22 شوال 1445 هـ   1 مئی 2024 عيسوى 8:51 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  ملحدین اور اخلاقیات:کیا الحاد میں اخلاق ممکن ہے؟
2024-04-06   148

ملحدین اور اخلاقیات:کیا الحاد میں اخلاق ممکن ہے؟

الحاد کی دنیا میں اخلاقیات کی تلاش ایک سراب کی پیروی کے مترادف ہے،کسی ما فوق طاقت پر ایمان رکھےبغیر اخلاق کی بنیادیںڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے شدید دھندمیں سورج کی کرنیں تلاش کر رہے ہوں۔

اپنے تازہ ترین اور سب سے شاندار ناول (The Story of the Brothers Karamazov) میں فیوڈور دوستوفسکی کہتا ہے: ’’اگر خدا نہ ہو تو سب کچھ جائز ہے‘‘انگریز فلسفی اور مفکر جان نے اس سے پہلے یہی بات کی تھی۔جو لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں ان کے نزدیک وعدہ، عہد اور قسم وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں چونکہ یہ انسانی معاشرے کے بندھن اورا قدار ہیں اور ملحد کسی معاشرتی قدر کا پاسدار نہیں ہوتا!! خدا کے انکارکا خیال ہی تمام اقدار اور بندھنوں کو ختم کر دیتا ہے۔"(رسالة في التسامح، ص 57)

جان لاک کی باتوں کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں، ہم اپنی نجی زندگی میں کچھ چیزوں کے عادی ہوتے ہیں، ہم فلموں اور سیریز میں بھی دیکھتے ہیں جب جج کے سامنے کسی ملزم کو لایا جاتا ہے تو جج اس کی بات سننے سے پہلے حلف لیتے ہیں تاکہ وہ جو بات کرے وہ قابل اعتبار ٹھہرے۔اب یہاں ملحد اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے وہ کسی غیر مادی وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتا جس کی قسم اٹھائے۔اب اس وقت صورتحال یقینا بڑی عجیب ہو جائے گی جب ایک ملحد عدالت میں کھڑا ہوا اور اسے کہا جائے کہ حلف دو،تو ایسی صورت میں وہ کس چیز کا حلف اٹھائے گا اور جس کے بعد اگر وہ غلط کہے تو اس کی مذمت کی جا سکے یا کم از کم اسے ندامت محسوس ہو؟!!

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک شخص مظلوم ہے اور اس پر ظلم ہو رہا ہے اب کونسی چیز ملحد کو واردار کرے گی کہ اس کی مدد کرے یا اگر یہ ظلم کرنے والا خود ملحد ہے تو پھر وہ کیونکر رکے گا؟؟یہ مظلوم یتیم،نابالغ او ربے سہارا بچی ہی کیوں نہ ہو؟یعنی کونسی قوت ہو گی جو کسی ملحد کو جرم سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتی ہے؟

یہ ایسی صورتحال ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ملحد کے سامنے اخلاق و امانت بے معنی چیزیں ہو جاتی ہیں اور اس کی جگہ شخصی مفاد لے لیتا ہے اور وہ مفاد پرستی کے چنگل میں پھنس جاتا ہے بس یہ دیکھتا ہے کہ کہاں سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے؟

یہ بات ہو سکتی ہے کہ ممکن ہے کوئی مذہبی شخص بھی جھوٹی گواہی دے دے مگر یہاں بھی ایک ملحد اور ایک مذہبی شخص میں فرق رہے گا کہ مذہبی شخص کا ضمیر کم از کم اس کی مخالفت کرے گا اور اسے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا۔یہی ضمیر اس کے مذہبی خمیر کا نتیجہ ہے۔ایک مسلمان اللہ تعالی کی کتاب میں اللہ کا یہ قول پڑھتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا النساء: 58

۵۸۔بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

ایک مسلمان جب یہ سنتا ہے کہ نبی اکرم جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے جانے لگے تو امیر المومنین حضرت علیؑ کو مکہ میں چھوڑا اور ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کر دو۔حالانکہ یہ امانتیں مشرکین کی تھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اصل بات امانت کو واپس کرنا ہے۔امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:"تمہارے لیے ضروری ہے کہ امانت کو ادا کرو،اس کی قسم جس نے محمد کو حق کے ساتھ نبی بنایااگر میرے پاس میرے بابا حسین بن علیؑ کو قتل کرنے والا وہ تلوار امانت رکھے جس سے اس نے انہیں قتل کیا تھا تو میں اسے یہ واپس کروں گا" أمالي الصدوق، ص148 یہ پڑھنے کے بعد کسی اہل مذہب کا ضمیر اسے امانت میں خیانت کی اجازت نہیں دیتا۔ایسی احادیث بتاتی ہیں کہ ایک دینی شخص زندہ ضمیر رکھتا ہے اور برائی پر اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے۔

اس مثال میں بھی ذکر ہوا،اس کے علاوہ قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 (يَا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا) النساء 135

۱۳۵۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

آیت کسی قسم کی شرح کی محتاج نہیں ہے۔ ہارورڈ لاء سکول کے منتظمین نے اسے انسانی تاریخ میں انصاف کے عظیم ترین بیانات میں سے ایک سمجھا!! انہوں نے اسے داخلی دروازے کی دیوار پر کندہ کاری کے لیے منتخب کیا۔

ہارورڈ لاء سکول کے مرکزی دروازے پر کنندہ تصویر

مومن اور ملحد میں بنیادی فرق ہے کہ مومن میں جرم سے پہلے عقلی اور قلبی طورپر روکنے والی قوت موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو مومن کو گناہ سے پہلے ہی اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے یہ انسان کو توبہ کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے۔ملحد کے لیے ایسا نہیں ہے اس کی نظر میں اخلاقیات کی کوئی قدر نہیں ہے۔ان کے نزدیک انسان کچھ ذرات کے اتفاقا مل جانےسے بنا ہے۔ سب سے مشہور ملحد طبیعیات دان اور ماہر فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے: نسل انسانی ایک درمیانے درجے کے سیارے کی سطح پر کیمیائی گندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ Reality on the Rocks: Beyond Our Ken.

ایک اور ارتقائی ملحد، سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے Infowars.com ) تاريخ 18 ستمبر2013 کو( ایک مضمون لکھا۔من عن جو انہوں نے لکھا ہے: "دنیا کی آبادی کو کم کرنے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو کھانا کھلانا بند کرو۔" اگر ملحد علماء کا یہ قول ہے تو عام لوگوں اور احمقوں کا کیا ہوگا؟!

ہائے ہائے وہ وقت کیسا ہو گا ؟جب دنیا کی سیاست و حکومت کی باگ دوڑ ملحدین سنبھال لیں۔سٹالن، لینن، ماؤ زیڈونگ اور پول پاٹ کی حکمرانی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب انہوں نے اپنے اور دوسروں کے لاکھوں لوگوں کو انتہائی معمولی وجوہات کی بنا پر الحاد اور کمیونزم مسلط کرنے کے لیے ہلاک کر دیا تھا۔

ہم بطورمثال سیریل کلر جیفری ڈہمر کو دیکھتے ہیں، جس نے تقریباً 15 نوجوانوں کو قتل کیا اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔اس نے بعض اوقات ان لاشوں کے کچھ حصے کھا لیے اور ان کے کچھ اعضا اپنے پاس رکھ لیے۔ 1994 میں اس کی گرفتاری کے بعد این بی سی براڈکاسٹر اسٹون فلپس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔ "اگر کوئی شخص خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا کہ وہ اسے جوابدہ ٹھہرائے، تو پھر اپنے طرز عمل کو قابل قبول حدوں کے اندر رہنے کی کوشش کرنے کا کیا فائدہ؟! ویسے بھی میں نے یہی سوچا تھا۔ میں نے ہمیشہ یہ مان لیا ہے کہ نظریہ ارتقاء سچ ہےکہ ہم دلدل سے آتے ہیں،جب ہم مر جاتے ہیں تو کچھ نہیں ہوتا۔" سیریل کلر جیفری ڈہمر کے اعترافات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے جرائم کی وجہ یہ ہے کہ اسے ایسا کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی، جب تک وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قابو میں نہیں آیا۔یہی بات الحاد جدید کے اہم رہنما سام ہیرس نے کہی جہاں وہ عصمت دری کے جرم کے بارے میں کہتا ہے۔: "عصمت دری سے زیادہ قدرتی کوئی چیز نہیں ہے۔ "انسانوں کی عصمت دری، چمپینزی کی عصمت دری، اورنگوتنز کی عصمت دری۔ عصمت دری ظاہر ہے کہ آپ کے جینز کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے ایک ارتقائی حکمت عملی کا حصہ ہے۔" ABC Radio National, Stephen Crittenden interviews Sam Harris

رچرڈ ڈاکنز ازدواجی خیانت کی برائی کو کم کرتا ہےاور اپنے مضمون میں زنا کے پھیلاؤ پر زور دیتا ہے۔ مضمون کا عنوان(سبز آنکھوں والے عفریت کو ختم کریں) ہے: "ایک بیوی کی وفاداری کے بارے میں یہ تمام خدشات کیوں ہیں؟ ہم اس کو بیان کرنے کے لیے دھوکہ دہی کے لفظ کو کیوں استعمال کرتے ہیں؟! ایک شخص یہ کیوں محسوس کرتا ہے کہ دوسرے شخص کے جسم میں اس کی خاص ملکیت ہے؟ http://old.richarddawkins.net/articles/1926-banishing-the-green-eyed-monster

ان سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ زیادہ تر مغربی لوگ ملحدوں پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے ہیں۔ ابتدائی مطالعات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صرف امریکہ میں ملحدوں سے نفرت کی شرح 39.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس کا اظہار مشہور نیوز جنکی پوسٹ نے 19 ستمبر 2009 میں کیا تھا۔ اس کی واضح سرخی تھی۔(تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ملحد سب سے زیادہ نفرت کرنے والا اور بد اعتمادی کرنے والا گروہ ہے۔)

الشيخ مقداد الربيعي –  استاد و محقق حوزہ علمیہ  

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018