28 شوال 1445 هـ   7 مئی 2024 عيسوى 6:11 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-04-23   233

سورہ فاتحہ کی مفصل تفسیر: آیۃ اللہ سید محمد باقر سیستانی

اس سورت سے متعلق تفصیلی کلام اس کی سات آیات میں سے ہر ایک آیت کے متعلق بحث میں وارد ہوتا ہے.

پہلی آیت: بسملہ

اس میں پانچ ابحاث  ہیں: بسملہ کا ترکیبی معنی، اور چار کلمات (اسم، اللہ، الرحمن، الرحیم)کے متعلق ابحاث ہیں۔

ہم نے اختصار کی خاطر باء کے بارے میں مستقل بحث نہیں کی اور ترکیبی معنی کے متعلق بحث کے ضمن میں اس کی طرف محض اشارہ کیا ہے۔

بحث اول: بسملہ کا ترکیبی معنی

اس میں چند معنوی اور لفظی وضاحتیں ہیں جو  درج ذیل ہیں:

پہلی وضاحت: بسملہ کے مضمون و معنی کی وضاحت

پہلی وضاحت یہ ہے کہ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ بسملہ کا مضمون الہی رسالت و پیغام کے شروع میں قرینہء ادب کے طور پر وارد ہوا ہے ، نیز یہی قرینہء ادب اس سے پہلے شخصی اور فردی رسائل و خطوط میں موجود تھاجیسا کہ قرآن کریم میں حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے: انہوں نے ملکہ سبا کو خط لکھا : ﴿ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ﴾

یہ سلیمان کی طرف سے ہے اور یہ کہ شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے کہ تم مجھ پر تکبر نہ کرو ، اور  اطاعت گزار بن کر میرے پاس آؤ؛(1)۔

جیسا کہ الہ و معبود کے نام سے رسائل و خطوط کو شروع کرنے کا رواج  زمانہ جاہلیت میں پایاجاتا تھا ، کہ وہ اپنے رسائل و خطوط کی ابتداء میں  باسمک اللهم کہا کرتے تھے جیسا کہ منقول ہے(2)۔

  اور کلمہ اللهم اللہ سبحانہ کا ذکر ہے، کیونکہ کلمہ  اللهم کلمہ اللہ اور میم مشدّد سے مل کر بنا ہے اور یہ  میم قریب تر اقوال و نظریات کے مطابق نداء و آواز دینے کیلئے کلمہ کے آخر میں ملائی جاتی ہے۔اس لحاظ سے یہ عربی کے ساتھ ادبی اصول میں بعض مشترک زبانوں کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے کہ وہ نداء کیلئے کلمہ کے آخر میں میم کو ملحق کرتے ہیں شاید عربی زبان نے یہ کلمہ اختلاط میل جول  کی بدولت انہی اقوام سے لیا ہو۔

اور یہ بھی منقول ہے کہ بعض مشرکین  بسم اللات و العزّی کہا کرتے تھے یا دوسرے بتوں کےنام اپنے خطوط و رسائل کے شروع میں لیا کرتے تھے (3)۔

اس بنیاد پر قرآنی سورتوں کے شروع میں بسملہ رسالت و پیغام کے حسن ابتداء کے طور پر ادب و احترام کے طور لیا گیا ہے۔

یہاں ہم چند امور کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں:

امر اول

رسالت سے ہماری مراد وہ رسالت و پیغام ہے جو کسی  بھی صور ت میں پایا جاتا ہے یعنی اس سے قرآن کریم کی مجموعی رسالت و کلی پیغام مراد نہیں ہے؛ کیونکہ سورہ حمد قرآن کریم کے نزول میں پہلی سورت نہیں ہے اگرچہ اسے دیگر مختصر سورتوں کے برعکس کہ انہیں قرآن کریم کے آخر میں قرار دیا گیا ہے ، سورہ حمد کو موجود مصحف کے شروع میں قرار دیا گیا ؛

سورہ حمد کو مصحف کے شروع میں قراد دینے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:

1)اس کی اہمیت کے پیش نظر ایسا کیا گیا ہو؛

2)اس کا سیکھنا واجب ہے کیونکہ یہ نمازکا جزء ہے ۔

پس قرآن کریم خداوند کریم کی طرف سے متواتر پہنچنے والی نصوص اور رسائل و پیغامات کی طرح ہے اور اس کی ہر سورت مستقل رسالت و پیغام کی حامل ہے ۔

مذکورہ مطلب کی وضاحت

قرآن کریم اس بنیاد پر نازل  ہوا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق پر نصوص و پیغام ہے جیساکہ یہ بات واضح اور روشن ہے۔ اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو رسول کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ دیگر انبیاء علیھم السلام  کو بھی قرآن کریم میں سینکڑوں آیات میں رسول کا نام دیا گیا جنہیں انکی اقوام و ملتوں کی طرف بھیجا گیا تھا اور ان کے پیغامات کو رسالت کا نام دیا گیا جن کے ساتھ ان کو مبعوث کیا گیا ۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي﴾ تو انہوں نے ان لوگوں سے منہ موڑ لیا اور کہا: اے میری قوم والو! میں نے تو تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے(4)

﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالات و پیغام کو کہاں قرار دے(5)

﴿أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي﴾میں تمہیں اپنے  رب کے پیغامات پہنچاؤں(6)

﴿الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّـهِ﴾جو اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں (7)

﴿لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ﴾ تاکہ معلوم ہو کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچایا(8)

﴿إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِسَالَاتِهِ﴾ مگر میں اللہ کی طرف سے تبلیغ کروں اور اس کے پیغاموں کو پہنچاؤں(9)

﴿إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِي وَبِكَلَامِي﴾ارشاد ہوا: اے موسی! میں نے تمہیں تمام لوگوں پر اپنے پیغاموں اور اپنے ساتھ مقدم کیا ہے(10)

نیز قرآن کریم کی ہر سورت اللہ تعالی کی طرف سے مستقل رسالت و پیغام ہے ؛کیونکہ سورت مکمل کلام ہوتی ہے کہ اس  کی ابتداء ومقصود و بامعنی ہوتی ہے ، اس کی انتہاء مقصودو روشن ہوتا ہے اور دوسری سورتوں کی نسبت اس کا معنی جدا ہوتا ہے اور واضح طورپر مستقل ہوتا ہے ۔

پس اسی لئے ہر سورت کی ابتداء بسملہ سے قرار دی گئی  تاکہ اس ادب کی تطبیق ہوجائے اور وہ بسملہ کے ادب  کے ساتھ رسالت و پیغام کی ابتداء ہے

امر دوم

 سورت سے ہماری مراد– جس کی ابتداء  قرآن کریم میں بسملہ سے کی گئی ہے– وہ سورت ہے جو مصحف کے استعمال اور اطلاق میں  سورت ہے ،اس کی ابتداء بسملہ سے ہوتی ہے ۔ اور سورت کا دوسرا اطلاق و استعمال بھی ہے اور وہ ہر مقصود فقرہ ہے جو ذاتا مستقل معنی و مفہوم پر مشتمل ہوتا ہے ،چاہے وہ مستقل سورت ہو یا  کسی سورت کا جزء ہو ، اس بنیاد پر تمام لمبی سورتوں میں سےوہ  ایک سورت جو متفرق طور پر نازل ہوئی اور کئی اغراض و مقاصد پر مشتمل ہو– جیسے سورہ بقرہ– تو دوسرے اعتبار سے وہ  متعدد سورتیں شمار ہوتی ہیں ۔

جبکہ ایک نظریہ ہے کہ  یہی معنی قرآنی اطلاق و استعمال میں سورت سے مراد ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ،﴿فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ﴾ جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں قتال و جنگ کا ذکر ہوتا ہے(11)۔

اس سے مراد آیات کا ایک مجموعہ ہے جن میں قتال و جنگ کا ذکر ہوتا ہے اگرچہ وہ مصحف میں مستقل آیات شمار نہ ہوتی ہوں، لیکن سورت کا وہ استعمال جو ایک لمبی سورت کے جزء پر ہوتا ہے جیسے سورہ بقرہ تو یہ تعارض نہیں رکھتا کہ اس طولانی مکمل سورت پر سورت کا اطلاق و استعمال کیاجائے اس تنظیم کلی کی بنیاد پر جو کلام سے مقصود ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ لمبی سورتیں جو متفرق طور پر نازل ہوئیں اور ان کے ایک دوسرے حصے کو ایک متصل و مستقل ایک ہی سیاق میں جمع کردیا گیا جبکہ ان سے مقصود کلام دوسری سورتوں سے جدا تھا ، تو اس اعتبار سے اس مکمل مجموعہ کو سورت کا نام دیا گیا۔

پس سورت کے دو اطلاق اور معانی  ہیں:

الف: قرآن کا وسیع اطلاق و استعمال(12) ،ظاہر ہے کہ یہ اس کے معنی میں اصل تھا، ہر مستقل نازل ہونے والے فقرہ کو سورت قرار دیا گیا ہےجو ایک واضح غرض و غایت کیلئے تھا۔

ب:  خاص اطلاق جو کلام کے ایک مجموعہ پر سورت کا اطلاق  و استعمال ہوا آیات کے مجموعہ کو ایک کل شمار کیا گیا۔ یہ اطلاق بعد میں مشہور اور غالب ہوگیا۔ اس پر مصحف کی سورتوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔

اس اطلاق کی بنیاد پر قرآنی سورتیں دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں:

ایسی سورتیں جو واضح طور پر ایک حقیقت پر مشتمل  ہیں جیسے مختصر سورتیں اور سورہ حمد ہے اور ان میں کچھ لمبی سورتیں بھی ہیں جو مختلف اغراض و مقاصد کیلئے متفرق اور جدا جدا نازل ہوئیں  جیسے سورہ بقرہ اور آل عمران۔

اور بسملہ اس دوسرے اطلاق و معنی کے لحاظ سے سورت کا وہ ادب ہے جو موجودہ مصحف میں پایا جاتا ہےاور یہ پہلےقرآنی اطلاق و معنی کے لحاظ سے نہیں ہے جس میں لمبی سورت -جیسے بقرہ -کئی سورتیں شمار ہوتی ہیں۔ بہرحال کسی قرآنی فقرے کا بسملہ سے شروع ہونا اور پھر اس کے بعدکسی فقرے کا بسملہ سے شروع ہو نا دلیل ہے کہ وہ قرآنی حصہ اس معنی میں مستقل و کامل سورت ہے۔

3۔تسمیہ یا بسملہ مکتوب رسالت و پیغام کا ادب ہے یا جو اس کی مانند ہو اور یہ ہر قسم کی رسالت و پیغام کیلئے نہیں اگرچہ وہ زبانی کلامی ہو ۔

اس کا بیان اور وضاحت یہ ہے کہ کبھی    کبھی رسالت اور پیغام کے معنی یا نص کو زبانی کلامی  بھی بیان کیا جاتا ہے ۔

اور کبھی اسے مکتوب کی  شکل میں بیان کیا جاتا ہے ؛

اور کبھی پیغام زبانی ہوتا ہے لیکن مکتوب کی مانند ہوتا ہے۔

پس محض زبانی کلامی پیغام کبھی اضافی ادب کا تقاضا نہیں کرتا جیسا کہ عرف میں ہم اس کوپاتے  ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی پیغام رساں کے ذریعہ کسی شخص کو پیغام پہنچاتا ہے تو  اس کا کلام بسملہ یا تسمیہ پر مشتمل نہیں ہوتا ،بلکہ کبھی اس کے ساتھ سلام شامل ہوتا ہے تو پیغام پہنچانے والا کہتا ہے  کہ فلاں نے تمہیں سلام کہا اور یہ پیغام بھیجا ہے ۔

یہ تسمیہ یا بسملہ کا ادب مکتوب یا اس کی مانند پیغام  میں ہوتا ہے مکتوب پیغام کی مانند ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ پیغام زبانی کلامی ہوتا ہے لیکن نص ہوتا ہے اور اس کو محفوظ کرنا، لکھنا اور دوسروں  تک اطلاع دینے کیلئے اس کا باقی رکھنا مراد ہوتا ہے تاکہ موجودہ نسل یا آئندہ نسلیں اس نص سے واقف ہوسکیں۔

اور قرآن کریم اسی کی مانند ہے اگرچہ یہ زبانی کلامی نازل ہوا، یعنی جبرئیل علیہ السلام نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر نازل کیا ؛تاکہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں اور اسے اوراق اور تختیوں کی صورت میں نازل نہیں کیا جیسے حضرت موسی علیہ السلام کی تختیاں آسمان سے نازل ہوئیں جبکہ  خود قرآنی آیات کے مطابق اس کے نزول کے زمانے سے لیکر اسے کتاب اور صحیفہ شمار کیا گیا، یعنی اس کی شان و منزلت یہ تھی کہ اس کو لکھا جائے اور تحریر کیا جائے اور محفوظ کیا جائے جیسے دوسری کتابوں کی حالت ہوتی ہے  جیسا کہ ہم نے دین میں نبوت کی بحثوں میں بیان کیا ہے (13)؛ اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اس کیلئے کاتب و کتبے مقرر کیئے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اسے مسلمانوں کو حفظ کرانے کا اہتمام کیا تاکہ وہ محفوظ ہوجائے۔اور اسے کلام کی شکل میں  پیش کرنا اور زبانی کلامی نازل کرنے کی غرض یہ تھی کہ اسے لکھا جائے اور یہ ظاہر اور واضح موجود رہے ،اسی طرح قصیدے بکثرت زبانی پیش کئے جاتے تھے تاکہ ان کو لکھا جائے اور وہ باقی رہیں۔

ادبی روایات میں آیا  ہےکہ عربوں نے زمانہ جاہلیت کے شعراء کے معلقات سبعہ کو لکھا اور  انہیں کعبہ پر لٹکا دیا تھا اور پیغامات کی یہ حالت صرف قرآن کریم سے خاص نہیں بلکہ الہی رسائل و پیغامات اسی بنیاد پر نازل ہوتے تھے کہ وہ کتابیں بنیں اور صحائف شمار ہوں جب سے کہ  انسان نے کتابوں اور صحیفوں کو بچانا سیکھا تھا جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى﴾ حضرت ابراہیم اور موسی  علیھما السلام کے صحیفے(14)۔

یہ  اس لیئے تھا کہ وہ الہی پیغامات اس طرح محفوظ رہیں کہ تمام لوگوں اور نسلوں کیلئے قابل اعتماد ہوں اور ان پر حجت تمام ہوتی رہے۔

جب ہم اس جہت سے ملاحظہ کریں کہ بسملہ ادب ہے اور سورت فاتحہ اور دیگر سورتوں کی ابتداء بسملہ سے ہوئی ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الہی رسالت و پیغام کی ابتداء کا ادب بسملہ اور تسمیہ ہی ہے۔

یہ بسملہ کی حقیقت اور اس کے معنی و مضمون کا بیان ہے ۔پس اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قسم کا ادب ہے جو پیغام کی ابتداء کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔

حواشی

(1)               سورہ نمل، آیت 30-31۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ سلیمان نبی علیہ السلام کے خط میں بسملہ سے ابتداء نہیں ہوئی ،کیونکہ اس آیت میں بسملہ سے پہلے ایک جملہ انه من سلیمان آیا ہے جب اس پیغام کی ابتداء بسملہ سے ہو تو اس جملے کو بسملہ سے مؤخر ہونا چاہئے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور امیر المؤمنین  علیہ السلام کے خطوط اور مکتوبات میں بسملہ کے بعد یہ جملہ ہے:

من رسول الله الی الملک الفلان( رسول خدا  کی طرف سے فلاں بادشاہ کے نام) ۔

یا  من عبدالله علی امیر المؤمنین الی فلان بن فلان(بندہ خدا علی امیر المؤمنین کی طرف سے فلاں بن فلاں کے نام) ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے سیاق و سباق سے واضح نہیں کہ یہ جملہ انه من سلیمان کے خط کا حصہ تھا ،بلکہ ممکن ہے کہ ملکہ سبا نے اس پیغام کو واضح کرنے کیلئے ذکر کیا ہو کیونکہ اس پیغام کے مضمون کو نقل کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا گیا :﴿قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾  سورہ نمل، آیت 29 -30

تو ملکہ سبا نے ان کو خبر دی کہ یہ خط سلیمان  علیہ السلام کی طرف سے ہے اس طرح پیش کرنے کی ہرگز رسالت یہ نہیں ہے کہ  انه من سلیمان کا جملہ حضرت سلیمان  علیہ السلام کے خط میں موجود تھا ۔

اور جب فرض کریں کہ یہ جملہ حضرت سلیمان  علیہ السلام نے بھی لکھا تھا تو ممکن ہے کہ اس ظرف پر لکھا ہو اگر وہ خط کسی ظرف پر لکھا گیا ہو یا وہ خط کی ابتداء سے پہلے اس ورق کے اوپر لکھا ہو جیساکہ سابقہ دور میں ہوتا تھا کہ وہ خط کے غلاف یا پشت پر لکھا کرتے تھے: فلاں عالم کی خدمت میں پہنچے  اور وہ بھیجے گئے شخص کی طرف خط و پیغام کے شروع میں نہیں ہوتا تھا۔

نیز ممکن ہے کہ حضرت سلیمان  علیہ السلام نے  خط کے شروع میں یا آخر میں من سلیمان الی ملکۃ سبا لکھا ہو  لیکن ملکہ سبا نے پیغام کو پیش کرتے وقت مناسب سمجھا ہو کہ شروع میں خط بھیجنے والے کا نام لے پھر اس کے خط کا مضمون پیش کیا ہو جب اس نے شروع میں خط بھیجنے والے کا نام لے لیا  تو مضمون میں اس کے نام کا تکرار کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

(2)             ملاحظہ ہو المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ، ج 6 ص86 -87۔

واحدی نے اسباب نزول آیت میں فرمایا : {وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُل هُوَ رَبِّي لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ} وہ رحمن کا کفر و انکار کرتے ہیں ،کہہ دیجیئے: وہ میرا ربّ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اسی پر توکل و بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔

اہل تفسیر نے فرمایا: یہ آیت صلح حدیبیہ میں نازل ہوئی جب وہ صلح نامہ لکھنا چاہتے تھے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:لکھو،  بسم الله الرحمن الرحیم۔

سہیل بن عمرو اور مشرکین نے کہا: ہم رحمن کو نہیں جانتے  مگر صاحب یمامہ جسے مسیلمہ کذاب کا عنوان دیا جاتا ہے، بلکہ لکھیں: بسمک اللهم، اسی طرف زمانہ جاہلیت میں عرب لکھا کرتے تھے تو ان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی۔

نیز المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ، ج 6 ص113 میں ہے  کہ اہل اخبار نے ذکر کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے بت پرست لوگ اپنے خطوط کو بسمک اللهم سے شروع کیا کرتے تھے۔

(3)             ملاحظہ ہو المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام ، ج 6 ص 113، اس میں کہا ہے کہ عربوں کی قدیم روش یہ تھی کہ وہ اپنے رسائل و خطوط کو اپنے  بتوں جیسے لات و عزّی کے نام سے شروع کرتے تھے۔

(4)             سورہ اعراف، آیت 93۔

(5)             سورہ انعام ، آیت 124۔

(6)             سورہ اعراف، آیت 62  اور آیت 68۔

(7)            سورہ احزاب، آیت 39۔

(8)             سورہ جنّ، آیت 28۔

(9)              سورہ جنّ، آیت 23۔

(10)           سورہ اعراف ، آیت 144۔

(11)            سورہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ، آیت 20۔

(12)           اسے وسیع قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے اطلاق و معنی کی نسبت زیادہ وسیع ہے کیونکہ یہ لمبی سورتوں کے اس جزء کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے جو مستقل طورپر نازل ہوا ۔

(13)          منھج التثبت فی الدین ،  16 / 5، جو قسم سوم (رسالۃ اللہ الی الانسان ) کے بعد ہے۔

(14)          سورہ اعلی ، آیت 16۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018