10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 2:01 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-04-24   872

والدین سے نیکی کے وضعی اثرات

اسلام نے ہمیشہ والدین سے نیکی کا حکم دیا ہے اور اولاد کو انکی رضا حاصل کرنےاور ان پر احسان کرنے پر نافقط زور دیا ہے بلکہ والدین سے نیکی کو اپنی عبادت کی بجآوری اور شرک سے پرہیز کے بعد اہم تریں واجبات اور فرائض میں سے قرار دیا ہے۔جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے زیادہ تاکید کے ساتھ والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے:

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا(24)) (سورة الإسراء ـ 23 ـ 24)

اور تمہارے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو،پس اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: میرے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔

((وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي القربى واليتامى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ))(سورة البقرة ـ 83)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔

((قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ)) (سورة الأنعام ـ 151)

کہدیجئے:آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، اور(وہ یہ کہ) تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، کیونکہ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

شارع مقدس نے والدین سے نیکی کو جنت کے حصول کا سبب قرار دیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم  نے فرمایا:

والدین سے نیکی کرنے والے بنو اگر جنت درکار ہے اور انکے نافرمان بنو اگر جہنم درکار ہے۔

بلکہ شارع مقدس نے تو اس سے بھی بڑھ کر فرمایا ہے کہ والدین سے احسان یہ ہے کہ انکو کسی شے کی طلب کےلئے سوال کرنے کی بھی تکلیف نہ دو یقیناً یہ ہمدردی اور رحمدلی کی طرف انسان کی انتہائی توجہ مبذول کروانا ہے جبکہ والدین سے احسان کے معنی اور وضاحت کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ملتا ہے کہ:احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھی طرح رہو اور انہیں کسی ایسی چیز کے مانگنے کی تکلیف نہ دو جس کی انہیں ضرورت ہو اگرچہ وہ خود مالدار ہی کیوں نہ ہوں ۔

اسلام نے والدین سے بہترین برتاؤ پر بہت زور دیا ہے پس جو ان سے محبت کرے اور محبت سے انکے سامنے عاجزی اختیار کرے  وہ امام محمد باقر علیہ السلام کے اس فرمان کا مصداق بنے گا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :تین چیزوں میں سے کسی ایک میں بھی اللہ نے چھوٹ قرار نہیں دی پہلی امانت کو ادا کرنا خواہ وہ نیک آدمی ہو یا فاجر کی، دوسری وعدہ وفا کرنا چاہئے خواہ وہ نیک آدمی سے کیا ہو یا فاجر سے ،تیسری والدین سے نیکی کا سلوک کرنا خواہ وہ دونوں نیک ہوں یا فاجر ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا؛ والدین کی اطاعت واجب ہے البتہ اگر وہ شرک کرنے والے ہوں تو شرک میں اور اسکے علاوہ دیگر گناہوں میں انکی اطاعت نہ کرو کیونکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہوتی ۔

ذکریا بن ابراہیم جب عیسائیت سے مسلمان ہوا تو اس مرحلے پر امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس سے یہ گفتگو ملتی ہے کہ جب اس نے کہا کہ میں پہلے نصرانی تھا اور اب اسلام لایا ہوں تو امام علیہ السلام نے پوچھا کہ آخر تم نے اسلام میں ایسا کیا دیکھا جو اسلام لے آئے ؟  

تو اس نے کہا خداوند عالم کا یہ فرمان:

مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ ... )) (سورة الشورى ـ 52)

آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ہی ایمان کو (جانتے تھے) لیکن ہم نے اسے روشنی بنا دیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور آپ تو یقینا سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں

امام عالی مقام علیہ السلام نے فرمایا:

" بیشک اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور پھر تین بار فرمایا اے اللہ اسکو ہدایت پر گامزن رکھ پھر امام علیہ السلام  نے فرمایا : اے ذکریا پوچھو جو پوچھنا چاہو ۔

چنانچہ ذکریا نے کہا کہ میرے ماں باپ اور اہل خانہ عیسائی ہیں جبکہ میری ماں نابینا ہے تو کیا میں انکے ساتھ گزربسرکرسکتاہوں؟ اور انکے ساتھ برتنوں میں کھانا کھا سکتا ہوں ؟

امام علیہ السلام نے پوچھا کیا وہ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں تو وہ کہنے لگا نہیں وہ اسے ہاتھ تک نہیں لگاتے ۔

اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا کوئی حرج نہیں اور ذکریا کہتا ہے کہ امام نے مجھے ماں سے نیکی کا حکم دیا اور فرمایا جب وہ مر جائے تو خود اسکی تجہیز وتکفین کرنا اور اس کی میت کسی دوسرے کے حوالے مت کرنا اور فرمایا جب تک تم مجھ سے منٰی کے مقام پر دوبارہ نہ مل لو کسی کو مجھ سے ہونے والی اس ملاقات کا نہ بتانا۔

ذکریا کہتا ہے کہ جب میں نے منیٰ میں امام علیہ السلام سے ملاقات کی تو میں نے دیکھا کہ لوگ طفل مکتب کی طرح آپکے گرد موجود ہیں ایسے میں کبھی یہ سوال کرتا ہے اور کبھی کوئی سوال کرتا ہے پھر جب میں کوفہ آیا تو امام علیہ السام کے حکم کے مطابق اپنی ماں سے نہایت حسن سلوک سے پیش آنے لگا یہاں تک کہ میں اپنے ہاتھ سے انہیں غذا کھلاتا انکا لباس صاف کرتا اور ان کا سر دھویا کرتا تھا میرا یہ حسن سلوک دیکھ کر میری ماں نے مجھ سے کہا بیٹا! جب تک تو ہمارے دین پر تھا تب تو میری اتنی خدمت نہیں کرتا تھا تو اب میری خدمت کس جذبہ کے تحت کر رہا ہے ؟

جواباً میں نے کہا کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک بزرگ شخصیت نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے تب میری ماں نے پوچھا کہ کیا وہ بھی نبی ہے ؟ میں نے کہا نہیں وہ نبی نہیں ہے بلکہ وہ اولاد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے تو میری ماں نے کہا کہ وہ ضرور نبی ہوگا کیونکہ یہ باتیں انبیاء کی وصیتوں میں سے ہیں تب میں نے کہا ماں جی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تو انکی ذریت سے ہے تو میری ماں نے کہا بیٹے تو نے بہترین دین انتخاب کیا مجھے بھی اسکی تعلیم دے تو میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا جو انہوں نے اسلام قبول کیا اور پھر میں نے انکو اسلام کی تعلیم دی تو انہوں نے ظہر،عصر ،مغرب ،عشاء کی نماز اداکی اور اسی رات وہ بیمار پڑگئیں پھرمجھے کہنے لگی مجھے کلمہ شھادت پڑھواؤ اور میں نے انکو پڑھایا وہ اسکی تکرارکرتی رہیں یہاں تک کہ انکی موت واقع ہو گئی اور جب صبح ہوئی تو میں نے انکو غسل دیا  انکی نماز جنازہ پڑھی اور خود قبر میں اتارا ۔

شریعت اسلامیہ نے جہاں اولاد کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے وہاں باپ کی نسبت ماں سے حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے اور اسکے حمل نیز ذچکی و رضاعت اور راتوں کے جاگنے اور اس جیسے دیگرمشکل امور جو بچپن میں اولاد کے لئے وہ انجام دیتی ہے اسلام نے اس پر اسے خراج تحسین پیش کیا ہے ۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے ماں اور باپ میں سے کس سے نیکی کرنے کے متعلق پوچھا کہ کون ذیادہ حقدار ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکو جواب دیا تمہاری ماں پھر اسکے بعد؟ فرمایا تمہاری ماں پھر اسکے بعد؟ فرمایا تمہاری   ماں اور پھر اسکے بعد فرمایا کہ تمہارا باپ۔

اسلام نے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا اور والدین کیساتھ نیکی کی تاکید فقط انکی زندگی تک محدود نہیں کی بلکہ انکی موت کے بعد بھی اسکو واجب قرار دیا حتی کہ والدین سے نیکی کو انکا ایسا حق قرار دیا جو ان کی موت سے بھی ساقط نہیں ہوسکتا اور اگر اسکو ان کی وفات کے بعد بھی ترک کرے گا تو والدین کا نافرمان شمار ہوگا چاہے وہ زندگی میں انکا اطاعت گزار ہی رہا ہو ۔

امام محمد باقر علیہ السلام  نے فرمایا:ایک بندہ زندگی میں اپنے والدین سے  نیکی کرنے والا ہو پھر وہ دنیا سے چلے گئے پس وہ انکے قرض ادا نہ کرئے  اورنہ  ان کے لئے استغفار کرئے   تو اسکو اللہ والدین کا نافرمان لکھے گا  اسی طرح اگر کوئی بندہ والدین کی زندگی میں انکا نافرمان ہو  ان سے نیکی نہ کرتا ہو  اور ان کے مرنے کے بعد انکا قرض ادا کرئے اور انکے لئے استغفار کرئے  تو اس کو اللہ والدین سے نیکی کرنے والوں میں سے شمار کرے گا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :قیامت کے روز نیک لوگوں کا سردار وہ شخص ہوگا جس نے مرنے کے بعد والدین سے نیکی کی ہو ۔

بنی سلمہ کے ایک فرد کو جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ملتا ہے کہ جب اس نے پوچھا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیاوالدین کے مرنے کے بعد بھی کوئی نیکی باقی رہ جاتی ہے جو کرنی چاہئیے ؟

فرمایا: ہاں ان کی مغفرت کےلئے نماز پڑھنا ،ان کے لئے استغفار کرنا اور انکے کیے ہوئے عہدوں کو پورا کرنا اور انکے دوستوں کا اکرام کرنا اور ان سے صلہ رحمی کرنا جوانکی طرف سے تمہارے رشتہ دار بنتے ہیں ۔

ممکن ہے بعض لوگوں کو یہ الجھن ہو اور وہ یہ خیال کریں کہ شاید والدین کی اطاعت ہرحال میں واجب ہے جبکہ اسکے لئے ایک ضابطہ ہے کہ انکی اطاعت ایسے مورد میں نہیں ہوتی جہاں انکی اطاعت خداوندعالم کی معصیت بنے اس قانون کا ماخذ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ہے اطاعت فقط نیکی میں ہے  اور ان کا ہی فرمان ہے  کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہی ہوتی ۔ اور اسی طرح کی دیگر احادیث(اس ضابطہ کا ماخذ ہیں )۔

والدین کی اطاعت فقط ان امورمیں متحقق ہوتی ہے جو ان کی شفقت سے تعلق رکھتے ہوں یعنی انکا حکم اگر بیٹے کے لئے انکی شفقت یا خوف  کا سبب بنے اسکے علاوہ انکی اطاعت  واجب نہیں البتہ انکی رہنمائی اور انکی باتوں کی اچھی توجیہ کو مدنظر رکھنا زیادہ افضل اور زیادہ محتاط عمل ہے اور انکی معصیت سے اجتناب کرنا چاہئیے بالخصوص جب انکا حکم دینا یا منع کرنا خود اولاد کی مصلحت کے لئے ہو نہ کہ والدین کی مصلحت کے لئے ۔

والدین سے نیکی کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اللہ کی رضا کا پیش خیمہ بنتی ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کی رضا والدین کی رضامندی میں ہے اور خدا کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔

اور اس نیکی کے بدلے نیکی کرنے والے کی عمر میں اضافہ اور اسکے رزق میں برکت  جیسے وضعی اثرات بھی ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جوچاہتا ہے کہ اسکی عمرطویل ہو اور رزق میں اضافہ ہواسے چاہئیے والدین سے نیکی کرے اور ان پر رحم کرئے ۔ اور فرمایا: خوش نصیبی ہے اسکے لئے جو والدین سے نیکی کرئے کہ اس طرح اللہ اسکی عمر میں اضافہ کرتا ہے ۔

اسی طرح والدین سے نیکی کرنا اولاد کے لئے موت کے وقت آسانی کا سبب بنتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:جو چاہتا ہے کہ اللہ اسکی موت آسان کرئے اسے اپنے قرابت داروں سے صلہ رحمی اور والدین سے  نیکی کرنا چاہئیے پس اگر وہ ایسا کرئے گا تو اللہ اس کی موت میں آسانی پید اکرئے گا اور وہ اپنی زندگی میں کبھی فقر میں مبتلا نہ ہو گا ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018