9 شوال 1445 هـ   18 اپریل 2024 عيسوى 1:34 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2020-11-13   1415

والدین سے حسن سلوک

اسلام نے خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کیا ،خاندان کے تمام افراد کے حقوق اور فرائض کو معین کیا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کے مراتب کو بیان کیا۔ اسلام کے نزدیک خاندان اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔

والدین کسی بھی خاندان کی بنیاد بنانے کے لیے بنیادی پتھر ہیں جن سے نسل آگے بڑھتی ہے قرآن مجید میں ان دونوں کے مرتبے کو صراحت سے بیان کیا ہے اور ان دونوں پر احسان کو واجب قرار دیا ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ(الاسراء۔۲۳)

اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا(سورۃ البقرۃ ۔ ۸۳)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین کے ساتھ احسان کرو۔

ان آیات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید والدین پر احسان کو ایک بنیادی تعلیم قرار دے رہا اور اسے عربی زبان کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو اسے لفظ قضا کے ساتھ ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے قضی ربک اور دوسری جگہ اسے میثاق سے ملایا ہے اور فرمایا ہے )واذ اخذنا میثاق( یہ سب اس کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔

قرآن کریم نے والدین کے احترم کا لحاظ نہ کرنے کو بہت بڑی جسارت قرار دیا ہے اور بڑا جرم کہا ہے۔قرآن مجید کی بہت سی آیات اولاد کو اس بات پر ابھارتی ہیں کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،اس کے مقابل والدین کے لیے اولاد کا اس سے کم اہتمام کیا ہے۔اضطراری حالات میں کہا کہ جائیداد کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو اس کےساتھ ساتھ اولاد کو والدین کے لیے زینت ،تلذذ، اور آزمائش قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اولاد کو ہر جگہ مال اور تفاخر کے ساتھ ہی ذکر فرمایا ہے۔

دقت نظر سے دیکھا جائے تو والدین کے ساتھ بھلائی کو اللہ نے عبادت کے اجتماعی اظہار کا نمونہ بنایا گیا ہے۔یہاں عبادت اور اس کے اجتماعی ظاہرہ کنندہ کے درمیان فرق مشکل ہے کیونکہ والدین کے معاملے میں تھوڑی سی نافرمانی اگرچہ وہ کلمہ اف کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو وہ عبادت کو ضایع کر دیتی ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک  قطرہ سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ماں کو اس کی زیادہ قربانیوں اور محنت کی وجہ سے زیادہ حق بخشا ہے ،کیونکہ ماں ہی حمل کی زحمات برداشت کرتی ہے ،اسی طرح وہ اکیلی ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور ان کے ساتھ آنے والی مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔بچہ حمل کے دوران نوماہ تک ماں کے پیٹ میں رہتا ہے اس دوران بچہ ماں کی غذا سے غذا پاتا ہے،بچہ ماں کے اطمنان کے حساب سے مطمئن ہوتا ہے اور اس کے صحت مند ہونے کے حسا ب سے صحت مند ہوتا ہے۔اس کے بعد پیدائش کا مرحلہ آتا ہے اس وقت کی تکلیف کا اندازہ صرف اور صرف ماں کو ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس دوران ماں کی جان بعض اوقات خطرے میں چلی جاتی ہے قرآن مجید نے  وصیت کی ہے اس میں اس کا ذکر خصوصی طور پر کیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ (سورہ لقمان۔۱۳)

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے۔

اسی لیے قرآن کریم اولاد کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو ہرگز نہ بھولیں بالخصوص اپنی ماں اور اس نے جو زحمات اٹھائی ہیں انہیں فراموش نہ کرے اور ساری کی ساری توجہ اپنی بیویوں اور اولاد کو نہ دے۔

احادیث نبوی ﷺ میں دیکھا جائے تو آپ ﷺ نے والدین کے حقوق کے مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے والدین اور اللہ کی رضا کو جوڑا ہے یہاں تک کہ اسے عبادت بنا دیا ہے۔اس بات کی تاکید کی ہے والدین کا عاق یافتہ ہونا گناہان کبیرہ میں سے بھی بڑا گناہ ہے۔نبی اکرمﷺ نے اللہ کی محبت اور مغفرت کو والدین کی محبت اور اطاعت کے ساتھ جوڑا ہے۔امام زین العابدینؑ سے روایت ہے ایک آدمی نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے نبیﷺ میں نے ہر طرح کا برا کام کیا ہے کیا میرے لیے توبہ ہے؟ نبی اکرم ﷺ نےاس کے لیے ارشاد فرمایاکیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟اس نے کہا  باپ ہے آپﷺ نے فرمایا جاو اور اس کے ساتھ نیکی کرو ،جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کاش اس کی ماں ہوتی؟

نبی اکرمﷺ نے ان تعلیمات کو زندگی میں مجسم کر کے بتایا جب آپﷺ لوگوں کو ہجرت کی دعوت دے رہے تھے تاکہ آپﷺ مدینہ میں توحید پر مبنی معاشرہ قائم کر سکیں اس وقت جب مسلمان انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے ۔کتب سیرت میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک شخص آپﷺ کی طرف آیا اور عرض کی میں آپﷺ کے پاس آیا ہوں اور ہجرت پر آپ کی بیعت کرتا ہوں ،میں والدین کو اس حال میں چھوڑ آیا ہوں کہ وہ دونوں رو رہے تھے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :ان کی طرف واپس پلٹ جاو اور دونوں کو ایسے ہنساو جیسے تم انہیں رلا کر آئے ہو۔

اہلبیت نبی ﷺ کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو ائمہ اہلبیت ؑ نے قرآن کریم،نبی اکرمﷺ کے فرامین اور افعال کو جو فکری اور تربیتی اہمیت کے حامل تھے ان میں روح پھونکی ہے اور انہیں جدید اور عملی کر دیا ہےامام جعفرصادقؑ اللہ تعالی کے اس فرمان ((وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا))

میں واقع قول احسان کی تشریح کی ہے کہ احسان سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ اچھا بول چال رکھےان کو  کوئی چیز مانگنی نہ پڑے جس کی ان دونوں کو ضرورت ہے اگرچہ وہ خود لے بھی سکتے ہوں تو بھی یہ فراہم کرے۔ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا 

اس آیت مجیدہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا اگر والدین غضبناک ہوں تو انہیں اف تک نہ کہو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو انہیں اذیت نہ دو۔

ائمہ اہلبیت ؑ کا ارادہ یہ تھا کہ اسلامی اخلاق کا نظام امت مسلمہ میں متحرک رہے اور وہ ہمیشہ اسلامی معاشرے کی سلامتی کے لیے کوشش کرتے رہے۔اخلاقی نظام زندہ رہے گا تو اسلامی معاشرے کے افراد کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوں گے۔اسی لیے انہوں نے ہمیشہ اولاد کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے پر ابھارا۔انہوں نے اس طرح تربیت کی کوشش کی کہ یہ اولاد کی فطرت بن جائےاسی لیے امام علیؑ فرماتے ہیں:والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا نیک لوگوں کا کام ہے۔آپؑ کے پوتے امام ہادی ؑ فرماتے ہیں:عاق ہونا محروم ہونا ہے۔

اہلبیتؑ نے والدین کے حقوق کے مسئلہ کو صرف اخلاقی مسئلہ جس کا قرآن میں ذکر ہے کے طور پر نہیں رہنے دیا بلکہ اس کی حدود شرعی کا تعین کیا۔امام علیؑ نے والدین کے ساتھ نیکی کو بڑا فریضہ قرار دیا۔ امام باقرؑ نے والدین کے ساتھ معاملات میں ہر صورت میں نیک سلوک ہی کیا جائے گا۔ اسی طرح آپؑ نے فرمایا:تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سے ایک میں بھی چھوٹ نہیں ہے ہر نیک و بد کو اس کی امانت واپس کی جائے،ہر نیک و بد سے عہد پورا کیا جائے اور والدین کے ساتھ نیکی کی جائے چاہے وہ نیک ہوں یا بدنیک ہوں ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اسلام نے والدین کے حقوق کو مذہب اور ان کے مسلمان ہونے سے نہیں جوڑا، بلکہ اس سے قطع نظر رہ کر ان کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری قرار دیا ہے۔ امام رضاؑ فرماتے ہیں:والدین کے ساتھ نیکی کرنا فرض ہے اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں، خدا کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔امامؑ حکم شرعی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی نافرمانی کے حرام ہونے کی وجہ بھی بتا رہے ہیں فرماتے ہیں اللہ تعالی نے والدین کی نافرمانی سے اس لیے منع کیا کہ اس میں اللہ کی اطاعت سے نکلنا لازم آتا ہے،اسی طرح والدین کی عزت، کفران نعمت سے بچنے کے لیے اور شکر ادا کرنے کے لیےضروری ہے۔اس لیے اللہ نے والدین کی نافرمانی حرام قرار دی کہ یہ نافرمانی نسل انسانی کی قلت اور انقطاع کا باعث بن جاتی ،اس لیے نافرمانی حرام قرار دی تاکہ لوگ ان کا حق جان لیں اور رحم دلی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے نافرمانی کو حرام قرار دیا۔اگر نافرمانی حرام نہ ہوتی تو والدین بچوں کو چھوڑ دیتے اسی طرح والدین بچوں کی تربیت کرنا چھوڑ دینے جب انہیں پتہ ہوتا کہ بچے نے بڑے ہو کر بھلائی روک دینی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018