11 شوال 1445 هـ   20 اپریل 2024 عيسوى 4:47 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-09-01   977

کائنات ایک حادثہ یا بنانے والے کی تخلیق

شک کرنے والے اپنے شک کی بنیاد پرکہتے ہیں کہ یہ کائنات خود سے وجود میں آئی ہے ان کے شک کے نتیجے میں تخلیق کائنات کے بارے میں جو نظام وہ بتاتے ہیں اصل میں وہ کسی بھی نظام کی نفی ہے۔یہ شک کرنے والے ہر اس دلیل کو  خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کائنات کے لیے کسی بھی منظم خالق اور صانع کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔حالانکہ کسی بنانے والے کے بغیر اس کائنات کا وجود ہی ممکن نہیں ہے چہ جائیکہ یہ کائنات وجود میں بھی آئے اور ایک منظم انداز میں آگے بھی بڑھے۔

ان شک کرنے والوں کو دیندار اور مومنین یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک عظیم خالق موجود ہے اور ان کے شکوک و شبہات کو بہت سی دلیلوں سے رد کرتے ہیں۔ہم یہاں پر تمام دلیلوں کو تو بیان نہیں کر سکتے مگر ان ادلہ میں سے بعض فلسفی دلیلوں کو پیش کرتے ہیں۔آخر میں ہم سب سے بڑی سائنسی دلیل کی طرف آئیں گے اور اسے پیش کریں گے۔باقی تفصیلات کو ہم دوسرے مقالات میں پیش کریں گے۔

برہان امکان

اس دلیل کی بنیاد امکان میں ہے ۔ایک بات واضح کرتے چلیں کہ یہاں امکان سے مراد شکوک و شبہات نہیں بلکہ مستقبل حقیقت ہے۔ایک ملحد فکر کے مطابق یہ وجود جس میں ممکن الوجود پایا جاتا ہے، اور امکان وجود سے مراد یہ ہے کہ کبھی تو یہ ہوتا ہے جیسا کہ ابھی ہے اور کبھی سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے یعنی عدم محض ہو جاتا ہے۔اس سائنسی نظریہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہ جس کے مطابق ہر موجود چیز کے وجود میں آنے کے لیے کسی علت کی ضرورت ہوتی ہے ،جو اس موجود کو عدم سے وجود میں لے کر آئے۔اب اس کو وجود بخشنے والی علت واجب الوجود ہو گا  اگر ممکن کے وجود کی علت واجب الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تو دور اور تسلسل لازم آئے گا اور یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی چیز کا خود پر موقوف ہونا محال ہے۔

برہان حدوث

اس نظریہ کی بنیاد اس فکر پر ہے کہ یہ وجود جوپیدا ہوا ہے یہ قطعی طور پر حادث ہے،اس بات کا پتہ اس وجود میں حرکت اور تبدیلی سے چلتا ہے،یہ حرکت ستاروں،دنیا میں ہونے والے دھماکوں،موت،ستاروں کا غائب ہونا اور اسی طرح ستاروں پر جو کچھ اور ان کی مسلسل حرکت اور ان تمام رازوں سے فزکس مکمل طور پر آشنا نہیں ہے۔یہ مسلسل حرکت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب حادث ہیں کیونکہ یہ حرکت کی طبعیات سے مطابقت رکھتی ہے کیونکہ حرکت کسی چیز کا ہو سکنے سے ہونے تک کا سفر ہے۔اگر ہم اس کائنات کو قدیم تسلیم کر لیں تو یہ کائنات ہو سکنے سے ہونے والے پروسس سے زمانہ قدیم سے ہی نکل جائے گی۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ  حرکت اور تبدیلی ختم ہو جائے گی اور یہ کائنات ایک ہمیشہ رہنے والے سکون کی حامل ہو گی درحالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کائنات مسلسل حرکت اور تبدیلی کی زد میں ہے اور یہ جاری و ساری ہے۔فزکس میں اسے تھرموڈینامکس کہتے ہیں،اس کے مطابق اس کائنات کے ہر ذرے کی حرارت کم ہو رہی ہے زیادہ احتیاط سے کہیں تو اس دنیا کا ہر زرہ آہستہ آہستہ اپنی حرارت کھو رہا ہے۔پس اگر یہ کائنات قدیم تھی تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ زمانہ قدیم سے ہی ٹھنڈا ہونے کا یہ سفر جاری ہو اور کم ہوتے ہوتے یہ کائنات جم جائے اور یہاں صرف سردی ہو اور یہ واقع کے خلاف ہے اور حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ اس وقت بھی دنیا میں گرمی موجود ہے ۔دوسری طرف دیکھیں تو  حادث دنیا کو وجود میں آنے کے لیے کسی ایسے محدث کی ضرورت ہوتی ہے جو قدیم ہو کیونکہ ہر حادث کسی ایسے محدث کا محتاج ہے جو بالذات قدیم ہو کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو دور اور تسلسل لازم آتا ہے جو فلسفہ میں محال ہے۔

تبدیلی اور حرکت کا برہان

اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر تبدیلی اور ہر حرکت امر حادث ہے۔اور یہ بات واضح ہے کہ ہر حادث کسی حرکت دینے والے یعنی محدث کا محتاج ہے۔ذرا مزید واضح الفاظ میں کہیں تو ہر حرکت کسی حرکت دینے والے اور تبدیل کرنے والے کی محتاج ہوتی ہے۔یہ ممکن نہیں ہے جو چیز حرکت میں ہے یا جو چیز تبدیلی کا شکار ہے وہ خود سے متحرک ہو یا خود سے تبدیل ہو رہی ہو۔حرکت ہو سکنے سے ہوجانے کا نام ہے۔کوئی بھی متحرک یا متغیر حرکت سے اس تبدیلی کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اب کیسے اس میں یہ حرکت و تبدیلی آ گئی جبکہ صورتحال یہ ہے کہ جو صلاحیت کسی کے پاس ہوتی ہی نہیں ہے وہ اسے آگے منتقل کیسے کر سکتا ہے؟

برہان نظم

اللہ تعالی اس کائنات کا خالق اور محدث ہے اس پر یقینی اور علمی دلیل برہان نظم ہے۔ اس کی بنیاد دو چیزوں پر ہے پہلی یہ کہ  اس کائنات کے لیے انتظام کا ایک طریقہ کار ہے جو اس تک محدود نہیں ہے۔اس کو تفصیل سے بیان کیا جائے تو یہ کہ اس کائنات کے ڈھانچے اور اس کے تمام اجزاء کے درمیان ایک  ترکیب موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ کائنات کے اجزاء کے درمیان موجود یہ منظم ترین ترتیب ذاتی نہیں ہو سکتی کہ خود سے ہو گئی ہو بلکہ یہ کسی عظیم مدبر اور حکیم موجد کی عطا کردہ ہو سکتی ہے جس کی مشیئت کے مطابق ایسا ہوا ہو۔یہ ناممکن ہے کہ یہ ساری تنظم و ترتیب ایک حادثہ یا اتفاق محض کے نتیجے میں آ گئی ہو۔اس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہےبالخصوص ان آیات قرآنی میں جو اس دنیا کی وسعت اور اس کی مخلوقات کو دقت سے بیان کرتی ہیں قرآن مجیدمیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (47) وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (48) وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(49))(سورة الذاريات ـ 47 ـ 49)

۴۷۔ اور آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم ہی وسعت دینے والے ہیں۔۴۸۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنایا اور ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں۔۴۹۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

(أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ))(سورة لقمان ـ 29)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے؟ سب ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں اور بتحقیق اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

قرآن مجید میں اس کے بہت زیادہ مصادیق بیان ہوئے ہیں اور احادیث میں بیان کیے گئے مصادیق ان کے علاوہ ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کی آل پاک کی زبان سے بیان ہوئے ہیں۔امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:خدا کے وجود پرقائم دلیلوں میں سب سے پہلی دلیل اس عالم  کی تخلیق ہے ،اس کے مختلف اجزاء ہیں اور ان اجزاء کی ترتیب ہے۔جب آپ اس دنیا میں غور فکر کریں گیں تو یہ بات آپ کے سامنے آ جائے گیا کہ یہ ایسے ہے جیسے ایک تیار گھر ہو اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہو جس کی کسی بھی انسان کو ضرورت ہو سکتی ہو۔آسمان اس کی چھت کی طرح بلند ہے،زمین قالین کی طرح پھیلی ہوئی ہے،ستارے چراغوں کی طرح ہیں،جواہرات خزانوں میں محفوظ ہیں،اس میں موجود ہر چیز اس کی حیثیت کے مطابق آمادہ و تیار ہے ۔انسان اس گھر میں موجود ہر چیز کا بادشاہ ہے اور عالم کی ہر چیز اس کے لیے تیار کی گئی ہے۔نباتات کو خاص مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے،جانوروں کی اقسام ہیں جو انسان کے فائدے اور مصالح کے لیے ہی استعمال ہوتی ہیں۔ان سب میں واضح دلالت ہے کہ یہ دنیا حکمت،ترتبب اور نظام کے ساتھ بنائی گئی ہے اور اس کا بنانے والا فقط ایک ہے۔امام جعفر صادقؑ نے ایک زندیق جس نے اس عالم کے خالق کے وجود کے بارے میں سوال کیا تھا فرمایا: افعال کا موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بنانے والا موجود ہے۔جب تم کسی عمارت کو دیکھتے ہو تو کیا اس سے تم یہ نہیں جان جاتے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے؟  اگرچہ آپ نے بنانے والے کو نہ دیکھا ہو اور اس کا مشاہدہ نہ ہی کیا ہو۔

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: مخلوق میں سے کوئی یہ کہے کہ اللہ اپنے بندوں سے پوشیدہ ہے تو تعجب ہوتا ہے کیونکہ جب وہ خود میں دیکھے گا تو خود اس کی اپنی تخلیق اس کی عقل کو چکرا کر رہ جائے گی،یہ صناعت اس کے انکار کو ختم کر دے گی،میری زندگی کی قسم اگر یہ لوگ ان عظیم امور میں غور و فکر کریں تو یہ عظیم الشان ترکیب،اعلی پائے کی تدبیر،وہ اشیاء جنہوں عدم سے وجود بخشا گیا،پھر انہیں ایک طبعیت سے دوسری طبعیت میں تبدیل کیا گیا،ایک سے بڑھ کر ایک مخلوق جو اپنے بنانے والے پر دلیل ہے۔

اسی طرح بنانے والے کے وجود پر دلیل دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا :میں نے خود کو دو طرفوں میں سے ایک میں پایا، یا تو اسے میں نے بنایا اور یہ وجود میں آیا ،یا یہ موجود نہیں تھا اور آپ نے اسے بنایا،(نہ میں نے بنایا اور نہ آپ نے بنایا)یا یہ کہ یہ بغیر کسی بنانے والے کے بنا، یہ بات واضح ہے کہ معدوم کوئی چیز نہیں بنا سکتا،پس تیسرا معنی ثابت ہو گیا کہ ہمارے پاس بنانے والا ہے اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018