20 شوال 1445 هـ   29 اپریل 2024 عيسوى 12:20 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-03-10   179

اثبات وجود خدا کے تین مراحل

انسان کی خلقت خدا کے وجود کی دلیل

اگرچہ  بلیان ریوڑ کی صورت میں نہیں رہتیں لیکن ان کا کثرت سے موجود ہونا ایک ایسا شور وغل ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ (رچرڈ ڈاکنز)

اس دانشور کا یہ مقولہ آج کے الحادی فکر رکھنے والوں کی عمومی پالیسی کی غمازی کرتا ہے۔ یہ الحاد کے پیروکاروں کو اپنے الحاد میں شرم و عار کو ترک کرنے کی ایک طرح کی دعوت بھی ہےاور یہ کہ وہ اپنے مشترک دشمن یعنی معبود حقیقی سے لڑنے کے لئے ایک ہی صف میں کھڑے ہوجانے کا ایک بہانہ۔ یہی وہ بات ہے جس کی بنیاد پر ملحدین ایک کھوکھلی بات کو لے کر خدا پر ایمان رکھنے والوں کے استدلال و براہین کے مقابلے میں کھڑے ہوتے اور ان کی مضبوط دلیلوں کا انکار کرتے ہیں۔ دینی براہین کے مقابلے میں ان ملحدین نے جو موقف اختیار کیا ہے اس کے بارے میں مشہور فلسفی جیریمی والڈرون کہتے ہیں: ملحدین کا یہ دعوا کہ وہ دینی براہین کی ماہیت و حقیقت کو جانتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ معبود کے بارے میں جو ادلہ بیان کی گئی ہیں وہ ایسی دلیلیں ہیں جن کا سارا دار ومدار آتش جہنم کے خوف پر ہے یا یہ ادلہ ایک عام یا خاص وحی سے مستند ہیں۔ اس کے ساتھ وہ اپنی اس بات پر مزید تاکید کے لئے رالز یا ڈورکن فلسفی کی پیچیدہ دلیلوں میں سے ایک دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے برعکس وہ خود اندر سے یہ اعتراف رکھتے ہیں کہ ان دینی براہین کی گہرائی میں جاکر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم  دانشور حضرات  یہ سمجھتےہیں کہ چیزوں کے متعلق یہ تصویر تحریف شدہ ہے۔ ( الخرافۃ الاخیرۃ ۔۔ تفنید الحاد الجدید، اڈورڈفیزر،ص۵۳)۔

ہم اس مقالے میں ان ادلہ میں سے ایک پر گفتگو کریں گے اور دلیل استقراء کے ذریعے احتمال کی قدر و قیمت کو معین کریں گے۔ یہ دلیل وہ ہے جس کو سائنسی اداروں اور یونیورسٹیوں میں کافی معتبر قرار دیا گیا ہے۔ بہر کیف ہر حادثہ اور سائنسی ایجاد میں سائنسدان اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے  ایک طریقہ اور منھاج اختیار کرتے ہیں جو درجہ ذیل تین بنیادی مرحلوں پر مشتمل ہے:

۱۔ ان حوادث و حالات کی ریسرچ کرنا، جن کے آپس میں کوئی رابطہ پایا جاتا ہے۔

۲۔ سابقہ معلومات کو جمع اور ان کا مطالعہ کرنے کے بعد ان اشیاء کے وجود میں آنے کے سبب کا صحیح فرضیہ بتانا  اور اس کی درست تفسیر و تشریح کرنا۔

۳۔ اس مرحلے میں ہم یہ تحقیق کریں گے کہ مرحلہ دوم میں جو فرضیہ صحیح ہے تو اب مزید یہ تحقیق کریں گے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ حوادث و واقعات بغیر کسی سبب کے بھی وجود میں آسکتے ہیں یا نہیں یا یوں مطالعہ کرنا کہ مذکورہ ربط و تعلق سے حاصل شدہ نتائج ہوئے ہیں اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ ان حوادث و واقعات کے رونما ہونے کے اپنےاسباب کے علاوہ فلاں سبب بھی اتفاقا ہوسکتا ہے یا نہیں؟ یہ تحقیق کی جائے گی کہ کیا یہ حوادث و واقعات ان اسباب کے بغیر بھی وجود میں آسکتے ہیں جن کو ہم نے ثابت کیا ہے؟ اور اگر ہمارے لئے ان اشیاء کے اپنے ہی اسباب کے علاوہ کسی اور سبب کو ثابت کرنا مکن نہ ہو تو اس سے ثابت ہوتا ہےکہ ہمارا نظریہ بالکل صحیح ہے۔ پس جب کسی بھی شے کے وجود میں آنے کے خاص سبب کے علاوہ کسی اور سبب کے دخیل ہونے کا احتمال کمزور ہونے لگے تو ریاضیاتی فرمولے کے تحت یہ احتمال گرتے گرتے ایک فی صد سے بھی کم رہ جاتا ہے اور ہمیں علم حاصل ہوتا ہے کہ جو سبب ہم نے سمجھا تھا وہی اس شے کے وجود میں آنے کا حقیقی سبب ہے۔ یوں ہم کامل یقین پر پہنچتے ہیں۔

کسی بھی علمی یا سائنسی حقیقت کو ثابت کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ بلکہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بھی اسی طریقے پر عمل کرتے ہیں۔ مثلا آپ کو ایک خط مل جائے اور آپ کو پتہ چل جائے کہ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ آپ کے بھائی کا ہے۔ یہاں آپ کو اس کا علم اس لئے حاصل ہوا ہے کہ اس میں لکھنے کا اسلوب و انداز، طرز تحریر وہی ہے جو آپ کے بھائی کا ہے۔ یہاں بھی درحقیقت آپ نے وہی مذکورہ تین طریقوں یا تین مراحل کو طے کیا ہے جن کو علماء اور سائنس دان اشیاء کی حقیقت کو کشف کرنے کے لئے اختیار کرتے ہیں۔  یہاں بھی پہلے قدم میں چند چیزیں ظاہر ہیں اور وہ یہ کہ اس خط میں  تمہارے بھائی کا ہی پورا نام  لکھا ہوا ہے اور یہ تحریر بھی تمہارے بھائی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ، اس میں جو طرز تحریر ہے وہ بالکل تیرے بھائی کا ہی ہے۔ یہاں تک کہ املائی اور گرامر کے قواعد کی غلطیاں بھی بالکل ویسی ہی ہیں جو آپ کا بھائی معمولا کیا کرتا ہے، اس میں ایسے اسرار اور پوشیدہ باتیں لکھی ہیں جن کو سوائے تیرے بھائی کے کوئی اور نہیں جانتا۔ ان تمام نکات کو جمع کرنے کے بعد اب آپ دوسرے مرحلے میں ایک اور فرضیے پر پہنچتے ہو اور وہ یہ ہے کہ یہ خط آپ کے بھائی کا ہی ہے۔ اب اگر یہ آپ کے بھائی کا ہے تو واضح ہے کہ پہلے مرحلے میں جو کچھ سمجھا اور کشف کیا تھا وہ سب اس میں من و عن موجود ہیں۔ یہاں تک دوسرا مرحلہ مکمل ہوا  اب تیسرے مرحلے میں آپ اپنے آپ سے  درجہ ذیل سوالات کریں گے :

اگر یہ خط میرے بھائی کا نہیں ہے تو یہ کیسا اتفاق ہوا ہے کہ اس خط میں وہ تمام معلومات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کو میں نے پہلے مرحلے میں دیکھا ہے؟ یہ امکان بہت سارے مفروضات اور احتمالات کا محتاج ہے۔ ان فرضی معلومات تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے شخص کو فرض کریں جس کا نام میرے بھائی ہی کا نام ہو، اس کا انداز تحریر بھی میرے بھائی کا جیسا ہی ہو یہاں تک کہ  اس کی املائی غلطیاں بھی اتفاق سے میرے بھائی کی غلطیوں کی طرح ہوں، وہ میری ان تمام معلومات کو بھی جانتا ہو جن کو میرا بھائی جانتا ہے اور وہ میرے ان رازوں سے  بھی بالکل اسی طرح واقف ہو جس طرح میرا بھائی ہے۔ اس طرح اور کوئی شخص بعینہ ایسا ہی خط لکھ دے جس طرح میرے بھائی نے لکھا ہے۔ ایسا احتمال بہت کمزور ہے۔ پس جب یہ احتمال بہت کمزور کہلایا اور پہلا فرض صحیح نکلا تو ثابت ہوا کہ یہ خط میرے بھائی کا لکھا ہوا ہے۔ لہذا جب بھی اس دوسرے احتمال میں اتفاق کا پہلو بڑھتا جائے گا اسی حساب سے اس میں ضعف اور کمزوری میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ احتمال سائنٹیفک لحاظ سے اتنا کم قیمت ہوجائے گا کہ پہلے احتمال کے مقابلے میں اس پر کوئی  آدمی بھی توجہ نہیں دے گا۔

جب ہم نے دلیل استقرائی جو احتمال کے حساب و کتاب کے تحت قائم ہوتی ہے، کے عام علمی سائنٹیفک طریقہ کو جان لیا تو اب مرحلہ آتا ہے کہ ہم اسی طریقہ کو مذکورہ تین مراحل کے مطابق خالق کائنات کے اثبات پر تطبیق کریں:

پہلا مرحلہ: ہم دیکھتے ہیں کہ موجودات کا ایک عظیم منظم مجموعہ ہے جو بالکل ایک نظم و ترتیب کے ساتھ ہمیشہ سے جاری و ساری ہے اور ایسے ہی بہت ساری ایسی مشترک چیزیں ہیں جو اس کرہ ارضی میں انسان کی ضروریات اور اس کی زندگی کی آسانی فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ان چیزوں پر انسان کی زندگی کا اتنا انحصار ہے کہ اگر یہ نہ ہوں تو انسانی زندگی کا پہیہ رک جائے گا۔ یہاں ہم چند مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں:

زمین اپنے سر سبز و شاداب رہنے  اور زندہ کائنات کی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر سورج سے ایک خاص مقدار میں حرارت حاصل کرتی ہے۔ نہ اس سے زیادہ لیتی ہے اور نہ اس سے کم۔ سائنسی لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ زمین اور سورج کے درمیان ایک متعادل  فاصلہ ہے تاکہ زمین اور زمینی موجودات کے لئے مناسب حرارت ملتی  رہے۔ پس اگر یہ فاصلہ بڑھ جائے تو زمین تک مطلوبہ حرارت نہیں پہنچے گی ۔ جس کے نتیجے میں کوئی چیز موجودہ شکل میں جاری و ساری نہ رہے گی اور اگر یہ فاصلہ کم ہوجائے تو چونکہ سورج کی حرارت اور گرمی میں شدت آئے گی اس صورت میں بھی کوئی چیز زندہ نہ رہ سکے گی۔ پس ایک متعادل فاصلہ برقرار ہے جس کی وجہ سے یہ سب  زمینی موجودات زندہ ہیں اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ ایسے ہی یہ مثال بھی قابل غور ہے کہ ہوا میں موجود آکسیجن بھی زندہ موجودات کی مناسبت سے ہی پائی جاتی ہے۔ زمین اور پانی کے اجزاء کے درمیان  شدید کیمیائی رد عمل کی وجہ سے تقریبا ۸۰ فیصد آکسیجن زمین کی پرت اور سمندروں میں  موجود ہے جبکہ اس کا  ۲۱ فیصد ہوا میں موجود ہے اور یہ مقدار زندہ موجودات کے سانس لینے کے لئے کافی ہے۔ اس سے  نہ زیادہ کی ضرورت ہے اور نہ اس سےکم کی۔ اگر  یہ مقدار مذکورہ تناسب سے بڑھ جائے تو ماحول میں اتنی حرارت پیدا ہوجائے گی کہ جس سے ایک تیز شعلہ ور آگ لگ جائے گی ۔ اگر یہ مقدار کم ہوجائے تو بھی زندگی گذارنا مشکل ہوجائے گی اور پھر خود آگ بھی جل نہ سکے گی۔ لہذا اتنی ہی مقدار میں آکسیجن کا ہونا  ہی ضروری ہے ساتھ ہی اس کا دوسری گیسوں کے ساتھ مخلوط ہونا بھی لازمی ہے۔ خاص طور سے ہوا میں موجود نائٹروجن کے ساتھ اس کا مخلوط ہونا سبب بنتا ہے کہ بغیر کسی نقصان کے اس سے استفادہ کیا جاسکے۔ نائٹروجن ایک وزنی گیس ہے۔ یہ اس وقت ہی ہوا میں بلند ہوسکتی ہے جب آکسیجن کے ساتھ مل کر کچھ ہلکی ہوجاتی ہے تو پھریہ اس قابل ہوتی ہے کہ زندہ موجودات اس سے سانس لیتے وقت استفادہ کریں۔ البتہ یہ گیس آگ کے پھیلنے میں مدد نہیں دیتی۔ اس استقرائی دلیل کے ذریعے سائنسداوں نے نظریہ قائم کیا کہ ہوا میں ۲۱ فیصد اوکسیجن جو پائی جاتی ہے اس کی یہ مقدار ہوا میں موجود ۷۸ فیصد نائٹروجن کے ساتھ بالکل مناسب ہے۔ لہذا اگر آکسیجن کی مقدار بڑھ جائے یا نائٹروجن کی مقدار کم ہوجائےتوان دونوں سے مناسب مرکب حاصل نہ ہو سکے گا اور آکسیجن کی بھی مناسب پتلی مقدار حاصل نہ ہوسکے گی۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نباتات اور حیوانات بھی ایک دوسرے کو اسی آکسیجن کے استعمال سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ مثلا انسان یا دوسرے حیوانات کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں جبکہ نباتات اس کاربن ڈائی آکسائڈ کو آکسیجن میں تبدیل کرکے ہوا میں شامل کر دیتے ہیں جس سے انسان اور دوسرے حیوانات استفادہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا عمل نہ ہو تو انسان کے لئے زندگی گذارنا محال ہوجائے گا۔ اسی سیارہ زمین پر ہوا کی جو مقدارموجود ہے یہ بھی انسانی زندگی کی بقاء کے لحاظ سے متناسب ہے اور اگرزمین میں ہوا کی یہ مقدار زیادہ ہوجائے تو ماحولیاتی دباؤ میں اضافے کا باعث ہوجائے گا اور پھر اس صورت میں زندگی کا جاری رہنا محال ہوجائےگا اور اگر زمین میں ہوا کی مقدار کم ہوجائے تو فضامیں جو پردہ  (اوزون) موجود  ہے وہ  کمزور پڑ جائے گا اور مختلف قسم کے شہاب  داخل ہوجائیں گے اور وہ زمین سےٹکرا  بھی جائیں گے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کا باقی رہنا ممکن نہ رہے گا۔

جس طرح سطح زمین بھی ایک خاص کمیت تک کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کو جذب کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ موٹائی وجود میں آتی ہے۔ اگر زمین اس سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کو جذب کرتی تو یہ موٹائی حاصل نہیں ہوتی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر سطح زمین موجودہ حد سے تھوڑی بہت بھی موٹی ہوتی تو زمین ان دونوں قسم کی گیسوں کو پورا جذب کرلیتی جس کے نتیجے میں زمین پر زندہ موجوداتت کا باقی رہنا محال ہوجاتا۔ یہی حال کائنات کے دوسرےلاکھوں موجودات کا ہے۔ ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں سوائے اس کے کہ یہ انسانی زندگی کو جاری رکھنے کی خاطر مسخر کئے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :" الم تروا انّ اللہ سخّر لکم ما فی السمٰوات والارض و اسبغ علیکم نعمہ ظاھرۃ و باطنۃ۔" (سورۃ اللقمان/۲۰)

دوسرا مرحلہ: ہم دیکھتے ہیں کہ ان لاکھوں موجودات کا اس طرح کا نظام اوریہ سب چیزیں انسان کی خدمت کے لئے مسخر کئے گئے ہیں ان میں ممکن ہے کہ ہم ایک ہی فرض درست سمجھیں اور وہ یہ کہ کائنات کی ان تمام اشیاء کا ایک حکیم خالق و معبود ہے جس نے اپنے حکیمانہ ارادہ کے تحت اس کائنات کو انسان کی خاطر پیدا کیا ہےیعنی اس نے انسانی زندگی کی ضروریات کے لحاظ سے جس چیز کی بھی ضرورت تھی اسے پیدا کیا ہے۔

تیسرا مرحلہ ہم اپنے آپ سےسوال کریں گےکہ اگر ایک خالق حکیم کو فرض کرنا  واقعا صحیح اور ثابت  نہ ہو تو دیکھیں گے کہ یہ احتمال کہاں تک صحیح ہے کہ کائنات کے یہ سارے موجودات بغیر کسی مقصد اور ہدف کے یوں ہی اتفاقی طور پر وجود میں آئے ہیں؟یہ احتمال دینا کہ کائنات کی یہ ساری اشیاء بغیر ہدف کے ہیں یعنی یہ بڑا اتفاق ہے کہ ہوا، حرارت اور آکسیجن وغیرہ سب کی مناسب مقدار بس ایک اتفاقی امر ہے۔ بس اتفاق سے انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ہوا میں آکسیجن کی مناسب مقدار باقی رہتی ہے، یہ اتفاق کی بات ہے کہ سطح زمین  کی یہ حد ہے تاکہ ہوا مین ساری آکسیجن جذب نہ ہوجائے، بلکہ اس کی ایک مقدار جذب ہوتی ہے  اور اتنی مقدار ہوا میں رہتی ہے جس کی ضرورت انسان اور کائنات کے ذی نفس موجودات کو سانس لیتے وقت رہتی ہے۔ اسی طرح اتفاقا نائٹروجن کی بھی مناسب مقدار باقی رہتی ہے تاکہ آکسیجن اس سے آسانی سے مل سکے۔ غرض اس طرح کے لاکھوں اتفاقات ہیں جن  کے متعلق یہ نکتہ واضح ہے کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کی بناء پر ہوں ۔ لیکن یہ احتمال انتہائی کمزور ہے جس پر کوئی عاقل آدمی توجہ نہیں کرتا۔ پس جس طرح سے آپ اس احتمال کو ضعیف اور فضول قرار دیتے ہیں کہ یہ خط تیرے بھائی کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے لکھا ہے۔  تو کیا وجہ ہے کہ آپ کائنات کے ان تمام موجودات کی تخلیق میں اتفاق کے احتمال کو فضول اور ضعیف قرار نہ دیں حالانکہ تمہارے بھائی کے خط میں چار پانچ سے زیادہ اتفاق کے احتمالات نہیں تھے اس کے باوجود مذکورہ احتمال ضعیف قرار پایا۔ جبکہ کائنات کی اشیاء میں خالق کائنات کے علاوہ کسی اتفاق کا نتیجہ ہونے کے احتمالات اس سے بھی زیادہ ضعیف اور فضول ہیں ۔ اس لئے کہ ہم ان لاکھوں اشیاء کے درمیان ایک خوبصورت نظم اور ترتیب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایسا نظم و انسجام خود ہی یا محض ایک اتفاق کی وجہ سے وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کا ایک حکیم خالق و مدبر ہے جس نے اس طرح کے نظم و ترتیب کے تحت پیدا کیا ہے  اور اس کی تخلیق  ایک خاص ہدف اور مقصد ہے۔ 

یوں ہم ایک یقینی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کائنات کا بھی ایک حکیم خالق ہے۔ اس نے ایک خاص ہدف کے مطابق یہ کائنات سجائی ہےاور اسی مقصد کی خاطر ان اشیاء کو انسان کی تسخیر میں قرار دیا ہے۔ تاکہ انسانی زندگی آسانی کے ساتھ  جاری و ساری رہ سکے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے سائنسدانوں نے  اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ ہم ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کرتے ہیں:

مایکل ڈنٹن اپنی کتاب ( معجزۃ الانسان۔۔۔۔۔  کائنات کیسے انسانی وجود کے فائدے میں مسخر ہوگئی! ص۲۲) کے مؤلف کہتے ہیں:

"دلیلیں بھر پور انداز سے ثابت کرتی ہیں کہ  کائنات میں ایک مناسب فطری نظام موجود ہے اور یہ منفرد انداز سے زمین پر زندہ موجودات ، خاص طور سے انسانی زندگی کی خاطر قائم اور انسانوں کی کی تسخیر میں دیا گیا ہے۔ ہماری مذکورہ دلیلیں اگرچہ ایک پہلو سے دینی کتاب اور دین کی تقلیدی دلیلوں سے مختلف ہیں لیکن  یہ ادلہ دینی دلائل کے ساتھ بالکل موافقت  بھی رکھتی ہیں۔"

بلکہ بعض الحاد کے قائلین بھی اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک سٹیفن ہاکنگ جو نظریاتی اور کائناتی طبیعیات دان  ہیں، وہ کیمبرج یونیورسٹی میں یونیورسل تھیوریز کا ریسرچ ڈائریکٹر بھی ہے وہ کہتے ہیں:

" یہ حقیقت قابل توجہ ہے کہ ان اشیاء کا اس قدر باریک نظم و ترتیب کے ساتھ پایا جانا دلالت کرتا ہے کہ یہ زندگی کی نشو نما کی خاطر خلق کی گئی ہیں۔"  ( کتاب الضبط الدقیق لقوانین الطبیعۃ) لاک بارنز۔  

شیخ مقداد الربیعی:  محقق و استاد حوزه علمیہ

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018