27 شوال 1445 هـ   6 مئی 2024 عيسوى 9:10 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-03-31   71

ملحدین کے گھر سے گواہی، کہ وہ فلسفہ سے نابلد مسخروں کا گروہ ہے

سن 2004 کے آخر میں صاحبان علم وفکر کی اکثریت اس اعلان سے حیران ہوئی کہ دنیا کے مشہور ملحد جس کا شمارموجودہ زمانے کے بڑے ملحدین میں ہوتا ہے اس نے خدا کی وحدانیت کو قبول کر لیا ہے۔یہ کوئی اور نہیں برطانوی فلسفی انتھونی فلیو تھا جس نے یہ اعلان کیا۔اس نے دنیا میں بڑی بحث کو جنم دیا کیونکہ وہ ایک معروف نام تھا۔سچ یہ ہے کہ اس نے الحاد کو ترک کر کے ایک تہلکہ مچا دیا تھا۔اس کے اعلان کے ساتھ ساتھ اس نے خدا پر ایمان لانے کے فلسفیانہ شواہد بیان کیے وہ اہل علم کے لیے کافی حیران کن تھے۔اس نے کہا کہ میں فلسفیانہ دلیلیوں کی بنیاد پر اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ اللہ تعالی ایک ہے یہاں تک تو بات اطمنان بخش تھی۔اس نے کہا علت اولی جسے ارسطو نے بیان کیا تھا وہ اہم ترین دلیل ہے جو اس تبدیلی کی بنیاد بنی۔

ویسے بھی یہ تبدیلی کافی حیران کن تھی کہ ایک آدھ دن کی بات نہیں ایک شخص پچاس سال سے زیادہ وقت سے ملحد تھا۔کوئی عام ملحد بھی نہیں تھا بلکہ بظاہر ایک مشہور فلسفی اور موثر آدمی تھاجس کی معلومات وسیع تھیں اس کا الحاد کو ترک کرنا بڑی بات تھی وہ بھی جب اس کی عمر اسی سال ہو چکی تھی۔اس لیے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس کے پاس ایسی دلیل ہونی چاہیے جو یقینا نئی ہو پہلے والی دلیلوں سے مختلف ہوجس سے متاثر ہو کر اس میں یہ تبدیلی آئی۔جب اس نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس کے ایمان لانے کی وجہ فلسفیوں کی وہی پرانی دلیلیں ہیں جو علمائے دین پہلے سے دیتے رہے ہیں۔ ساتھ وضاحت کی کہ وہ اس وقت تک اس لیے ملحد تھا کہ اس نے یہ دلیلیں دیکھی ہی نہیں تھیں ۔اس نے کہامیں کوئی فلسفہ ارسطو کا ماہر نہیں تھا ابھی میں نے پہلی بار اس کے بعض فلسفی نظریات کو پڑھنا شروع کیا تھا۔(۱)

یہ واقعہ بڑے واضح انداز میں بتاتا ہے کہ بہت سے لوگ دین کا انکار کرتے ہیں مگر ان لوگوں نے زندگی میں کبھی بھی دین یا اس کی ادلہ کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی ہوتی۔یہ لوگ ابتداء سے ہی کچھ ایسی کتب کے مطالعے میں غرق ہوئے جو دین اور وجود باری تعالی کے خلاف لکھی گئیں تھی اور اسی پر اپنا نظریہ بنا لیا۔اسی عصر کے ایک فلسفی نےاپنے ملحد دوست سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے "ایک ساتھی ملحد نے ایک بار مجھے کہا کہ اسے تھامس ایکیناس جیسے مصنفین کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی جانتا تھا کہ وہ غلط ہیں۔"یعنی جس کا نظریہ ان کے خلاف ہے انہیں پڑھنا ہی نہیں چاہیے۔(۲)

ان لوگوں میں وہ بھی ہیں جنہیں کچھ لوگ الحاد جدید کے بڑے نام سمجھتے ہیں جیسے (رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، ڈینیئل ڈینٹ، اور کرسٹوفر ہچنز) وغیرہ اہم ہیں۔ان سب کی شہرت بہت زیادہ ہےمگر ان کے اپنے ہم عصر ساتھیوں کی نظر میں دیکھیں تو وہ علمی طور پر انہیں کوئی علمی حیثیت نہیں دیتے۔ان کا کہتا ہے کہ یہ لوگ دینی افکار اور ان کی دلیلوں کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

رچرڈ ڈاکنز اور وانڈا دی فش

ایڈورڈ فیسر کہتے ہیں: 1988 میں بننے والی ایک فلم جس کا نام (A Fish Called Wanda) ہے،اس میں وانڈا اور ایٹو کے درمیان ایک اچھا مکالمہ ہے:

وانڈ:کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بندر پڑھے لکھے ہوتے ہیں؟

ایٹو:ہاں،مگر وہ فلسفہ نہیں پڑھتے۔

وانڈا:نہیں وہ فلسفہ پڑھتے ہیں۔

اوٹو:پڑھتے ہیں مگر انہیں فلسفہ کی سمجھ نہیں آتی۔

رچرڈ ڈاکنز کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے یہ مکالمہ میرے ذہن میں آتا ہے، خاص طور پر جب اس کی کتاب" خدا کا وہم" پڑھتے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیساکہ ایک شخص بیالوجی کا ماہر ہےاس کی یہ مہارت اسے فلسفے میں رائے دینے کا اہل نہیں بناتی۔یہ بات اس وقت اور بھی اہم ہو جاتی ہے جب وہ شخص اپنے فن میں ماہر ہے اور دنیا میں لوگ اسے اس کی اسی فن کی وجہ سے جانتے ہیں تو بہتر ہے وہ اسی فن مثلا بیالوجی میں رائے دے۔ فلسفہ میں ٹانگ اٹکانے کی ضرورت نہیں ہے۔فلسفہ کے مسائل میں ناصرف رائے دی گئی بلکی معروف عیسائی فلسفی تھامس ایکیناس کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔(۳)

یہ بات ہمیں وانڈ اور ایٹو کا مکالمہ یاد کرا دیتی ہے جس میں بندر کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی بڑا مفکر ہےبلکے کوئی فلسفہ کی حدود متعین کرنے والا عظیم فلسفی ہے۔اصل صورتحال واضح تھی کہ یہ فلسفہ سے تہی دست تھا اور فلسفہ کی ابجد سے بھی واقف نہ تھا۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے بھی جاہل تھااسے طنزا فلسفی کہا گیا۔

اگر وانڈا دیکھتی کہ کہ رچرڈ داکنز نے " خداکا وہم" نام کی کتاب لکھی ہے تو اسے دیکھ کر یقینا کہتی کہ اس سےبڑا کوئی جھوٹ نہیں ہو سکتا اور اس جہالت کو نہیں لکھا جانا چاہیے تھا۔ تھامس ایکیناس نے اس عالم مادہ کے وجود میں آنے سے پہلے وجود کا دعوی کیا تھا اور اس دلیل اور مقدمے کی بنیاد پر اللہ کے وجود کو ثابت کیا تھا۔الکوینی نے اپنی کتب میں کہیں بھی اللہ کی قدرت اور اس کے خیر محض ہونے کا عمومیت کے ساتھ تذکرہ نہیں کیا۔ بلکہ ان کی کتابوں کا ایک سادہ سا جائزہ لینے سے معترضین کا جھوٹ کھل جائے گا۔جوبات اس نے لکھی ہی نہیں تھی اس کو ثابت کرنے کے لیے اس کے خلاف سینکڑوں صفحات لکھے گئے۔آپ پر واضح ہو جائے گا کہ سینٹ اینسلم نے کبھی بھی خود خدا کے وجود سے اسے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں ص77 ــ80، مصنف رچرڈ ڈاکنز (وهم الإله)[4]. الخرافة الأخيرة: ص174

کرسٹوفر ہچنز... صرف ایک صحافی

ایڈورڈ فیزر اپنی کتاب (The Myth of Atheism) میں کہتے ہیں: ’’ہچنز نے ہمیں ایک زندہ مثال فراہم کی کہ ایک صحافی جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ پڑھتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان سے زیادہ سمجھتا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتا ہے: "ہچنز نے ولیم پیلے کے برہان نظم پر متعدد معمولی اوربے حیثیت اعتراضات کے ذریعے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ہر ملحد کا پسندیدہ طریقہ واردات ہے۔یہ لوگ نظریہ ارتقاء سے اپنی حمایت میں دلیل لانے کے خیالوں میں کوشاں رہتے ہیں اور امریکی سائنس جرنل اور دیگر علمی مجلوں سے مواد چوری کرتے ہیں۔

سیم ہیرس اور اس کیفلسفیانہ کمزوریاں

ہیریس کی صورتحال اور زیادہ مشکل ہے، کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے سٹینفورڈ یونیورسٹی سے فلسفے میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ تاہم، ہم فیزر جیسے ماہر فلسفی کو یہ بیان کرتے ہوئے پاتے ہیں کہ وہ اپنے الحاد کی بنیاحقیقی فلسفیانہ دلیلوں سے خدا کے وجود کا انکار نہیں کرتا ہے۔اس نے کچھ آسان سے شبہات کا ذکر کیا ہے جنہیں آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا جیسا کہ فیزر نے کہا ہے "

اس نے اپنے آپ کو ان شکوک و شبہات کا تذکرہ کرکے مطمئن کیا جن کی تردید کرنا آسان ہے، جیسا کہ فیزر کہتا ہےاس نے خدا کے وجود کے روایتی ثبوتوں سے متعلق فلسفیانہ مواد کے بارے میں بہت کم کہا، کیونکہ اس نے خود کو بار بار تنقید کر کے ہی مطمئن کیا اہل علم جانتے ہیں کہ یہ فقط تکرار تھی۔اس کے اعتراضات کو ایک دینی مدرسہ کا عام سا طالب علم بھی جانتا ہے جس نے مدرسے میں فقط فلسفہ کے مقدمات ہی پڑھے ہوں اور وہ ان اعتراضات کے جوابات آسانی سے دے سکتا ہے۔یہ صرف کارٹونش تبصرے ہیں اور کچھ نہیں۔"(۵)

انہیں کمزور دلیلوں کی وجہ سے خود املحد ناشرین میڈلین مرے اوہیئر نے کتاب" مسیحی امت کے لیے پیغام" کو چھاپنے سے انکار کر دیا۔اس کتاب میں انتہائی کمزور سطحی قسم کی دلیلیں تھیں اور عنوان بڑا بنایا گیا تھا۔وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کی فلسفہ پر مہارت نہیں اسی لیے اس نے فلسفے میں زور آزمائی کو ختم کر دیا اور اپنے لیے نیوروسرجری کو فیلڈ کو منتخب کیا اور باقی زندگی اسے میں گزاری۔(۶)

فیزر نے بھی اسے ایک مشورہ دیا جس کا عنوان تھا "اسٹینفورڈ گریجویٹ کے نام فوری خط "اس میں اس نے کہا تھا کہ کم تعلیم بہت خطرناک چیز ہے،یا تو ایسے کرو کہ کنوئیں سے اس وقت تک خوب پیو جب تک سیراب نہ ہو جاو،اسے چکھنے سے بچو۔یعنی یا تو خوب فلسفہ کو پڑھو اور اس کے بعد لکھو اگر وقت نہیں ہے تو تھوڑا پڑھ کر گمراہ نہ ہو۔(۷)

ڈینیئل ڈینٹ... مارکیٹنگ کا رجحان

ڈینیئل ڈینٹ کا کیس عجیب و غریب ہے اورپہلے تمام سے مختلف ہے۔پہلے ذکر شدہ ملحدین یا تو شوقیہ فلسفی تھے یا وہ کچھ ابتدائی شدھ بدھ رکھتے تھے مگر یہ ایسا نہیں ہے۔اس نے الحاد اور وجود خدا کے خلاف بڑی کتاب لکھی اس کا نام كسر التعويذة: الدين ظاهرة طبيعيةہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ص ۴۴۸ سے فقط تین صفحات ان دلیلوں پر بحث کی ہے جو اہل فلسفہ خدا کے وجود پر پیش کرتے ہیں۔ان صفحات پر بھی زیادہ تر بحث انسلم کے وجودی ثبوت فلسفہ پر کی ہے۔اسے خود اہل فلسفہ بھی کوئی بڑی دلیل شمار نہیں کرتے کہ یہ دین کو ثابت کرنےو الی کوئی بڑی دلیل ہے۔

ڈینٹ کے فلسفے کی حمایت کرنے والوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ بات تو درست ہے کہ اس نے کافی تحقیقی اور اہم کام سر انجام دیا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے کام میں کوئی فلسفیانہ گہرائی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کام منظم ہے۔ (۸)

ڈینٹ کا ساتھی اور اس کا رفیق کار مائیکل روس جو اسی کی طرح ملحد تھا وہ ایک پیغام جو اس نے ای میل کے تبادلے میں اسے بھیجا تھااس میں کافی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔دونوں رفیق اور دوست تھے اس لیے ان کے درمیان کافی بے تکلفی بھی تھی۔کارمائیکل لکھتا ہے:میرے خیال میں تمہاری نئی کتاب بہت بری ہے اور تمہارے مقام و مرتبے کے مطابق نہیں ہےمیرے خیال میں آپ اور رچرڈ ڈاکنز دونوں علم کے لیے دو آفتیں ہو۔ہمیں کسی خود غرض الحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ہمیں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فکر کی ضرورت ہے۔آپ ملحدین میں سے کوئی بھی مسیحیت کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور نہ ہی افکار کی تفہیم جدید کر سکتا ہے۔(۹)

کوئنٹن اسمتھ معروف فلسفی ہے اور الحاد کے بڑے مناظرین میں سے ہے جو اس کا بڑا دفاع کر تاہے اور اتفاق سے یہ قدیم بھی نہیں بلکہ اس کا تعلق عصر حاضر کے ملحدین طبقے سے ہے۔یہ بھی اپنے ہم عصر ساتھی ملحدین کی طرف سے خوفناک جہالت کے اظہار سے تنگ ہے اور ان کی دلیلوں پر عدم اطمنان کا اظہار کرتا ہے۔اس کے مطابق جب یہ مذہب عقائد و نظریات پر تنقید کرتے ہیں تو درست انداز نہیں اپناتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس الہامی فلسفیوں کے اہم شواہد کا علم ہی نہیں ہے، یہ کمزور دلائل کا جواب دیتے ہیں اور مذہبی عقائد کے بارے میں سادہ صحافتی خاکے کھینچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ کہتا ہے فطرت پرست فلسفی عقیدہ رکھتا ہے کہ فطرت و طبعیت ہی درست ہے۔ان کا یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے کہ اللہ پر ایمان اور ما وراء الطبیعت کچھ نہیں ہے۔(۱۰)

معروف سیاسی فلسفی جیریمی والڈرون کی سیاست میں مذہبی دلائل کے بارے میں ملحدین کے رویوں کی ایسی ہی رائے تھی۔وہ کہتا ہےسیکولرازم کے ماہرین کی اکثریت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ مذہب کے دلائل کے عالم ہیں۔وہ اسے اللہ کی طرف سے ایک نازل شدہ حکم نامے کے طور پر دیکھتے ہیں،جس کو لوگ اس لیے مانتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کرتے تو جہنم جانا پڑے گا۔اسے عام یا خاص وحی سے جانا جاتا ہے۔وہ فلسفی رالز یا دورکن کے فلسفیانہ دلائل کے ساتھ مذہبی دلائل کا موازنہ کرتے ہیں جو کہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ان کے ذہنوں میں یہی تصور ہے اور پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی دلائل کو عوامی زندگی سے ختم ہو جانا چاہیے۔یہ بات قابل غور ہے کہ وہ اہل علم جنہوں نے جدید سیاسی نظریات میں مذہب کی بنیادوں اور ان کے دلائل کو پڑھاہے وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی یہ بات حقیقت کے خلاف اور واقع کی مسخ شدہ تصویر ہے۔(۱۱)

شیخ مقدار ربیعی  : استاد ومحقق حوزہ علمیہ

حواشی

[1] دیکھیں: گیری ہیبرماسکا فلو کے ساتھ انٹرویو فلسفیا کرسٹی، موسم سرما 2005 شمارہ۔

[2] الخرافة الأخيرة.. تفنيد الإلحاد الجديد، ص78.

[3] اس کو سمجھنا بیکار نہیں ہےیہ قرون وسطی کے اہم فلاسفہ میں سے ہے۔کیتھولک کلیسا اور بہت سے پروٹسٹنٹس کے نزدیک  وہ ایک بڑا عالم ہے۔

[4] الخرافة الأخيرة، ص178.

[5] الخرافة الأخيرة، ص 178.

[6] الخرافة الأخيرة، ص179.

[7] قدیم یونان علم کا مرکز تھی اور وہاں کے مرکز علم کی طرف اشارہ ہےوہاں علم کے چشمے کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے جس نے ہر اس شخص کو علم کی ترغیب دی جو قدیم مقدونیہ اور قدیم لیویترا علاقے میں رہتے تھے۔

[8] Tadeusz Zawidzki, Dennett (Oneworld Publications, 2007

[9] ولیم ڈیمبسکی کی اجازت سے متبادل نسخہ چھاپا گیا  Uncommon Descent المطبوعة بتاريخ 21/2/2006.

[10] Quentin Smith,the metaphilosophy of Naturalism, philo; A journal of philosophy (Fall _ Winter 2001).

[11] And Equality p 20,God, Lock

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018