16 شوال 1445 هـ   25 اپریل 2024 عيسوى 2:05 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-09-09   510

ایمان و الحاد کے مابین علم و دانش کا مقام و مرتبہ

(سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ  أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ)

ہم انہیں اپنی نشانیاں ،آفاق اور خود ان کے نفسوں میں دکھائيں گے حتی ان کے لیے واضح ہوجائے گا کہ یہی حق ہے ،کیا تیرا ربّ کافی نہيں ہے کہ وہ ہر چيز پر گواہ اور نگران ہے ۔

یقینا ایک محقق کو انسان کی زندگی میں علم و دانش کی قدر و قیمت معلوم ہے، جبکہ قرآن کریم میں بھی علم و دانش اور تعلیم و تعلّم کی طرف بکثرت اور بڑی تاکید کے ساتھ دعوت دی گئي ہے ۔

پس اس موضوع سے متعلقہ آیات میں تدبّر کرنے والا جان لیتا ہے کہ قرآن کریم نے علم کی بہت ترغیب دلائي ہے اور ہمیشہ اسے ایمان اور یقین کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے ۔چنانچہ کئي مقامات پر ہے :

(أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَاب))(سورة الزمر ـ 9))

کیا وہ جو رات کی گھڑیاں سجدے اور قیام میں دعا کرتے ہوئے گزارتے ہيں ، آخرت سے ڈرتے ہيں اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتے ہيں کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہيں ؟!بے شک نصیحت تو عقلمند حاصل کرتے ہيں ۔

یہ واضح اور روشن دلیل ہے کہ انسان کی بلندی درجات میں علم و دانش بہت اہمیت رکھتے ہیں اور انسان کو اپنے پروردگار سے قریب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے  فرمایا:

(إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ))(سورة فاطر ـ 28).

بے شک خداوند کریم کے بندوں میں سے علماء ہی اس سے ڈرتے ہيں ،بے شک اللہ زبردست طاقتور اور بخشنے والا ہے ۔

علم و دانش کی طرف قرآنی دعوت و ترغیب نوع بشر کو دعوت دینے کیلئے ہے اور اس کو کئی بار تکرار کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔

 یہ سب علم کی اہمیت کی بڑی تاکید کرتا ہے ، حتی قرآن کریم کا کوئي صفحہ علم و دانش کی ترغیب سے خالی نہيں ہے اور اس کی اہمیت کو بیان کرتا ہے اس میں واضح دلیل ہے کہ انسان کی اپنی زندگی میں اسے اتنی اہمیت دینی چاہیے جتنا قرآن کریم نے کئي بار اسے بیان کیا ہے؛ کیونکہ علم و دانش گمراہی اور کجی سے نکلنے کی چابی ہے اور نور الہی میں داخل ہونے کی کلید ہے، خدا تعالی نے فرمایا:

(هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِين)) ( سورة الجمعة ـ 2).

خدا نے اس قوم جاہلیت میں ان میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر خدا کی آیات پڑھتا ہے ان کے نفسوں کو پاک کرتا ہے اور انہیں قرآن و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔

اور قرآن کریم نے بہت سے علوم کی تاکید کی ہے کیونکہ ان سب مین وہ ربط موجود ہے جو انسان کو اللہ تعالی کی عظمت تک پہنچاتا ہے اور انسان کو ایسا ایمان و یقین عطا کرتا ہے جس میں کسی قسم کی کجی و گمراہی نہيں ہوتی ۔

سب سے پہلے قرآن کریم نے اس علم کی طرف اشارہ کیا ہے جسے موجودات کی فزکس کا نام دینا ممکن ہ؛ے کیونکہ قرآن کی واضح آیات اور نشانیاں سبب ہيں کہ جو بھی ان میں غور و فکر کرے گا تو وہ خداتعالی کی عبودیت اور ربوبیت کی حقیقت کو پہنچ جائے گا ، خدا تعالی نے فرمایا: ((سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ))(سورة فصلت ـ53)

ہم انہیں اپنی نشانیاں ،آفاق اور خود ان کے نفسوں میں دکھائيں گے حتی ان کے لیے واضح ہوجائے گا کہ یہی حق ہے ،کیا تیرا ربّ کافی نہيں ہے کہ وہ ہر چيز پر گواہ اور نگران ہے ۔

بلکہ یہ موجودات کی تکوین سے متعلقہ آیات ان لوگوں کیلئے ہيں جو علم حاصل کرتا ہے اور سیکھتا ہے اور اپنے علوم میں غور و فکر کرتا ہے۔قرآن کریم میں ہے :

(إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ)(سورة البقرة ، 164)۔

بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت ، دن و رات کے آنے جانے، اور سمندر میں چلنے والی کشتیوں جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں اور جو کچھ اللہ تعالی نے آسمان سے پانی نازل کیا جس کے ذریعہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ و شاداب کیا اور اس میں ہر قسم کے چوپائے پھیلائے اور ہواؤں کے چلنے اور آسمانوں اور زمین کے درمیان مسخر بادلوں میں عقلمند لوگوں کیلئے نشانیاں ہيں۔

اور خدا نے فرمایا:(فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ)(سورة الأنعام ـ 96 ـ97)،

وہی صبح کو نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو سکون و آرام کیلئے قرار دیا اور سورج و چاند کو حساب کتاب  کا ذریعہ قرار دیا یہ خدائے قادر اور آگاہ کی اندازہ گيری ہے وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی اور سمندروں کي تاریکیوں میں ہدایت اور رہنمائي حاصل کرو ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کیلئے کھول کر بیان کی ہیں جو جانتے ہيں ۔

((هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُون))(سورة يونس ـ 5 ـ 6).

وہی ہے جس نے سورج  اور چاند کو ضیاء و نور قرار دیا اور ان کی منازل معین کی ہیں تاکہ تم سالوں اور حساب کتاب کو جان سکو اور خدا نے سب کچھ حق کے ساتھ خلق کیا ہے وہ اپنی نشانیاں لوگوں کیلئے کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ وہ جان سکیں ، بے شک دن رات کے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانون اور زمین میں خلق کیا ہے لوگوں کیلئے نشانیاں ہيں جو تقوی اختیار کرتے ہيں ۔

قرآن کریم نے موجودات کی تکوین سے متعلقہ آیات میں علوم فزکس کی ترغیب و تاکید پر اکتفاء نہيں کیا بلکہ خلقت بشر کی حقیقت کو تفصیل سے بیان کیا ہے جیسے خلقت بشری کی آيات کا نام دینا ممکن ہے اس بارے میں قرآن میں ارشاد ہے:

((وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا))(سورة الفرقان ـ 54)،

اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور اسے نسب اور رشتہ داریاں عطا کیں اور تیرا رب بڑا قدرت والا ہے ۔

اور خدا کا فرمان ہے :(وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أنثى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ)(سورة فاطر ـ 11)

اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی بوند سے پھر تمہیں جوڑا بنایا اور جو بھی کوئی مادہ حمل ہوتی ہے اور جو وہ جنم دیتی ہے وہ خدا کے علم میں ہوتا ہے اور جو کوئي لمبی عمر پاتا ہے یا کسی کی عمر کم ہوتی ہے وہ کتاب میں ہے بے شک یہ خدا کیلئے آسان ہے ۔

خداوند کریم نے فرمایا: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ))(سورة الحج ـ 5)،

اے لوگو! اگر تم محشر و قیامت کے بارے میں شک و شبہ کا شکار ہو تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون کے  لوتھڑے سے، پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے؛ تاکہ ہم اس حقیقت کو تم پر واضح کریں اور ہم جس کو چاہتے ہيں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہيں پھر تمہيں ایک بچے کی شکل میں نکال لاتے ہيں تاکہ پھر تم جوانی کو پہنچ سکو اور تم میں سے کوئي فوت ہوجاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش اور حرکت میں آجاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور مختلف اقسام کی پر رونق چيزیں اگاتی ہے ۔

قرآن کی بہت سی آيات ایسی ہیں جو انسان کو اس کی خلقت کے مراحل پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہيں اور اس کی دقیق الہی کاریگری کو سمجھنے کی ترغیب دلاتی ہیں ۔

قرآن کریم نے انسانی پیکر اور جہان مادی کے بیان کے بعد حیوانات کی عظیم خلقت اور ان کا انسانوں کیلئے مسخّر ہونا بیان کیا ہے انہی آیات میں سے اللہ تعالی کا قول ہے :

(وَإِنَّ لَكُمْ في الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيْكُمْ مِّمَّا في بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَعَلَيْهَا وَعَلىَ الْفُلْكِ تُحْمَلُون )(سورة المؤمنين ـ 21 ـ22)، اور بے شک تمہارے لیے مویشیوں میں عبرت اور نصیحت ہے جو اپنے پیٹ سے نکلنے والےدودھ تمہیں پلاتے ہيں اور ان میں تمہارے لیے بہت سے فائدے ہيں اور ان کا گوشت تم کھاتےہو اور ان پر اور ان کشتیوں پر تم سواری کرتے ہو۔

اور خدا تعالی نے فرمایا: (أَوَلَمْ يَرَوا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِيْنَا انْعَامَاً فَهُمْ لَهَا مالِكُونَ وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأكُلُونَ وَلَهُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ افَلا يَشْكُرُون))(سورة يس ـ 71 ـ73).

کیا وہ نہيں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنی قدرت سے مویشی پیدا کئے وہ ان کے مالک ہیں اور ہم نے انہيں ان کیلئے رام کردیا ہے پس وہ ان میں سے بعض پر سواری کرتے ہيں اور بعض کو کھاتے ہيں اور ان کیلئے ان میں بہت سے فوائد اور پینے کے مشروبات ہيں کیا وہ شکر نہيں کرتے ۔

اس سے بڑھ کر قرآن کریم نے سمندری جہانوں اور اس میں خدا کی عظیم نشانیوں کو بھی بیان کیا ہے۔

(وَهُوَ الَّذِى سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمَاً طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرىَ الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ ولَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)(سورة النحل ـ14)

وہی ہے جس نے سمندر کو مسخّر فرمایا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور نکالو جو تم پہنتے ہو اور اس میں بڑی کشتیاں دیکھتے ہو جو اس میں حرکت کرتی ہيں اور تاکہ تم اس سے فضل خدا حاصل کرو اور تاکہ تم شکر کرو ۔

اور خدا کا فرمان ہے: (وَمَا يَسْتَوى الْبَحرانِ هَذَا عَذْبٌ فُراتٌ سَائِغٌ شَرابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ اجَاجٌ وَمِنْ كُلٍّ تَأكُلُونَ لَحْماً طَريّاً وَتَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرىَ الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)(سورة فاطر ـ12).

اور دو سمندر آپس میں برابر نہیں ہوتے، ایک شیرین جس کا پینا گوارا ہے اور پیاس بجھانے والا ہے اور دوسرا کھارا کڑوا اور ان سب سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکال کر  پہنتے ہو اور اس میں بڑی کشتیاں دیکھتے ہو جو پانی کو چيرتی ہوئی چلتی جاتی ہیں ؛تاکہ خدا کے فضل و کرم کو حاصل کریں اور تاکہ تم خدا کا شکر کرو ۔

ہم نے قرآن کریم کی روشنی میں علم و دانش کےمتعلق بحث کی اور جو شواہد ہم نے ذکر کئے ہيں یہ اس بات کی واضح دلیل ہيں ؛لیکن ان متعلقہ تمام موارد کو ہم یہاں پیش نہيں کرسکتے؛ بلکہ اس کے چند نمونے بیان ہوسکے ہيں ورنہ اس موضوع کو ذکر کرنے کیلئے کثیر تعداد میں بڑی کتابوں کی ضرورت ہوگی اور یہاں اس طرح بیان کرنا ممکن نہيں ہے۔ لہذا ہم نے اختصار کے ساتھ بحث کرنی ہے؛ تاکہ ہم علم و دانش کے ایمان آور ہونے یا موجب الحاد ہونے کو سمجھ سکیں ؛یا پھر یوں کہیں کہ علماء کے ایمان یا الحاد کو جان سکیں۔ اس دور میں یہ بحث پائي جاتی ہے اور کئي لوگوں کو ترغیب ِتحقیق دلائي جاتی ہے؛ کیونکہ بعض علماء میں ایمان نہيں پایا جاتا، جبکہ بعض میں علم و دانش کی بدولت ایمان میں اضافہ ہوا ہے ۔اس سے اس موضوع کی اہمیت بڑ ھ جاتی ہے کہ اس کو مختلف زاویوں سے زیر بحث لا یا جائے ۔

اس کی ابتداء یہ ہےکہ گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے جو فلسفی مکاتب ظاہر ہوئے ہيں انہوں نے علم و دانش کے الحاد و زندیق آور ہونے کے مفہوم کو رواج دیا ہے اور ایمان کے بے فائدہ ہونے کو شہرت دی ہے یہاں تک کہ  انہوں نے یہ بات بھی پھیلائي ہے کہ ایمان سطحی چيز ہے اور طبیعت اور مادہ کی جڑیں مضبوط ہيں کیونکہ دوسرے فلسفی مکاتب کے برخلاف یہ فلاسفہ خیال کرتے ہیں کہ حس اور تجربہ ہی حقیقت کی ماہیت اور تہہ تک پہنچنے کیلئے تنہا سبب ہے جو کچھ حواس خمسہ میں نہيں آتا اور اس پر تجربہ نہيں ہوسکتا وہ محض وہم اور خیال ہے ، بلکہ اس فلسفی مکتب نے اپنی فکری طرز اور روش میں ہر غیر مادی اور غیر محسوس چيز کا انکار کردیا ہے اور اسے جنون اور پاگل پن کا خیال اور تصور قرار دیا ہے ۔

اور اس پر ایسی علمی روشوں سے تائيد کی جاتی ہے جو بہت سے مغربی مکاتب اور مدارس کی اساس ہیں اسے امانت علمی کا نام بھی دیا  جاتا ہے جس سے ہر وہ شخص مجبور ہوجاتا ہے -جواپنے علمی دعوی کو یقینی مادی اور حسی طریقہ سے ثابت نہيں کرسکتا –کہ اس نظریہ کو علمی میدان سے خارج کردیا جائے۔ جیسے جو شخص اپنے دعوی کو حسی ہونے کے باوجود تجربہ سے ثابت نہ کرسکے تو واضح طور پر اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ جن چيزوں کے تصور یا تعقل کو عقل بشری علمی اور سائنسی طریقہ سے ثابت نہ کرسکے تو ان کا انکار کردیا جائے حالانکہ ان کے علماء و سائنس دان نے نیز ان کے مکاتب و مذاہب کا یہ اقرار کرتے ہیں کہ عقل بشری اس جہاں کے تمام ثوابت اور متغیرات کو درک کرنے سے قاصر اور عاجز ہے ۔اور وہ اس میں ان تمام قدیم و عمیق مکاتب کے ببانگ دہل نظریات سے چشم پوشی کرتے ہیں جو متغیرات اور ماوراء مادی جہان کے قائل تھے ۔

اسی سے علم و علماء کے الحاد و زندقہ نے جنم لیا اور یہ ایک ایسا مفہوم و اصطلاح بن گئی جس کے بارے میں گرم جوشی سے بحثیں کی جاتی ہیں جب کبھی خالق عظيم الشان پر ایمان رکھنے والوں کی مخلوقات کے متعلق کوئي رائے پیش آتی ہے اور اس کو وہ کشف کرلیتے ہیں؛ خصوصا جب یہ تبدیلیاں مغربی اقوام کے گرجا گھروں کے مخالف انقلاب کے ساتھ واقع ہوئيں جو گرجا گھر اس وقت خالق کائنات پر ایمان کے مفہوم کے نمائندے شمار ہوتے تھے اور اس نے دو سو سال قبل گلیلیو کو ردّ کرنے میں غلطی کی تھی خاص کر زمین کے کروی ہونے کے موضوع میں ایسا واقعہ پیش آيا تھا اس کے بعد گرجا گھروں اور ایمان کو شدت سے ردّ کرنے کا نظریہ رواج پاگيا اور الحاد و زندقہ کا مفہوم  نظریاتی اور عملی حدود میں مشہور ہوگيا ۔

مادی فلاسفہ کے مطابق علم و دانش سے ایمان پیدا نہيں ہوتا اور نتیجہ میں الحاد آور نظریات جنم لیتے ہيں اور اس مکتب کے پیروکار دانشور ملحد اور زندیق ہوتے ہيں اور جو کچھ انہوں نے علمی اور فنی طریقہ سے حقیقت کے طلبگاروں میں تشویق اور تردید پھیلانے کا اہتمام کیا

اسکے برخلاف علم و دانش کے ایمان آور ہونے پر اعتقاد و یقین رکھنے والے مفکرین نے ان کے مقابلے میں سر تسلیم خم نہيں کیا اور اس مکتب کے نتائج و نظریات کو قبول ہی نہيں کیا اگرچہ انہوں نے اس کی بعض جزئيات اور محدود چيزوں کو مان لیا ان کے مطابق خدا پر ایمان رکھنے والوں میں علم و دانش فطرت سے جنم لیتا ہے اور اس فطرت کی بنیاد اثبات کے وسائل اور ذرائع ہیں اور اس میں سے مادہ کے موارد میں حس اور تجربہ یقین کی تخلیق اور حقیقت کے اثبات کیلئے صحیح اور حق معیار ہے اور وہ فطری نتیجہ ہے جو حس اور تجربہ پر قائم ہو اس فطری نتیجہ کے بغیر حس اور تجربہ اپنی ذات کو ثابت نہيں کرسکتے ؛ چہ جائيکہ وہ مومنین ایمان رکھتے ہيں کہ ہر مسبب کیلئے سبب کا وجود ضروری ہوتا ہے تاکہ اس سے مادی دنیا میں حس و تجربہ کو قبول کرلیں ۔

اور ما وراء مادی دنیا میں سببیت ( مسبب، سبب ، نتیجہ) جسے وہ غیب یا فقد کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں تاکہ وہ عظیم قوت و طاقت کے باوجود اس کی حقیقت تک پہنچ سکیں جو اپنے اسباب کی بدولت اس طبیعت و مادی دنیا کو حرکت دیتی ہے اور اس جہان میں زندگی و حیات پیدا کرتی ہے یہ وہی نظریہ ہے جس کی قرآن کریم نے ترغیب دلائي ہے کہ اس جہان مادی کے موحد اور خالق کے متعلق جستجو اور تحقیق کی جائے اور اس کے خالق وحدہ لا شریک پر ایمان اور یقین رکھا جائے اور اس طرح اس کی ایجاد  اور خلقت کرنے کا شکریہ ادا کیا جائے۔ یہ ان مادہ پرست مکاتب کے زندقہ کے خلاف ہے جو خیال کرتے ہیں کہ مادہ نے خود اپنے آپ کو وجود بخشا اور اسے کسی خالق اور موجد کی ضرورت نہيں ہے ۔

اور وہ اس مادہ کے ازلی اور اس کے قوانین کو قدیم سمجھتے ہیں اورکہتے ہيں کہ اس مادہ سے پہلے کوئي چيز نہيں اور نہ اس  کا کوئي  خالق و مالک ہے بلکہ یہ اپنی ایجاد و خلقت میں اسباب سے بے نیاز ہےکیونکہ اس کا وجود اتفاقا سامنے آیا اس سے زیادہ کچھ نہيں ہے حالانکہ ان کے اس اتفاقا پیش آنے والے واقعہ کو دور و تسلسل کے باطل ہونے کے عقلی قانون سے ردّ کیا جاسکتا ہے؛

 یا پھر اسے نمبر اور مقدار کے قانون اور نتائج سے بھی حل کیا جاسکتا ہے چہ جائيکہ اجرام سماوی کی حرکت اور نظم و ضبظ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے یہ سب ان افلاک کی حرکت کے موجد اور خالق کے وجود کی واضح تائید کرتے ہیں جو ان کی مقدار کو نظم و ضبط عطا کرتا ہے وہ قوی و متین ہے تمام جہانوں سے بے نیاز ہے ،فرمایا: اگر ان دونوں زمین و آسمان میں سوائے خدا کے زیادہ خدا ہوتے تو یہ دونوں تباہ و برباد ہوجاتے، اللہ ان کی بیان کردہ صفتوں سے پاک و پاکیزہ سے اور وہ عرش کا پروردگار ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018