20 شوال 1445 هـ   29 اپریل 2024 عيسوى 2:55 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-03-10   311

دنیا کے سب سے مشہور ملحد کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ کیا بنی ؟

دنیا میں عام طور پر جب کوئی جرم وقوع پذیر ہوتا یے، مثلا کہیں کوئی قتل ہو جائے تو قاتل کی تلاش کے سلسلے میں ان تمام آثار و شواہد کو اکھٹا کیا جاتا ہے جن سے ممکنہ طور پر قاتل تک پہنچا جا سکتا ہو، جیسے سگریٹ کی بٹ یا زمین پر قدم کے نشانات وغیرہ کہ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قاتل سگریٹ پینے والا اور پاؤں کے آثار کے مطابق مثلا 6 فٹ قد کا حامل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس قسم کی دلیل سے ہمیں زیادہ سے زیادہ گمان ہی حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ اس گمان کے غلط ہونے کا امکان بھی موجود ہے کہ وہ بندہ 6 فٹ سے کم یا زیادہ قد کا حامل ہو اور اس نے جوتا اپنے پاؤں سے بہت بڑا پہنا ہوا ہو یا مثلا وہ سگریٹ نہ پیتا ہو اور جو موقع پر سگریٹ ملی ہے وہ کسی اور کی ہو۔پس جو نتیجہ ہم نے اخذ کیا تھا اس کا صحیح مانا جانا مزید دلائل اور قرائن کے ساتھ مشروط رہے گا۔

تو کیا خدا کے وجود پر دی جانے والی دلیل کی حیثیت بھی اسی طرح کی ہے؟  اگر خدا کے وجود پر دلیل بھی واقعا اسی طرح ہے تو پھر وہ خدا حقیقت میں ایک ایسی ذات ہے کہ جسے اس خالی جگہ پر رکھ دیا گیا ہے جسے ابھی تک علم پر نہ کر سکا ہو۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خدا اس وقت تک رہے گا جب تک علم اس کی جگہ نہ لے اور اس خالی جگہ کے بارے میں جونہی علم آئے گا خدا کی گنجائش ختم ہو جائے گی۔

ہمیں پہلے اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ ویلئم بیلی جیسے بعض سطحی لاہوتیوں کی دلیلیں بالکل اسی نوعیت کی ہیں، اسی لئے ملحدین نے ان دلیلوں کو اپنی تنقید کے نشانے پر رکھے ہیں

معروف اور معاصر امریکی دانشور ایڈورڈ ویزر کہتا ہے کہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ملحدین ویلئم بیلی کی دلیلوں کو اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ میرے خیال میں اس کی واحد وجہ ہے کہ در اصل بیلی ان کے لئے بہت حد تک ایک آسان ہدف ہے، بلکہ اگر بیلی نہ ہوتا تو یہ ملحدین خود ہی کسی کوبیلی بناتے یا پھر وہ کسی اور سادہ و سطحی شخص کو تلاش کر لیتے تاکہ اس پر وہ خود آسانی سے غالب آتے رہتے ۔

جس طرح ڈسکوری انسٹیٹیوٹ کے سائنس دانوں کا خیال ہے  اور "انٹیلیجنٹ ڈیزائن" کتاب کے مصنف سٹیفن ہائر نے لکھا ہے کہ موجودہ دور کے ماہرین فلسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ مختلف نظریات میں سے کامل نظریے کی تشخیص کے لیے بہترین قاعدہ بہترین علت کی تشخیص ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی واقعے کی علت کو جاننے کا عمل دراصل بہت سے مفروضوں اور احتمالات کی فہرست تیار کرنا ہے اور پھر ان مفروضوں اور احتمالات کے سلسلے میں موجود دلائل و بیانات کی روشنی میں ان کے درمیان مقائسہ کرنا اور سب سے بہتر علت کی تشخیص کرنا یے ۔اس کے لئے تمام مفروضوں اور احتمالات میں سے جن میں علیت کمزور دکھائی دے انہیں ایک ایک کر کے حذف کرتے جانا اور بالاخر سب سے مضبوط اور مستحکم علت ہی باقی رہے گی اور اسی کو بہترین علت اور اس واقعے کی تفسیر کے طور پر اخذ کیا جائے گا ۔ بلکہ ہمارے زمانے میں سب سے زیادہ معروف نظریہ جسے ڈارون کا نظریہ ارتقا کہا جاتا ہے بھی اسی طریقہ استدلال کے ذریعے وجود میں آیا۔  چارلس ڈارون نے اپنے دوست آلسہ جرائی کو لکھا کہ میں نے اپنے اس نظریے کے لیے جانداروں کے سابقہ اشتراکات کو مودر توجہ قرار دیا تاکہ میں ان کا مقائسہ کر سکوں اور ان مفروضوں کے ساتھ کہ جو رائج ہیں جغرافیائی تقسیم, جیولوجیکل تاریخ اور جانداروں کے مشابہات وغیرہ کے بارے میں میں نے دیکھا کہ یہ طریقہ استدلال دراصل ایک دوسرے سے ملتے جلتے عام نظریات و مفروضوں کی تشریح و وضاحت پر قائم ہے.  سائنس ہم پر یہ لازمی قرار دیتا ہے کہ ان میں سے سب سے اہم اور افضل کو قبول کرے اور اس کی پیروی کریں جب تک اس سے بہتر کوئی اور نظریہ قائم نہیں ہوتا۔

قران مجید میں اللہ تعالی نے بڑی وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ کافروں اور ملحدوں کے پاس ظن و گمان کے سوا کوئی دلیل موجود نہیں ہے ان کا انحصار قطعی دلائل پر نہیں ہے۔ آیت مجیدہ (إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ) الأنعام: 116:کی تفسیر کرتے ہوئے سید عبدالاعلی سبزواری فرماتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے لوگوں میں سے اکثر  اپنے اعتقادات اور احکام میں گمان اور ظن پر تکیہ کرتے ہیں اس لیے جن چیزوں کی طرف وہ بلاتے ہیں اور جن چیزوں سے وہ منع کرتے ہیں ان میں ان لوگوں کی پیروی کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ گمان دراصل جہالت پر مشتمل ہے پس کیسے اس کے ذریعےاس  واقع کو درک کیا جا سکتا  کہ جس پر یقین اور اطمینان ہونا ضروری ہے؟  اس لیے خداوند متعال نے فرمایا: (وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ) وہ اپنے مذہب اور اپنے نظریے کے بارے میں یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ علم اور یقین کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں۔ بہرحال اس بات کی طرف توجہ رہنی چاہیے کہ جن دلائل پر مومنین بھروسہ کر سکتے ہیں وہ علم ریاضی اور علم ہندسہ کے قوانین کی طرح قطعی اور یقین آور ہوتے ہیں۔ وہ صرف بعض خاص معاملات کی تفسیر کے لیے فرض کیے گئے مفروضوں پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ ایسے ادلہ  و براہین پر بھروس رکھتے ہیں کہ جن کے مقدمات اگر درست ہوں تو یقینی نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس خاص نقطے کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے سب سے مشہور برطانوی ملحد انطونی فلو الحاد کو ترک کر کے خدا کے وجود کے قائل ہوئے,  جب اس نے ملحدین کے دلائل کے خلاف فلاسفہ کی پہلی دلیل کا مشاہدہ کیا اور یہ دیکھا کہ ان کا اعتماد ظن اور گمان پر نہیں ہے

2004میں انطونی فلو نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ وجود خدا کا قائل ہو گیا ہے جبکہ اس وقت تک وہ دنیا کا سب سے بڑا اور مشہور ملحد تھا۔ جب اس سے اپنی تبدیلی کے بارے میں سوال کیا گیا  تو اس نے کہا کہ دراصل فلسفی دلائل ہی اسے اس نظریے تک لے آئی ہیں کہ یقینا اس کائنات کا کوئی خدا ہے۔

 خصوصا جب اس کائنات کی سب سے پہلی علت کے بارے میں تحقیق و جستجو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جس طرح ارسطو تالیس نے بھی بیان کیا ہے ۔

انطونی فلو کی بات حیران کن ضرور ہے لیکن اس لیے نہیں کی اس نے الحاد کو ترک کیا اور اللہ کے وجود کا اقرار کیا بلکہ اس لیے کہ اس نے وجود خدا پر دلیل کے طور پر انہی ادلہ کو پیش کیا کہ جن کو پہلے وہ الحاد پر دلیل سمجھتے تھے ۔

انطونی فلو گزشتہ 50 سالوں سے مشہور ترین اور موثر ترین ملحد کے طور پر معروف تھا اس نے الحاد کو ترک کیا تو اس کی عمر 81 سال کی ہو چکی تھی اس لیے اس سے توقع یہ کی جا سکتی تھی کہ ایمان باللہ کے لیے اس کی دلیل شاید پہلے سے موجود سےدلیوں سے مختلف ہوگی لیکن اس نے اپنی دلیل ارسطو کے فلسفے سے ہی حاصل کی اور کہا کہ میں ارسطو کے فلسفے میں مہارت حاصل نہیں کی تھی میں نے اس کے فلسفے کا کچھ ہی حصہ غور سے پڑھا تھا۔

شیخ مقداد الربیعی: – محقق و  استاد حوزه علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018