

| قرآن کریم کا متن | قرآن کریم کے متن کو سمجھنے میں درپیش چیلنجز اور رہنما اصول

قرآن کریم کے متن کو سمجھنے میں درپیش چیلنجز اور رہنما اصول
تحریر: شیخ معتصم سید احمد
معاصر فکری اور ثقافتی چیلنجوں کے پس منظر میں بعض افراد اپنے نظریاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے قرآن کریم کو ایک ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس عمل میں وہ نصوص کے فہم کے علمی منہج کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہ رجحان اس تصور پر مبنی ہے کہ قرآن کریم محض ایک زبانی متن ہے، جس کی تأویل کسی بھی طے شدہ اور وضع شدہ اصول کے بغیر کی جا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسی انتخابی اور انفرادی رجحانات پر مبنی تفاسیر وجود میں آئیں، جو قرآن کی حقیقی روح سے دور ہو گئیں۔ نتیجتاً، غلط تفاسیر نے جنم لیا، جو نہ صرف قرآنی پیغام میں التباس پیدا کرتی ہیں بلکہ سامع کے فکری شعور میں بھی انتشار اور خلل کا باعث بنتی ہیں۔
اس صورتِ حال کے پیشِ نظر، قرآنی زبان کے فہم کی منھج اور طریقہ کارپر ازسرِنو غور کرنے کی فوری ضرورت محسوس ہوتی ہے، تاکہ کسی بھی قسم کی تحریف یا غلط تعبیر سے اجتناب کیا جا سکے۔ اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے، جو موجودہ دور میں قرآنی متن کے فہم کو درپیش بنیادی چیلنجز کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان منہجی اصولوں کا تجزیہ کرتا ہے جو قرآنِ کریم کے صحیح ادراک میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس میں ہم ان علمی اصولوں پر گفتگو کریں گے جنہیں اپنا کر ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے جو قرآن کریم کے حقیقی معانی کے ادراک میں حائل ہوتی ہیں، تاکہ قرآن پر ایک بامقصد اور گہرے تدبر کا دروازہ کھولا جا سکے اور اسے انفرادی یا من مانی تأویلات سے محفوظ رکھا جا سکے جو اسے اس کے اصل مفہوم سے دور لے جانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی متون کا فہم ان پیچیدہ علمی مسائل میں سے ایک ہے، جن کا سامنا علماء اور اہلِ علم کو ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ براہِ راست اس زبان سے وابستہ ہے، جس کے ذریعے یہ متون اپنے معانی کو بیان کرتے ہیں۔ چونکہ قرآنِ کریم اسلامی شریعت کا اساسی ماخذ ہے، اس کی دلالات کو سمجھنا اس زبان کے گہرے ادراک پر منحصر ہے، جس میں یہ نازل ہوا۔ ساتھ ہی، یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ زبان اپنی فطری ساخت کے تحت وقت کے ساتھ تغیر اور ارتقا کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ یہی پہلو اس اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ ان لسانی تبدیلیوں کے پیشِ نظر دینی متن کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے، خاص طور پر جب یہ معلوم ہو کہ قرآن "واضح اور فصیح عربی زبان" میں نازل ہوا ہے۔ یہی امر ان رکاوٹوں کے تجزیے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، جو قرآن کریم کے صحیح فہم میں حائل ہو سکتی ہیں، اور ساتھ ہی ان منہجی اصولوں پر غور و فکر کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے جو ان مشکلات کے ازالے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ یہی امور اس مضمون میں تفصیل سے زیرِ بحث آئیں گے۔
زبان دینی متون، چاہے وہ قرآنی ہوں یا نبوی، کے فہم میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے متکلم کا مقصود اور اس کا پیغام معانی کی صورت میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر، زبان کا گہرا مطالعہ اور الفاظ کی دلالات کا درست ادراک اسلامی علوم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جو علمِ تفسیر سے لے کر علمِ حدیث اور پھر علومِ فقہ تک وسیع ہے۔ علمِ اصولِ فقہ نے بھی الفاظ اور ان کی دلالات کے مطالعے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، تاکہ مختلف سیاق و سباق میں ان کی تعبیر و تشریح کے اصول واضح کیے جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مفسر اور تدبر کرنے والے کے لیے زبان میں مہارت اور اس کی ارتقائی تبدیلیوں سے آگاہی ناگزیر ہے، تاکہ وحیِ الٰہی کے صحیح، گہرے اور مستند فہم کو یقینی بنایا جا سکے۔
اگرچہ عربی زبان بولنے والوں کے لیے دینی متون بظاہر واضح محسوس ہو سکتے ہیں، تاہم ان کے درست فہم پر اثر انداز ہونے والے کئی عوامل موجود ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں عنصر ثقافتی پسِ منظر ہے، کیونکہ تاریخی، نفسیاتی اور سماجی عوامل الفاظ کے ادراک اور ان کے مفہوم کی تفہیم کے انداز کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، دینی متون محض لسانی متون نہیں ہوتے، بلکہ وہ گہرے فکری اور مذہبی مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں، جو ایک مخصوص منہجی طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں، تاکہ متکلم کے مدعا اور مقصد کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔
دینی متن کے فہم میں حائل رکاوٹیں
دینی متون کے صحیح فہم کے لیے ان رکاوٹوں کا ادراک ضروری ہے جو اس کی دقت اور تعبیر پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے چند اہم رکاوٹیں درج ذیل ہیں:
دینی متن بظاہر لغوی دلالت کی روشنی میں واضح محسوس ہو سکتا ہے، مگر عملی طور پر کئی الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ گہرے اور وسیع مفاہیم کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی متون کے الفاظ محض لغوی معانی تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ ان کے مفاہیم ان کے سیاق و سباق اور متن میں ان کے مقام کے مطابق بدل سکتے ہیں۔ چنانچہ کسی لفظ کا مفہوم جملے کے اندر اس کے محلِّ استعمال اور آیت کے عمومی پسِ منظر کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔مثال کے طور پر، عربی میں "ید" کا بنیادی مطلب انسانی جسم کا ایک عضو ہے، مگر قرآنِ کریم میں یہ مختلف سیاق و سباق میں مختلف معانی کے ساتھ آتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "يد الله فوق أيديهم (الفتح: 10)، جہاں "ید" کا مطلب جسمانی عضو نہیں، بلکہ قدرت اور اختیار کے مفہوم میں آیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دینی متون کے درست فہم کے لیے محض لغوی معانی پر اکتفا کرنا کافی نہیں، بلکہ مفسر اور تدبر کرنے والے کو وسیع تر تناظر میں غور و فکر کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا، کسی بھی لفظ کو صرف اس کے لغوی مفہوم تک محدود رکھنے کے بجائے، اسے سیاقی، تاریخی اور مفہومی پسِ منظر میں سمجھنا ناگزیر ہے، تاکہ وہ حقیقی معانی منکشف ہو سکیں جو متن کے اصل مقصد کو واضح کرتے ہیں۔
دینی متون کے درست فہم میں درپیش بڑی رکاوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ان تاریخی قرائن تک براہِ راست رسائی نہیں رکھتے جو نزولِ وحی کے وقت ان متون کے گرد موجود تھیں۔ قرآنِ کریم کسی خلا میں نازل نہیں ہوا، بلکہ مخصوص سماجی، ثقافتی اور زمانی سیاق و سباق کا حامل تھا، جو اس کے فہم پر براہِ راست اثر انداز ہوتا تھا۔ اگر ان پسِ منظر عوامل اور تاریخی حالات کو نظرانداز کر دیا جائے تو بعض آیات کی صحیح تعبیر و تفہیم ایک چیلنج بن جاتی ہے۔مثال کے طور پر، کسی آیت کا نزول کسی مخصوص سیاسی یا سماجی واقعے کے تحت ہوا ہو سکتا ہے، جو اس کے معانی کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علومِ قرآن کے ماہرین نے ان تاریخی قرائن کے مطالعے میں غیر معمولی محنت کی ہے، تاکہ نزولِ وحی کے زمانی حالات اور اسباب کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے اسبابِ نزول کا مطالعہ ناگزیر سمجھا گیا، کیونکہ یہ کسی آیت کے نزول کے مخصوص حالات اور محرکات کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح، آیت کے مکی یا مدنی ہونے کی تعیین، اس کے نزول کی مدت، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اس کا وقوع، فہمِ قرآن میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
علاوہ ازیں، ناسخ و منسوخ کے اصول کو سمجھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بعض احکام مخصوص حالات میں نازل ہوئے اور بعد میں ان میں تبدیلی واقع ہوئی۔ اسی طرح، کچھ الفاظ کے معانی وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں، جن کی درست تفہیم گہرے تجزیے کی متقاضی ہوتی ہے۔یہ تمام نکات علومِ قرآن کے مختلف مباحث میں تفصیل سے زیرِ بحث آئے ہیں، جو اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ دینی متون کے درست فہم کے لیے ان کے تاریخی، سماجی اور لسانی پسِ منظر کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ قرآنی پیغام کی حقیقی مراد کو واضح طور پر سمجھا جا سکے۔
عربی زبان، دیگر زبانوں کی طرح، مستقل تغیر و ارتقا کے عمل سے گزرتی ہے اور معاشرتی و ثقافتی اثرات سے متاثر ہوتی ہے۔پچھلے کئی صدیوں میں، اس کے الفاظ، معانی اور اسالیبِ بیان میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں ہے۔ چنانچہ جب ہم آج دینی متون کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اکثر انہیں اپنی موجودہ زبان کے فہم اور تعبیر کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جو بعض اوقات ان حقیقی معانی سے مختلف ہو سکتا ہے جو نزولِ وحی کے وقت رائج تھے۔ اسی لیے دینی متون کے درست فہم کے لیے ضروری ہے کہ ان کے لسانی اور تاریخی سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جائے، تاکہ زبان کے ارتقائی تغیرات کی وجہ سے پیدا ہونے والی غلط تاویلات اور مفہوم کی تحریف سے محفوظ رہا جا سکے۔
دینی متون کے صحیح فہم پر مفسر یا تدبر کرنے والے کے ثقافتی پس منظر کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات، کسی شخص کے فکری رجحانات یا نظریاتی وابستگی ایسے تصورات سے متاثر ہو سکتے ہیں جو دین کی اصل تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں فہم میں غلطی یا انحراف پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض قرآنی آیات کی تعبیر جدید یا مغربی ثقافتی تناظر میں کی جا سکتی ہے، جو متن کے اصل مفہوم سے متصادم ہو سکتی ہے۔ اسی لیے دینی متون کی تشریح میں مستند اصولوں کی پیروی ناگزیر ہے، تاکہ کسی بھی ایسی تاویل سے اجتناب کیا جا سکے جو شارع کے منشا سے ہٹ کر ہو۔ علاوہ ازیں، دینی متون محض انسانی فکر کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ فطرتِ انسانی اور الٰہی حکمت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہیں، اور یہی امر دینی علوم اور عام انسانی علوم میں بنیادی فرق پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا، دینی نصوص کے درست فہم کے لیے ضروری ہے کہ غالب ثقافتی اثرات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے اور کسی بھی ایسی تاویل سے گریز کیا جائے جو ان اثرات کے زیرِ اثر متن کے اصل مفہوم کو مسخ کر سکتی ہو۔
یہ تمام عوامل دینی متون کے فہم کو ایک پیچیدہ اور دقیق عمل بنا دیتے ہیں، جو محض سطحی مطالعے سے ممکن نہیں۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ علم اور مفسرین زبان کی تاریخی ترقی، ثقافتی پس منظر، اور ان مخصوص حالات سے گہری آگاہی رکھتے ہوں جن میں یہ متون نازل ہوئے۔ اسی طرح، یہ بھی لازم ہے کہ وہ خارجی نظریات اور غیر متعلقہ فکری رجحانات کے اثرات سے محفوظ رہیں، تاکہ دینی متون کی صحیح تعبیر اور ان کے حقیقی مفاہیم تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔
دینی متون کے فہم کے لیے منہجی اقدامات
ان رکاوٹوں سے بچنے اور دینی متون کے صحیح فہم تک پہنچنے کے لیے، منظم اور علمی طریقۂ کار اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل بنیادی اقدامات ضروری ہیں:
اولا: دینی متن کے اصل ماخذ کو پیشِ نظر رکھنا
دینی متون کے مطالعے اور تفکر کے دوران یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کلام کا مصدر کیا ہے، متکلم کون ہے، اس کا مقصد کیا ہے، اور وہ کس اسلوب میں بات کر رہا ہے، چاہے وہ علمی ہو، ادبی ہو، یا کسی اور طرز کا ہو۔ یہ اصول جدید دور میں بھی نصوص کے مطالعے اور تجزیے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ کسی بھی متن کے درست فہم کے لیے اس کے پس منظر، سیاق و سباق، اور بیان کی نوعیت کو پیشِ نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔
اس تناظر میں : قرآنِ کریم کا صحیح فہم اسی وقت ممکن ہے جب اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے، جو حکمت اور عظمت سے مزین ہے اور جسے دیگر تمام کلام پر فضیلت حاصل ہے۔ یہ وہ کلام ہے جس میں کسی بھی سمت سے باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ یہی خصوصیت اس کے فہم کو محض ایک علمی یا لسانی مسئلہ بننے کے بجائے ایک روحانی اور فکری تیاری کا متقاضی بنا دیتی ہے۔اسی لیے قرآنِ کریم خود کو (ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ) (البقرة: 2) قرار دیتا ہے، یعنی اس کی ہدایت سے وہی لوگ فیض یاب ہوتے ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے گہرے معانی تک پہنچنے کے لیے قلب و نفس کی پاکیزگی اور تہذیب لازم ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں بھی بیان کی گئی ہے: "يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَة" (آل عمران: 164)، جہاں تعلیمِ کتاب اور حکمت سے قبل تزکیۂ نفس کو ترجیح دی گئی ہے۔ جب دل صاف اور نفس پاکیزہ ہوتا ہے، تبھی انسان قرآنِ کریم کی آیات پر درست تدبر کر سکتا ہے، اور وحی کے معانی اس کے قلب میں اتر کر اسے بصیرت اور حکمت کی روشنی عطا کرتے ہیں۔
قرآنِ کریم کے درست فہم کے لیے ضروری ہے کہ اسے رسول اکرم ﷺ اور معصوم ائمہ کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھا جائے، کیونکہ یہی وہ معتبر علمی مرجع ہیں جو وحی کے حقیقی معانی تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔ محض ذاتی فہم یا عقلی اجتہاد کی بنیاد پر قرآن کی تاویل کرنا کسی بھی علمی منہج کے مطابق درست نہیں، بلکہ فہمِ نص کے لیے اُن ہستیوں کی طرف رجوع ناگزیر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس علم کے وارث قرار دیا ہے۔اسی اصول کو قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(النحل: 43)، یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے دریافت کرو۔ یہ نص صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دینی متون کی تفہیم کے لیے ایسے افراد کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے جو وحی کے علوم میں تخصص رکھتے ہیں۔ مزید برآں، قرآن مجید میں فرمایا گیا:( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ) (النساء: 83)، یعنی اگر وہ اسے رسول اور اولی الامر کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ جو علمی استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے حقیقی معانی تک پہنچ جاتے۔
ثانیاً: زبان اور سیاق کی تاریخی اہمیت
اگرچہ قرآنِ کریم فصیح عربی زبان میں نازل ہوا، جو وحی کے زمانے میں جزیرۂ عرب میں رائج تھی، اور اس نے عربی زبان کے اصل اسالیب اور الفاظ کو محفوظ رکھا، تاہم مختلف ادوار میں تہذیبی اور ثقافتی تغیرات کے نتیجے میں عربی زبان پر مرتب ہونے والے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ زبان مسلسل ارتقائی عمل سے گزرتی ہے اور سماجی و ثقافتی عوامل کے تحت اس کے الفاظ اور دلالات میں تبدیلی آ سکتی ہے، جو قرآنی الفاظ کے معانی کے فہم پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اس تناظر میں، علمائے کرام نے قرآنی زبان کی درست تفہیم کے لیے مختلف علمی اصول تجویز کیے ہیں، جن میں سب سے بنیادی اصول عرفِ عام کا ادراک ہے جو نزولِ وحی کے وقت مستعمل تھا۔ اس سے مراد وہ الفاظ اور اصطلاحات ہیں جو اُس وقت کے اہلِ زبان کے درمیان معروف تھیں، خصوصاً وہ جو رسول اکرم ﷺ کے ہم عصر تھے یا بعد میں ائمہ اہلِ بیت کے زمانے میں موجود رہے۔ یہ افراد قرآنی الفاظ کی اصل دلالات کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ اسی سماجی اور ثقافتی ماحول میں زندگی گزار رہے تھے جس میں قرآن نازل ہوا۔لہٰذا، قرآن کی درست تعبیر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے الفاظ کو اس وقت کے عرفِ عام اور لسانی اصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے، تاکہ جدید زبان کے تغیرات سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمیوں سے اجتناب کیا جا سکے اور وحی کے حقیقی معانی تک رسائی حاصل ہو سکے۔
یہ فہم محض عربی زبان کے الفاظ کے معانی تک محدود نہیں، بلکہ اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ اُس دور کے اہلِ زبان نے دینی متون کے اسلوب اور ان کے مقاصد کو کس طرح سمجھا۔ درحقیقت، یہ وحی کے فہم کے لیے ایک جامع منہج ہے، جو غیر ضروری پیچیدگیوں اور بعید از حقیقت تاویلات سے اجتناب کرتے ہوئے براہِ راست معانی کے استنباط پر مبنی تھا۔لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اُس عہد کے لغوی اور دلالی اصولوں سے استفادہ کریں بلکہ ان کے اختیار کردہ منہج کو بھی اپنائیں، تاکہ دینی متون کی درست، گہرائی پر مبنی اور حقیقت پسندانہ تفہیم ممکن ہو سکے۔اسی بنیاد پر، اگر کوئی شخص دینی متون کی تفسیر میں اس علمی ورثے سے استفادہ کرے، تو وہ وحی کے زمانے اور اپنے موجودہ دور کے درمیان حائل زمانی فاصلے کو کم کرنے کی ایک بنیادی پیش رفت کرے گا۔ یہ منہج اسے دینی احکام کو زیادہ درست اور حقیقی مفہوم کے قریب تر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتا ہے، اور یوں وہ کسی بھی سطحی فہم یا تحریف شدہ تعبیرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
ثالثاً: قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے
قرآن کریم کو خود قرآن سے سمجھنے کا اصول، یعنی فہم القرآن بالقرآن، ایک ایسا علمی منہج ہے جس کے تحت قرآنی الفاظ اور آیات کے معانی کو ان کے موضوعی اور مقامی سیاق (thematic and contextual placement) میں جانچا جاتا ہے۔ اس منہج کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ قرآنِ کریم میں کوئی بھی لفظ یا آیت الگ تھلگ نہیں، بلکہ وہ اپنے مخصوص قرآنی نظم کے تحت معنی اختیار کرتا ہے۔چونکہ قرآن میں الفاظ مختلف سیاق و سباق میں مختلف معانی میں استعمال ہو سکتے ہیں، اس لیے ان کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کا تقابل دیگر قرآنی آیات سے کیا جائے۔ یہ اصول محض انفرادی الفاظ کی لغوی تحقیق تک محدود نہیں، بلکہ یہ الفاظ کے باہمی تعلق، ان کے استعمال کی نوعیت اور مختلف قرآنی سیاق میں ان کے معانی کے فرق کو سمجھنے کا ایک مربوط طریقہ فراہم کرتا ہے۔یہ منہج قرآن میں تدبر کرنے والے کے لیے وحی کے پیغام کی گہرائی میں اترنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو دریافت کرنے کے دروازے کھولتا ہے۔ اس کے ذریعے قرآن فہمی میں علمی یکسانیت، معانی کی ہم آہنگی اور مفاہیم کی درستگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، جو کسی بھی قسم کی غلط تعبیر یا غیر مستند تاویلات سے محفوظ رکھتا ہے۔
مسلسل تدبر کے ذریعے، مسلمان جب قرآنی الفاظ کے موضوعی اور مقامی سیاق (thematic and contextual placement) کو گہرائی سے سمجھتا ہے، تو وہ قرآن کی زبان اور اس کے گہرے معانی میں غیر معمولی بصیرت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ علمی منہج اسے قرآنی متن کی باریکیوں کو سمجھنے اور آیات کی زیادہ درست اور جامع تفسیر تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ وحی کے حقیقی مفاہیم کو بہتر انداز میں دریافت کر سکتا ہے اور پیچیدہ نصوص کو زیادہ وضاحت اور دقت کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
رابعاً: محکماتِ قرآن کی حجیت
قرآنِ کریم میں محکمات کو "امّ الکتاب" (اصل و بنیاد) کہا گیا ہے، جو علم و حکمت کے بنیادی اصولوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہی محکم آیات متشابہات کی تفسیر و تشریح کے لیے قطعی مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ وہ قرآن کے غیر متبدل اصول اور اس کے بنیادی معانی کو واضح کرتی ہیں۔قرآن سے درست اور متوازن فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محکمات کی روشنی میں تدبر کیا جائے۔ یہ ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں، جس کے دائرے میں رہتے ہوئے غور و فکر کرنے سے انسان بے راہ روی سے محفوظ رہتا ہے اور قرآن کو ایسا مفہوم دینے سے بچ جاتا ہے جو اس کے اصل پیغام سے ہم آہنگ نہ ہو۔یہ اصولی منہج قرآنی تدبر کے عمل کو منظم اور تدریجی انداز میں آگے بڑھاتا ہے، جس کے ذریعے نہ صرف قرآن کے اسرار و معارف کو دریافت کیا جا سکتا ہے بلکہ وحی کی زبان اور اس کے طرزِ بیان کی گہرائیوں تک بھی رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔
خامساً: عقل و وحی کی ہم آہنگی
قرآنِ کریم انسانی فطرت اور عقلِ سلیم سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ علم کے بنیادی اصول، معرفت کے ضوابط، ہدایت کے ستون اور وحی کی روشن تعلیمات وہی ازلی حقائق ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل میں ودیعت کیے ہیں۔ یہی عقل، انسان کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا پیمانہ ہے۔ اگر یہ بنیادی اصول موجود نہ ہوتے، تو انسانیت گمراہی میں بھٹک جاتی، اپنے رب کو پہچاننے سے قاصر رہتی، اور نہ ہی رسول اور اس کی حجتوں کو تسلیم کر پاتی، کیونکہ یہی وہ فطرتِ سلیمہ ہے جس پر اللہ نے تمام انسانوں کو پیدا فرمایا ہے۔اسی بنیاد پر، عقل میں بعض ایسے مسلَّمات (self-evident truths) موجود ہیں جن پر تمام انسان—چاہے ان کے مکاتبِ فکر اور مزاج کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں—متفق ہوتے ہیں، اور یہی عقلِ سلیم تمام انسانوں کے لیے حجت ہے۔ وحی ان عقلی اصولوں کو مزید روشن کرتی ہے، تاکہ وہ الٰہی شریعت اور اس کے احکام کی مستحکم بنیاد بن سکیں۔
قرآن پر مسلسل غور و تدبر، انسان کے اندر بصیرت کو جِلا بخشتا ہے اور اسے وحی اور عقل کی ہم آہنگی کا شعور عطا کرتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے تحت کوئی بھی ایسی تفسیر، جو عقلِ سلیم اور بدیہی منطق کے خلاف ہو، قرآن کے حقیقی مفہوم کے مطابق نہیں ہو سکتی۔اسی اصول سے غفلت برتنے کے نتیجے میں بعض گروہ گمراہی کا شکار ہو گئے، جیسے حشویہ اور مجسمہ، جنہوں نے ایسی تفاسیر اختیار کیں جو عقل اور وحی کے درمیان فطری توازن کو نظرانداز کرتی تھیں، اور یوں انہوں نے قرآن کے معانی کو اس کے اصل مقاصد سے دور کر دیا۔
علمائے اصول اور مفسرین نے اپنی تحقیقات میں متعدد منہجی ضوابط (methodological principles) بیان کیے ہیں، جو اس امر کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ قرآن کی تفہیم کسی بیرونی مفہوم کو اس پر مسلط کیے بغیر کی جائے، تاکہ اس کے معانی میں تحریف یا اجنبی تصورات کی آمیزش نہ ہو۔
نتیجہ: دینی متون کا فہم محض ذاتی اجتہاد کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک علمی اور منہجی عمل ہے جو گہرے ادبی، تفسیری اور اصولی شعور کا متقاضی ہے۔ اگرچہ قرآنِ کریم فصیح عربی زبان میں نازل ہوا، لیکن صرف زبان دانی اس کے گہرے مفاہیم تک رسائی کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کے تاریخی سیاق، اصولِ تفسیر اور صحیح منہجِ فہم کو ملحوظ رکھا جائے، تاکہ شخصی قیاس آرائیوں یا بیرونی تاویلات کے ذریعے اس کے معانی کو اصل ہدایت اور مقاصد سے منحرف ہونے سے بچایا جا سکے۔