10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 8:04 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2019-03-01   1522

رحم کرنا

عربی میں ہمدردی ،دوسرے کے ساتھ  نرمی سے پیش آنا اور انسانوں اور حوانوں دونوں کے ساتھ  نرمی کرنا ترحم کہلاتا ہے۔رحم اللہ کے اسما ء حسنی میں سے ہے ۔رحمت اللہ کی صٖفات میں سے ایک صٖفت ہے۔اللہ نے رحمت کو  سو حصوں میں تقسیم کیا اس میں سے نوے حصے اپنے پاس روک لیے اور باقی  ایک حصہ کو زمین پر نازل کیااس ایک حصے کی وجہ سے گھوڑا بھی اپنے بچے کی  حفاظت کرتا ہے کہ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔یہی رحمت ہے جس کی وجہ سے ماں  سردیوں کی راتوں میں  اٹھ کر اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور جانور اپنے چھوٹے بچوں کو نہ صرف دودھ پلاتے ہیں بلکہ ہر خطرے سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔رحم کرنا بہت اچھی صٖفت ہے  اللہ جو رحمن اور رحیم ہے وہ اس صفت رحم سے محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندوں میں بھی یہ صفت حسنہ موجود ہو۔نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:

فقد ورد عن الرسول الأكرم محمد صلى الله عليه وآله انه قال: "مثل المؤمنين في تراحمهم وتوادّهم و تعاطفهم مثل الجسد اذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى".

مومنین ہمدردی،رحم اور شفقت میں ایک جسم کی مانند ہیں جب کسی ایک حصے کو بخار سے  تکلیف پہنچتی ہےتو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔

ایک ایسے انسانی یا حیوانی معاشرے کا خیال کریں  جس سے رحمت و شفقت ختم ہو جائے تو وہ کیسا معاشرہ ہو گا؟

باپ اپنے بیٹوں کو دور کر دے گا جس سے وہ  باقی نہیں رہیں گے،ماں اپنے مولود کو کہیں پھینک دے گی جہاں وہ بھوک و پیاس سے مر جائے گا،جانور بھی اپنے بچوں کو کھلانا پلانا چھوڑ دیں گے جس سے وہ بھی مر جائیں گے۔پرندے گھونسلوں میں انڈوں کو چھوڑ دیں گے تو ان کے پیدا ہونے والے بچے پرواز سے پہلے ہی انتقال کر جائیں گے،اس سے تو تمام انسان اور موجودات  اس دنیا سے ختم ہو جائیں گی اور ایک وقت ایسا  گا کو ذی روح نہیں بچے گا اور  کائنات کی یہ رونقیں اور زندگی کی یہ چہل پہل اس ایک فیصد رحمت کا نتیجہ ہے جسے اللہ  نے زمین پر نازل کیا ہے۔اللہ کے پاس  ننانوے فیصد رحمت ہے جو اس کے پاس موجود ہے جس کے ساتھ وہ گناہگاروں  کو دیکھتا ہے اس سے خدا کی رحمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور رب رحیم کی رحمت کا دائرہ کتنا وسیع ہے اس کا بھی پتہ چلتا ہے؟ اللہ تعالی سورۃ اعراف میں ارشاد فرماتا ہے:

 ((وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ))(الأعراف - 156)،

اور میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے جسے میں عنقریب ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو خوف خدا رکھنے والے -زکوِٰادا کرنے والے اور ہماری نشانیوں پر ایمان لانے والے ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

((لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ)) (التوبة - 128)،

یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔

رحمت انسان کے ساتھ خاص نہیں ہے  بلکہ یہ رحمت و ہمدردی حیوانات کو بھی شامل ہے نبی اکرمﷺ کے ایک صحابی  سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے ہم نے چڑیا کو دیکھا اس  کے ساتھ اس کے  دو بچے بھی تھے، ہم نے اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لیا،چڑیا پر پھڑپھڑاتے ہوئے آئی ،نبی اکرمﷺ نے ہم سے کہا  کس نے اس کے بچے اٹھا کر اس پر سختی کی ہے؟ اس کے بچے اس کو لوٹا دو۔

رحمت و ہمدردی صرف  اسلام میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ  یہ تمام آسمانی مذاہب میں پائی جاتی ہے کیونکہ ان تمام آسمانی مذاہب  کے بھیجنے والا ایک ہی ہے۔اللہ  تعالی عہد نامہ قدیم میں حضرت موسی ؑ سے  مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے:

((إن الله الهٌ رحيم ورؤوف، طويل الأناة، كثير الرحمة والوفاء، يحفظ الرحمة لألوف)) (34/6-7)

 خدا مہربان، رحم کرنے والا، صبر، شفقت اور ہمدردی کرنے والا ہے۔

اللہ تعالی تورات میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

 ((هل تنسى المرأة رضيعها فلا ترحم إبن بطنها؟ حتى هؤلاء يَنسين وأنا لا أنساك)) ((اشعيا ـ 49/15)،

کیا   بچے کو دودھ پلانے والی ماں بھولتی ہے؟ کیا ماں اپنے پیٹ سے پیدا ہوئے پر رحم نہیں کرتی؟ ممکن ہے  یہ سب بھول جائیں مگر میں(اللہ) تمہیں  نہیں بھولتا۔

انجیل متی میں آیا ہے کہ

 ((طوبى للرحماء فانهم يرحمون))".

رحم کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہو وہی ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔

ہم غیر معمولی اور سخت دور میں زندگی گزار رہے ہیں ،ہمیں انسانیت کے دائرہ میں رہنا چاہیے اور انسانیت کا آغاز رحم و ہمدردی سے ہوتا ہے اور اسی کے ذریعے ہمارے امور  انجام پاتے ہیں۔ اگر ہم رحم و ہمدردی سے دوری اختیار کرتے ہیں تو اس ذہنی بیماریوں اور غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا بہت اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں  طاقتور  کمزور کی مدد کرتا ہے،دولت مند فقیر کی مدد کرتا ہے۔اس سے ہمارے کام بھی آسان ہو جاتے ہیں اوراللہ تعالی بھی راضی ہوتا ہے اور ہمیں اللہ کی رحمت شامل حال ہو جاتی ہے  اور اسی  کی رحمت آسمان و زمین سے وسیع ہے۔

اسلام اور امن

امن یہ ہے کہ  تعلقات کو قائم رکھنا،ایسی  کاموں سے پرہیز کرنا جس کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو آگے بڑھ کر کشیدگی پیدا کرتے ہیں۔ امن ایسی حالت ہے جس میں  مدمقابل کے ساتھ جنگ نہیں ہو رہی ہوتی۔

امن ہی  زندگی ہے ،اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ہمیشہ امن ہی ہو اور جنگ کا ہونا ایک  غیر معمولی اقدام ہوتا ہے جو بعض اوقات ہوتی ہے۔امن زندگی اور جنگ موت ہے۔اسلام نے امن کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بنیادی معاملہ قرار دیا ہے ۔امن جنگ سے بچاتاہے وہ جنگ کہ جب وہ آتی ہے تو اس کے نتیجے میں دشمنی پیدا ہوتی ہے،مذاہب،اموال اور جانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

السلام یعنی سلامتی اللہ عز و جل کے اسمائے حسنی میں سے ہے اسی لیے یہ  بھلائی اور سخاوت  کی علامت ہے۔السلام جنت کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے اس لیے یہ  لفظ سلام محبت،بھلائی اور لطف کا بتاتا ہے اسی لیے مسلمان جب ملتے ہیں السلام علیکم کہتے ہیں اور اس کا جواب و علیکم السلام کہہ کر دیا جاتا ہے ۔

اسلام  سلامتی اور امن کا دین ہے یہ جنگ،قتل اور دشمنی سے روکتا ہے ،جنگ کا نتیجہ موت اور امن کا نتیجہ زندگی ہے۔اللہ تعالی نے انسان کو زندہ رہنے کے لیے خلق کیا ہے اس لیے نہیں بنایا کہ وہ اپنی موت کا انتظام کرتے رہیں۔اللہ تعالی امن و سلامتی  کے ساتھ  ہے اور جنگ کے خلاف ہے۔

یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام امن کو اتنا پسند کرتا ہے اور  اس کا حکم بھی دیتا ہے تو  اللہ کے نبی ﷺ نے کفار و مشرکین کے ساتھ اتنی جنگیں کیوں کیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ جس جنگ میں بھی شریک ہوئے انہوں نے دفاع کیا  کسی جنگ میں حملہ آور نہیں ہوئے۔ جیسے بدر و احد کو ہی دیکھ لیں۔ دوسرا  یہ کہ اسلام اس زمانے میں نیا دین تھا  یہ بات واضح ہے کہ جو چیز بھی  نئی شروع ہو رہی ہو وہ آغاز میں  کمزور ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کو لوگ قبول کرتے ہیں اور  وہ طاقتور ہو جاتی ہے لیکن شروع میں اس پر ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہوتے ہیں ،اسلام کے ساتھ بھی یہی ہوا  اس کے آغاز کے ساتھ ہی بہت سی قوتیں اس پر حملہ آور ہو گئیں اور اسلام نے ان قوتوں سے دفاع کیا ہے اور اپنا دفاع کرنا امن کےنظریہ کے  منافی نہیں ہے۔

جہاد  کے اہم فوائد:

۱۔جب کفار و منافقین نے مسلسل اسلام پر حملے کیے اور مسلمانوں نے اپنا بہترین دفاع کیا تو اس سے ان کے دلوں میں اسلام کا  رعب بیٹھ گیا کہ اب اسلام   ایک طاقتور حقیقت کے طور پر  سامنے آ چکا ہے ۔

۲۔جہاد کے نتیجے میں ان لوگوں سے جزیہ لیا گیا جو اسلام میں داخل نہیں ہوتے تھے اور ان کا دفاع مسلمانوں کی ذمہ داری ٹھہرا۔

۳۔جہاد ہی کی بدولت وہ مسلمانوں کے خلاف دیگر اقوام کی حمایت سے باز آئے۔

۴۔بہت سے لوگ جو اسلام لانا چاہتے تھے مگر خوف زدہ تھے جہاد کی برکت سے ان کا خوف جاتا رہا ہے اور وہ مسلمان ہو گئے۔

جہاد کی اقسام

جہاد کی دو قسمیں ہیں:

۱۔جہاد دفاعی

خود اپنا دفاع کرنا  ایسی بات ہے جب بھی  کسی پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے  وہ اپنا دفاع کرتا ہے  یہ دفاع اجتماعی طور پر  اپنے ملک و وطن کا کیا جاتا ہے  اس کے بارے میں ارشاد  خدا وندی ہے:

 ((أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)) (الحج - 39).

جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنائ پر جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے۔

۲۔جہاد طلبی

اس جہاد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ اسلام میں جو استکباری قوتیں حائل ہیں جہاد کے ذریعے ان کو دور کر دیا جائے ،اس کے بعد ان کو اسلام کی دعوت دی جائے ان کے اوپر ہے کہ وہ اسے قبول کر لیں یا وہ اپنے دین پر قائم رہیں ان پر  دین تبدیل کرنے کے لیے زبردستی نہیں کی جائے گی۔

مسلمانوں نے روم اور فارس سے جنگیں کیوں کیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت کی دنیا کا مشاہدہ کیا جائے تو روم اور فارس دو بڑی فوجی قوتیں تھیں ۔ان کا رقبہ بہت وسیع تھا اور ان  کے پا س بہت زیادہ وسائل تھے ۔ یہ دونوں  مسلمانوں کو گھیرے ہوئے تھیں اور کسی بھی وقت مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتی تھیں اب  مسلمانوں کے پاس دو آپشنز تھے یا تو  انتظار کریں اور ان کو  اپنے ملک پر حملہ آور ہونے دیں یا ان پر حملہ کر کے ان کی قوت کو تباہ و برباد  کر دیں تاکہ وہ اس قابل ہی نہ رہیں کہ حملہ کر سکیں۔آج کے دفاعی ماہرین بھی کہتے ہیں کہ اپنی زمین پر دشمن کو گھسنے دینا اور پھر جنگ کرنا ایک کمزور حکمت عملی ہے جنگ کو دشمن کی زمین پر لے جانا چاہیے اور مسلمانوں نے یہی کیا اور  خطرے کو اپنی زمین سے دور ہی روک دیا یہ   بھی  دو بڑی قوتیں کو شر سے بچنے کے لیے کی گئی دفاعی جنگیں تھیں۔

امانتداری

امانت ایک اعلی انسانی قدر ہے،بلند اخلاق کی علامت ہے،اللہ نے جس پر کرم کیا اس کو یہ نعمت ملتی ہے۔اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

یشک ہم نے امانت کو آسمانً زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھالیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

 ((فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ))(البقرة -283)،

اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہیں مل رہا ہے تو کوئی رہن رکھ دو اور ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پراعتبار ہے اس کو چاہئے کہ امانت کو واپس کردے اورخدا سے ڈرتا رہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:

 ((إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا))(النساء - 58)،

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمہیں بہترین نصیحت کرتا ہے بیشک اللہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔

وقال رسول الله صلى الله عليه وآله:"أدِّ الامانة الى من ائتمنك ولا تخن من خانك".

رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں جس نے امانت رکھی ہے اس کو واپس کرو جس نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے اس  کے ساتھ بھی  اس کی امانت میں خیانت نہ کرو۔

امانت کے متضاد خیانت ہے اللہ تعالی خیانت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

 ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ)) (الانفال -27)،

ایمان والو خدا و رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے بھی ہو۔

اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں  اور ان کی بجا آوری کا کہا ہے  یہ سب امانت میں  شامل ہیں جیسے اعضا ،عزت،انسانوں کے حقوق کی حفاظت  اسی طرح  بہت سے ایسے کام جن کے کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔

امانت کے  بہت سے مصادیق ہیں:

۱۔لوگوں کی ملکیتوں کا تحفظ کرنا،جب بھی وہ واپس مانگیں انہیں دے دینا اور یہ اسی حالت میں واپس کرنا جیسے وہ اس وقت تھیں جب ان کو بطور امانت دیا گیا تھا۔عرف میں امانت سے یہی سمجھا جاتا ہے امام سجاد ؑ فرماتے ہیں:

 (والله لو أن قاتل ابي الحسين، استأمنني على السيف الذي قتله فيه لأدّيته اليه).

اگر میرے باپ امام حسینؑ کا قاتل میرے پاس وہ تلوار بطور امانت رکھے جس سے اس نے انہیں قتل کیا تھا تو میں  اسے وہ بھی واپس کروں گا۔

۲۔پیغام پہنچانے میں امانت،اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء ؑ کو جاری کیا  اور  اپنا پیغام براہ راست ان پر نازل فرمایا   تمام انبیاءؑ بغیر کسی کمی بیشی کے لوگوں تک پہنچانے کے امین ہیں۔وہ اس پیغام میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کرتے اور  نہ ہی انہیں کرنے کی اجازت ہے ۔اگر  کوئی کمی بیشی کریں گے تو دین میں خامی آ جائے گی اللہ  کی پناہ کی  دین میں کسی قسم کی کمی آئے۔اللہ کے انبیاءؑ  ضرورت کے وقت جو احکام بھی بتاتے ہیں وہ اس میں معصوم ہوتے ہیں  کیونکہ اگر ہم اس وقت  کسی غلطی کو مان لیں  تو دین حاصل کرنے  کا یہ ذریعہ  مشکوک ہو جائے گا تو ہم دین کہاں سے لیں گے؟ اس لیے انبیاءؑ پیغام خدا کی امانت کو من عن ادا کرتے ہیں او رمعصوم ہوتے ہیں۔

۳۔فیصلوں میں امانت

مسلمان حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ   جب  بھی ملکی فیصلے کرے تو   امانت داری سے کرے  اسی طرح وہ مسلمانوں اور بیت المال کے  معاملات میں امانتداری کا مظاہرہ کرے۔ملکی خزانہ میں بھی امانتداری  کرے۔جب حکمران امین نہیں ہوتے  اور  معاشرے میں ظلم،فساد اور خرابی عام ہو جاتی ہے ،ہر شعبہ خراب ہو جاتا ہے ۔ہم اردگرد میں اس کی بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔

۴۔تحقیق ،واقعہ نگاری اور تاریخ  میں امانت

جب اہم اور حساس امور کو مدون کیا جا رہا ہو یا نقل کیا جا رہا ہو تو اس میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسے نبی اکرمﷺ کی احادیث مبارکہ کو نقل کرنے میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے،پیش آمدہ واقعات اور اہم تاریخی واقعات کو امانت داری سے نقل کرنا چاہیے۔اسلامی تاریخ میں یہبہت بڑا مسئلہ ہے کہ اس میں خرافات داخل کر دی گئی ہیں اور بہت سے مقامات پر علمی خیانتیں کی گئی ہیں۔احادیث کو گھڑا گیا اور بعض احادیث کو جان بوجھ کر نقل نہیں کیا گیا تاکہ حکمرانوں کا تقرب حاصل ہو سکے۔اموی دور حکومت میں ایسا بہت زیادہ ہوا جب حقیقت کو چھپایا گیا ۔چاہے کوئی واقعہ گھڑا جائے یا  کسی حقیقت کو چھپایا جائے ہر دو صورت میں خیانت واقع ہو جاتی ہے۔

((إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا))(الأحزاب -72)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018