11 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 1:41 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-11-19   1518

(شاگرد کے فرائض) اہل بیت علیھم السلام کی نظر میں استاد کے حقوق

جو شخص لوگوں کو تعلیم دیتا ہے دین مقدس اسلام اس کو اتنا بڑا رتبہ  دیتا ہے جتنی عظمت علم و معرفت کی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم طالب علم کے حوالے سے اولوالعزم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کی روایت نقل کرتا ہے اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آنحضرت نے کس قدر طویل اور بامشقت سفر کرنا برداشت  کیا،اس کا اندازہ قرآن کریم میں منقول  حضرت موسی علیہ السلام کی ان باتوں سے بخوبی ہوتا ہے :

((.... لا أبرَحُ حتى أبلُغَ مجمعَ البحرينِ أو أمضِيَ حُقُبا))(سورة كهف) ـ ٦٠

جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا ۔

جب اللہ تعالی کا ایک صالح  بندہ ملا تو حضرت موسی علیہ السلام نے خود کو اس کے سامنے شاگرد کے طور پر پیش کیا  اور اپنے استاد کو قیادت و رہبری کا حق دیتے ہوئے فرمایا :

 ((هل أتَّبِعُكَ على أن تُعلّمنِ ممَّا عُلّمت رُشداً))(سورة الكهف ـ ٦٦)

(کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟)  

جب استاد نے انہیں کسی چیز کی تنبیہ کی تو اسے قبول کیا اور جب کسی غلطی پر متوجہ کیا تو فورا اپنے استاد سے معذرت خواہی کی اور آئندہ اطاعت کا وعدہ دیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے اس عمل کے ذریعے تمام شاگردوں کو اپنے استاد کا ادب کرنے کے حوالے سے بہت بڑا پیغام دیا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بار بار فرمایا کرتے تھے کہ انما بعثت معلما مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے متعدد احادیث میں علم اور معلم کے حقوق کی رعایت کرنے پر زور دیا ہے۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام  میں بھی استاد اور شاگرد دونوں کے حقوق کے حوالے سے بڑی تفصیل ذکر ہوئی ہے کیونکہ تعلیم و تعلم کے شعبے کے لیے مکتبہ اہل بیت میں بہت زیادہ قدر و منزلت ہے۔

چنانچہ ہمارے چوتھے امام  حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام نے اپنی کتاب رسالۃ حقوق میں استاد کی قدر و قیمت کو بہت خوبصورت طریقے سے بیان فرمایا ہے جس سے استاد کی عظمت اور بزرگی واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

"حق سائسك بالعلم: التعظيم له، والتّوقير لمجلسه، وحسن الاستماع إليه، والاقبال عليه، وأن لا ترفع عليه صوتك، ولا تجيب أحداً يسأله عن شيء حتّى يكون هو الذي يجيب، ولا تحدّث في مجلسه أحداً، ولا تغتاب عنده أحداً، وأن تدفع عنه إذا ذكر عندك بسوء، وأن تستر عيوبه، وتظهر مناقبه، ولا تجالس له عدوّا، ولا تعادي له وليّاً، فإذا فعلت ذلك شهد لك ملائكة الله بأنّك قصدته وتعلّمت علمه لله جلّ اسمه لا للنّاس".

(آپ کے استاد کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اور اس کی موجودگی کا لحاظ رکھا جائے، جب وہ بولے تو اچھی طرح سنے، اورصرف اسی کی طرف متوجہ رہے۔  اس کے سامنے اپنی  آواز بلندنہ  کرے/بلند آواز سے بات نہ کرے ۔ جب اس کے سامنے کوئی سوال کرے تو اس سے پہلے خود اس سوال کا جواب نہ دے۔  استاد کی موجودگی میں کسی سے باتیں  نہ  کرے اور اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرے۔  اگر استاد کی غیر موجودگی میں کوئی اس کی غیبت کرے تو اس کا دفاع کرے۔  اگراستاد کا   کوئی عیب معلوم ہو جائے تو اس پر پردہ ڈالے۔  اس کی صفات اور خوبیوں کواجاگر کرے۔  اس کے کسی دشمن کے ساتھ نہ رہے اور اس کے کسی دوست سے دشمنی نہ رکھے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو اللہ تعالی کے فرشتے آپ کے حق میں گواہی دیں گے کہ آپ نے اپنے استاد کے پاس جاکر اللہ تعالی کے لیے علم حاصل کیا ہے اور لوگوں کی خوشنودی کے لئے نہیں۔)

دین مقدس اسلام علم کے میدان میں روز افزوں ترقی اور پیشرفت کا قائل ہے اور علم کو ہر چیز پر مقدم رکھنے اور اسے وسیع پیمانے پر پھیلانے میں کسی قسم کی قدغن کا قائل نہیں ہے۔  لہذاہمارا دین  استاد سے بھی یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ  شاگرد کے بھی حقوق کو مدنظر رکھے۔چنانچہ اسلام معلم کوبھی حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا علم شاگرد تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کرے اور علمی مواد کو شاگردوں تک پہنچانے کے لیے بہترین راستوں اور طریقوں کا انتخاب کرے اور بد اخلاقی اور نفرت انگیز رویے کے ذریعے شاگردوں کو متنفر نہ کرے۔

 ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام  تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں بخوبی نبھانے کیلئے خاص اہتمام فرماتے تھے اور تعلیم و تربیت کے شعبے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے تھے۔  چنانچہ ائمہ اطہار علیہم السلام نے اتنی درخشاں علمی میراث چھوڑی ہیں جو جہالت کی تاریکیوں میں آج بھی ہدایت کے مینار کی مانند ہیں۔ لہذا بجا طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ علم و حکمت کی پرورش و ترویج کے حوالے سے  اہل بیت عصمت و طہارت  علم و حکمت کے معدن تھے   اور اپنے اخلاق کریمانہ کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے وہ بلند ترین مقام پر تھے۔  یہی وجہ تھی کہ تشنگان علم دنیا کے گوشہ وکنار سے ان کی طرف رجوع کرتے تھے  اور ان کے گرد اس طرح گھومتے نظر آتے تھے جیسے پرندے اپنے دانہ پانی کے لئے کسی زخیرے کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے علمی اور اخلاقی فضائل و کمالات کے ذریعے ایک کامیاب ترین استاد کے لئے بہترین مثالیں پیش کیں۔ چنانچہ حسن ابن زیاد کہتے ہیں: " میں نے امام ابوحنیفہ سے سنا کہ جب ان سے سوال ہوا کہ آپ نے سب سے بڑا فقیہ کسے پایا؟ انہوں نے کہا: جعفر بن محمد ۔" اسی طرح ابن ابی لیلی نے کہا: " میں نے کبھی بھی کسی کی خاطر اپنی کوئی بات یا فیصلہ نہ بدلا سوائے ایک شخص کے  اور  وہ جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام ہیں۔"

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی کے لئے امام مالک بن انس نے فرمایا( جو خود بھی مذاہب اربعہ میں سے ایک مذہب کے امام ہیں): " میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام کو جب بھی دیکھا  ، آپ ہمیشہ متبسم اور خوش باش رہتے تھے۔ لیکن جب آپ علیہ السلام کے سامنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کیا جاتا تھا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور پیلا ہوجاتا تھا"۔ امام مالک ہی نے کہا تھا: " میری آنکھوں نے امام جعفر بن محمد علیہ السلام سے زیادہ علم و فضل اور تقویٰ میں کسی کو بہتر نہ دیکھا"۔  امام جعفر صادق علیہ السلام جہاں تمام لوگوں کی محبوب شخصیت تھے وہیں لوگوں کے دلوںمیں اپنی ہیبت و جلالت کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتے تھے۔

چنانچہ ابو نعیم  نے اپنی کتاب الحلیۃ میں اپنے استاد کے ساتھ عمرو بن المقدام سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں "جب بھی میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھتا تھا تو مجھے معلوم ہوتا تھا کہ آپ علیہ السلام انبیاء کے سلسلے سے ان کے جانشین ہیں۔"

ایمان اور اخلاق کریمانہ سے مزین اساتذہ کے لئے معاشرے میں بہت بڑا مقام اور بہت بڑی فضیلت ہے ۔ کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لہٰذا اساتذہ ہی قوموں کی ثقافتوں کے پاسبان ، علم کے داعی اور قوموں کے معمار ہوتے ہیں۔  اساتذہ ہی عصر نو کے مؤذن اور مجدد ہیں۔ اسی لیے ہر زمانے  اور ہر معاشرے میں اساتذہ کے لئے ان کی عظمت کے مطابق بہت سے حقوق دینے کا پورا اہتمام ہے جبکہ   ان حقوق میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان کے شاگردوں کی طرف سے انہیں بڑی عزت اور محبت ملتی ہے۔

 طلبہ کو ادب سکھانے اور علم کے نور سے منور کر کے انہیں اصلاح اور بھلائی کے بام عروج تک پہنچانے کی وجہ سے طلباء اپنے اساتذہ کو اپنے  والدین کی طرح عزت اور احترام دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک بار سکندر اعظم سے کہا گیا:  کہ بھلا  آپ اپنے والد سے زیادہ استاد کا احترام کیوں کرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں کہا : میرا والد میری فنا ہونے والی زندگی کا سبب ہے جبکہ میرا استاد میری ہمیشہ رہنے والی زندگی کا سبب ہے۔

ایک مخلص استاد کی عظمت اور فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام نے اپنی احادیث میں اساتذہ کی کتنی بڑی شان بیان کی ہے۔  چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا:

"يجيء الرجل يوم القيامة، وله من الحسنات كالسحاب الركام، أو الجبال الراوسي فيقول: "يا رب أنى لي هذا ولم أعملها؟" فيقول: "هذا علمك الذي علمته الناس، يعمل به من بعدك"

قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جس کے لیے گھنے بادلوں کے برابر یا فلک بوس پہاڑوں کے برابر حسنات اور نیکیاں  ہوں گی۔  یہ شخص خود تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالی سے فریاد کرے گا : اے میرے پروردگار!  مجھے یہ سب کچھ کس طرح ملا ! جب کہ میں نے تو اتنے اعمال انجام نہیں دئیے ۔ تب اللہ تعالی فرمائے گا:  یہ تمہارا وہ علم ہے جو تم نے دوسروں کو سکھایا اور دنیا میں تمہارے بعد اس پر عمل کیا جاتا رہا۔

اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:

"من علّم باب هدى فله مثل أجر من عمل به ولا ينقص أولئك من اجورهم شيئاً، ومن علّم باب ضلال كان عليه مثل أوزار من عمل به ولا ينقص من أوزارهم شيئاً".

جس نے ہدایت کا ایک باب سکھایا اسے اس ہدایت پر عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔  اسی طرح جس نے گمراہی کا ایک باب سکھایا ، تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جو گناہ اس گمراہی پر عمل کرنے والوں کو ملے گا۔ اور ان کے گناہوں سے بھی کسی قسم کی کٹوتی نہیں ہوگی۔

شاگردوں پر استاد کے حقوق میں  سے بعض دیگر اہم حقوق درج ذیل ہیں:

استاد کی محنت کی قدردانی کریں۔

استاد کی محنت کے بدلے میں ان کا دل سے شکریہ ادا کریں اور اس کا صلہ دیں۔

استاد کے بہترین شاگرد ہونے کا ثبوت دیں اور اس کی عزت کریں۔

استاد کی علمی نصیحتوں پراسی طرح سے عمل کریں جس طرح کلاس اور سکول کے واجبات ادا کرتے ہیں۔

استاد  کی جانب سے اگر تربیت کی خاطر کوئی سختی ہو یا نظم و نسق کے حوالے سے کوئی پابندی ہو کہ جس کا مقصد اور ہدف طالب علم کو مہذب اور با اخلاق بنانا ہو تو ایسی سختیوں اور  پابندیوں کو کھلے دل سے قبول کرے اور طالب علم کو اگر کوئی بات  ناگوار گزرے یا کوئی تکلیف ملے تو درگزر کرے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018