22 شوال 1445 هـ   1 مئی 2024 عيسوى 7:12 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  مرد کا حصہ عورت سے دو گنا کیوں ہے؟ تقسیم وراثت پر اشکال کا جواب
2024-04-07   147

مرد کا حصہ عورت سے دو گنا کیوں ہے؟ تقسیم وراثت پر اشکال کا جواب

یہ بات بہت واضح ہے کہ کسی بھی نظریہ کے بارے میں جزوی اور نامکمل معلومات محدود فکر کو جنم دیتی ہے اور لوگ ان معلومات کی وجہ سے غلط نظریات بتا لیتے ہیں۔یہ بات عام لوگوں کے لیے تو قابل معافی ہو سکتی ہے کہ ان کی معلومات کم اور نامکمل ہوں مگر ایک محقق کے لیےادھوری معلومات پر نظریہ قائم کرنا ناقابل معافی ہے۔ محقق علم کی بنیاد پر نظریہ قائم کرتا ہےا ور اسی کے ذریعے حقیقت تک پہنچتا ہے۔بہت سے لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام پدر شاہی پسند مذہب اس میں وراثت،گواہی اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں عورتوں کے ساتھ بہت سی نا انصافیاں کی جاتی ہیں۔ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام عورت کو مرد کے نصٖف میراث دیتا ہے۔یہ اعتراض صرف قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھ کر کیا جاتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.. الآية)، النساء: 11

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔

اس آیت کے ایک حصے کو پڑھ کر کہا جاتا ہے کہ اسلام پدر شاہی پسند مذہب ہے۔اس میں مرد کو معاملات زندگی میں عورت پر ترجیح دی جاتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اسے الگ سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اسے شریعت اسلامی کے مکمل نظام وراثت کی روشنی میں دیکھتا ہو گا جس میں اسلام نے خاندان کی مالی کفالت اور اخراجات کی ذمہ داریاں تقسیم کی ہیں۔یہ آیت مجیدہ اسلامی نظام کے ایک جزء کا بیان ہے۔

اگر مرد ہونے کی وجہ سے اس کا حصہ عورت سے زیادہ ہے تو پھر ہر صورت میں مرد کا حصہ عورت سے زیادہ ہونا چاہیے اور جہاں بھی میراث تقسیم ہو رہی ہو وہاں مرد کو عورت سے زیادہ ملنا چاہیے۔اسلامی فقہ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں مرد اور عورت کی میراث برابر ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

(وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ)، النساء: 11

اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔

اس آیت مجیدہ میں ماں اور باپ دونوں کی میراث برابر ہے۔اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

(وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ)، النساء: 12

اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولاد ہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔

اس آیت مجیدہ میں بھائی اور بہن کو برابر میراث ملنے کی بات ہے۔

میراث کی تقسیم میں بعض اوقات یہ صورتحال بھی آتی ہے کہ عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہو جاتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ.. الآية)، النساء: 11

اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔

اس آیت مجیدہ میں بیٹی کا حصہ باپ سے زیادہ ہے۔

وہ مقامات جہاں پر عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے۔اگر عورت مر جائے اور اس کے وارث ایک بیٹی اور شوہر ہو تو اس صورت میں شوہر کو چوتھا حصہ ملے گا اور باقی ساری میراث بیٹی کو مل جائے گی۔

یہاں پر میراث کی تقسیم میں کچھ ایسی صورتیں بھی ہیں جہاں مرد کو سرے سے کچھ بھی نہیں ملتا اور ساری میراث عورت کو مل جاتی ہے۔اگر باپ فوت ہو جائے اور اس کے لیے ایک بھائی اور ایک بیٹی ہو تو اس صورت میں ساری جائیداد بیٹی کو ملتی ہے بھائی کو کچھ نہیں ملتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹی پہلے طبقے کی وارث ہے اور بھائی دوسرے طبقے کا وارث ہے پہلے طبقے کے وارث کی موجودگی میں دوسرے طبقے کے وارث کو کچھ نہیں ملتا۔

ڈاکٹر عمارہ کی نظر میں اسلام کے نظام میراث میں ایک جنس کو دوسری جنس پر کوئی برتری نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میراث میت کے وارثوں کو ملے گی۔اس میں دیکھا جائے گا کہ کون میت کے کتنا قریب ہے؟میت کے قریبی رشتہ داروں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا گروہ:اسے آباء واجداد اور اولاد کا گروہ کہا جاتا ہے۔دوسرا گروہ:یہ دادا دادیوں ،بھائیوں اوربہنوں اور ان کی اولاد کا گروہ ہے۔تیسرا گروہ :پھپھیاں،خالائیں،خالو اور پھپھا پر مشتمل ہے،جب ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر ان کی اولاد میں سے جو موجود ہے قریب سے قریب تر زیادہ حصہ لے گا ۔(مزید تفصیل کے لیے آغا سیستانی کی کتاب المسائل المنتخبة للسيد السيستاني کو دیکھیں)

اگر عورت پہلے گروہ سے تعلق رکھتی ہو یعنی بیٹی ہو تو ایسی صورت میں بھائی کو کسی قسم کی میراث نہیں ملے گی کیونکہ مرحوم کا بھائی دوسرے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔خالو ،پھپھا یا ان جیسے دوسرے وارثوں کی تو بات ہی نہ کریں جن کا تعلق تیسرے گروہ سے ہے۔

دوسرا :زندگی میں وارث کا مقام ہے۔وہ نسل جن کی زندگی مرنے والے سے شروع ہوتی ہے جو ان کے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ جانے والے سے میراث پاتا ہے۔جیسے بیٹی اپنی ماں سے باپ سے زیادہ میراث پاتی ہے۔

تیسرا:تیسرا جائیداد اس کو زیادہ ملتی ہے جس پر شریعت نے مالی بوجھ زیادہ ڈالا ہے۔جتنی مالی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی جائیں گی اتنا ہی میراث میں اس کا حصہ بڑھتا جائے گا۔جیسے بیٹے کا حصہ بیٹی سے زیادہ ہوتا ہے۔بیٹی کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی جا چکی ہے،وفات سے پہلے تک اس کی کفالت باپ کے ذمےہے اور شادی کے بعد اس کی کفالت کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں میراث کی تقسیم کا تعلق جنس کے ساتھ نہیں ہے۔اس کا تعلق ذمہ داریوں اور مالی اخراجات کی ادائیگیوں سے ہے۔(مقدمة الدكتور محمد عمارة لكتاب ميراث المرأة وقضية المساواة، ص4)

عورت کی تین حیثیتیں ہیں بیٹی،زوجہ اور ماں۔ان تینوں صورتوں میں اس کی مالی ذمہ داریاں ان کے قریبی مرد رشتہ داروں پر ہیں۔ان تمام قریبی رشتہ داروں میں سے صرف بیٹا ایسا ہے جو اس سے دگنی میراث پاتا ہے۔وہ بہت سے مواقع پر متعدد عورتوں پر خرچ کرنے کا پابند ہے، ان عورتوں میں سے کسی پر مردوں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے۔

جب یہ بیٹی ہوتی ہے تو باپ پر فرض ہے کہ وہ اس پر خرچ کرے یہاں تک کہ اس کی شادی ہو جائے۔شادی کے بعد عورت کی کفالت کی ذمہ داری باپ سے تبدیل ہو جائے گی اور اب شوہر اس کی کفالت کا ذمہ دار ہو جائے گا۔اگر اسے کسی وجہ سے طلاق ہو جاتی ہے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری باپ کی طرف پلٹ جاتی ہے۔بیٹی کو باپ سے جو میراث ملتی ہے وہ صرف اور صرف اسی کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ باپ اور شوہر کی کفالت میں ہوتی ہے۔

جب وہ عورت ماں بن جاتی ہے تو اسلام اولاد پر واجب قرار دیتا ہے کہ اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو وہ اس پر خرچ کریں۔پرانے آئرش قانون کے مطابق:"اگر بیٹا غریب ہے اور اپنے والدین کی کفالت کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے باپ کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہے اور اپنی ماں کو نہر کے پار میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔"یہ قانون کلیسا کے سینٹ پیٹرک سے منسوب ہے۔٣٦٤.Matilda Gage, Woman, Church and State, p

اسی وجہ سے کہ عورت کی کفالت کی مضبوط ضمانت دی گئی ہے اس کا حصہ مرد کے میراث کے حصے سے کم ہے کیونکہ مرد پر عورت کے اخراجات کو فرض قرار دے دیا گیا۔جہاں جہاں کفالت کی ذمہ داریاں کم ہیں وہاں عورت مرد کی طرح ہی میراث پاتی ہے۔جیسے جب بہنوں اور بھائیوں میں ماں کی جائیداد تقسیم کی جا رہی ہو یہاں کبھی کبھی وہ مرد سے زیادہ میراث پاتی ہے۔کبھی عورت جتنی میراث پاتی ہے مرد اس جتنی میراث نہیں پاتا۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہم ایک طرف ان حقوق کو رکھیں جو اسے باپ،شوہر یا بچوں سے ملتے ہیں اور دوسری طرف اس میراث کو رکھیں جو اس کے بھائی کو اس سے زیادہ ملی تھی تو یقینا عورت کو مرد سے زیادہ حصہ مل جاتا ہے۔یہ مرد پر بھی کوئی ظلم نہیں ہے کیونکہ عام طورپر معاشرے میں مرد کماتا ہے اور عورت اپنے مزاج کی وجہ سے گھر کے کام کاج کرتی ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو عزت دیتے ہوئے اس کے مالی حقوق کی حفاظت کی تاکہ وہ عزت کی زندگی گزارے وہ بیٹی،بیوی اور ماں کی حیثیت سے گھر کی زینت قرار پائے۔

اسلام مکمل طور پر اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہےاس کا کسی دوسرے مذہب و مکتب سے مکمل تقابل نہیں کیا جا سکتا۔صرف سرسری تقابل سے ہی ہمارے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کتنا عظیم مذہب ہے۔کلیسا کی مقدس کتابیں، اس کی کونسلوں کے فیصلے اور باپ دادا اور مذہبی رہنماوں کی تحریریں، اسلام جیسی کوئی چیز فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔اسلام جیسے یا اس سے بہتر قوانین لانے کی تو بات ہی نہیں کی جا سکتی۔جب ہم اس کے شریعت مقدسہ اسلام سے تقابل کو شروع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کتاب مقدس میں عورت کو صرف برائے نام میراث کا حق دیا گیا اور یہ اسے ملتی نہیں ہے۔دراصل اس کی وراثت اس کے شوہر کو جاتی ہے، اسے نہیں۔ اس کا تذکرہ کتاب عدد ٨/٣٦- میں ہے: "ہر لڑکی جس کو اپنے قبیلے سے میراث میں حصہ ملا ہے اسے اپنے باپ کے قبیلے کے بیٹوں میں سے کسی ایک سے شادی کرنی چاہیے، تاکہ بنی اسرائیل میں سے ہر ایک اپنے باپ کے حصے کا وارث ہو۔ایک قبیلے کی وراثت دوسرے کو نہیں جائے گی بلکہ ہر قبیلہ اپنی میراث برقرار رکھے گا۔"

غور کریں کہ وراثت عورت کے شوہر کے انتخاب کے اختیارات کو کم کرے گی کیونکہ اسے اپنے قبیلے سے شوہر کا انتخاب کرنا ہوگا، تاکہ پیسہ کسی دوسرے قبیلے میں نہ جائے!!

یہ بات کیتھولک چرچ کے فلسفی (Thomas Aquinas) نے کہی تھی، جس کی کتابیں، حال ہی میں، کلیسیائی دینی تعلیم میں نصابی کتب ہیں۔اس نے درج بالا اعتراض کے جواب میں کہا:بہت سے شہر اور ریاستیں اس لیے برباد ہو گئیں کہ وہاں جائیداد عورتوں کو منتقل ہوئی۔ السياسة ك ٢ ب ٤۔عیسوی شریعت کی احکامات میں سے قرار دیا گیا ہے اور کتاب سفر عدد: ۸/۲۷ میں ہے: "کوئی آدمی جو مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو۔ اس کی وراثت اس کی بیٹی کو جاتی ہے۔" اس لیے شریعت نے لوگوں کی حفاظت کا صحیح خیال نہیں رکھا۔"

اس اعتراض پر تھامس ایکیناس کا جواب، جس کا مقصد بائبل کو چیلنج کرنا تھا، یہ تھا: شریعت نے یہ ضروری قرار نہیں دیا کہ عورتیں اپنے باپ کی وراثت میں حصہ لیں، جب ان کے کوئی مرد بچے نہ ہوں تب وراثت کا عورتوں کو جانا ضروری تھا۔ والد سے محرومی کے ساتھ اپنی تمام وراثت کو غیروں کے پاس جاتے دیکھنا مشکل ہے، حالانکہ شریعت نے اس معاملے میں ضروری احتیاط برتی ہے۔ اس نے حکم دیا کہ جو عورتیں اپنے باپ کی وراثت میں حصہ لیں وہ اپنے قبیلے کے مردوں سے شادی کریں تاکہ قبائلی جائیداد میں اختلاط نہ ہو۔ یہ بات سفر عدد ۳۶ میں بھی ہے"Thomas Aquinas، Summa Theologiae، 5/209-210

اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ عورت خود ایک وراثت کے سوا کچھ نہیں ہے، جس طرح گائے اور بھیڑیں وراثت میں ملتی ہیں۔یہ استثنا 5/25 میں بیان کیا گیا ہے: "اگر بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بیٹا پیدا کیے بغیر مر جاتا ہے، تو وہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی بیوی کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو اس کے شوہر کے خاندان کا فرد نہ ہو۔" بلکہ اس کے شوہر کے بھائی کو اس سے شادی کر کے اس کے ساتھ رہنے دو۔اور اسے بھابھی کے فرض کو ادا کرنا چاہیے۔"۔۔۔مرد اپنے بھائی سے زوجہ کو میراث میں اسی طرح پاتا ہے جسے اس سے جانور میراث میں ملتے ہیں۔۔۔۔یہ اسی طرح کی بات ہے جو زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں تھی جہاں بیٹا باپ کی زوجہ کو بھی میراث میں پاتا تھا۔

عورت کچھ نہیں بلکہ اپنے باپ کی بیچی ہوئی شے ہے۔یہ خروج کی کتاب 7/21 میں بیان کیا گیا تھا:"جب کوئی شخص اپنی بیٹی کو بطور کنیز بیچ دے تو اس پر آزاد کا اطلاق نہیں کیا جائے گا اس پر غلام کا اطلاق ہو گا۔"یعنی یہ الہی حکم ہے کہ بیٹی کو بیچ دو،لختِ جگر کو لذت کے لیےبیچنا جائز ہے، جس طرح آدمی اپنے کسی مال سے چھٹکارا پاتا ہے۔

حاصل یہ ہے کہ ان مثالوں کے ذریعے دلیل کے ساتھ قطعی طو رپر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ شریعت مقدسہ اسلام میں وراثت کے معاملے میں ایک جنس کو دوسری جنس پر کسی قسم کی ترجیح نہیں دی گئی۔مرد اور عورت دونوں کے لیے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں جو انصاف اور عقل کے مطابق ہیں ان کو مد نظر رکھ کر وراثت تقسیم کی جاتی ہے۔اس سب کو جاننے کے بعد بھی اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی مثال مجنون کی سی ہےجو نامید ہی رہتا ہے۔

شیخ مقداد  الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018