
| قرآنی مضامین | قرآنی متن کی تعبیر ِجدید کا چیلنج

قرآنی متن کی تعبیر ِجدید کا چیلنج
الشيخ معتصم السيد أحمد
جدید فکری تاریخ میں مذہبی تقدس کو اتنا بڑا چیلنج کبھی نہیں رہا جتنا اس وقت درپیش ہوا جب کچھ مفکرین نے یہ طے کیا کہ "نص" یعنی متن کی تعریف ہی دوبارہ کی جائے۔ ان کے نزدیک نص اب ایسا کلام نہیں رہا جو زبان کے پیچھے سے کوئی پیغام لاتا ہو بلکہ وہ ایک زبانی وجود بن گیا ہے جو اپنے قائل سے الگ ہوتا ہے اور اپنے قاری کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے ایک بڑی فکری تبدیلی کا آغاز ہوا جسے مغربی فلسفے میں "ہرمینیوطيقا" یعنی علمِ تاویل کہا گیا۔ یہ علم صرف متون کے فہم تک محدود نہ رہا بلکہ اس نے خود حقیقت پر سوال اٹھایا: حقیقت کہاں سے آتی ہے اور اس کے تعین کا حق کس کے پاس ہے؟
جب یہ فکری لہر تحریکِ جدیدیت کے روپ میں اسلامی دنیا میں داخل ہوئی تو اس نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔ اب یہ قرآن کو دوبارہ پڑھنے کا ذریعہ بن گئی۔دوبارہ پڑھنا ایمان والوں کی روایت کے مطابق نہیں تھا بلکہ اُن لوگوں کی نگاہ سے جو نص کو اس کے تقدس سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ قرآن جو اصل میں انسان کی حق کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب ہے اُن کی منطق میں ایک "کھلا متن" بن گیا جس کے معنی قاری کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ یوں معنی کا تصور الٰہی ارادے سے انسانی تشکیل میں تبدیل ہو گیا جو کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتاکیونکہ زبان خود کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہتی۔
اس تصور کی جڑیں فلاسفہ کے ہاں ملتی ہیں جیسے ہانس گاڈامر جن کا خیال تھا کہ قاری کسی متن کو صرف اُس کے اپنے تاریخی اور ثقافتی تناظر میں ہی سمجھ سکتا ہےاور معنی اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو افق یعنی متن کا افق اور قاری کا افق ایک دوسرے سے متفاعل ہوتے ہیں۔ بعد میں آنے والے تفکیری مکتبِ فکر (Deconstruction) نے جس کی قیادت ژاک دیرِیدا نے کی اس خیال کو نتیجے تک پہنچا دیا۔ اس نے اعلان کیا کہ متن کا کوئی مرکز نہیں ہوتا، نہ ہی اس کا کوئی آخری یا قطعی معنی ہوتا ہے بلکہ ہر قراءت نئی قراءتوں کے دروازے کھولتی ہے جو لامحدود ہیں۔اس تصور کے مطابق، قرآن بھی کوئی ایک ہی پیغام نہیں رکھتا بلکہ اس کے پیغامات اتنے ہیں جتنے اس کے قارئین ہیں۔درست فہم نام کی کوئی چیز موجود نہیں کیونکہ ہر فہم دراصل ایک ثقافتی اور نسبتی تشکیل ہے۔
جب اس تصور کو وحی پر لاگو کیا گیا تو اس نے انسان اور قرآن کے درمیان تعلق کی نوعیت میں ایک خطرناک انقلاب پیدا کر دیا۔ اب انسان وحیِ الٰہی کا مخاطَب اور قبول کرنے والا نہیں رہا بلکہ وہ خود اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق اس کا معنی گھڑنے والا بن گیا۔ ہر قاری اپنے ذاتی تجربات کو متن پر تھوپ دیتا ہےاور یوں قرآن ایک آئینہ بن جاتا ہے جو قاری کو اس کا اپنا عکس دکھاتا ہے، نہ کہ ایک معیار یا حوالہ جس کی طرف وہ رجوع کرے۔ اس طرح وہ بیان کا تصور ختم ہو جاتا ہے جس صفت سے اللہ نے اپنی کتاب کو متصف کیا ہے:
﴿هَٰذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ﴾ آل عمران ۱۳۸
یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔
یہاں بیان وضاحت اور ثبات کو لازم قرار دیتا ہے جبکہ یہ منہج متن میں ہمیشہ ایک ایسے ابہام کو دیکھتا ہے جو ہر وقت نئی تفہیم کے قابل رہتا ہے۔ اس رجحان نے جدید عربی فکر میں دو نہایت خطرناک نتائج پیدا کیے۔ پہلا یہ کہ قرآنی متن سے تقدس کو چھین لیا گیا اس بنیاد پر کہ یہ ایک لسانی تخلیق ہے جو تاریخ اور ثقافت کے قوانین کے تابع ہے۔ دوسرا یہ کہ شریعت کی دینی مرجعیت کو ختم کر دیا گیا کیونکہ احکام کو محض سماجی علامتیں قرار دیا گیا جن کی نئی تاویل ہر زمانے میں ممکن ہے۔ اسی سوچ کے نتیجے میں وہ قراءتیں سامنے آئیں جنہوں نے آیاتِ احکام کو عارضی حالات کے جوابات، قرآنی قصص کو علامتی تمثیل اور آخرت کے بعث کو روحانی، نہ کہ جسمانی قرار دیا۔ اس طرح قرآن کے متن کو اس کے حقیقی اور ثابت معنی سے خالی کر دیا گیااور اس کے الفاظ محض ادبی تاثر کے حامل بن گئے، بجائے اس کے کہ وہ ایک الٰہی ہدایت کا درجہ رکھتے جو انسان کو حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
اس فکری راستے کے اندر خود ایک مہلک تضاد پوشیدہ ہے۔ اگر متن کا کوئی ثابت معنی نہیں تو پھر خود ان مفکرین نے یہ کیسے سمجھا کہ قرآن وہی کہتا ہے جو وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ اور اگر ہر قراءت درست ہےتو کیا یہ بھی درست ہوگا کہ ہم قرآن سے اس کے اپنے برعکس معنی اخذ کریں؟ نص کے لامحدود قراءتوں پر کھلنے کا دعویٰ دراصل خود اپنے آپ کو منہدم کر دیتا ہےکیونکہ یہ اصول خود اسی قول کو بھی کسی متعین معنی سے خالی کر دیتا ہے۔ یوں ہر جملہ حتیٰ کہ ان کے اپنے اقوال بھی رد اور تاویل کے لامتناہی امکانات میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور اس طرح ہر معنی امکانات کے ایسے غبار میں گم ہو جاتا ہے جو کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہیں رہتا۔
مسئلہ جدید تاویل میں سمجھنے کی کوشش میں نہیں بلکہ متکلم کی نیت کو ختم کر دینے میں ہے۔ قرآنی متن کسی نامعلوم مصنف کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے، جس نے اپنے بارے میں فرمایا:
﴿إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (سورہ طارق ۱۳،۱۴)
یہ (قرآن) یقینا فیصلہ کن کلام ہےاور یہ ہنسی مذاق نہیں ہے۔
یہاں "فصل" سے مراد ہے وضاحت، فیصلہ اور قطعیت۔ پس جب قرآن کو ایک ایسے زبانی معنی بدلنے والے کلام کے طور پر سمجھا جائے جو ہر تاویل کے لیے کھلا ہو تو اس سے اللہ کی وہ صفت چھین لی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ خود کو واضح کرنے والا قرار دیتا ہے اور وحی کو محض ایک ادبی متن بنا دیا جاتا ہے جسے شاعری کی طرح پڑھا جائے۔ یہی دراصل مقدس متن کی "لسانی علمنیت" (secularization) کا گہرا مفہوم ہے جس میں کلام کو اس کے الٰہی مصدر سے جدا کر دیا جاتا ہے۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ فلسفہ بالآخر سیاسی اور نظریاتی نتائج تک جا پہنچا۔ جب متن اپنی بالادستی کھو دیتا ہے تو وہ بآسانی مروّجہ خیالات کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔ ہر فکری دھارا قرآن میں اپنے موقف کے لیے جواز تلاش کر لیتا ہےکیونکہ معنی کو قاری کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ کبھی قرآن کو مغربی جمہوریت کی زبان میں پڑھا جاتا ہے، کبھی مارکسیت کے لہجے میں اور کبھی لبرل ازم کے مفہوم میں۔ ہر قراءت اپنے آپ کو ممکنہ تاویل ہونے کے سبب اصل اور درست قرار دیتی ہے۔ یوں قرآن کا متن حق کے سرچشمے سے بدل کر مفادات کی کشمکش کے میدان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس، اسلام ایک منظم اور متوازن تاویلی منہج پیش کرتا ہے جو نص کے ظاہر و باطن، زبان و عقل اور انفرادی قراءت و معصوم مرجعیت کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے۔ اہلِ بیتؑ کا مکتبِ فکر تاویل کا منکر نہیں لیکن اس کے لیے ایسی حدود و ضوابط مقرر کرتا ہے جو یہ یقینی بناتے ہیں کہ نص اپنی حیثیت ایک منبعِ ہدایت کے طور پر برقرار رکھے نہ کہ تجربات و مفروضات کا میدان بن جائے۔ امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے: "کوئی ایسا معاملہ نہیں جس میں دو لوگ اختلاف کریں مگر اس کی اصل کتابِ خدا میں موجود ہے لیکن مردوں کی عقلیں وہاں تک نہیں پہنچتیں۔" پس مسئلہ نص میں نہیں بلکہ انسانی فہم کی محدودیت میں ہے اور اسی لیے وحی اور نبوی بیان کا کردار یہ ہے کہ وہ سمجھ کے افق کو وسیع کرے نہ کہ خود نص کو تحلیل یا ختم کر دے۔
ان کے نزدیک مشروع (جائز) تاویل ظاہری معنی کو منسوخ نہیں کرتی بلکہ اس کے اندر ایک نئی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ معنی کی توسیع ہے، اس کی نفی یا الٹ پھیر نہیں۔ جدید تاویل (تأویلِ حداثی) معنی کو اس حد تک توڑ دیتی ہے کہ آخر میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ دونوں مناہج کے درمیان فرق ایسا ہے جیسے کسی معروف دھار والے دریا میں سفر کرنا اور ایک بے کنار سمندر میں ڈوب جانا — پہلا علم و معرفت تک پہنچاتا ہے جبکہ دوسرا نیستی (عدم) تک۔قرآن کی نظر میں زبان محض علامتوں کا اظہار نہیں بلکہ حقیقت کا ظرف ہے۔ قرآن ایک ایسی واضح زبان میں نازل ہوا ہے جسے لوگ سمجھ سکتے ہیں:
﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾ (سورہ یوسف:۲)
ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔
اس بیان (وضاحت) کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو فہم اور ہدایت کی راہ پر لایا جائے نہ کہ اسے لامحدود مفاہیم اور تاویلات کی الجھن میں ڈال دیا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ﴾ (سورہ قمر:۲۲)
اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے؟
سمجھنے میں آسانی، الٰہی خطاب کی ایک نمایاں صفت ہے نہ کہ وہ مصنوعی پیچیدگی جس نے متن کو ایک بند پہیلی بنا دیا ہو۔ اس کے باوجود، اسلام فہم میں تنوع کا انکار نہیں کرتالیکن وہ نقطۂ نظر کے اختلاف اور معنی کے اختلاف میں فرق قائم کرتا ہے۔ ایک ہی نص کے فہم میں مختلف زاویے ممکن اور جائز ہیں بشرطیکہ بنیاد مشترک ہو اور اصول و ضوابط محفوظ رہیں۔ معانی کی اس قدر تعداد کا دعویٰ جو باہمی تضاد تک پہنچ جائےدراصل خود وحی کا انکار ہے۔ اللہ نہ تو ایک ہی وقت میں کسی بات اور اس کی ضد فرماتا ہے اور نہ ہی اس نے ایسی کتاب نازل کی ہے جسے جتنے قارئین ہوں اتنے ہی مختلف معانی میں سمجھا جائے۔
قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ وہ ایک آئینہ بن جائے جس میں انسان اپنی خواہشوں کا عکس دیکھے بلکہ اس لیے آیا ہے کہ وہ ایک میزان بنے جس سے انسان اپنے فکر اور اعمال کو پرکھے۔ اسی وجہ سے قرآن کی جدید تاویل (تأویلِ حداثی) دراصل کوئی تجدید نہیں بلکہ الٰہی مرجعیت کو انسانی مرجعیت سے بدل دینے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو وحی کی جگہ انسان کی ذات کو بٹھاتا ہے اور دین کی تعریف کو اندر سے تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ مگر یہ کوشش، چاہے آزادی یا عقلیت کے نام سے پیش کی جائے بالآخر اسی پرانے قول کی بازگشت ہے جو فرعون کی قوم نے کہا تھا:
﴿إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴾ (سورہ مدثر:۲۶)
۲۵۔ یہ تو صرف بشر کا کلام ہے۔
مسئلہ پرانے اور نئے کے درمیان کشمکش کا نہیں بلکہ ان دو نقطۂ نظر
کے درمیان ہے: ایک وہ جو وحی کو حقیقت تک پہنچنے کا راستہ سمجھتا
ہےاور دوسرا وہ جو اسے معنی کے تجربات کا میدان سمجھتا ہے۔ ایک وہ
جو قرآن اس لیے پڑھتا ہے کہ اللہ کی بات سنے اور دوسرا وہ جو اسے اس
لیے پڑھتا ہے کہ اپنی ہی آواز سنے۔ ایک کے نزدیک قرآن ہدایت کا وعدہ
ہےاور دوسرے کے نزدیک وہ محض ایک ثقافتی استعارہ ہے جس کا کوئی اصل
مرجع نہیں۔ چنانچہ بنیادی سوال ہر عقل کے سامنے باقی رہتا ہے: کیا
ہم اللہ کے کلام کو اپنی مرضی سے ڈھالتے ہیں، یا اللہ کا کلام ہمیں
نئی صورت میں ڈھالتا ہے؟


