

| قرآنی معجزات | سائنسی حقائق اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی تائید کرتے ہیں

سائنسی حقائق اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی تائید کرتے ہیں
شیخ مقداد الربیعی
ہم بطورِ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا نگہبان ہے، اور وہی اس عالم کا سہارا ہے اور اسی کی قدرت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ قرآن مجید نے اسی حقیقت کو اس جملے میں بیان کیا ہے: (اللَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ)۔ اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے۔ (البقرة: 255)۔
یہ عقیدہ محض ایمانی تصور نہیں بلکہ جدید سائنس کی تحقیقات، خصوصاً کوانٹم فزکس، غیر شعوری طور پر اسی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
کوانٹم فزکس دراصل مادّے کی اس نہایت باریک سطح کا مطالعہ ہے جو بنیادی ذرات جیسے الیکٹران، پروٹون اور ان سے بھی چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہے۔ ان ذرات کی خصوصیات اور ان کے رویّے کو سمجھنے کے لیے سائنسدان ایک ریاضیاتی تصور استعمال کرتے ہیں جسے تفاعلِ موجی کہا جاتا ہے۔ یہ تفاعلِ موجی کسی ذرّے کے لیے ایک معین حقیقت پیش کرنے کے بجائے اس کے مقام اور رفتار کے لاتعداد احتمالات بیان کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کوئی بھی ذَرّہ کہاں موجود ہے یا کس رفتار سے حرکت کر رہا ہے، اسے قطعی طور پر متعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہی اصول ہائیزنبرگ کا "مبدأ عدمِ یقین" کہلاتا ہے، جس کے مطابق کائنات کا بنیادی ڈھانچہ ایک دائمی غیر یقینی کیفیت پر قائم ہے۔
جب اس اصول کو مجموعی طور پر کائنات پر لاگو کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کائنات کے ذرات کی حرکات نہ صرف ناقابلِ پیش گوئی ہیں بلکہ اس غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے یہ امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کائنات اچانک بکھر جائے یا منہدم ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں، آسمانوں کے ٹوٹنے، سیّاروں کے شق ہونے اور کہکشاؤں کے پھٹ جانے کا امکان محض فرضی بات نہیں بلکہ کوانٹم فزکس کے دائرۂ امکان میں ہر لمحہ موجود ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کی یہ آیت نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے: (إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا ۚوَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًاغَفُورًا)
اللہ آسمانوں اور زمین کو یقینا تھامے رکھتا ہے کہ یہ اپنی جگہ چھوڑ نہ جائیں، اگر یہ اپنی جگہ چھوڑ جائیں تو اللہ کے بعد انہیں کوئی تھامنے والا نہیں ہے، یقینا اللہ بڑا بردبار، بخشنے والا ہے۔ (فاطر: 41)۔
اس حقیقت کو بعض بڑے سائنسدانوں نے بھی بالواسطہ تسلیم کیا ہے۔ مشہور طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب The Grand Designمیں لکھا ہے کہ کوانٹم قوانین کے تحت یہ ممکن ہے کہ چاند کسی دور میں پنیر کا ٹکڑا بن جائے۔ یہ بظاہر مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے لیکن وہ اسے خالصتاً سائنسی امکان کے طور پر بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ فی الحال ایسا نہیں ہے اور یہ یقیناً چوہوں کے لیے بری خبر ہے یعنی "یہ صورتِ حال یقیناً چوہوں کے لیے مایوس کن ہے۔ (یہ ہاکن کی طرف سے طنزیہ طور پر کہا گیا ہے)"۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اسے محض سائنسی تخیّل سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سائنسی اصولوں کی عین پیداوار ہے۔ اگرچہ ہاکنگ اور ان جیسے دیگر سائنسدان مذہب اور خدا کے وجود کے قائل نہیں تھے، تاہم ان کے بیانات اس امر کی غیر ارادی شہادت ہیں کہ کائنات بذاتِ خود غیر یقینی اور غیر مستحکم ہے اور اس کے استقرار کے لیے کسی ماورائی قوت کی ضرورت ہے۔
حقیقی تعجب اس بات میں نہیں کہ کائنات کے انہدام کا امکان موجود ہے، بلکہ اس میں ہے کہ اس غیر یقینی امکان کے باوجود یہ کائنات کروڑوں سالوں سے ایک منظم، مربوط اور پائیدار حالت میں باقی ہے۔ ایک طرف ذرات کی حرکات عدمِ یقین کے تابع ہیں اور دوسری طرف پوری کائنات ایک حیرت انگیز ہم آہنگی اور ٹھوس قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ تضاد بذاتِ خود اس بات کا اعلان ہے کہ کوئی ایسی قیوم قوت ہر لمحہ کائنات کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہے جو اس کے ذرے ذرے پر حاوی ہے۔
یہی حقیقت اس اصول کو بھی واضح کرتی ہے کہ کائنات کو قائم رکھنے والی قوت صرف ایک ہے۔ اگر اس میں متعدد مؤثر طاقتیں یا خداؤں کی مداخلت ہوتی تو لازماً اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا، جیسا کہ قرآن نے فرمایا: (لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ) اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔(الأنبياء: 22)۔