20 شوال 1445 هـ   29 اپریل 2024 عيسوى 11:09 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-03-16   168

خلا کا معبود اور ادلہ کا معرکہ، کیا خدا کے وجود پر کوئی یقینی دلیل ہے؟

عام طور پر انسان کسی قتل کے جرم کو ثابت کرنے کےلئے جن دلیلوں کی چھان بین اور ان پر اعتماد کرتا ہے تو اس وقت وہ بہت سارے احتمالات میں سے بہتر کا انتخاب کرتا ہے۔ مثلا دیکھتا ہے کہ جہاں قتل واقع ہوا ہے اس جگہ پر ایک جلا ہوا سیگریٹ پڑا ہے ، یا جوتے کا نشان ہے۔ ان چیزوں سے وہ نتیجہ نکالتا ہے کہ قاتل منشیات کا عادی تھا یا اس کی لمبائی چھ فٹ تھی وغیرہ۔ لیکن یہ نتیجہ گیری درحقیقت صرف ایک ترجیحی گمان کی حد تک ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی ارزش نہیں ہے۔ جبکہ اس میں خطاء کا احتمال موجود ہے۔ کیونکہ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ قاتل چھوٹے قد کا ہو اور اس نے اپنے پاؤں کے اندازے سے بڑا جوتا پہنا ہو یا یہ کہ سگریٹ ہی اس کا نہ ہو اس صورت میں حاصل کردہ نتیجہ کے صحیح ہونے کا شک باقی رہے گا اور صحیح نتیجہ مزید شواہد و قرائن اور احتمالات پر معلق رہے گا۔ تو کیا خدا وند متعال کے وجود پر قائم کی جانی والی ادلہ کا ظہور اور دلالت بھی اس قسم کی ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہو تو ان ادلہ کے نتیجے پر ان لوگوں کا قول منطبق آتا ہے جو کہتے ہیں "خلاؤں کا خدا" یعنی خلاؤں کا معبود جس کی سائنس تائید نہیں کرتی۔ جبکہ احتمال قوی یہ تھا کہ ہر حال میں ایک خدا کا وجود مسلمہ ہے۔ لیکن یہ نتیجہ اس کے اوپر منحصر ہے کہ وہ حقائق سائنٹیفک لحاظ سے کشف نہ ہوں جن سے خلا اور فضا دونوں بھرے ہوئے ہیں۔

پس ہمیں پہلے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ بعض غیرماہرالہیون کی دلیلیں بھی اسی قسم کی ہیں۔ جیسے ویلیم بیلی کی دلیلیں۔ اس وجہ سے ملحدین نے اپنی تنقید کے تیر خوب چلائے ہیں۔ اسی طرح ڈسکوری انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں کی ڈیزائن شدہ دلیل ہے۔ معاصر امریکی فلسفی ایڈوارڈ فیزر کہتےہیں: ہم اس وجہ کو نہیں سمجھ سکے کہ آخر ملحدین کیوں بیلی ہی کے طریقہ دلیل یا طریقہ کار پر اس قدر شدید تنقید کرتے ہیں اگر یہ دلیل نہ ہوتی تو وہ کیسے تنقید کرتے گویا یہ ان کی تنقید کا ایک آسان نشانہ ہے جس کو انہوں نے اپنی تنقید کے لئے انتخاب کیا ہے۔ یہ ملحدین اپنی مرضی سے ایسی دلیل بھی تراشیں گے جس سے اپنی بات منوا سکیں اس کی خاطر وہ ہر تنکے کا سہارا بھی لیتے ہیں۔

 بہر حال یہ توجہ کرنا ضروری ہے کہ وہ ادلہ جن کو خدا پر ایمان رکھنے والے قائم کرتے ہیں وہ معمولا ریاضی اور انجینئرنگ کے فارمولوں کی طرح ہیں یہ صرف مفروضات نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کسی چیز کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ محض ایک محتمل امر نہیں ہے بلکہ یہ ایسے دلائل ہیں کہ اگر ان کے بنیادی مقدمات صحیح ہوئے تو ان سے حاصل شدہ نتیجہ یقینی ہوتا ہے۔  یہی وجہ  ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی میں ملحدین کا مشہور ترین برطانوی فلسفی  انتونی جب  فلسفہ کی ابتدائی دلیل جس پر ملحدین تنقید کرتے ہیں اور اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کو دیکھتا ہے تو اپنے الحاد سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہ دلیل ان ادلہ سے بالکل مختلف  ہے جن پر ملحدین عام طور پر تنقید کیا کرتے ہیں اور ابھی ۲۰۰۴ کا سال گذرا بھی نہیں تھا کہ انتونی نے اپنے موحد ہونے کا اعلان کیا۔  انتونی پوری دنیا میں ملحدین کا مشہور ترین فلسفی تھا لیکن وہ آخر کار خدا پر ایمان لایا۔  یہی وجہ ہےکہ جب ان سے الحاد کو ترک کرکے ایمان لانے کی وجہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: " فلسفی براہین نے ان کی راہنمائی کی کہ کوئی معبود ضرور ہے۔ خاص طور سے کائنات کے وجود کی اولین علت وہی ہے جس کو ارسطو نے بیان کی ہے۔"

انتونی نے یہ کلام اتنا برجستہ کہا ہے کہ یہ صرف اپنے الحاد کو ترک کرنے ہی کی حد تک نہیں بلکہ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہوں نے قدیم فلسفی براہین پر اعتماد کرکے ایمان قبول کیا ہے۔اس لئے کہ وہ اپنی عمر کے پچاس سال سے زائد عرصے تک الحاد میں معروف ہوا اور اس نے بڑی شہرت پائی۔ وہ خدا کے وجود کا قائل نہ ہوا لیکن جب وہ ۸۱ سال کا ہوا تو ایک دم الحاد سے دستبردار ہوتا ہے اور خدا کے وجود پر ایمان لاتا ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ایمان کا سبب کوئی اور دلیل تھی جو اس سے پہلے پیش نہیں کی گئی تھی اور وہ اس دلیل سے اس وقت واقف ہوا جب اس نے ارسطو کے وجود خدا سے متعلق دلائل کا مطالعہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ : " جب میں پہلی مرتبہ ارسطو کے کچھ  فلسفے کو پڑھنے لگا تو میں ان کے فلسفے کا  اتنا ماہر نہیں تھا ۔"

یہ وہ مقام ہے جہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے واضح طور پر اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کافر جس پر بھروسہ کرتے ہیں وہ صرف گمان ہے۔ وہ یقینی براہین پر اعتماد نہیں کرتے۔ سید عبد الاعلی سبزواری (رہ) آیہ شریفہ "( اِن یتبعون الّا الظنّ و ان ھم الّا یخرصون )  (الانعام/۱۱۶) کی تفسیر میں کہتے ہیں : یقینا اکثر دنیا والے اپنے اعتقادات اور معاملات میں گمان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ لہذا جس چیز کی جانب وہ دعوت دیتے ہیں اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ یعنی جو حکم یا نہی کرتے ہیں ان میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔ اس لئے کہ گمان کا لازمہ واقع سے جاہل رہنا ہے۔  لہذا جن امور میں علم و اطمینان ضروری ہے ان میں گمان پر عمل کرنا معقول نہیں۔ اس لئے کہ اس سے حق کشف نہیں ہوتا۔ اسی کی جانب خدا وند متعال کا یہ کلام بھی راہنمائی کرتا ہے (ان ھم الّا یخرصون) وہ بس گمان کرتےہیں وہ اپنے اعتقادات کے صحیح ہونے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنے دعوائے علم و یقین میں جھوٹے ہیں۔" یہی سے سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کریم نے بینادی عقائد  جیسے توحید و قیامت اور ان سے متعلقہ تمام مسائل میں ایسے براہین و ادلہ کو ضروری قرار دیا ہے جو علم و یقین کا باعث ہوں اور نفی یا اثبات دونوں کے حوالے سے  عقائد سے مربوط مسائل میں گمان والی دلیلوں پر اعتماد کرنے سے منع کیا ہے۔ اگرچہ کہ روزمرہ کے دوسرے معاملات میں گمان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ سید سبزواری (رہ) فرماتے ہیں:" اسی وجہ سے گمان پر اعتماد کرنے کے مقامات کو دو  حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ان میں سے ایک قسم میں گمان پر اعتماد کرنا صحیح ہے جیسے دنیوی معاملات  اس قسم میں ظن پرعمل کرنے سے  عقل منع نہیں کرتی۔ دوسری قسم  کا تعلق دینی امور سے ہے مثلا اصول دین ، توحید، نبوت، قیامت اور امامت، ان میں گمان پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔

شیخ مقداد الربیعی : محقق و استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018