| عدمِ تحریف قرآن | قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تالیف ؟!
قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تالیف ؟!
ہر دعوی دلیل کا محتاج ہوتا ہے،جب ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی کتاب ہے تو اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلیل درکار ہے۔اس کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ قرآن کریم کئی جہات سے معجزہ ہے جیسے اس کی بلاغت جس نے عالم عرب کے بڑے بڑے فصیح شاعروں کو عاجز کر دیا۔ قرآن کریم نے اپنے اس اعجاز پر تمام انسانوں کو دعوت دی کہ میدان میں آجاو اور اس جیسی کوئی کتاب تم بھی لے آو۔پوری کتاب کیا لے کر آنی؟ اس جیسی ایک سورہ ہی لے آو اور وہ کوئی سورت نہ لا سکے۔ اسی طرح قرآن مجید نے کئی غیب کی خبریں دی ہیں،اور توحیدی علوم اور دیگر کئی جہات سے بھی یہ معجزہ ہے۔اس کی تفصیلات کو مفسرین نے بڑی تعداد میں ذکر کیا ہے اس کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم یہاں پر اپنے عنوان کے مطابق بات کریں گے جس کی ضرورت ہے اور بہت سے معاصر مفکرین نے اس مسئلے کو بڑی شدت سے اٹھایا ہے:
دیکھیے اگر قرآن کسی انسان کا لکھا ہوا ہے تو یہ فطری سی بات ہے اس میں مولف کی شخصیت کے اثرات ہونے چاہیں اور ہر جگہ مولف نظر آنا چاہیے۔اس جہت سے دقیق ترین مطالعہ کیا جائے پھر بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس سے پتہ چلے کہ مولف کے اثرات یہاں موجود ہیں۔ یاد رکھیں جب کوئی انسان لکھتا ہے تو کبھی وہ خوش ہے تو اس کی تحریر میں خوشی کے اثرات نظر آئیں گے اور اگر وہ غمگین ہے تو یہ والے بشری اثرات تحریر میں بھی ہوں گے۔جب کوئی انسان لکھتاہے تو وہ اپنی بشری کمزوریوں کے ساتھ لکھتا ہے،جذبات،خواہشات ،موضوعات اور علوم کے مطابق لکھتا ہے۔
قرآن کریم کی آیات کو دقت کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی بھیجی گئی کتاب ہے،اس میں موجود معارف انسانی ذہن سے بلند ہیں اور کسی بشر کی فکر یہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ قرآن بہت سے ایسی موضوعات کو شامل ہے جسے عام انسان اپنا موضوع نہیں بناتا اوراس میں کسی قسم کی نوآوری تو انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے جیسے اللہ کی صفات اور اس کے اسماء و افعال کے بارے میں تفصیل سے بات کرنا۔ قیامت اور اس کے حالات اسی طرح جنت اور جہنم کی تفصیلات کے بارے میں بتانا۔ اسی طرح قرآن ماضی کی تاریخ اور مستقبل کے حالات کو بتاتا ہے اور یہ بتانا بھی کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
دوسری طرف، قرآن ان انسانی احساسات کے بیان سے خالی ہے جب مسلمانوں پر مکہ میں ظلم و ستم ہو رہا تھا تو اس ظلم و جبر کا احساس نقل ہونا چاہیے تھا اسی طرح مدینہ میں فتح اور خوشی کی شادمانی کا اظہار ہونا چاہیے تھا قر آن دونوں سے خالی ہے۔اسی طرح قرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچنے والے صدمات کو بھی بیان نہیں کرتا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیوں کو بارے میں بات کرتا ہے۔قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہؑ اور آپ کے چچا حضرت ابوطالبؑ کی وفات کا کوئی ذکر نہیں کیا،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کی پیدائش کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی ان کے دنیا سے چلے جانے کا تذکرہ ہے۔اسی طرح بہت سے نجی معاملات جن کا تعلق آپ کی بیویوں اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ تھا اسے بھی قرآن بیان نہیں کرتا۔قرآن کا مقصد ذاتی قصے اور کہانیاں بیان کرنا نہیں ہے۔آپ ملاحظہ کریں قرآن میں آپ کی کسی بیوی کا نام نہیں ہے،اسی طرح آپ کے کسی بیٹے یا بیٹی کا نام بھی مذکور نہیں ہے۔آپ کے دوستوں اور دشمنوں کے نام بھی قرآن میں نہیں ہیں فقط ابولہب اور زیدؓ کا نام قرآن میں آیا ہے۔
قرآن مجید میں صرف پانچ بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام گرامی حق آیا ہے،جبکہ حضرت عیسیؑ کا نام پچیس بار آیا ہے،حضرت موسیؑ کانام ایک سو سے زیادہ بار آیا ہے۔یہ اسلوب بتاتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔یہی وجہ ہے کہ دکتور کندی غازی ملر جو تہران یونیورسٹی میں ریاضی کے استاد تھے انہوں نے ۱۹۷۷ء میں اسلام قبول کر لیا۔
جب ہم نے اس موضوع پر بات کو بڑھانے کا ارادہ کر لیا ہے تو ذرا یہود اور مسیحیوں کی ان کتب کی بات ہو جائے جو آج ان کے پاس ہیں اور جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔اس مطالعہ سے ہمیں پتہ چلے گا کہ ان میں جا بجا ایسی باتیں موجود ہیں جو اس کے انسانی کلام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔اس میں ایسے احساسات ہیں جس میں انسانی افکار،درد،امیدیں اور خواہشات موجود ہیں۔یہ موضوع ایسا ہے جس میں مکمل تحقیق کرنے پر تو بہت وقت لگے گا ہم اہم باتوں کو بطور مثال ذکر کر دیتے ہیں۔جان کا مقدس پیغام ایسے الفاظ کو لیے ہے جن میں انسانی جذبات اور احساسات کا اظہار ہوتا ہے اس میں ہے: "گیئس، جس سے میں سچی محبت کرتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تم خوشحال اور صحت مند ہو۔ آپ کے پیارے آپ کو سلام کریں جان (3) 1 - 14۔
جہاں تک پولس کا تعلق ہے، اس نے اپنے دوست تیمتھیس کو ایک خط لکھا جو عیسائیوں کے لیے ان کی مقدس کتاب کا حصہ بن گیا، جس میں وہ کہتا ہے: "وہ چادر جو میں نے کیپریس ٹراؤس میں چھوڑی تھی، جب بھی آؤ اسے لے آؤ، اور کتابیں بھی، خاص طور پارچمنٹ لے آو۔ رسکا، اکیلا، اور اینیسی کو سلام، کرنتھس میں ہی رہ گیا، اور جہاں تک میں نے ملیٹس میں بیمار چھوڑا تھا، سردیوں سے پہلے آنے کے لیے جلدی کرو" تیمتھیس (2) 4/13 -21،ایسی انشاء اور ایسے معانی کا استعمال آپ کو قرآن میں نہیں ملتا۔
اس سب کے برعکس قرآن میں ایسی دسیوں آیات مل جاتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لکھی کتاب نہیں ہے اور نہ ہی آپ نے اسے اپنے پاس سے لکھوایا ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ان آیات میں ظاہرا یہ لگتا ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلطیاں بتائی جا رہی ہیں۔جب کوئی انسان خود کوئی کتاب لکھتا ہے تو وہ اس میں اپنی تعریفیں ہی لکھتا ،ایسی باتیں ہی نقل کرتا ہے جس سے اس کا قد کاٹھ بڑھتا ہے جن پر وہ فخر کر سکے۔کوئی بھی اپنی غلطیوں اور عیبوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ انہیں نظر انداز کرتا ہے۔کوئی بھی اپنی غلطیوں کو کتاب کی زینت نہیں بناتا۔
تاریخ انسانیت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہو گا کہ خود اپنوں غلطیوں کو اپنی کتاب میں لکھے قرآن میں ایسا ہے۔اگر قرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاس سے لکھوایا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ظاہری خطاوں کو بیان ہی نہیں کرتے اور ان پر پردہ ڈالتے۔قرآن مجید کی بہت سے آیات ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
وہ مقامات جہاں پر اللہ کے نبی کی باز پرس کی وہ چند ہی ہیں۔ایک تو وہ مقام ہے جب غزوہ تبوک کے بعد منافقین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور معذرت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی معذرت کو قبول کرلیا در حالانکہ کہ وہ جھوٹا بہانہ لگا رہے تھے۔اس وقت اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باز پرس کی اور ارشاد فرمایا:
(عَفَا اللهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ)، التوبة: ٤٣.
۴۳۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل اس کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟
دوسرا موقع وہ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس زیدبن حارثہ آیا اور اس نے اپنی زوجہ کو طلاق دینے کا مشورہ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا۔در حالانکہ اللہ جانتا تھا کہ زید طلاق دے دے گا۔یہ بھی اللہ کے علم میں تھا کہ زینبؓ جلد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ بنے گی۔جہاں تک مومنین کی بات ہے تو ان کے لیے اللہ نے خود اس سے پردہ اٹھایا اور ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا ﴿۳۷﴾
۳۷۔ اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا، کہ رہے تھے: اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا۔،) الأحزاب: ٣٧(
اسی طرح اللہ نے اس وقت بھی بازپرس کی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پر شہد کو حرام کر لیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک زوجہ کے پاس شہد کھایا تھا اور دوسری دو کو پتہ چل گیا تھا انہوں نے مغافیر کی شکایت کی تھی جو کھانے میں میٹھا اور بری بو والا ہوتا ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے خود پر حرام کر لیا تھا۔ارشاد باتی تعالی ہوتا ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ)، التحريم: ١.
۱۔ اے نبی! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دی ہے اسے آپ حرام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ آپ اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہیں؟
اگر یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ہوتا تو وہ اس میں خود کو ہی خطاب کرتے جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا)، الإسراء: ٧٤ – ٧٥
۷۴۔ اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلاشبہ آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے۔ ۷۵۔ اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوہرا عذاب اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب چکھا دیتے پھر آپ ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے۔
اگر چہ آپ نے تالیف کے لیے فرمایا تھا ارشاد ہوتا ہے:
(وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيل ﴿۴۴﴾ ِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿۴۵﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿۴۶﴾ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ)، الحاقة: ٤٤ - ٤٧)
۴۴۔ اور اگر اس (نبی) نے کوئی تھوڑی بات بھی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی، ۴۵۔ تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے، ۴۶۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ ۴۷۔ پھر تم میں سے کوئی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔کوئی انسان اپنے لیے ایسا نہیں لکھتا۔
شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ