15 شوال 1445 هـ   24 اپریل 2024 عيسوى 9:42 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2023-01-17   730

کیا انسان ظالم ،نادان، جھگڑالو،ناشکرا، جلد باز اور کمزور ہے ؟

انسان کے لئے یہ عناوین درج ذیل آیت میں آئے ہیں :

((إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولً))(سورة الأحزاب ـ 72).

ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔

((وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا))(سورة الكهف ـ54).

 اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر مضمون کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو (ثابت ہوا ) ہے۔

((وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ))(سورة ابراهيم ـ34)..

اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

((وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا ))(سورة الإسراء ـ11)..

اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

((.....وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ))(سورة النساء ـ 28)..

اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

قرآن مجید کی درج بالا آیات کو پڑھنے والا یہ ملاحظہ کرتا ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی بڑے واضح اور کھلے انداز میں مذمت کی ہے اور اسکو قابل مذمت صفات کیساتھ متصف کیا ہے بلکہ قرآن پڑھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دیگر آیات میں انسان کی بہت زیادہ برائی کی گئی ہے  طبعی طور پر یہاں انسان سے مراد کوئی خاص فرد نہیں بلکہ عمومی طور پر انسانی نوع  کی مذمت ہے۔

اس مذمت اور برائی سے حقیقی مراد کیا ہے یہ بات ہمیں  غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہے کہ اس مذمت اور برائی سے مراد کیا ہے؟

نئی روش اور سماجی تحقیق کیساتھ اس کو پڑھنے والا عنقریب جان لے گا کہ بظاہر اس کثیر مذمت کے اندر در اصل انسان کی تعریف مخفی ہے اور اس میں ایسی صفات کے موجود ہونے پر تاکید پائی جاتی ہے ۔نیز نتیجۃ انسان اس ملامت و مذمت کا مستحق ہے حالانکہ قرآن ایسا ہر گز نہیں چاہتا (یعنی مذمت مقصود اصلی نہیں ہے )

اسی طرح قرآن پڑھنے والے کو ایسا لگے گا کہ یہ کوئی سرسری اور سطحی مذمت نہیں بلکہ بصورت تاکید وارد ہوئی ہے اور کئی مرتبہ مختلف چھوٹی بڑی مکی مدنی سورتوں اور مختلف حالات میں اس کو پیش کیا گیا ہے درحالانکہ یہ صفات شیدید مذموم اور منظم طور پر تنقیدی ہیں اس سے بعض لوگوں کے خیال کے مطابق عمومی طور پر ایک منفی اثر سامنے آسکتا ہے یعنی یہ واضح مذمت انسان کو منفی وجود بنا سکتی ہے (گویا یہ ایک منفی کردار کی حامل مخلوق ہے) کیونکہ قرآن نے اس قسم کے نقد کا مختلف طریقوں سے اہتمام کیا اور بلکہ قرآن تو انتہائی سخت اور خشک انداز میں انسان کی مذمت کے درپے ہوا ہے اسی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ دیا جاتا ہے کہ قرآن بغیر کسی وجہ کے انسان کی بہتان تراشی کرنے والا ہے اور اس قرآن میں انسان کا منفی کردار جنم لیتا ہے (حاشا لكتاب الله من ذلك ، کتابِ خدا  اس سے بالا تر ہے )

کبھی انسان گمان کرتا ہے کہ اس قسم کی تنقید کے پیچھے بات کیا ہو سکتی ہے ؟ نیز اس سے انسان مین ایک مایوسی کا رجحان جنم لیتا ہے اور پھر اس قسم کے دقیانوسی خیالات کے وجہ سے تہمت آمیز رویہ جنم لیتا ہے اور یہ چیز پھر انسانی تربیت اور اصلاح کی راہ میں سستی کا سبب بنتی ہے بلکہ اس قسم کی فکر تربیت کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے کیونکہ یہ نظریہ مثبت کی بجائے منفی رجحانات کو ترجیح دیتا ہے ۔

اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مستشرقین جیسے افراد ہمیشہ ہی انسان اور قرآن میں تفریق کا موقع دیکھتے رہتے ہیں اور بات کو بڑھا چڑھا کر انسان اور قرآن کے درمیان تضاد  کا تصور قائم کرتے ہیں ۔

لہذا اب ہمیں ایسے موضوعات کی تحقیق کے بعد اس قسم کی منفی فکر سے پاک کرنا چاہئے بالخصوص اس بات پر زور دینا چاہئے کہ قرآن کریم اس قسم کی مایوسی سے بہت دور ہے نیز اس قسم کی فکر انسانی تکامل سے متعلق قرآنی منطق سے مناسبت نہیں رکھتی ۔نیز اس بات پر بھی روشنی ڈالنی ہو گی کہ اس قسم کی مذمت کے اہداف کیا ہیں؟

اس اعتراض کی لمبی چوڑی بحر میں کوئی اصلیت نہیں بلکہ یہ حقیقت کو برعکس رخ ہے کیونکہ قرآن نے انسان کی حقیقت کو کھول کر اسکے سامنے رکھ دیا ہے اسکی کمزوریوں اور اخلاقی پستیوں کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اسے اپنی طول اور مشقت طلب زندگی میں کن اوصاف کا سامنا کرنا ہے اور انکو ذکر کر کے انسان کو ایسے اوصاف سے بچنے کا حکم دیا ہے اور ان کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ قرآن نے ان اوصاف کا ذکر فرما کر انسان کو انہیں اپنانے سے ڈرایا ہے (اس لئے سخت لہجہ استعمال کیا کہ کہیں تم نادانی ،ظلم، ناشکری اور نزاع جیسی صفات میں گرفتار نہ ہو جانا )کیونکہ قرآن ہر اس چیز کے پیچھے پڑا ہے جن میں مکلف مبتلا ہو سکتا ہے اور جس کے متعلق اس کو جواب دہ ہونا ہے ۔

قرآن نے جس اوصاف کے ساتھ انسان کی مذمت کی ہے وہ حقیقت ہیں جو یا تو اسے حاصل ہو چکی ہیں یا  اپنی غفلت کے سبب یہ ان میں مبتلا ہو جائے گا

انسان از لحاظ خلقت کمزور ہے اس لئے وہ اس آیت (وخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا)کا مصداق ہے  اور اپنے دوسرے بھائیوں پر ظلم کی طرف میلان رکھتا ہے  اور عطا کی گئ نعمتوں میں  کفران کرتا ہے اور کفر کی حد تک چلا جاتا ہے اس لحاظ سے یہ (إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ) کا مصداق ہے اسکے علاوہ بھی جتنے عنوان ذکر کئے گئے سب انسان پر منطبق ہوتے ہیں یہ فقط اس لئے ذکر کئے گئے کہ انسان کے ان مذموم اوصاف کی حوصلہ شکنی ہو نہ یہ کہ انسان انکو اپنائے  بلکہ اسے چاہئے کہ  ان سے گریز کرئے ۔

انسان کو جو ذمہ داری عطا کی گئی وہ اس میں سستی کا شکار ہو جاتا ہے جبکہ اس کے برخلاف ملائکہ کو جس کام کے لئے پید اکیا گیا اسی میں مشغول ہیں کوئی تسبیح کر رہا ہے تو کوئی دیگر عبادات کیونکہ وہ مجبور ہے اور انسان آزاد جو کبھی بھی کہیں بھی بھٹک سکتا ہے اس لئے سختی سے مذموم اوصاف کو قرآن میں لایا گیا ہے کہ انسان کو ان اوصاف سے بچایا جا سکے قرآن انسان کو بشارت دینے والا اور انذار کرنے والا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکے اور جو ذمہ داری اسے دی گئی ہے اسے بطور احسن انجام دے سکے اور اپنے اچھے اخلاق کو سنوار کر ایسے بری صفات  سے خود کو پاک کر سکے کیونکہ وہ اسکی طاقت رکھتا ہے اور اپنے لا تعداد استعداد کو بروئے کارلا کر  اپنی تربیت کر سکتا ہے خلاصہ کلام یہ صفات انسان کو انکا عاد بنانے کے لئے نہیں بلکہ اسکو تذکر دینے اور متوجہ کرنے کے لئے ہیں کہ خود کو ان بری صفات سے پاک رکھو ۔

کہاں یہ عظیم قرآنی منشور اور کہاں اعتراض کرنے کا والوں کا الفاظ سے بُنا ہوا مغالطہ قرآن اس قسم کی منفی فکر سے پاک و پاکیزہ ہے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018