17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 3:24 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | امامت |  انتظار فرج کا فلسفہ
2022-07-12   662

انتظار فرج کا فلسفہ

اگرچہ حضرت قائم علیہ السلام کی غیبت کا ایک طویل زمانہ گزر گیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان برابر ان کے انتظار میں ہے۔ اس لئے کہ اس کے بارے میں قرآن کریم کے ایک سے زائد مقامات پر اس مطلب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

((وعد اللّه الّذين آمنوا منكم وعملوا الصّالحات ليستخلفنّهم في الأرض كما استخلف الّذين من قبلهم وليمكّننّ لهم دينهم الّذي ارتضى لهم وليبدّلنّهم من بعد خوفهم أمناً يعبدونني لا يشركون بي شيئاً ومن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون))(سورة النور55)

ترجمہ: اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کاشر ک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بد کردار ہیں ۔ "

ایسے ہی ارشاد ربوبی ہے:

((ونريد أن نمنّ على الذين استُضعِفوا في الأرض ونجعلهم أئمة ونجعلهم الوارثين))(سورة القصص ـ 5)

ترجمہ: اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ۔"

اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بارہا اس بارے میں ارشادات فرمادئے ہیں۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا یہ ارشاد ہے :

"لو لم يبق من الدهر إلا يوم لبعث الله رجلا من أهل بيتي يملأها عدلا كما ملئت جورا"

ترجمہ: اگر دنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے تو اللہ ضرور میرے اہلبیت میں سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا جو زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔  

نیز ارشاد فرمایا: "لن تنقضي الأيام والليالي حتى يبعث الله رجلاً من أهل بيتي يواطئ اسمه اسمي، يملؤها عدلاً وقسطاً ، كما ملئت ظلماً وجورا".

ترجمہ: دن اور رات نہیں گزریں گے یہاں تک کہ اللہ میرے اہل بیت سے ایک مرد مبعوث فرمائے گا جن کا نام میرا نام ہوگا، وہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھر گئی ہوگی ۔"

امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے انتظار کا فلسفہ ایک عظیم تربیتی فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ ایک مسلمان آدمی کے لئے صحیح ثقافت کی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس پر چل کر مسلمان اپنا راستہ طے کرسکتا ہے۔ خاص طور سے انتظار فرج کا یہ مفہوم بڑے عملی مشق کے طریقوں پر مشتمل ہے یہ فلسفہ متضمن ہے ایسی دو سطحوں کا جو ایک مؤمن کی عقلی اعتبار سے بندگی کی تخلیق میں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی ممد و معاون ہیں کہ جس کا اللہ سبحانہ و تعالی ارادہ  فرماتا ہے، اور وہ دو سطح ہیں:

۱۔ روح کی تربیت اور آمادگی:

یہ کہ فلسفہ انتظار روح کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ جس کے ذریعے بحرانوں کا سامنا کرنے اور کھلے دل سے ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سے وقت کی ناگواریوں اور سختیوں کو اس نعرے کے ساتھ قبول کرنا کہ مشکل کے ساتھ  آسانی ہے ۔

((فأن مع العسر يسرا (5) أن مع العسر يسرا)) (سورة الانشراح ـ 5 ـ6)

یہ ایسا نعرہ ہے کہ جس کی وجہ سے آدمی یہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور ہے، چاہے مشکل جتنی بھی سخت اور گٹھن کیوں نہ ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو منتظر میں صبر کی توانائی کو ابھارتی ہے اور ہر امتحان و آزمایش میں اس کی ہمت کے درجے کو جانچتی ہے جیسا کہ ائمہ علیھم السلام نے اس امتحان و آزمایش کو اپنے کلام میں بیان بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ امام باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

"لا يكون فرجنا حتى تغربلوا، ثم تغربلوا، ثم تغربلوا - يقولها ثلاثاً - حتى يذهب الله الكدر ويبقى الصفو"؛

ترجمہ: ہماری آسانی اس وقت تک نہ ہوگی یہاں تک کہ تمہاری آزمائش کے ذریعے چھانٹی ہوگی، پھر تمہاری چھانٹی ہوگی، پھر تمہاری چھانٹی ہوگی (اس جملے کو امام علیہ السلام نے تین مرتبہ تکرار سے فرمایا) یہاں تک کہ اللہ ہر آلودہ کو ختم کرے گا اور خالص باقی رہ جائے گا۔ " نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

"هيهات لا يكون الذي تمدّون إليه أعناقكم حتى تمحّصوا، ولا يكون الذي تمدّون إليه أعناقكم حتى تميّزوا، ولا يكون الذي تمدّون إليه أعناقكم حتى تغربلوا، ولا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم الا بعد اياس، ولا يكون الذي تمدون إليه أعناقكم حتى يشقى من شقي، ويسعد من سعد" 

ترجمہ: دور ہے وہ چیز جس کی جانب تم گردنیں اٹھا کر دیکھتے ہو کہ یوں ہی واقع ہوجائے یہاں تک کہ تمہاری آزمائش ہوگی، اور نہیں آئے گا وہ امر جس کی جانب تم اپنی گردنیں اٹھا کر دیکھ رہے ہو یہاں تک کہ تم کو جدا کیا جائے گا ، نہیں آئے گا وہ امر جس کی طرف تم نظریں اٹھا کر دیکھتے ہو یہاں تک کہ تمہاری چھانٹی ہوگی، نہیں رونما ہوگا وہ امر جس کی طرف تم گردنیں اٹھا کر دیکھتے ہو یہاں تک کہ  تم مایوس ہوجاؤگے، نہیں ہوگا وہ وقت جس کا تم انتظار سے گردنیں اٹھا رہے ہو یہاں تک کہ جو بد بخت ہے وہ بدبخت ہوجائے گا اور جو نیک ہے وہ نیک بخت ہوجائے گا۔ "

مطلب یہ کہ انتظار، مؤمن پر آنے والی مشکلات اور سختیوں میں اس کے صبر کو آزمانے کی منزل پر ہے۔ اس امتحان و آزمایش کے توسط سے اللہ کی رحمت پر امید کر کے صبر کرنے والے بندے اور اس کی رحمت سے مایوس ہونے والے کے درمیان فرق بھی واضح ہوجاتا ہے ایسے ہی آزمایشات  کے تحمل اور ان پر صبر نیز اللہ پر حسن ظن رکھنے کی بنیاد پر لوگوں کے گروہ اور ان کے درمیان درجہ کا تعین ہوجاتا ہے کہ وہ کس طرح ان امتحانات و آزمایشات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ظاہر کے حساب سے ایک طرح کی آزمایش کی صورت ہے کہ ممکن ہے کہ ایک شخص اس امتحان کا انتخاب کرے یا اس کے ضد کو لے کر اپنے اندر مایوسی کی حالت پیدا کرے ۔البتہ انتظار کی یہ حالت جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بیان فرمایا ہے کے مطابق افضل اعمال میں سے ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : " افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اللہ تعالی "۔ ترجمہ : میری امت کے افضل اعمال میں سے افضل عمل، انتظار فرج ہے ۔ 

۲۔ظہور مقدس کی خاطر انتظار اور نگرانی کے ساتھ روح کو تیار کرنا:

یہ انتظار کے مراحل میں سے دوسرا مرحلہ ہے ۔ بلکہ یہ پہلے مرحلے سے متأخر ہے کیونکہ اس میں منتظر آدمی اپنے انتظار کا نتیجہ حاصل کرتا ہے ۔ بلکہ اپنے انتظار کے سچے ہونے کو درک کرتا ہے اس لئے کہ جو شخص بھی کسی بڑے امر کا انتظار کرے وہ ازمی طور پر اس کے لئے زمینہ فراہم کرتا اور اپنے آپ کو تیار بھی کرتا ہے اور س امر کی عظمت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے عمل کرتا ہے ، بلکہ اپنی تیاری کے مطابق اپنے اندر شوق بھی پیدا کرتا ہے۔ ایک پختہ عقیدہ رکھنے والے مؤمن کے لئے آل محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احیاء امر سے بڑھ کر کوئی اور شے ہے بھی نہیں ۔ خاص طور سے جب یہ آمادگی اور تیاری ایسے معاشرے کے تکامل و ترقی کا ضامن ہو جو نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے اوپر ایمان رکھتا ہو۔ انتظار کے یہ دونوں مرحلے عظیم ہیں البتہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ منتظر کو چا ہیئے کہ دنیا کے زر وزینت اور مال و متاع سے حقیقی زہد اختیار کرے اور تقوی کو اپنا پیشہ قرار دے اس لئے کہ یہ ایک ایسا روحانی معیار ہے جس میں دنیوی ہدف آکر اخروی ہدف کے ساتھ مل جاتا ہے ۔

اس بناء پر ہے کہ انتظار ایک مفید ثقافت ہے جس میں حرکت و عمل ہے یہ ایک منفی اور غیر ذمہ دارانہ امر نہیں ہے  جیسا کہ اس طرح کا گمان کرتے ہیں ۔ ایسے ہی انتظار کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آدمی عاجزی کے ساتھ ایک غیب کا انتظار کرے یا اس پر بھروسہ کرتے  ہوئے خالی امید کی فضا میں تیرتا رہے۔ اس لئے کہ انتظار ایک حقیقت محض ہے انتطار کا یہ معنی بھی نہیں کہ آدمی سماج سے دور ہو کر رہبانیت اختیار کرے، جس طرح سے بعض توصیفی تصورات کے پیروکار جیسے کنفیوشس ازم اور بدھ مت بھی اس طرح کے تصورات پرعمل کرتے ہیں ۔جبکہ معنی و مفہوم انتظار اس سے بالکل جدا ہے اس لئے کہ مہدی منتظر عجل اللہ  فرجہ الشریف کی معرفت رکھنے والا ایک مجاہد کی مانند ہوتا ہے۔ اس کا جہاد مشکلات پر صبر اور تحمل ہے ۔چنانچہ امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : "العارف منكم هذا الأمر، المنتظر له، المحتسب فيه، كمن جاهد – والله - مع قائم آل محمد صلى الله عليه وأله وسلم بسيفه، بل والله كمن استشهد مع رسول الله فسطاطه"

ترجمہ: تم میں سے جو اس امر کا عارف ہے اور اس کا منتظر ہے اس میں وہ ہر سختی برداشت کرتا ہے وہ (اللہ کی قسم ) اس مجاہد کی طرح ہے جو قائم آل محمد ﷺ کے رکاب میں اپنی تلوار سے لڑ رہا ہو بلکہ اللہ کی قسم ایسا ہے کہ گویا وہ رسول اللہ ﷺ کے خیمے میں ہو اور جہاد کر کے شہید ہوا ہو۔ " بلکہ منتظر شخص ہی ہدایت یافتہ ہے جس کے ساتھ گمراہی نہیں ہے۔

چنانچہ امام صادق علیہ السلام نے منتظر کی یوں توصیف فرمائی ہے:

"طوبى لمن تمسّك بأمرنا في غيبة إمامنا، فلم يزغ قلبه بعد الهداية"

ترجمہ: خوشا حال ہو اس شخص کے لئے جو ہماری غیبت میں ہمارے امر سے متمسک رہے اور ہدایت کے بعد اس کا دل ٹیڑھا نہ ہوجائے ۔ "

بلکہ منتظر آدمی فہم و ادراک رکھنے والے صاحبان عقل اور سچے معارف رکھنے والے لوگوں میں سے ہے۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام نے اس جانب اشارہ فرمایا ہے :

"تمتد الغيبة بولي الله الثاني عشر من أوصياء رسول الله صلى الله عليه وآله والأئمة من بعده، . إنّ أهل زمان غيبته، القائلون بإمامته، المنتظرون لظهوره أفضل أهل كل زمان، لأنّ الله تعالى ذكره أعطاهم من العقول والإفهام والمعرفة ما صارت به الغيبة عندهم بمنزلة المشاهدة، وجعلهم في ذلك الزمان بمنزلة المجاهدين بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله بالسيف، أولئك المخلصون حقاً، وشيعتنا صدقاً، والدعاة إلى دين الله سراً وجهراً".

ترجمہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اوصیاء اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ائمہ  یعنی بارھویں ولی کی غیبت کا زمانہ طولانی ہوگا ۔۔ بتحقیق مہدی کے زمانے کے وہ لوگ جو ان کی امامت کے قائل اور ان کے ظہور کے منتظر ہوں وہ ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہیں۔ اس لئے کہ اللہ جل ذکرہ نے ان کو ایسی عقل اور فہم و معرفت عطا فرمائی ہے جس کہ وجہ سے ان کے لئے امام کی غیبت بھی مانند مشاہدے کے ہے اور زمانہ غیبت میں ظہور کا انتظار کرنے والوں کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے سامنے تلوار سے جہاد کرنے والوں کے مانند قرار دیا ہے ، وہ سچ میں مخلص لوگ ہیں اور ہمارے سچے شیعہ  ہیں اور آشکارا و نہاں دونوں طرح سے اللہ کے  دین کی جانب دعوت دینے والے ہیں ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018