

| قرآنی قصے | طوفانِ نوحؑ: شبہات کا تجزیہ اور مدلل جواب

طوفانِ نوحؑ: شبہات کا تجزیہ اور مدلل جواب
الشيخ مقداد الربيعي
بعض ناقدین قرآنِ کریم اور دیگر آسمانی کتابوں میں مذکور طوفانِ نوح کی حقیقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ عقلِ سلیم کے برخلاف ہے، اور ایسے واقعات کو وہ اسلام اور دیگر ادیان پر اعتراض کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ یہ سب انسانی تخیل کا ایجاد ہے۔
ناقدین کے اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ طوفان تو پوری زمین پر پھیل گیا تھا، اور ان کے خیال میں اس پھیلاؤ کے نتیجے میں کئی ایسے امور لازم آتے ہیں جن پر یقین کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے ان امور کو چند سوالات کی صورت میں پیش کیا ہے، مثال کے طور پر ایک ہی کشتی میں زمین پر پائی جانے والی تمام انواع و اقسام کی مخلوقات کو کس طرح سمویا جا سکتا تھا، جب کہ ان کی تعداد اور تنوع بےحد زیادہ ہے؟حضرت نوحؑ اکیلے کیسے تمام جانوروں کو زمین کے مختلف گوشوں سے اکٹھا کر سکتے تھے؟ وہ ان تمام جانوروں کے لیے خوراک اور پانی کا بندوبست کیسے کر سکتے تھے؟ اور پھر ایک ہی جگہ پر ایسے جانوروں کو کیسے جمع کیا جا سکتا تھا جو فطری طور پر ایک دوسرے کو شکار کرنے کے درپے ہیں؟
نیزطوفان کے بعد جب زمین پر واپسی ہوئی، تو حضرت نوحؑ ان سب انواع کے لیے ان کے مخصوص ماحول کیسے فراہم کر سکتے تھے، جب کہ ہر جاندار کے جینے کے مخصوص طور طریقے ہوتے ہیں؟
ایسے اعتراضات کی مزید تفصیل کے لیے اسحاق عظیموف کی کتاب "منابع الحیاة" (صفحہ 24-26) سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔تاہم، طوفانِ نوح کے واقعے کو اسلام اور عقل کے درمیان تضاد کی دلیل بنانا درست نہیں، کیونکہ یہ کئی علمی اور منطقی غلطیوں پر مبنی ہے۔ ان غلطیوں کی نشاندہی دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے:
پہلا زاویہ: طوفان کی عالمگیریت کے مفروضے پر نظرِ ثانی
پہلا نکتہ یہ ہے کہ طوفان کے پوری زمین پر پھیل جانے کے مفروضے پر ہی سوال اٹھایا جائے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں کہیں بھی واضح طور پر یہ بیان نہیں کیا گیا کہ طوفان نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بلکہ، دیگر مقدس کتابوں کے برخلاف، قرآن نے اس مسئلے کی تفصیل میں جانے کی بجائے اسے مختصر انداز میں بیان کیا ہے اور اس حوالے سے کوئی دوٹوک اور براہِ راست معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس لیے، قرآن میں طوفانِ نوح کی عالمگیریت کا تعین محض اجتہاد اور قیاس پر مبنی ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض قرآنی آیات کو اس مفہوم میں لیا جا سکتا ہے کہ طوفان پوری زمین پر پھیلا ہوا تھا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا﴾ اور نوح نے کہا، اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑ)سورۃ نوح: 26(
اسی طرح:
﴿حَتى إذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا أَحْمِلْ فِيهَا مِن كُل زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ وَامَنَّ وَمَا امَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابلنے لگا تو ہم نے فرمایا: اس میں ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا (نر و مادہ) اور اپنے گھر والوں کو سوار کر لو، سوائے اس کے جس کے بارے میں (ہلاکت کا) فیصلہ ہو چکا ہو، اور جو ایمان لایا، اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے) سورۃ ہود: 40(
لیکن اس کے برعکس، کچھ آیات یہ اشارہ بھی دیتی ہیں کہ طوفان صرف حضرت نوحؑ کی قوم تک محدود تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمسينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَان وَهُمْ ظَلِمُونَ﴾
)اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے، پھر انہیں طوفان نے آ گھیرا جبکہ وہ ظالم تھے) (سورۃ العنکبوت: 14(
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ طوفان خاص طور پر حضرت نوحؑ کی قوم کے لیے ایک عذاب کی صورت میں تھا، نہ کہ پوری دنیا کے لیے۔ اس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ طوفان مقامی نوعیت کا تھا، جو صرف نافرمان قوم کو ہلاک کرنے کے لیے آیا، نہ کہ وہ پوری زمین پر پھیل گیا تھا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ کریم میں حضرت نوحؑ کو صرف اپنی قوم کے لیے بھیجا گیا انہیں نبی قرار دیا گیا ہے۔ مزید برآں، کئی مفسرین—حتیٰ کہ وہ جو جدید دور سے پہلے کے ہیں— انہوں نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ طوفان کی عالمگیریت یقینی نہیں بلکہ اس میں شبہ کی گنجائش موجود ہے۔
مثال کے طور پر، مشہور مفسر ابن عطیہ اپنی تفسیر "المحرر الوجیز" (جلد 4، صفحہ 547) میں سورۂ شعراء کی اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
﴿ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ﴾ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا) (الشعراء: 66(
اس آیت کی وضاحت میں وہ فرماتے ہیں: "اور اس میں کوئی صریح دلیل نہیں کہ غرقابی پوری زمین کے تمام لوگوں پر آئی تھی۔
اسی طرح، عصرِ حاضر کے عالم شیخ ناصر مکارم شیرازی بھی طوفان کے ایک مخصوص خطے تک محدود ہونے کے امکان کو بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"اس کے باوجود، یہ بعید نہیں کہ طوفان زمین کے کسی مخصوص علاقے میں آیا ہو، کیونکہ قرآن میں متعدد مقامات پر 'زمین' کا لفظ کسی وسیع خطے کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قصے میں آیا ہے: ’اور ہم نے اس قوم کو، جسے کمزور سمجھا جاتا تھا، زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
"کشتی میں جانوروں کو سوار کرانے کا مقصد شاید یہ تھا کہ اس مخصوص خطے میں ان کا سلسلہ باقی رہے، خاص طور پر جب اس دور میں جانوروں کی نقل و حرکت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی آسان نہ تھی۔ پس غور کرو!"
یہ تفاسیر اس نکتے کی تائید کرتی ہیں کہ طوفانِ نوح کی مکمل عالمگیریت کا مفروضہ قطعی نہیں، بلکہ اس کی مقامی نوعیت ہونے کا بھی قوی امکان موجود ہے۔
دیگر قرائن بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ طوفانِ نوح پورے کرۂ ارض پر نہیں پھیلا تھا۔
ایک اور اہم پہلو جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ طوفانِ نوح درحقیقت ان کی قوم کے لیے ایک عذاب تھا، اور ہمارے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں کہ حضرت نوحؑ کی دعوت پوری دنیا تک پہنچی تھی۔ اس دور میں، نوحؑ کی تبلیغ کا پوری زمین کے ہر گوشے تک پہنچنا ایک بعید از قیاس امر ہے۔ جیسا کہ "الأمثل في تفسير كتاب الله المنزل" (جلد 6، صفحہ 541) میں بیان کیا گیا ہے: "طوفان نوح ایک مخصوص قوم کے لیے سزا کے طور پر آیا، اور ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں کہ حضرت نوحؑ کی دعوت پوری زمین پر پھیلی ہو۔ عام طور پر، ان کے زمانے میں دین کی تبلیغ کا تمام دنیا میں پہنچنا بہت مشکل تھا"۔
لہٰذا، یہ دعویٰ کہ طوفان عالمی تھا، کوئی حتمی اور قطعی حقیقت نہیں بلکہ محض ایک امکان ہے۔ اسی بنیاد پر، اسلام اور عقل کے مابین کسی تضاد کو ثابت کرنے کے لیے اس واقعے کو بطور دلیل پیش کرنے کے عمل غیر مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے۔ یہی نظریہ بعض مغربی محققین نے بھی اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر، مشہور محقق موريس بوكاي اپنی کتاب )دراسة الكتب المقدسة في ضوء المعارف الحديثة( (صفحہ 246) میں لکھتے ہیں: "قرآنِ کریم طوفان کی تباہی کو ایک مخصوص عذاب کے طور پر پیش کرتا ہے، جو صرف حضرت نوحؑ کی قوم پر آیا، اور یہی بنیادی فرق ہے جو قرآنی اور توراتی بیانات میں نظر آتا ہے۔"
یہ تفریق ظاہر کرتی ہے کہ بائبل میں بیان کردہ عالمگیر طوفان کا تصور قرآن کے بیانیے سے مختلف ہے، اور طوفانِ نوح کے مقامی ہونے کا نظریہ محض جدید دور کی کوئی نئی تاویل نہیں بلکہ قدیم مفسرین اور جدید تحقیق دونوں میں اس کی حمایت موجود ہے۔اس سیاق میں اس بات کی تاکید ضروری ہے کہ قرآنِ کریم نے طوفانِ نوح کے حوالے سے ان تفصیلات کا ذکر نہیں کیا جو دیگر مقدس کتابوں اور تاریخی روایات میں بیان کی گئی ہیں۔نیز کئی مفسرین نے ان تفصیلات کی نشاندہی کی ہے جو قرآن میں مذکور نہیں، جیسے کہ:
کشتی کی لمبائی اور چوڑائی ، اس میں استعمال شدہ لکڑی کی نوعیت، دروازے کی جگہ اور بناوٹ، کشتی کے اندر موجود منزلوں (طوابق) کی تعداد، اس میں سوار کیے گئے جانوروں کی اقسام اور ان کی تعداد، جانوروں کے داخل ہونے کا طریقہ، کشتی کے پانی میں تیرتے رہنے کا دورانیہ، کشتی کے ٹھہرنے (لنگر انداز ہونے) کی مخصوص جگہ۔ مفسرین کے مطابق ان تفصیلات پر کوئی مستند دلیل موجود نہیں ہے ، لہذا انہیں قرآن سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
اسی بنیاد پر، اسلام پر یہ اعتراض کرنا کہ طوفانِ نوح کی داستان عقل کے خلاف ہے، درست نہیں، کیونکہ یہ ثابت نہیں کہ طوفان پوری زمین پر آیا تھا یا اس کے کچھ حصے پر۔لہٰذا، اس قصے پر کیے گئے اعتراضات اور شکوک(جو اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ طوفان عالمی نوعیت کا تھا)بےبنیاد اور غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔
دوسرا زاویہ: طوفان کی عالمگیریت کے مفروضے کا تجزیہ
اس دوسرے زاویے میں، ہم یہ جدلیاتی طور پر تسلیم کر لیتے ہیں کہ طوفان پوری زمین پر پھیلا ہوا تھا اوراس نے تمام براعظموں اور خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ موقف علماء اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اختیار کیا ہے، بلکہ شاید اکثریت کا رجحان اسی طرف ہے۔اس نظریے کی تائید مشہور مفسر علامہ طباطبائیؒ نے اپنی تفسیر الميزان میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"حضرت نوحؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ ہر جاندار کی نسل سے ایک جوڑا کشتی میں سوار کریں۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ طوفان نے زمین کے تمام خشک علاقوں یا اس کے بیشتر حصے کو گھیر لیا تھا، جو کہ پوری زمین کے برابر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لیے، قرآنِ کریم کا ظاہر—جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا—یہی بتاتا ہے کہ طوفان عالمگیر تھا اور اس وقت زمین پر موجود تمام انسان غرق ہو گئے تھے۔ اور اب تک کوئی قطعی دلیل ایسی نہیں ملی جو اس ظاہر کے برخلاف ہو۔" (الميزان، ج 10، ص 266)
یہ موقف اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ قرآن کے ظاہری الفاظ طوفان کے عمومی (عالمگیر) ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کے خلاف کوئی قطعی اور حتمی دلیل موجود نہیں جو اس تاثر کو رد کر سکے۔
اسی تناظر میں اگر ہم طوفان کی عالمگیریت کو تسلیم کر بھی لیں، تب بھی اس پر ایمان رکھنا اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو قبول کرنا عقل کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک معجزہ تھا اور معجزات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں۔
یہ درست ہے کہ بعض لوگوں کو طوفان اور اس سے متعلق تفصیلات ناقابلِ یقین لگ سکتی ہیں، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ اللہ کی خاص قدرت کا اظہار تھا۔پس جو اللہ اس وسیع کائنات کو پیدا کر سکتا ہے، وہ تمام جانوروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے، ان کے لیے خوراک کا بندوبست کرنے، یا انہیں کچھ دنوں تک بغیر خوراک کے زندہ رکھنے پر بھی قادر ہے۔نیز وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ ان جانوروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر دے اور ان کی درندگی کی فطرت کو عارضی طور پر ختم کر دے۔
چونکہ طوفان ایک معجزہ تھا، اس لیے اسے عام سائنسی قوانین کے مطابق دیکھنا درست نہیں۔ ایک مومن کے لیے اس پر ایمان رکھنا اس کے عقیدے کے مطابق ہے، کیونکہ جب وہ اللہ کو کائنات کا خالق اور قادرِ مطلق مانتا ہے، تو اس کے لیے طوفان جیسے کسی واقعے کو ماننا کوئی مشکل بات نہیں۔
مؤمن طوفانِ نوح کو انسانی قدرت کی محدود نگاہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ وہ اسے اللہ کی وسیع قدرت کے تناظر میں سمجھتا ہے—وہی قدرت جس سے اس عظیم کائنات کو تخلیق کیا گیا۔کائنات کی تخلیق پر ایمان ہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر ایک مومن معجزات اور غیر معمولی واقعات کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ جب یہ عقیدہ اس کے دل و دماغ میں پختہ ہوتا ہے، تو وہ طوفانِ نوح جیسے واقعے کے امکان کو بھی قبول کرتا ہے اور اگر وہ اس پر ایمان نہ رکھے تواس کا یہ عمل خود اس کے عقیدے اور عقل سے متصادم ہو جائے گا۔
جہاں تک طوفان پر اعتراض کرنے والے کا تعلق ہے،تو اگر وہ خدا کے وجود کو ماننے والا ہے، تب اسکی عقل کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی قدرت میں طوفان کے امکان کو بھی تسلیم کرے۔ کیونکہ جب وہ کائنات جیسے عظیم الشان نظام کی تخلیق پر ایمان رکھتا ہے، تو پھر طوفان جیسے نسبتاً کم درجے کے واقعے کے امکان کو رد کرنا غیر منطقی ہوگا۔
اوراگر اعتراض کرنے والا اللہ کے وجود کا ہی انکار کرتا ہو، تو اس سے طوفان پر براہ راست بحث کرنا درست نہیں، کیونکہ اس نے اس بنیادی عقیدے کو ہی مسترد کر دیا ہے جس پر طوفان جیسے واقعات کو تسلیم کرنا ممکن ہوتا ہے—یعنی اللہ کی تخلیقِ کائنات۔ایسے شخص سے بحث کا نقطۂ آغاز اللہ کی تخلیقِ کائنات کے دلائل ہوں گے، اور یہ واضح کرنا ہوگا کہ کائنات کا بغیر کسی خالق کے وجود میں آنا ناممکن ہے۔پس اگر وہ اس حقیقت کو مان لے، تو پھر کائنات کے دیگر امور، جن میں طوفان بھی شامل ہے، اس سے زیرِ بحث لائے جا سکتے ہیں۔لیکن اگر وہ اللہ کی تخلیقِ کائنات کو تسلیم ہی نہ کرے، تو طوفان پر گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ، اس کے ساتھ صرف عقلی بنیادوں پر طوفان کے امکان پر بات کی جا سکتی ہے۔