20 شوال 1445 هـ   29 اپریل 2024 عيسوى 12:50 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-03-17   139

انسانی زندگی میں دین کے کردار کا معتدل راستہ کیا ہے؟

مغرب میں نشاہ ثانیہ کے دور میں بڑی معاشرتی تبدیلیاں آئیں۔اس میں مسیحیت کو معاشرے کے اجتماعی امور سے بالکل الگ کر دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ سائنسی اور صنعتی ترقی ہوئی۔یورپ میں نیا فلسفہ حیات آیا اس نے مذہب کو انسان اور رب کے درمیان انفرادی تعلق تک محدود کر دیا۔یورپ نے انسان کی اجتماعی زندگی میں مذہب کے سیاسی،معاشرتی ،اقتصادی اور اس کے علاوہ ہر طرح کے اجتماعی کردار کو ختم کر دیا۔ مغرب میں بسنے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی تمام ضروریات جس میں عیش و عشرت کا طرز حیات سرفہرست ہے اسے سائنس،اپنی عقل اور استدلال کے ذریعے پورا کرسکتا ہے۔ سائنس اور عقل دو ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے اسے مادی زندگی میں دوسری تمام چیزوں سے بے نیاز کر دیا ہے اور اب اسے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔دین کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہے کہ وہ خدا کے ساتھ کیسے تعلق رکھنا چاہتا ہے؟ یہ تعلق اسی حد تک محدود رہنا چاہیے اور اس سے آگے بڑھ کر امور سیاست،معاشرت اور معیشت میں کوئی کردار ادا کرے یا ثقافت میں تبدیلیاں کرے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے تسلیم بھی نہیں کیا جائے گا۔

اسلامی معاشروں میں کچھ سیکولر، جدیدیت پسند رجحانات کی موجودگی کی وجہ سے اس مسئلے کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو مذہب کے کردار کو انفرادی عبادات کے اس تنگ فریم ورک تک محدود کرنے اور اسے زندگی کے اہم شعبوں میں اس کے کردار سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر نظریات بھی ہیں جو اسلامی فکر کے اندر کچھ مسلم دانشوروں کے ذریعے شروع کیے گئے ہیں، جن میں ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ مذہب کا تعلق صرف اور صرف آخرت کے معاملات سے ہے اور اسے وہیں کی خوشی اور کامیابی کے لیے رہنا چاہیے، دنیا کے اجتماعی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ان کے ساتھ ساتھ ایک اور گروہ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ دین کا اصلی مقصدآخرت کی سعادت مندی کا حصول ہی ہے اور یہ آخرت کی کامیابی دنیا کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے اس لیے جتنا ضروری ہو اتنا ہی  معاشرے سے مذہب کا تعلق ہو گا۔صرف ضرورت کے وقت ہی دین کا کوئی کردار ہو گا کچھ اہداف طے کرکے انسانی فکر کی تربیت جیسے اجتماعی عدالت کے قیام،مساوات اور عقلیت پسندی جیسے امور میں اس کا کردار رہے گا۔(1)اس رجحان کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں کے مطابق مذہب کچھ اقدار اور اصول و ضوابط متعین کرتا ہے نہ یہ کہ ہماری عملی دنیاوی مشکلات کو حل کرنے کا کوئی طریقہ کار بھی تجویز کرتا ہے۔انسانوں کے دنیاوی مسائل کے حل کرنے کی ذمہ داری کا نظام فراہم کرنا صرف اور صرف سائنس کے کندھوں پر ہے۔اس نظریے کے حامل ایک بڑے مفکر کا قول ہےانسان کی مادی زندگی میں دین کا کوئی کردار نہیں ہےدین کا کردار فقط یہ ہے کہ وہ کچھ اصول و اضوابط اور روحانی تربیت کا نظام فراہم کرتا ہے جن کا تعلق انسانوں کی عمومی رہنمائی سے ہے۔یہ مذہب کا کام نہیں ہے کہ زندگی گزارنے کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرے اور اس بات کا تعین کرے کہ انسان کی زندگی اور اس کی معیشت کیسے ہو گی۔انسان کی عملی زندگی اور اس کی معیشت  ذمہ داری انسان کے اوپر ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے تجربے ،علم اور دماغ کے استعمال کے ذریعے اسے چلائے گا ہاں ان معاملات میں وہ عمومی دینی ضوابط کا بھی خیال رکھے گا۔

ہم اس طرح کے نظریات رکھنےوالوں کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ کم ترین سطح پر مذہب کے کردار کے قائل ہیں۔اس کے مقابل وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسانی علوم کو دینی متون سے لیا جائے گا اور یہ ممکن ہے۔مذہب میں دنیاوی اور اخروی زندگی کے تمام شعبوں میں ہدایات موجود ہیں۔اس لیے انسان فزکس، کمسٹری، ریاضی، انجینئرنگ اور میڈیکل سمیت جدید علوم کو بھی مذہبی متون سے حاصل کرے گا۔

اس نظریہ کے بڑے لوگوں میں ابوحامد غزالی ہیں جو امام غزالی کے نام سے معروف ہیں وہ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ قرآن علم کا بہت بڑا سمندر ہے اس سے ماضی اور مستقبل کے علوم راہ پاتے ہیں۔اس نے وضاحت کی ہے کہ تمام کے تمام انسانی علوم جیسے میڈیکل، نجوم،  جغرافیہ،علم الاعضاء جس میں اعضاء کی وضاحت کی جاتی ہے اور اس طرح کے دیگر علوم جس میں بہت سے ایجادات ہو چکی ہیں یا مستقبل میں ایجادات ہوں گی ان میں سے کوئی بھی قرآن سے باہر نہیں ہے۔۔ان سب کا مرکز و مرجع اور چشمہ فیض قرآن ہے اور خدا کی معرفت کے سمندرسے متصل ہیں۔(2)

علامہ بدرالدین زرکشی کہتے ہیں تمام علوم قرآن سے حاصل کیے گئے ہیں اور جو قرآن سے نہیں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔(3)

ان لوگوں کے نظریات کو ہم ایک دوسری طرف کی انتہاء قرار دیں گے۔

ان دو نظریات کے ساتھ ساتھ ایک درمیانی راستہ بھی ہے اس نظریے کو بعض علما نے نظریہ شمول کا نام بھی دیا ہے۔ہمارے پاس زیادہ طویل لکھنے کی گنجائش نہیں ہے اس لیے ہم گزشتہ دونوں نظریات پر کوئی تنقید نہیں کریں گے۔ہم صرف اس نظریہ کو بیان کریں گے جسے ہم نے اور بڑے مشہور اہل علم نے اختیار کیا ہے۔

نظریہ شمول ہر چیز کو دینی متون میں تلاش کرنے والوں سے مختلف ہے جو کہتے تھے کہ سائنسی علوم جن کی بنیاد تجربہ پر ہے جیسے میڈیکل،فزکس اور اس جیسے دیگر علوم بھی دینی متون سے لیں گے۔ مذہب کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جو انسانی تخلیق کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ہے اور باقی سب کچھ خود انسان کی ذمہ داری میں آتا ہے۔

مرجع جہان اسلام سید ابو القاسم الخوئی فرماتے ہیں کہ قرآن کی عظمت ،منزلت اور فخر کے لیے یہ کافی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے،نبی اکرم کا ابدی معجزہ ہے،قرآن مجید کی آیات انسان کی ہدایت کا سامان لیے ہوئے ہیں ہر ہدایت ہر زمانے اور ہر نسل کے لوگوں کی تمام مراحل اور معاملات میں رہنمائی کرتی ہیں۔قرآن مجید کی آیات انسانی تخلیق کے مقصد کے حصول کی ضمانت دیتی ہیں  ان کے ذریعے آخرت کی بڑی کامیابی جلد حاصل کی جا سکتی ہے۔(4)

قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ) النحل: 89

اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ قرآن تمام علوم طبعی کو بھی شامل ہے جیسے کیمسٹری ،فزکس،بحری علوم وغیرہ۔اس سے مقصود یہ ہے کہ قرآن نے ایسی کوئی چیزی نہیں چھوڑی جس کا تعلق انسان کی اس ہدایت سے ہو جس کے لیے  اسے خلق کیا گیا ہو اور اسے بیان نہ کیا ہو۔ علامہ طباطبائی اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:جب قرآن عالم لوگوں کی لیے ہدایت کی کتاب ہے اور یہ ہے ا س آیت مجیدہ میں کل شئی یعنی ہر چیز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا تعلق انسان کی ہدایت سےہو جیسے انسان خالق،معاد،اخلاق شریعت الھیہ،مواعط و قصص وغیرہ جیسے تمام امور کو بیان کرتی ہے۔(5)

جس طرح نظریہ شمول نظریہ افراط کو قبول نہیں کرتا اور اس سے مختلف ہے اسی طرح نظریہ شمول نظریہ تفریط سے بھی مختلف ہے جو کہتا ہے مذہب کا کردار صرف عمومی فریم ورک ترتیب دینے تک محدود ہے۔ ایسے عملی نظام کے بغیر جو لوگوں کو بعد کی زندگی کے مطابق خوشگوار زندگی فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔نظریہ شمول کے عصر حاضر کے بڑے محقق کہتے ہیں: مذہب مختلف شعبوں میں انسانی زندگی کے لیے ایک جامع نظام ہے جس میں سیاست، اخلاقیات، معاشیات اور معاشرت کے شعبوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک میدان میں مذہب کا ایک نظریہ اور ہدایت دیتا  ہے۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مذہب انسان کو ان تمام موضوعات میں فقط ایک مقلد محض بنا دیتا ہے اور اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔دین نے ان تمام اصول و ضوابط کو بیا ن کردیا ہے جن کا تعلق دنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہے۔ ان مسلمہ اصولوں کی روشنی میں منصوبہ بندی انسان پر چھوڑ دی گئی ہے۔ ہاں، کون ہے جو مذہب کے دائرہ کار کو صرف خالق اور مخلوق کے درمیان محض تعلق میں بیان کرتا ہے اور لوگوں کو گرجا گھروں اور مندروں میں نماز پڑھنے کے لیے بلاتا ہے؟خدا سے تعلق کے علاوہ باقی تمام کے تمام امور کو انسان پر چھوڑ دیتا ہے۔ موجودہ دور میں عیسائی مذہب کی طرح کوئی دین ایسے  تنگ دائر والا ہے ہے تو وہ جامع نہیں ہے۔ان گرجا گھروں میں انسان کا دین فقط دعا اور کچھ مذہبی فریضوں تک محدود رہ گیا ہے اور وہ بھی ایک ہفتے میں ایک گھنٹے تک ہی ہے۔جو دین کو اس حد تک محدود کر دیتے ہیں اور پھر اس طرح کے اختیارات کا قیاس دین کی حکمرانی سےبھی کرتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ تورات اور شریعت محمدی میں موجود ان ہزاروں احکامات کو دیکھیں تو انہیں پتہ چلے گے اور فورا سمجھ جائیں گے کہ یہ فکر درست نہیں ہے۔(6)

کیسے دین مختلف شعبہ ہائے حیات میں کامیابی کا خامن بن سکتا ہے؟

مذہبی نظام کسی بھی دوسرے نظام کی طرح ہے، حتی تکنیکی نظام بھی ایسے ہی کام کرتا ہے۔ یہ تین چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے: ان پٹ، پروسیسنگ اور آؤٹ پٹ۔ نظام کا بانی معلومات اور اندرونی اجزاء کو منظم کرتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ درست طریقے سے تعامل کر سکیں اور درست مطلوبہ نتائج مل سکیں۔ دین بھی اسی طرح کرتا ہے اس میں ایک بڑی مقدار فراہم کی ہے۔ جو ہزاروں میں ہے - ایسے احکام، قوانین اور احکامات جو انسانی مسائل کو حل کرتے ہیں اور ذاتی اور سماجی سطح پر ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں(ان پٹ)۔ ان اہداف اور مقاصد کا تعین کرنا جو ان جزوی مسائل کو حل کرتے ہیں(پروسیسنگ)۔ صرف اس نظام کو دریافت کرنا ہے جو احکام میں اس ڈیٹا کو سنبھالتا ہے۔ ایک ایسا ڈھانچہ قائم کرکے جو اسے ہم آہنگ بناتا ہے اور انسان کو مقررہ اہداف تک پہنچاتا ہے۔(آؤٹ پٹس)۔

یہاں دین اور علمائے امت سامنے آتے ہیں اور بہترین انداز میں اس عمل کو انجام دیتے ہیں۔ سیاست، معاشیات، معاشرت، تعلیم یا کسی اور چیز سے۔آپ کے لیے یہ جاننا کافی ہے کسی ایک موضوع پر ان احکام کے استنباط کے نظام کو دیکھیں۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام، علم کے مختلف شعبوں میں ایک بھرپور حدیثی ورثہ کی وجہ سے ممتاز ہے، جس کا آغاز سنت نبوی سے ہو کر آپ کے اہل بیت  علیھم السلام پر ہوتا ہے، جس کی ابتدا احادیث سے ہوتی ہے۔ تمام ائمہ سے ہوتے ہوئے یہ سلسلہ امام مہدیؑ تک پہنچتا ہے۔ یہ ورثہ مذہب کے دائرہ کار کو ظاہر کرتا ہے اور انفرادی اور معاشرتی سطحوں پر زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم کی عملی سیرت اور مدینہ منورہ میں آپ کی حکومت کا اسوہ بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔اسی طرح امیرالمومنین حضرت علیؑ اور امام حسنؑ نے بھی انسانی زندگی میں دین کے کردار کی وضاحت کی ہے۔ یہ وضاحت  مختلف ثقافتی، سیاسی، معاشی، تعلیمی، سماجی اور دیگر شعبوں کو محیط ہے۔اس پرشہید محمد باقر الصدر نے بہت اہم تفصیل لکھی ہے جو اس وسعت کو بتاتی ہے۔آپ لکھتے ہیں:میں نے جانتا کہ جو اسلامی اقتصادی نظام کے وجود میں شک کرتے ہیں وہ اصل میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟یا اقتصادی مشکلات کے حل کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ان کی رائے کیا ہے کہ اسلام ان کی تطبیق کیسے کرتا ہے؟ کیا اسلام کے آغاز سے مسلمان اپنی معاشی زندگی اور تمام معاشرتی معاملات کے ساتھ ایک معاشرے کے طور پر نہیں رہتے تھے؟! کیا اسلامی معاشرے کی قیادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہیں تھی؟! کیا اس قیادت کے پاس معاشرے کے پیداواری اور تقسیم کے مسائل اور اس کے مختلف معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے طے شدہ  حل نہیں تھے؟! کیا ہوگا اگر ہم دعویٰ کریں کہ یہ حل معاشی زندگی کو منظم کرنے کے اسلامی طریقے کو ظاہر کرتے ہیں؟ کیا ثابت نہیں ہوا کہ  اسلام میں معاشی نظریہ ہے؟ (8)

علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: اسلام نے یہ بات اس مختصر عرصے میں ثابت کر دی جب مسلمانوں کے درمیان  حکمران  دین تھا۔ اُس نے اُن افراد کی تربیت کی جس سے لوگوں کی اصلاح ہوئی۔ان لوگوں نے دوسروں کی اصلاح کی۔آج بھی وہ نکات کمال اور بہترین ڈھانچہ معاشرے میں موجود ہے۔ جو تہذیب و ترقی کی زندگی کا ضامن ہے، اسلامی ترقی اور دنیاوی ترقی دنیا میں اس کے اطلاق پر منحصر ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں سوچ و بچار اور تجربہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔(9)

بہت سی روایات موجود ہیں جو دین کی وسعت کا بتاتی ہیں امام ابی عبداللہ نے فرمایا:اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل کیا اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔خدا کی قسم اللہ نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی کہ کوئی انسان کہہ سکے کہ اگر یہ قرآن میں نازل ہو جاتا تو یعنی ہر چیز اللہ نے اس میں نازل کر دی ہے۔(10)

امام ابی جعفرؑ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے  قرآن میں ہر چیز نازل کردی اور اپنے نبی کے لیے بیان کر دی, کوئی ایسی چیز نہیں رہنے دی جس کی امت کو ضرورت ہو  ۔ہر چیز کے لیے ایک حد قرار دے دی،اس پر ایک دلیل بھی بتا دی جو دلالت کرتی ہے اور جو اس حد سے تجاوز کرتے ہے اس کے لیے بھی ایک حد قرار دے دی۔(11)

حماد امام ابی عبداللہ ؑؑ سے روایت کرتےہیں آپ نے فرمایا:ہر چیز کے بارے میں کتاب یا سنت میں رہنمائی موجود ہے۔(12)

یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن و سنت  میں پیش کیا گیا مذہب، انسان کو ان مقاصد کی طرف رہنمائی کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے۔

شيخ مقداد الربيعي،محقق و استاد حوزہ علمیہ

حواشی

[1] محمد مجتهد شبستري، مجلة نقد ونظر، ص22 ـ 23.

[2] جواهر القرآن، ج1، ص45.

[3] البرهان في علوم القرآن، ج1، ص8.

[4] البيان في تفسير القرآن ج1، ص17.

[5] الميزان، ج12، ص325.

[6] جعفر سبحاني، رسائل ومقالات، ج5، ص171.

[7] راجع كتاب اقتصادنا للسيد محمد باقر الصدر، وكتاب النظام الإداري في الحكومة الإسلامية للسيد محمد مهدي شمس الدين، وكتاب الأصول العامة لنظام التشريع لمحمد مصطفوي وغيرها كثير.

[8] المدرسة الإسلامية (موسوعة الشهيد الصدر، ج5)، ص 147.

[9] الميزان، ج2، ص132.

[10] أصول الكافي، ج1، ص59.

[11] المصدر نفسه.

[12] المصدر نفسه.

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018