14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 1:36 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2019-03-10   2711

مالک اشتر

خاندان اور ولادت:

آپ کا نام مالک بن حارث نخعی مذحجی ہے، آپ کی ولادت یمن میں ہوئی، لیکن آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین میں اختلاف موجود ہے، بعض مورخین کے مطابق آپ کی ولادت پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ کی طرف ہجرت سے ۲۳ سال پہلے ہوئی، لیکن دیگر بعض مورخین کے مطابق آپ کی ولادت ہجرت سے  ۲۵-۳۰  سال پہلے ہوئی۔  آپ نے پیغمبر اکرم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، اور زندگی بھر اسی دین مقدس کے بہترین پیروکار رہے۔ آپ نے اپنے قبیلہ (بنی نخع) کے  ساتھ  کوفہ کی طرف  ہجرت کی۔

آپ  پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد  امام علی ؑ کے  قریب ترین ساتھی بنے ،آپؓ حضرت علیؑ اور آل ؑعلی ؑ سے شدید محبت رکھتے تھےاور امام علیؑ کے مخلص اور وفادار ساتھیوں میں سے تھے، جب ربذہ کے مقام پر پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم القدر صحابی حضرت ابوذر  غفاری ؓ عالم مسافرت میں بے یارومدگار وفات پاگئے توا ٓپ  نے  ان کی تجہیزوتکفین  میں شرکت کی ان کی نماز جنازہ  پڑھائی، یو ں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق آپ  نے یقینی طور پر مؤمن ہونے کا اعزاز پایا جیساکہ  انحضرت حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر ؓ کے بارے میں فرمایاتھا  : کہ تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے  رخصت کرے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔

جناب مالکؓ کی صفات

جناب مالک بلند قامت اور  وجیہ چہرے کے مالک تھےآپ بہت بڑے بہادر، عالم ، شاعر اور اپنی قوم اور قبیلے کے سردار اور رئیس تھے، آپ ؓ  ایمان قوی اور اخلاق حسنہ جیسی صفات کےحامل تھے، آپ زہد وتقوی اور عفت وپاکدامنی، علم وپرہیزگاری اور شجاعت وبہادری میں شہرت رکھتے تھے۔  آپ ؓ  حق کے راستے پر ثابت قدم تھے اور آپ نے راہِ الٰہی میں  ایک لمحہ کے لیے بھی سستی نہیں کی۔

جناب مالک ؓکی شجاعت وبہادری

جناب مالک ایک بہادر، نڈر، تجربہ کار اور بیباک لیڈر تھے، اور آپ نے بہت ساری  اسلامی جنگوں میں بھی شرکت کی، انہی جنگوں میں سے ایک یرموک کا معرکہ تھا کہ جس میں آپ ؓ کی ایک آنکھ میں تیر لگا  اسی  وجہ سے آپ کو اشتر کہا جاتا ہے۔ آپ جنگ جمل میں بھی شریک تھے۔ مالک اشتر معرکہ صفین میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام  کے لشکر کے سپہ سالار تھے اور ان  دونوں جنگوں میں آپ نے بہترین بہادری کا ثبوت دیا۔ آپ ؓ اس سے پہلے بھی اسلامی لشکروں کے سپہ سالاررہے تھے۔ آپ کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک کامیابی آمد کے مضبوط قلعہ کی فتح ہے، جس  کو فتح کرنے کی ذمہ داری اور سپہ سالاری آپ کو عطا کی گئی تھی۔ پس آپ اسلامی لشکر کے ساتھ جب  قلعہ کے دروازہ پر پہنچے اور قلعہ کا معایئنہ کرنے لگے تو قلعہ کے ایک محافظ نے آپ کو  دیکھ لیا ، آپ نے قلعہ کا دروازہ کھولنے کو  کہا ، تو اس نے انکار کیا۔ آپ نے اپنے ہمراہ موجود لشکر جس کی تعداد ایک ہزار افراد تھی ان کو حکم دیا کہ وہ سب یک زبان ہوکر نعرہ تکبیر بلند کریں، تو سب نے ایک زبان ہو کر نعرہ کبیر بلند کیا، تو ان کی آواز سن کر دشمنوں نے یہ خیال کیا کہ شاید دس ہزار افراد  پر مشتمل مسلمانوں کا  کوئی  لشکر ان سے لڑنے کے لیے  آیا ہے، وہ خوفزدہ ہوگئے اور  انہوں نے اپنے نمائندوں کو صلح کے لیے مالک کے بھیجا تاکہ بغیر جنگ کے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ آپ ؓ نے ان کے ساتھ صلح  کی، اور قلعہ میں داخل ہوگئے، جب ان لوگوں نے آپ کی اطاعت کی یقین دہانی کرائی تو آپ نے اپنے لشکر کو قلعہ سے نکلنے کا حکم دیا، یوں یہ عظیم فتح بغیر کسی جانی نقصان کے حاصل ہوئی۔

آپ ؓکی جلاوطنی 

آپؓ کوامام علیؑ ابن ابی طالب  سے بے پناہ محبت،  اور الفت تھی اسی محبت اور الفت کی پاداش میں آپ ؓ کو  بہت سارے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آپؓ کو اسی محبت کے جرم میں کئی مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ  جلاوطن کیا گیا اور آپ ؓ کو  طرح طرح کی اذیتین دی گئیں۔ ان جلاوطن کیئے جانے والے ان افراد میں حضرت کمیل بن زیاد نخعیؓ، اور حضرت صعصعہ بن صوحان بھی تھے۔ آپ کو کوفہ کے گورنر سعید بن عاص کے کہنے پر خلیفہ سوئم نے کوفہ سے شام جلاوطن کیا، پھر امیر شام کی شکایت پر خلیفہ سوئم نے  دوبارہ کوفہ بھیجا، پھر سعید ابن عاص  نےشکایت کی توخلیفہ نے مالک اشتر کو حمص کی طرف جلاوطن کردیا، پھر کوفہ والوں نے  سعید ابن عاص کو کوفہ سے نکالنے کا فیصلہ کیا، اور آپ کو خطوط لکھے کہ آپ کوفہ آجائیں، چنانچہ آپ کوفہ آئے اور سعید ابن عاص کو  کوفہ سے نکالنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

جنگ جمل اور جنگ صفین

خلیفہ سوئم کے قتل کے بعد جب خلافت ظاہریہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کو ملی، تو مالک اشتر ہمیشہ آپؑ کی تائید اورنصرت میں پیش پیش رہے، اور کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہوئے۔ آپؑ کے ساتھ جنگ جمل اور صفین  دونوں میں شریک ہوئے۔  جناب مالک اشتر جنگ جمل میں امام علی علیہ السلام  کے لشکر کی میمنہ  کا سپہ سالار تھے۔  اورجنگ صفین میں  بھی امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام  کے لشکر کے سپہ سالار تھے اور جب معاویہ کو اپنی شکست اور امام علی علیہ السلام  کی کامیابی کے آثار نمایاں دکھائی دینے لگے تو اس نے امام علی ؑ کے سادہ لوح سپاہیوں کو فریب دینے کی خاطر قرآن کو نیزوں پر اٹھایا یوں امام علیؑ کے لشکر  نے دھوکہ کھایا ۔ اگر امام علیؑ کے لشکرصفین میں دھوکا نہ کھایا ہوتا تو امیر شام اور اس کے لشکر کی شکست یقینی تھی۔ جناب  مالک اشتر ان دونوں جنگوں میں امام علیؑ کی معیت میں ایک تجربہ کارسپہ سالار، اور حق کے مدافعت کار کے طور پر سامنے آئے۔ 

مالک اشترؓ  بحیثیت گورنر مصر

حضرت امام علی ؑ نے جناب  مالک اشتر کو نصیبین کا گورنر مقرر کیا تھا، اور   مصر کی گورنری کے فرائض محمد ابن ابوبکر ؓ انجام دے رہے تھے، لیکن  جب  مصر  میں سیاسی حالات زیادہ خراب ہوگئی، اور امن وامان کے حالات بدتر ہونے لگی تو امام علی ؑ نے  مالک اشتر   کو مصر کی گورنری پر فائز  کیا تاکہ مصر  میں  امن وامان کے حالات بہتر ہوجائیں،اور لوگوں کو سکون کی زندگی میسر  آنے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی شرانگیزی کو ختم کیا جاسکے۔  جب مالک اشتر کو مصر کی طرف بھیجا جارہا تھا  تو مولائے  کائنات  امیر المومنین ؑ نے ایک خظ لکھا جو عہد نامہ مالک کے نام سے مشہور ہے ، اس عہد نامہ کے مقدمہ میں مولیٰ کائنات نے  مالک اشتر کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:   میں نے خدا کے بندوں میں سے ایک  ایسے بندے کو تمہاری طرف بھیجا ہے جو خوف و خطر کے دنوں  میں نہیں سوتا، اور دشمن کے ظلم و ستم اور مصائب سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور ظالموں اور جابروں پر یہ آگ سے بھی سخت ہے۔ مالک بن حارث، جس کا مذحج کے قبیلے کا تعلق ہے۔ اس کی اطاعت کریں اور اس کی باتوں پر عمل کریں کیونکہ وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ جس کی ضربت محکم اور اس کی دھار تیز  ہے۔پس وہ اگر تمہیں کوچ کرنے کا حکم دیں تو کوچ کریں اور اگر قیام کا حکم دیں تو قیام کریں کیونکہ یہ اگر کوئی اقدام عمل میں لاتا ہے تو وہ میرے حکم سے ہے۔ میں نے تمہارے حوالے سے اپنے اوپر اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ تمہارے بارے میں اس کے خلوص اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں اس کی سخت گیری سے آگاہ ہوںـ۔  

جناب مالک ؓکی شہادت

جب علی ابن ابی طالب ؑ نے مالک کو مصر کی گورنری کے لیے نامزد کیا، اور ان کے لیے  مشہور عہدنامہ تحریر کیا، اور انہیں مصر کی طرف  کوچ کرنے کا حکم دیا،  تو آپؑ اس انتظار میں تھے  کہ مالک مصر کے تفصیلی حالات سے آپ کو آگاہ  کریں گے، لیکن اس سے پہلے کہ مالک کی طرف سے کوئی خوشخبری ملتی، کسی خبر پہنچانے والے  نے خبر دی، کہ مالک کو مصر جاتے ہوئے راستے میں دشمن  نے اپنے کسی کارندہ کے ذریعہ شہد میں زہر ملا  کر دیدیا ہے اور اس  زہر کے نتیجہ میں آپؓ شہید ہوگئے ہیں۔  آپ کی شہادت سنہ ۳۸ ہجری  کو ہوئی، جب امیر شام  تک مالک کی شہادت کی خبر پہنچی تو وہ خوشی  سے جھومنے لگا اور اس  نے اپنا مشہور قول  دہرانے لگا:  شہد کی مکھی اللہ تعالی کی ایک فوج  ہے۔

آپؑ نے مالک ؓکی شان میں فرمایا:

جب امام علیؑ تک آپؑ کے عظیم، بہادر اور باوفا  سپہ سالار صحابی کی موت کی خبر پہنچی تو تو آپؑ اس مصیبت سے بیحد رنجیدہ  اور غمگین ہوئے، اور مالک کی عظمت بیان فرماتے ہوئے لوگوں سے فرمایا:   مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے ۔ مالک کیا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وہ پہاڑ ہوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا، اور اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا کہ نہ تو اس کی بلندیوں تک کوئی سم پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرندہ وہاں تک پر مار سکتا۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایا: "إنا لله، وإنا إليه راجعون، والحمد لله رب العالمين. باراالٰہا! میں ان شہادت پر تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں کیونکہ ان کی موت اس دہر کی مصیبتوں میں سے ہے، خدا یا! مالک پر اپنی رحمتیں نازل کرے وہ میرے لئے اسی طرح تھا جس طرح میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کیلئے تھا۔

لیکن جب امیر شام نے مالک کی موت کی یہ خبر سنی تو لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: "اما بعد، علی کے دو بازوں تھے ایک کو صفین میں قطع کیا گیا جو عمار یاسر تھا اور دوسرے کو آج قطع کیا گیا جو مالک اشتر تھا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018