعلقات، بعض باپ اپنی جذباتی سرد مہری، حد سے زیادہ سختی یا شراب نوشی جیسی عادتوں کے باعث بیٹی کے دل میں شدید نفرت یا خوف پیدا کر دیتے ہیں۔ بچپن اور نوجوانی کے ان تکلیف دہ تجربات کے بار بار پیش آنے سے لڑکی کے اندرمردوں سے مکمل دوری اور ان سے تعلق توڑ لینے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے جو بالآخر ہر طرح کے مردانہ رشتوں خصوصاً جنسی تعلقات سےگریز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

ثالثاً:خواتین کا بچپن یا جوانی میں جنسی استحصال، زیادتی یا ہراسانی کا نشانہ بننا۔جب کوئی عورت ان تلخ تجربات سے گزرتی ہے تو اس کے لاشعور میں یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ کسی مرد کے ساتھ تعلق یا قربت دراصل اُس پہلے اذیت ناک تجربے کی تجدید ہوگا۔ اس کے برعکس، عورت کے ساتھ تعلق اسے نرمی، تحفظ اور شفقت کا احساس دیتا ہے۔ڈاکٹرچارلز سوکارڈیزاس بارے میں لکھتے ہیں کہ: اپنے عملی تجربات کے دوران میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ سحاق میں مبتلا خواتین بچپن ہی سے ایک گہرےاحساسِ کمتری کا شکار رہی ہیں اور یہی احساس بعد میں عورتوں کے درمیان جنسی تعلق کا راستہ ہموار کرتا ہے۔عموماً اُن خواتین کے ساتھ جو اسی قسم کے صدمات سے گزر چکی ہوتی ہیں۔ (ماخذ: الرجولة إنجاز دليل الآباء لوقاية الأبناء من الشذوذ الجنسي، صفحہ 244)

رابعاً:ماں کی محبت اور شفقت سے محرومی یا اس کی کمی کا احساس،جب لڑکی کو اپنی ماں کی طرف سے نرمی، توجہ یا جذباتی سہارا نہیں ملتا اور ماں کا رویّہ سرد، سخت یا غیر محبّت والا ہوتا ہےتو اس کے دل میں ایک خلا اور محرومی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعد ازاں وہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کسی دوسری عورت کی آغوش میں محبت اور تسکین تلاش کرنے لگتی ہے۔ ڈاکٹرایلر بویكو اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عورتوں کے درمیان جنسی تعلق دراصل  ایک بہت پرانی خواہش کی تکمیل کی مانند ہوتا ہے جیسے کوئی شخص واپس اپنے گھر لوٹ آیا ہو۔ (ماخذ: الرجولة إنجاز، دليل الآباء لوقاية الأبناء من الشذوذ الجنسي، صفحہ 252)

کیا قرآنِ کریم میں سحاق کا حکم بیان کیا گیا ہے؟

بات سے بات نکلتی ہے اور تحقیق کی تکمیل کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ہم مصنفہ اُلفہ یوسف کے اس سوال کا بھی جواب دیں کہ قرآنِ کریم نے سحاق (عورتوں کے باہمی جنسی عمل) کا حکم کیوں صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیاجبکہ زنا اور لواط کا حکم واضح طور پر ذکر فرمایا ہے؟

در حقیقت یہ سوال ہی غلط ہےکیونکہ کس نے کہا کہ قرآنِ کریم نے اس موضوع پر بات نہیں کی؟ اسی وجہ سے ہم نے اس پیراگراف کے عنوان میں اس مغالطے کی وضاحت کی ہے اور سوال کو دوبارہ یوں ترتیب دیا ہے:کیا قرآنِ کریم نے سحاق کا حکم بیان کیا ہے؟ جو کوئی بھی قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہےچاہے وہ اس فن کا ماہر نہ بھی ہو وہ بخوبی محسوس کرتا ہے کہ قرآنِ مجید کسی حکم کو کبھی براہِ راست اور صریح انداز میں بیان کرتا ہے اور کبھی اُسے کسی عمومی حکم کے دائرے میں بیان کرتا ہے۔اسی اصول کے تحت سحاق (عورتوں کے باہمی جنسی تعلق) کا مسئلہ بھی آتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ) المؤمنون: 5 ـ 7.

اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،۶۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔۷۔ لہٰذا جو ان کے علاوہ اوروں کے طالب ہو جائیں تو وہ زیادتی کرنے والے ہوں گے۔

قرآنِ مجید نے جائز جنسی تعلقات کی تمام صورتوں کو واضح طور پر متعین کر دیا ہے اور انہیں صرف دو حدود میں محدود رکھا ہے: پہلی، نکاح کے بندھن میں مرد اور عورت کے درمیان تعلق کیونکہ قرآنِ کریم میں لفظ "زوج" کبھی ہم جنس کے لیے استعمال نہیں ہوا؛ دوسری، مملوکہ عورت یعنی ملکِ یمین کے ساتھ تعلق۔ ان دونوں کے علاوہ ہر طرح کا جنسی تعلق، خواہ وہ لواطت ہو، سحاق ہو یا کسی اور صورت میں ہو، قرآنِ کریم نے اسے صریح طور پر حرام اور ممنوع قرار دیا ہے۔

حرام ہونے کے لیے کسی چیز کا نام لے کر ذکر کیا جانا ضروری نہیں ورنہ تو ہم مصنفہ کے موقف پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ وہ خود بھی بہت سی ایسی جنسی صورتوں کو حرام کہتی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نام لے کر نہیں آیا۔ مثلاً قرآنِ کریم نےجانوروں کے ساتھ جنسی تعلق (نکاح البهائم) کی حرمت کا ذکر نہیں کیانہ ہی استمناء (مشت زنی) کی ممانعت کا لفظی بیان کیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعمال جائز ہیں؟

مزید یہ کہ سنتِ نبویہ قرآنِ کریم کی عمومی آیات کی وضاحت اور تشریح کرتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احادیثِ نبویہ میں سحاق (عورتوں کے باہمی جنسی تعلق) کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔چنانچہ بشیر النبال سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک شخص کو دیکھا، اس نے عرض کیا:“ عورتوں کے باہمی تعلق (سحاق) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟”امام علیہ السلام نے فرمایا: “میں تمہیں اس وقت تک نہیں بتاؤں گا جب تک تم قسم نہ کھاؤ کہ جو کچھ میں تمہیں کہوں گا وہ عورتوں تک پہنچاؤ گے۔”اس نے قسم کھائی، تو امام علیہ السلام نے فرمایا:“وہ دونوں آگ میں ہوں گی ان پرآگ کے ستر جوڑے کپڑے ہوں گے، ان کپڑوں کے اوپر آگ کی سخت کھال ہوگی، ان کے جسم پر آگ کے پٹے، آگ کے تاج اور آگ کے جوتے ہوں گے اور وہ دونوں آگ میں ہوں گی۔ (جامع أحاديث الشيعة، للسيد البروجردي، ج 20، ص 375–376)

اسی طرح شریعتِ اسلامیہ نے بعض ایسےجنسی افعال کو بھی حرام قرار دیا ہے جو سحاق (عورتوں کے باہمی جنسی تعلق) سے درجے میں بہت کم تر ہیں۔ پس جب وہ اعمال ممنوع ہیں توسحاق کی حرمت تو بدرجۂ اولیٰ ثابت ہے۔چونکہ جسمانی ملاپ، بدن کا باہمی لمس اور قربت شہوانی جذبات کو بھڑکانے کا بنیادی ذریعہ ہے، اس لیے شریعت نے ایسے ہر طرح کے جسمانی اختلاط اور قربت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے اور اس پر تعزیری سزامقرر کی ہے۔ اگر عورتیں اس عمل کو دہراتی رہیں تو ان کی سزا میں سختی بڑھتی جاتی ہے، آخرکار بات قتل تک جا پہنچتی ہے۔جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:دو عورتوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک ہی لحاف (چادر) میں سوئیں مگر یہ کہ ان کے درمیان کوئی حائل ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں اس عمل سے روکا جائےاور اگر روکے جانے کے بعد پھر ایسا کیا جائے تو ہر ایک کو حد لگائی جائے۔ اگر وہ دوبارہ ایک لحاف میں پائی جائیں تو پھر بھی حد دی جائے، اور اگر تیسری مرتبہ ایسا کیا جائے تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ (وسائل الشيعة، للحر العاملي، ج 20، ص 348)

جب احادیثِ نبویہ کی نصوص قرآنِ کریم کی آیات کے ساتھ سازگار ہوں تو یہ دعویٰ درست نہیں رہتا کہ قرآن نے سحاق (عورتوں کے باہمی جنسی تعلق) کا حکم بیان نہیں کیا۔ تاہم یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی قانون سازی کے ابتدائی دور میں یہ قبیح عمل بہت ہی نایاب تھا۔ اگرچہ قومِ لوط میں اس کے رائج ہونے سے متعلق بعض روایات ملتی ہیں لیکن اسلام کے ظہور کے بعد یہ برائی آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور عملی طور پر ناپید ہو گئی۔ (زاد المعاد، ابن القيم محمد بن أبي بكر، ج5، ص36)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018