17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 5:09 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مسلمان شخصیات |  وہ شہید جن پر جھوٹا الزام بھی لگا۔۔۔۔ مالک بن نویرہ
2022-12-17   969

وہ شہید جن پر جھوٹا الزام بھی لگا۔۔۔۔ مالک بن نویرہ

ان کا نام مالک بن نویرہ  بن جمرۃ بن شداد بن عبید بن ثعلبۃ بن یربوع التمیمی الیربوعی ہے اور کنیت ابو حنظلہ ہے ،آپ پہلی ہجری کے جلیل القدر صحابی تھے، جنہوں نے رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا اس لئے آپ کا شمار صدر اول کے مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ رسول اکرم نے ان کو اپنی قوم یربوع کے لوگوں سے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپ دی، یہ ایک باعزت ذمہ داری ہے جو اللہ کے رسول نے ان کو دے رکھی تھی ۔ چونکہ مالک بن نویرہ احتیاط اور تقویٰ دونوں میں بلند درجے پرفائز تھے۔ اس لئے آنحضرت نے ان کو فقراء کے درمیان صدقات کی تقسیم میں اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا۔ علاوہ اس کے مالک رضوان اللہ تعالی علیہ بنو تمیم کے اکابر میں سے تھے اسی وجہ سے وہ بنو یربوع کے بھی بزرگ کہلاتے تھے۔ اس وجہ سے عرب میں ان کو اچھے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور آپ کا ایک بلند نام و مقام تھا۔ وہ ایک سخی آدمی اور نیکی کا جذبہ رکھنے والے انسان تھے علاوہ اس کے احسان و نیک رفتاری میں بھی معروف تھے۔ اپنی قوم میں ایک رعب و دبدبہ رکھتے تھے اور آپ کی بات سنی جاتی تھی ۔ مالک بن نویرہ کا اسلام لانا ان کی قوم کا بھی اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنا۔ کیونکہ ان کو مالک کی بصیرت اور دور اندیشی کا اندازہ تھا یعنی جب انہوں نے مالک کی بصیرت نافذہ اور ان کی حکمت اختیار کو دیکھی تو قوم کے بھی اسلام میں داخل ہونے کے دریچے کھل گئے۔ ان کی قوم کے سارے لوگ اسلام لائے یہاں تک کہ ایک بھی اسلام لائے بغیر نہ رہا۔ مالک بن نویرہ جس طرح بہادری اور شجاعت میں ممتاز تھے ۔ اسی طرح ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی امامت و ولایت کے عقیدے میں بھی ممتاز تھے۔ یہی عقیدہ ولایت تھا کہ جس کی وجہ سے آپ نے روز اول ہی ابوبکر کی بیعت سے انکار کردیا ۔ بلکہ انہوں نے خلافت کو ان کے حقیقی شرعی اصحاب یعنی ائمہ اہل بیت علیھم السلام سے منحرف کرنے پر لوگوں کی مذمت کی ۔ یہاں تک کہ ابوبکر کے بارے میں ان کا قول معروف ہوگیا کہ:" اپنی پسلیوں پر گھٹنے ٹیک کے رہواور گھر کی تہ میں جا کے رہو، اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو اور حق کو اس کے اہل کے حوالے کرو۔ کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ ایسے مقام پر آبیٹھے ہو جہاں اللہ اور اس کے رسول نے تمہارے غیر کو کھڑا کیا ہے اور جب تک یوم غدیر ہے حجت قائم رہے گی اور کسی کے پاس اس بارے کوئی عذر نہیں ہے ۔ " بلکہ جس وقت انہوں نے ابوبکر کی بیعت کا انکار کردیا اس وقت اپنے اس موقف کو مضبوط انداز سے واضح بھی کردیا اور ان کو اس لئے زکاۃ کی ادائگی سےمنع کردیا۔ کیونکہ آپ ان کو شرعی اعتبار سے خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے تھے اور زکاۃ اور خیرات کی رقم اس کے مالکان کو واپس کرنے پر آمادہ کیا۔ اس بارے میں یوں کہا :" میں نےکہا بغیر کسی خوف کے اپنے اموال واپس لے لو، اور میں نہیں جانتا کہ کل کیا آتا ہے ۔ پس اگر اس محو شدہ دین کو پھر سے قائم کرنے والا کوئی آیا تو ہم اس کی اطاعت کریں گے اور ہم کہیں گے کہ دین تو حقیقت میں محمد  ﷺ کا ہی ہے ۔ "

شہادت:

مالک بن نویرہ رضوان اللہ تعالی علیہ کی شہادت ۱۱ ہجری کوہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ ابوبکر نے ان کی جانب خالد بن ولید کی سپہ سالاری میں ایک بڑا لشکر بھیجا اس بہانے سے کہ انہوں نے ابوبکر کو زکاۃ و صدقات نہ دے کر اسلام سے پھر گئے اور مرتد ہوگئے ہیں۔ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کو ان کے قتل کا حکم دیا جس کے نتیجے میں مالک اور ان کے خاندان کے بھی کچھ لوگ شہید کردئے گئے ۔ لیکن مالک ان دشمنوں کی نیت جانتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو منتشر کردیا اور ان کو جمع ہونے سے منع کردیا۔ خالد بن ولید گھر میں داخل ہوا تو وہاں پر کسی کو نہ پایا۔ خالد نے اپنے فوجیوں کو بکھیر دیا اور ان کو حکم دیا کہ مالک اور ان کے قبیلے والوں کو قتل کریں۔ اتنے میں خالد بن ولید کا دستہ رات کی تاریکی میں مالک بن نویرہ کی گلی میں داخل ہوا۔ جبکہ وہ لوگ آرام کر رہے تھے۔ لیکن جب ان کو خالد بن ولید کے لشکر کی آمد کا پتہ چلا تو وہ اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اتنے میں اس لشکر کے سپاہیوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ مالک کی قوم والوں نے بھی ان کو جواب دیا کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ یہ سن کر خالد کے دستہ نے کہا کہ تو تم نے ہتھیار کیوں اٹھا ہے؟ مالک کی قوم والوں نے جواب دیا کہ تمہارے ساتھ ہتھیار کیوں ہے؟ خالد کےدستہ والوں نے جواب دیا کہ اگر تم کہتے ہو کہ مسلمان ہو تو اپنے ہتھیار رکھدو۔ اس پر مالک کی قوم نے ہتھیار چھوڑ دیا ۔ پھر دونوں فریقین نے نماز ادا کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو خالد کے گروہ نے مالک کے ساتھیوں کو حیران کردیا اور ان سب کو مالک سمیت پکڑ کر خالد بن ولید کے پاس لے آئے اس دعوے سے کہ یہ اسلام سے پھر گئے ہیں اور مرتد ہوگئے ہیں۔ جس کو مالک نے بالکل انکار کردیا اور کہا کہ میں دین اسلام پر ہوں ، نہ کچھ تغییر کیا ہے اور نہ کوئی تبدیلی کی ہے۔ مالک کی اس بات کی گواہی ابو عتادۃ الانصاری کے سب لوگوں نے اور عبد اللہ بن عمر نے بھی دی۔ لیکن خالد بن ولید نے اصرار کیا اور رات گئے اس نے حملہ کا حکم دیا اس نے مالک بن نویرہ کی بات قبول کی اور نہ ان کی جنہوں نے مالک کے حق میں گواہی دی تھی، اس کے بعد اپنے لشکر کو حکم دیا کہ مالک اور ان کے ساتھیوں کی گردنیں اڑادیں اور اس کے بعد ان کی بیوی جن کی کنیت ام تمیم تھا کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اور جس دن مالک بن نویرہ قتل کردئے گئے اسی رات کو اس نے مالک کی زوجہ کے ساتھ نکاح کیا۔ یہ خبر ابو قتادہ کے ذریعے خلیفہ ابوبکر کو پہنچی، لیکن ابوبکر نے اس کا انکار کردیا۔ اور ابوبکر نے خالد بن ولید کو طلب کیا اور اس کے حق میں عذر تراشا کہ انہوں نے اجتہاد کیا اور خطا کی ہے۔ پھر اسے واپس بھیجا اور مالک بن نویرہ کی طرف سے مالک کا دیہ ادا کیا۔ نیز مالک کی قوم کے افراد اور مال کو آزاد کر کے واپس بھیج دیا۔ یہاں تک کہ عمر بن الخطاب نے خالد کے مسئلے میں اس طرح لاپروائی کرنے کو برا قرار دیا اور ابوبکر سے کہا :" یقینا خالد نے زنا کیا ہے اسے سنگسار کرو۔ " ابوبکر نے کہا :" میں اسے سنگسار نہیں کروں گا کیونکہ اس نے تاویل کی اور خطا کی۔"  عمر نے اس کو رد کردیا اور کہا :" اس نے ایک مسلم کو قتل کیا ہے اس لئے اس کو قتل کردو۔" ابوبکر نے نہیں مانا اور کہا کہ " اس نے اس میں تاویل کی اور خطا کی ہے۔"اس پر عمر نے ابوبکر سے کہا کہ خالد بن ولید کو معزول کرے۔ ابوبکر نے اس کو بھی قبول نہیں کیا اور کہا کہ میں اس تلوار کو ہرگز غلاف میں نہیں ڈالتا جس کو خدا نے ان پر لٹکایا ہے"

جو کچھ مالک بن نویرہ کے بارے میں کہا گیا ہے ان میں سے ایک المرزبانی کا یہ کلام ہے:" مالک بن نویرہ شاعر، شریف النفس، گھڑ سوار دور جاہلیت اور اس کے اشرافیہ میں بنو یربوع کا بڑا شہسوار اور جنگجو آدمی شمار ہوتے تھے۔ وہ بادشاہوں کے ردیف میں سے تھے" چنانچہ شیخ وحید بہبہانی قدس نفسہ الزکیۃ نے بھی کہا ہے :" منجملہ وہ خود اتنے مشہور ہیں کہ ان کو ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔" 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018