5 محرم 1447 هـ   30 جون 2025 عيسوى 1:04 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآنی مضامین |  کیا معجزہ عقلی طور پر ناممکن عمل کا نام ہے؟
2025-06-10   95

کیا معجزہ عقلی طور پر ناممکن عمل کا نام ہے؟

السيد علي العزام الحسيني

جب میں نے اُن فکری مکاتبِ فکر کے اعتراضات کا جائزہ لیا جو معجزات کے وقوع کے امکان پر شک کرتے ہیں، تو ایک بنیادی نکتہ میرے سامنے آشکار ہوا جو ان کے بیشتر شبہات کی جڑ ہے، اور جس سے اس باب میں اٹھنے والے متعدد اعتراضات نے جنم لیا ہے۔ یہ ایک مشترکہ فکری مغالطہ ہے جو ان کی پوری تنقیدی عمارت کو سہارا دیتا ہے۔ان لوگوں نے معجزے کے بارے میں ایک غلط اور سطحی تصور اپنا لیا ہے۔ انہوں نے جب علمائے عقائد کی اس تعریف کو سنا کہ معجزہ "عادت کے خلاف واقع ہونے والا غیر معمولی واقعہ" یا "قدرتی نظام سے ہٹ کر پیش آنے والا امر" ہے، تو انہوں نے اسے اس طرح سمجھا کہ گویا معجزہ فطری قوانین میں خلل ڈالنے والی کوئی چیز ہے، یا عقل کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے، یا یہ سبب و مسبب کے قانون سے باہر کوئی بے قاعدہ استثنا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معجزہ ایسا عمل ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے جانی پہچانی اور مروجہ عادت سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ اگرچہ معجزے کی نوعیت سے متعلق اور بھی بہت سے پہلو اور شرائط بھی ہیں، لیکن وہ اس وقت ہمارے موضوع کا حصہ نہیں۔ یہاں ہم صرف اس خاص پہلو کا تجزیہ کریں گے جس کی بنیاد پر مختلف اعتراضات پیدا ہوئے، یعنی یہ کہ معجزہ فطرت کے معروف اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور عام رائج قوانین کے برخلاف ہوتا ہے۔

معجزہ ایک غیر معمولی امر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی معمول کا واقعہ یا فطری و مانوس عمل نہیں، بلکہ یہ نہایت نادر عمل سے بھی بالاتر ہے، اس کے باوجود بھی یہ عقلی طور پر محال (ناممکن) نہیں۔ میں اس مفہوم کو آسان اور قابل فہم انداز میں یوں واضح کروں کہ فعل (عمل) عمومی طور پر ایک تدریجی دائرہ رکھتا ہے، جس کے مختلف درجے اور مراتب ہیں، جو وقوع اور تحقق (یعنی وقوع پذیر ہونے) کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ علمائے منطق کے الفاظ میں: "فعل" کا مفہوم متواطی (یعنی ایک جیسا اور یکساں دلالت رکھنے والا) نہیں، بلکہ یہ ایک "مُشکّک" مفہوم ہے، جس کے چار مراتب ہوتے ہیں۔ اور وہ اجمالاً یوں ہیں :

 ۱۔ عام فعل، جو کثرت سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔

 ۲۔ اس کے بعد نادر فعل، جس کی مثالیں کم ہوتی ہیں۔

 ۳۔ پھر خارقِ عادت فعل، جس کی کوئی مثال نہیں ہوتی۔

 ۴۔ اور آخر میں وہ فعل جو عقلی طور پر محال اور ناممکن ہوتا ہے

پہلا درجہ ایک طرف کی انتہا پرواقع ہے، یعنی ایسا فعل جو معمول ، مانوس اور طبعی نظام کے مطابق ہو جسے ہم سب جانتے ہیں۔ ایسا فعل نہ دل میں کوئی تعجب پیدا کرتا ہے اور نہ ہی سوال کو جنم دیتا ہے۔ یہی حال ہماری روزمرہ زندگی میں نظر آنے والے عام افعال کا ہوتا ہے، جو بکثرت پائے جاتے ہیں اور شاذ نہیں ہوتے، جیسے حمل کا رحم میں ٹھہرنا، جگر میں نہ ٹہرنا۔اس کے بالمقابل چوتھا درجہ دوسری انتہا پرواقع ہے، جہاں فعل عقلی طور پر محال اور ناممکنات کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے، جیسے دو متضاد چیزوں کو جمع کرنا، یا کسی نتیجے کا، بغیر علت کے وجود میں آنا، یا ایک کو ایک سے ضرب دینے پر حاصل دس آنا، وغیرہ۔

ان دونوں کے درمیان باقی دو درجے آتے ہیں: دوسرا اور تیسرا۔

دوسرا درجہ وہ ہے جہاں فعل کا وقوع کم ہوتا ہے ، جس کی بنا پر وہ "نادر حالت" یا "غیر معمولی واقعہ" کے زمرے میں آتا ہے۔ جیسے دنیا کے سات عجائبات، یا کسی عورت کا حمل رحم کے بجائے جگر میں ٹھہر جانا (ایسا ایک واقعہ تین سال قبل ایک کینیڈین ڈاکٹر نے دریافت کیا)، یا کوئی بچہ اپنے پہلے سال میں صاف اور واضح گفتگو کرے، یا بعض علما کا سنِ بلوغ سے قبل ہی اجتہاد اور فقاہت کے درجے کو پہنچ جانا، وغیرہ۔

ان تمام مثالوں اور نمونوں کی درست توصیف یہ ہے کہ یہ نادر اور کم نظیر واقعات ہیں؛ یعنی ایسا نہیں کہ ان کا وجود ناممکن ہو یا ان کی نظیر پیدا کرنا انسانی بس سے باہر ہو، بلکہ وہ محض شاذ و نادر ہوتے ہیں اورعام نہیں ہوتے ۔اسی بنیاد پر تیسرا درجہ اپنے سابقہ درجے (یعنی دوسرے درجے) سے ممتاز ہوتا ہے کہ اس میں فعل "خارقِ عادت" ہوتا ہے، ایسا فعل کہ انسان بطور نوع (یعنی بحیثیت مجموعی) اس کی مثال لانے پر قادر نہیں ہوتا، اورانسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس جیسا فعل سرانجام دے سکے۔

اگرچہ دوسرے درجے کے نمونے — جیسے کہ بچے کا پہلے سال میں فصیح انداز میں بولنا — حیرت انگیز ضرور ہیں، تاہم ایسا ناممکن نہیں کہ علمی و سائنسی حلقے بھرپور کوششوں کے ذریعے ایسی کیفیت کو پیدا کر لیں یا اس کا اعادہ کر سکیں۔لیکن اس کے برعکس، اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ کسی نوزائیدہ بچے - جس کی پیدائش کو چند گھنٹے بھی نہ گزرے ہوں - میں قوتِ گویائی پیدا کر سکیں، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ہوا۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تیسرا درجہ - جس کے تحت معجزہ آتا ہے - دیگر درجات سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ فعل اپنی ذات میں ممکن ہوتا ہے، یعنی عقلی طور پر محال نہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل خود اس کا وقوع ہے، کیونکہ جیسا کہا جاتا ہے: "کسی چیز کا وقوع ہی اس کے ممکن ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ "مگر اس کے باوجود، اس کا وقوع اسے نہ کوئی عام سا واقعہ بناتا ہے، اور نہ ہی ایسا نادر واقعہ جسے انسان سیکھنے یا تکرار سے دہرا سکے۔اسی وجہ سے سحر، جادو یا شعبدہ بازی جیسے افعال اس دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ علمائے عقیدہ اور علمِ کلام نے "معجزہ" کی تعریف میں ایک اضافی قید بھی شامل کی، اور وہ ہے چیلنج اور عجز(یعنی اس کی مثل لانے سے دوسروں کا عاجز آ جانا)"۔

مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے: معجزے کو "عادت کے خلاف" اور "ظاہری سنن (یعنی ظاہر میں جاری قوانینِ فطرت) کے برعکس" قرار دینا، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ کسی قانون کے بغیر رونما ہوتا ہے، یا یہ کہ وہ عقل کے قطعی اصولوں کو توڑتا ہے؛ بلکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ وہ قوانین جو معجزے کو ممتاز کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے غیر معلوم ہوتے ہیں - نہ یہ کہ معجزہ کسی بھی قانون کے بغیر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ہمارایہ عقیدہ کہ وجود صرف مادہ (مٹیریل) تک محدود نہیں، اور یہ کہ عالمِ طبیعت پوری حقیقت کا احاطہ نہیں کرتا۔ اسی لیے جو نظامِ اسباب پوری کائنات پر حاوی ہے، وہ صرف طبیعی علل تک محدود نہیں، بلکہ ان کے ماوراء اسباب کو بھی شامل کرتا ہے۔بلکہ بعض اوقات تو خود طبیعی علل بھی ہماری نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر،کسی ملک کی حکومت تک پہنچنے کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں، جیسے طاقت کے زور پر قبضہ، یا موروثی بادشاہت، وغیرہ - یہ سب ظاہری اور مادی اسباب ہیں۔لیکن اگر کوئی شخص کنویں میں ڈالے جانے کے بعد اس مقام تک پہنچے، تو یہ بظاہر ایک ایسا راستہ ہے جو عادتاً ناممکن ہے (نہ کہ عقلاً)، اور یہ کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا لیکن حقیقت میں ایسا واقعہ پیش آچکا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018