| قرآنی مضامین | قرآنی مفاہیم کا سلسلہ۔۔۔ فقر اور تنگدستی کی حقیقت
قرآنی مفاہیم کا سلسلہ۔۔۔ فقر اور تنگدستی کی حقیقت
شیخ مقداد ربیعی
مشہور مفکر اور بوسنیا کے سابق صدر علی عزت بیگووچ نے اپنی مشہور کتاب(الإسلام بين الشرق والغرب) میں فقر وتنگدستی کی حقیقت پر گفتگو کی ہے۔وہ انسان کے دو پہلو، مادی اور روحانی کی بیان کرنے کے بعد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان دونوں پہلوؤں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اگر توازن نہ ہو تو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بات ایسی ہو تو یہیں سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ جب انسان اپنی زندگی میں مادی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسی کو بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ کبھی بھی خوش نہیں رہتا، حالانکہ اس کے پاس زندگی گزارنے کی تمام آسائشات موجود ہوتی ہیں۔
فقر کا قرآنی تصور
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فقر کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے:
(وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ)، طه: 124
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
فقر یہ نہیں ہے کہ انسان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ،بلکہ فقر یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اس سے راضی نہیں ہے۔
آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر کا سبب یاد خدا سے دوری ہے۔ہم یہاں پر اس معنی کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس آیت مجیدہ میں ذکر خدا سے کیا مراد ہے؟ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے پاس مال و اسباب نہیں ہوتا تو وہ غم و خوف کا شکار ہو جاتا ہے یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں کچھ اسباب کا فقدان ہے۔جب انسان کے پاس مال و دولت اور اسباب کی فروانی ہوتی ہے تو وہ مطمئن ہوتا ہے۔جب انسان کی نظر میں مادی اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو گی تو ایسی صورت میں جب اس کے پاس یہ نہیں ہوگا تو اسے کسی قسم کے رنج،غم،افسوس،اضطرات،تکلیف اور پریشانی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔جس نے اپنا عقیدہ اس بات پر بنایا کہ یہ سب وسائل دراصل اللہ کے رزق تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں جب وہ نہیں ہو ں گے تو اسے کوئی دلی پریشانی نہیں ہو گی۔کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر قادر کہ وہ کسی دوسرے طریقے سے اس تک رزق پہنچا دے گا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا)، الطلاق: 3
اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے، اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں: (وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو.۔ یعنی اللہ ایسے وسیلے سے رزق دے گا جسے انسان جانتا بھی نہیں ہو گا۔
(إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی اور چیز کا سبب بنا کر رزق عطاکر دے۔
اس طرح ایمان رکھنا انسان کو زندہ اور مطمئن بناتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)، يونس: 62 ۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ پس اسباب کے چلے جانے سے بھی اسے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوتا۔اسی طرح جب یہ مال لانے کے اسباب موجود ہوتے ہیں تو بھی وہ خوش نہیں ہوتا۔اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ میں ارشاد ہوتا ہے:(لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ)، الحديد: 23 ۔ تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
آیت مجید کہ جس آیت شریفہ میں ذکر کی طرف اشارہ کیا گیا ، اس کی وضاحت اللہ تعالی کا یہ فرمان کرتا ہے:
(اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)، الطلاق: 12 ۔
وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔
اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ اس نے اس کائنات کو کیوں بنایا؟ اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اس حقیقت کو جان لے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی بھی صاحب اختیار نہیں ہے،ہر طرح کی قوت و طاقت اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:(لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)
تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ انسان اس مقام تک پہنچے کہ وہ جان لے کہ ہر معاملہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔
کسی کو یہ گمان نہ ہو جائے کہ ہم ہر طرح کے مادی اسباب کی نفی کر رہے ہیں کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا،ایسا ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ وہ عام ذرائع اور وسائط ہیں جن کو اختیار کرنے کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے۔تاہم، ہمیں یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے کہ ان کا اثر اللہ کے بغیر ہوتا ہے، بلکہ جو بھی ان میں طاقت اور اثر ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے۔علم کلام میں اس موضوع کو استطاعت کی بحث کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔لیکن ضرورت کے تحت ہم صرف اس کی طرف فقط اشارہ ہی کریں گے۔اسباب کی تاثیر کی بارے میں حضرت علیؑ کے قول کے ذکر کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جس میں اسباب کی تاثیر کی مقدار کی وضاحت کی گئی ہے۔عبایہ بن ربعی نے استطاعت (اسباب اور وسائل کے اثر)کے بارے میں سوال کیا اس سوال کے جواب میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:آپ نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا ہے،کیا تمہاری استطاعت اللہ کے بغیر ہے یا اللہ کے ساتھ تم بھی مالک ہونے میں شریک ہو؟ عبایہ خاموش رہا،امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:اگر تم کہو کہ تم اللہ کے ساتھ اس کے مالک ہو تو میں تمہیں قتل کر دوں گا، اور اگر تم یہ کہو کہ تم اللہ کے بغیر اس کے مالک ہو تو بھی میں تمہیں قتل کر دوں گا۔عبایہ نے عرض کیا تو پھر میں کیا کہوں؟آپؑ نے فرمایا: آپ خدا کے ذریعے اس کے مالک ہیں، وہ آپ کے بغیر اس کا مالک ہے۔جس کے تم مالک ہو وہ اس کی عطا ہے۔اگر وہ اسے چھین لے تو یہ اس کی طرف سے مصیبت ہو گی،وہ تمہاری ہر چیز کا مالک ہے،وہ اس پر بھی قادر ہے جس پر تمہیں قدرت دی ہے۔
سماجی اثرات
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو صاحبان ایمان نہیں ہیں ان کو ڈپریشن اور افسردگی زیادہ ہوتی ہے۔روحانی اور اخلاقی کمزوری یہ دو بڑے اسباب ہیں جو ان اہل مغرب میں پائے جاتے ہیں اور ان لوگوں میں جو اپنا عقیدہ چھوڑ چکے ہیں،بالخصوص ملحدین ایسے ہی ہیں۔مشہور سیاح سلوین ٹیسن نے عصری انسانی نفسیات میں اس خطرناک تضاد پر روشنی ڈالی ہے ، جب اس نے فرانس پر بات کی وہاں اس کی وضاحت کرتے ہوئے طرح بیان کیا:" ایک جنت جس میں ایسے لوگ آباد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہیں۔"یہ چونکا دینے والی تفصیل ہے۔یہ ایک بڑے گہرے بحران کی نشاندہی کرتی ہےجس سے جدید دور کا انسان دو چار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس مادی آسائش کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن روحانی اور اخلاقی بیچارگی کا شکار ہے۔
اس بات کی تصدیق مشہور نفسیاتی تجزیہ کار اور فروئیڈ کے شاگرد کارل گستاو یونگ کے الفاظ سے ہوتی ہے، اس نے کہا:" وہ تمام مریض جو اپنی زندگی کا نصف حصہ گزار چکے ہیں(35 سال سے زیادہ)۔ان کے مشاہدے کے دوران مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو اپنے مذہبی تصور کے بارے میں مشکل کا شکار نہ ہو۔۔۔ایسے شخص کو اس وقت تک شفاء نہیں مل سکتی جب تک وہ مذہب کو دوبارہ دریافت نہ کر لے۔
انسان کی شخصیت میں موجود معنویت کا بحران انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کے لیے دوسرے ذرائع کو تلاش کریں، ان کے ذریعے نفسیاتی توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔وہ جنسی بے راہ روی،نشہ آور اشیاء کا استعمال اور باطنی ادیان جیسے بدھ ازم ،ہندو ازم اور اس طرح کے دیگر مذاہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔آسٹریا کی متصوفہ ماریہ سما کہتی ہیں: سیکولر دنیا کا دعویٰ ہے کہ روحانیت کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ واضح اور بڑے حقائق کے سامنے منہدم ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو بتائیں کیوں ہزاروں لاکھوں لوگ گنگا کے کنارے مراقبہ کے لیے ہندوستان آتے ہیں؟ اور شہر کیوں فرقوں اور روحانی گرو حضرات سے بھرے ہوئے ہیں، یقینا ان میں سے کچھ قابل اعتراض بھی ہیں؟
انسان کی روح اس کے جسم کی طرح ہے،اسے بھی تازگی اور زندگی کے لیے پانی اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے،وہ جہالت اور گمراہی جس میں آج کی دنیا مبتلا ہو چکی ہے۔انسان کا بڑا مسئلہ جس کا وہ شکار ہے وہ اس کا روحانی اور دینی مسئلہ ہے۔وہ اس کے عجیب غریب متبادل لانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ نشہ آور اشیاء،شراب اور شباب میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی کبھی وہ نام ،عہدہ،اقتدار اور مال میں اس کا حل ڈھونڈتا ہے۔کبھی وہ کچھ ایسے گروں سے متاثر ہو جاتا ہے جن کے بارے میں وہ اس وہم کا شکار ہوتا ہے کہ ان سے اسے سکون اور امن ملے گا۔ جبکہ حقیقت میں یہ لوگ اسے شیطانی اور گمراہ کن قوتوں کے چنگل میں لے جاتے ہیں۔"
الحاد پر ایک عالمی مطالعہ میں، ماہر عمرانیات فل زکرمین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جن ممالک میں ملحدانہ رجحانات غالب ہیں وہاں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
دومحققین سارہ زممور اور لی این کاسکوٹا، جو نفسیات اور نشے کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہبی عقائد کسی بھی انسان کو نشے سے روکنے کے لیے ایک حفاظتی بند کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ان دونوں محققوں کی تحقیق کی تصدیق بہت سے ملحدوں کے اعترافات سے ہوتی ہے معروف مصنف اور ملحد "Boualem Sansal" کو اپنے الحاد پر افسوس ہوا، اس نے 28 دسمبر 2021 کو اخبار "L'Express" کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ وہ ملحدین جو ایسے جذبات (یعنی مذہبی جذبات) نہیں رکھتے ان کی زندگی غمگین ہوتی ہے۔‘‘آندرے کاؤنٹ آف سیون ویل، ایک بنیاد پرست ملحد فلسفی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا:"ایک لمحہ آتا ہے جب ملحد مکمل طور پر عاجز ہوتا ہے۔ اسے جن سے زیادہ پیار تھا ان میں: اس کا باپ، اس کا ہمکار، اس کا بیٹا، اس کا سب سے اچھا دوست،موت کی وجہ سے یہ سب اس سے چھین لیتی ہے۔ اس طرح کے لمحات میں،ہم خدا پر یقین کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں،ہم ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اس (ایمان)سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آئیے مان لیتے ہیں کہ مذاہب کی یہی طاقت ہے کہ جسے شکست دینا مشکل ہے۔ کیا یہی وجہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے؟ بعض لوگوں کے لیے تو یقینا ایسا ہی ہے۔بعض دوسرے جن میں ،میں خود بھی شامل ہوں وہ اسی سے ایمان کا انکار کریں گے،اس کی وجہ تکبر،غصہ،اور ناامیدی ہو گی۔تکلیف کے باوجود وہ اپنے الحاد میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ بدترین حالت میں بھی یہ باغی رہیں گے ایسا کرنا نماز سے زیادہ بہتر ہے۔انہیں وحشت تسلی سے زیادہ پسند ہے۔"
اختتامیہ
فرانسیسی فلسفی لوئس مائیکل بلانک نے اپنی کتاب (الكتاب الأسود للإلحاد) میں لکھا ہے:"جب خدا مر چکا ہے،جیسا کہ نطشے نے دعوی کیا ہے۔جدید دور کے انسان کی روحانی پیاس ابھی تک زندہ ہے۔جیسے معاشرے میں پچاریوں اور پادریوں کا کردار کم ہو رہا ہے۔ہم معاشرے میں چڑیلوں اور قدیم دیوتاوں کی پرستش کو واپس آتا دیکھ رہے ہیں۔سینما،ادبی کتب اور ان پر بنی ٹی وی سیریز زبردست کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اس سے ان موضوعات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔اس رجحان کو سمجھنے کے لیے بڑی لائبریریوں کا دورہ کرنا یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو براؤز کرنا ہی کافی ہے۔ انسان فطرتاً ایک مذہبی مخلوق ہے اور اس کی روحانی پیاس صرف مذہب یا متبادل مذہبی نظام کے ذریعے ہی بجھائی جا سکتی ہے۔