4 ربيع الاول 1446 هـ   8 ستمبر 2024 عيسوى 6:33 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدمِ تحریف قرآن |  صحابہ حافظینِ قرآن کی شہادت کے بعد قرآن کریم کی جمع آوری سے متعلق شبہات کا ایک مطالعہ
2024-06-12   220

صحابہ حافظینِ قرآن کی شہادت کے بعد قرآن کریم کی جمع آوری سے متعلق شبہات کا ایک مطالعہ

جب دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے دلوں میں موجود قرآن کریم کی اہمیت اور عظمت کو جان لیا اور انہيں معلوم ہوگیا کہ مسلمان اس کتاب سے بے حد لگاؤ رکھتے ہيں، یہ کتاب ان کے عقائد و نظریات نیز شریعت کے قوانین اور احکام کا بنیادی مصدر اور منبع ہے اور یہی  ان کے حال اور ماضی کی تحریکوں کا سبب اور عامل ہے۔ اس طرح انہیں یہ بھی  معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کا قرآن کریم کا دامن تھامنا انہيں ایسی بلند مرتبہ امت بنا د ہے گا جو ذلت و خواری اور غلامی کو کبھی قبول نہيں کرے گی تو انہوں نے قرآن کریم سے دشمنی اور کینے کو تودل میں چھپا لیا لیکن مسلمانوں کو ان کی قوت و طاقت کے منبع و مصدر سے دور کرنے کی کوششیں کرنے لگے جیسا کہ خداوند کریم نے بیان فرمایا ہے:

(وَ قالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لا تَسْمَعُوا لِهذَا الْقُرْآنِ وَ الْغَوْا فِيهِ‏ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُون) ‏

جن لوگوں نے کفر و انکار سے کام لیا وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں لہو و لعب میں مشغول ہوجاؤ تاکہ تم فتح و کامیابی حاصل کرو؛( سورہ فصلت، آیت 26)

اس طرح کے جملے ان کی گفتگو میں زیادہ ملیں گے، جیساکہ الجزائر کے بارے میں فرانسیسی گورنر نے فرانسیسی استعمار یت کے دوران کہا تھا۔  

"ہم اس وقت تک الجزائر والوں پر فتح و کامیابی نہ پاسکے جب تک وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور عربی زبان بولا کرتے تھے"  قادۃ العرب یقولون، ص 31۔

مصر میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ کرومر کا کہنا ہے:

" میں تین چيزوں کو مٹانے کیلئے آیا ہوں: قرآن، کعبہ اور جامعہ ازہر" )الخنجر المسموم الذی طعن المسلمون، ص29(

 ویلئيم جیفر بلگراف کہتا ہے:

"جب قرآن کریم اور مکہ شہر عرب ممالک سے غائب ہوجائيں گے تو اس وقت ہم عربوں کو ان کے  نبی محمد اوران کی کتاب قرآن سے دور ہو کر مغربی تہذیب و ثقافت پر گامزن ہوتے دیکھ سکیں گے"،(ردّ افتراءات المبشّرین علی آیات القرآن الکریم، ص278)

 مغربی تہذيب و ثقافت سے بلگراف کی مراد وہی ہے جس کو ہم آج مغرب کی سر زمین میں دیکھ رہے ہيں ان کی اخلاقیات اور انسانی اقدار کی دیواریں منہدم ہو چکی ہیں اور ان کے معاشرے کی اساس اور بنیاد پراگندہ اور منشتر ہوچکی ہے اور اتنی سلبی و منفی چيزیں جنم لے چکی ہيں جن کو شمار نہيں کیا جاسکتا،ایسی تہذيب و ثقافت کیلئے وائے اور ہلاکت ہو اگر اس کا نام تہذیب و ثقافت ہے۔

اور وہ کتاب کتنی عظیم ہے جس کے وہ درپے ہوئے ہيں اور جو چيز موجودہ دشمنان اسلام نے درک کی ہے یہ بات قدیم اعداء اسلام نے بھی درک کی ہوئي تھی، حاخام اسرائیل اکبر مردخای یاہو نے کہا تھا:

" وہ کتاب جسے یہ قران کا نام  دیتے ہيں یہ ہماری تنہا ترین اور سب سے بڑی دشمن ہے اس دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے فوجی وسائل بھی ناکافی ہیں،ایسے وقت میں امن و امان اور سلامتی قائم کرنا کیسے ممکن ہے کہ جب یہ کتاب عربوں اور مسلمانوں کی تقدیس اور تعریف کرتی ہے اور ہمارے بارے میں مکمل منفی رویہ اختیار کیا جاتا ہے؟!" (مجلہ البیان، عدد، 159۔)

ان کے اپنے مقصد اور ہدف تک پہنچنے کے طریقہ کار اور اسلوب کے بارے میں عیسائي مبشّر جون ٹاکلی کہتا ہے:

"لازم ہے کہ ہم خود قرآن کو اسلام کے خلاف استعمال کریں اور یہ سب سے کارگر اور مفید ہتھیار ہوگا، یعنی ہم مسلمانوں کو بتائيں کہ قرآن میں جو کچھ صحیح ہے وہ جدید نہيں ہے اور اس میں جو کچھ جدید ہے وہ صحیح نہيں ہے" (ردّ افتراءات المبشرین عن آیات القرآن الکریم، ص 263)

 اس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں کو قرآن کریم سے دور کرنے کیلئے اپنی پوری توانائی اور کوشش صرف کردی، انہوں نے کئی قسم کے جھوٹ و افتراء قرآن کریم کے حوالے سے زبان زد عام کئے، جبکہ وہ قرآن کریم میں کسی قسم کا شک و شبہ پانے سے عاجز اور قاصر ہوگئے تب انہوں نے یہ راہ اختیار کی۔ ان کو یقین تھا کہ جھوٹ ہی بہترین ذریعہ ہے جو غلط ہوکر بھی عامۃ الناس کے کئی طبقات پر اثر کرے گا،  تب انہوں نے اپنی کشتیوں کو پانی میں ڈال دیا اور اتنا جھوٹ بولنے لگے کہ ان کو جھوٹ کی کثرت سے یقین ہونے لگا کہ جو کچھ وہ کہتے ہيں وہ سچ ہے!

ان میں سے  جس مشہور مسیحی کتاب کے مؤلفین کا گمان ہے – کہ یہ  کتاب قرآن کریم پر جھوٹ پھیلانے میں خاص مہارت رکھتی ہے ، اس کا نام التعلیقات علی القران قرار دیا گیا ہے-:

  جس کے مطابق " قرآن کریم کے چار حافظ تھے اور وہ بھی حضرت ابو بکر کے دور میں قرآن جمع ہونے سے پہلے ہی فوت ہوگئے :یعنی  ابو درداء، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابو زید سعید بن عبید انصاری، ایسے میں  جب حضرت ابو بکر نے یہ حالت دیکھی تو قرآن کے ضائع ہونے پر جزع و فزع  کرنے اور بے قرار کہونے لگے" ( التعلیقات علی القرآن، ص 29۔)

یہ واضح جھوٹ اور افتراء ہے کیونکہ ان چاروں افراد نے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب کے زمانے کو پاپا ۔ فالفرض اگر ہم قبول کر بھی لیں اگر چہ  ہم اس کو نہيں مانتے ۔ کہ قرآن کریم حضرت  ابو بکر کے دور میں جمع کیا گیا تو بھی یہ چار افراد جمع قرآن کریم کےوقت موجود تھے۔

ابو درداء تو عمر کے دور میں دمشق کی قضاوت کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے، اور عثمان کی وفات سے دو سال قبل فوت ہوئے ۔

 معاذ بن جبل حضرت عمر کے دور میں بوجہ  طاعون سنہ 17 ہجری میں فوت ہوئے۔

 اور ان میں سے تیسرے یعنی زید بن ثابت تو معاویہ بن ابو سفیان کے دور میں سنہ 45 ہجری میں فوت ہوئے۔

 اور ان میں چوتھے یعنی ابو زید انصاری تو خلیفہ عمر کے زمانے میں معرکہ قادسیہ میں فوت ہوئے۔

 پھر یہ سوال اس نظریہ کو قبول کرنے کی بنیاد پر قائم ہے کہ صحابہ نے قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری کو ادا کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اس کام کو خود انجام نہيں دیا جبکہ  اس نظریہ کو ابل بیت علیھم السلام کے شیعہ نہيں مانتے ۔

پس عموما اہل سنت کا  یہ عقیدہ اور نظریہ ہے کہ قرآن کریم کو خلفاء کے دور میں جمع کیا گیا اور اس کیلئے وہ اہل سنت کے مصادر اور منابع سے روایات سے دلیل پیش کرتے ہيں اسی لیے ان روایات کی تحقیق اور ان میں سے غلط و صحیح کی تشخیص اس مسئلہ پر اعتراضات کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے اور اسی کام کو علامہ سید خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر البیان میں انجام دیا ہے اور ان تمام روایات پر تحقیق کی ہے اور ان میں پائے جانے والے تناقضات اور تعارض و اختلافات کو بیان کیا ہے اس کے بعد ان روایات سے دلیل پیش کرنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ پس علامہ سید خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شبہہ اور اعتراض کو جس پیرائے میں بیان کیا اس کے الفاظ یہ ہيں:

 "اس شبہہ کا مصدر اور منبع ان کا گمان ہے کہ بئر معونہ میں ستر قاریوں کے قتل اور جنگ یمامہ میں چار سو افراد کے قتل کے بعد ابو بکر کے حکم سے قرآن کریم کو جمع کیا گیا کیونکہ  خوف پیدا ہوگیا تھا کہ قرآن کریم ضائع ہوجائے گا اور لوگوں میں محفوظ نہ رہے گا، تو حضرت عمر اور زید بن ثابت نے مختلف کتبوں اور ٹکڑوں سے قرآن جمع کرنا شروع کیا اور لوگوں کے حافظے  کے ذریعے سے بھی اس شرط پر قرآن جمع کیا کہ دو گواہ پیش کریں کہ یہ قرآن کریم کا حصہ ہے۔ کچھ روایات میں ان سب باتوں کی صراحت کی گئي ہے۔ عادۃ ایسی صورت حال میں اس کے کچھ اجزاء رہ جاتے ہيں جب اس کام کو انجام دینے والا غیر معصوم ہو جیسا کہ کسی ایک یا چند شعراء کے کلام کو جمع کرنے والوں کے بارے میں دیکھا جاتا ہے کہ جب اس کا کلام متفرق ہو تو ان کے تمام کلام کو جمع نہيں کیا جاسکتا اور یہ حکم عادت اور عرف کے لحاظ سے قطعی اور یقینی ہے اور کم از کم تحریف و تبدیلی واقع ہونے کا احتمال باقی رہتا ہے کیونکہ احتمال ہے کہ بعض کلمات جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنے گئے تھے ان پر دو گواہ پیش کرنا ممکن نہيں ہوئے تو اس میں کمی واقع نہ ہونے کا اعتماد اور اطمینان باقی نہيں رہتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہہ در اصل  ان روایات کی بنیاد پر ہے جو قرآن کریم کی جمع  آوری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں اور بہتر ہے کہ ہم ان روایات کو ذکر کریں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات کوبیان کریں"

 پھر علامہ سید خوئی نے اس مطلب کی تمام روایات کو ذکر کیا ہے اور ایک ایک روایت میں پیش آنے والے اعتراضات کو بیان کیا ہے اور ان کے تناقضات اور تعارض کو کھول کر رکھ  دیا ہے وہ فرماتے ہيں:

"یہ روایات خود آپس میں تعارض اور تناقض رکھتی ہيں تو ان میں سے کسی چيز پر اعتماد کرنا ممکن نہيں ہے اور مناسب ہے کہ کہ ہم ان کے کچھ تناقضات اور تضادات کو بیان کریں" ( البیان فی تفسیر القرآن ، ص 239)

 پھر  علامہ سید خوئي رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ ان اختلافات کو بیان کیا ہے اور کیونکہ ہم اس مقام پر ان تمام باتوں کو ذکر نہيں کر سکتے تو جو لوگ اس کی تفصیل جاننا چاہتے ہيں وہ تفسیر البیان کو دیکھ لیں۔ 

جہاں تک شیعہ روایات کا تعلق ہے تو وہ دلالت کرتی ہیں کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کو جمع فرمایا ، پس تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں امام صادق علیہ السلام کے واسطے سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہےکہ آپ  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام علی علیہ السلام کو قرآن کریم جمع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

"اے علی!قرآن کریم میرے بستر کے پیچھے مصحف، ریشم اور کاغذوں میں ہے پس اس کو لے لو اور جمع کرلو اور اسےایسے  ضائع نہ ہونے دو جیسےیہودیوں نے تورات کو ضائع کردیا" تو امام علی علیہ السلام نے جا کر اسےایک زرد کپڑے میں جمع کردلیا اور اس پر مہر ثبت کردی۔ ( تفسیر القمی، ج2 ص 451۔)

یہ روایت اور اس طرح کی دیگر روایات دلالت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کو جمع کرنے کا حکم دیا اور امام علی علیہ السلام نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اس کام کو انجام دیا ہے اور اس بات پر شیعہ فقہاء کے کلمات متفق ہيں ۔مجمع البیان میں علامہ سید مرتضی علم الہدی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، فرمایا:

"قرآن کریم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے دور میں اسی طرح جمع کیا گيا تھا جس شکل میں ابھی موجود ہے"

 نیز انہوں نے فرمایا:

 " قرآن کریم نبی اکرم کے دور میں اسی طرح جمع ہوچکا تھا جس طرح وہ اب موجود ہے اور اس کیلئے انہوں نے درج ذیل امور سے استدلال کیا ہے قرآن کریم کو اس دور میں پڑھا جاتا تھا اور حفظ کیا جاتا تھا حتی صحابہ کی ایک جماعت اس کو حفظ کرنے پر معین اور مامور تھی ۔ قرآن کریم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور اس کی تلاوت کی جاتی تھی اور صحابہ کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب اور دوسرے افراد شامل تھے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کئی بار قرآن کریم ختم کیا اور یہ سب واضح طورپر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کریم نبی اکرم کے دور میں اسی طرح جمع ہوچکا تھا اور ہرگز پراگندہ اور منشر حالت میں  نہيں تھا "

اور انہی باتوں کی صراحت درج ذیل علماء نے بھی فرمائی ہے:

 علامہ شیخ صدوق ، شیخ مفید بغدادی، علامہ شیخ الطائفہ شیخ طوسی، اور دیگر شیعہ محققین  اور آج تک شیعہ علماء کا یہی نظریہ قائم و دائم ہے۔

 شیخ مقداد ربیعی ۔۔محقق و استاد۔ حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018