18 شوال 1445 هـ   27 اپریل 2024 عيسوى 4:59 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قرآنی مضامین |  قرآن کریم کی تعلیمات اور الہی معاشرے کی تشکیل
2022-08-23   761

قرآن کریم کی تعلیمات اور الہی معاشرے کی تشکیل

قرآن ایسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فقط پہلے زمانے کی باتیں ہی نقل کی گئی ہوں اور نہ ہی قصہ کہانیوں کی کتاب ہے۔ اسی طرح قرآن کریم  نہ فتوی کی کتاب ہے کہ جس میں فقط حلال و حرام کا فتوی دے دیا گیا ہو بلکہ قرآن آئینِ زندگی ہے، یہ تمام زمانوں اور تمام جگہوں کےلیے ہے، یہ تمام انسانوں  کی اصلاح کرتی ہے ۔ تمام لوگوں کی اصلاح کرنا قرآن جیسی کتاب سے باعث تعجب نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو کامل ہے اور تمام تعلیمات کو شامل ہے،اس میں چھوٹے بڑے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ زندگی کی تمام اطراف کو شامل ہے۔ اسی طرح یہ زندگی کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو شامل ہے۔ قرآن مثالی زندگی کی اعلی بنیادیں فراہم کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے افراد اور معاشرے دونوں کے لیے اللہ نے برابر فراہم کر دی ہیں۔

زندگی کے اس دستور میں اہم ترین تعلیمات معاشرے کے لیے حقوق کی عظیم تعلیمات ہیں۔ یہ انسان کو انفرادی طور پر اخلاق سے مزین کرتا ہے اور انفرادی طور پر انسان کو صالح بننے کا راستہ دکھاتا ہے، اسی طرح قرآن کریم نے انسانی معاشرے کو مکمل طور پر نیک اور پاکباز بنانے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ اس سے اللہ تعالی کا ارادہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کو زمین پر الہی ذمہ داریاں عطا کرے جس کا وعدہ قرآن میں فرما دیا ہے:

((وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارتضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فأولئك هُمُ الْفَاسِقُونَ ))(سورة النور ـ 55)

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔

قرآن کریم زندگی کی کتاب ہے، یہ ایک بار فرد سے بطور فرد بات کرتی ہے اور دوسری بار یہ فرد کی بطور خاندان کا حصہ بات کرتی ہے اور یہ اس وعدہ شدہ معاشرے کی طرف لے جانا چاہتی ہے جس میں انسان اللہ کا خلیفہ بن جائے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ فرد ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے معاشرے کے لیے جو حقوق قرار دیے ہیں ان میں اگرچہ سامنے چھوٹی جماعت ہے مگر خطاب عام ہیں اور وہ سب کے لیے ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ خطاب بعض کو شامل ہو اور بعض کو شامل نہ ہو، یہ تمام گروہوں کو بھی شامل ہیں۔ یہ خطاب بطور انسان تمام انسانوں کو شامل ہیں کیونکہ یہ تمام خطابات صیغہ جمع کے ساتھ آئے ہیں ہم ان میں سے کچھ اخلاقی تعلیمات کو ذکر کرتے ہیں۔

قرآن یہ کہتا ہے کہ بھلائی میں تعاون کرو اور دشمنی سے دور رہو ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَتَعَاونوا على البرِّ والتَقوى ولا تَعاونُوا على الإثمِ والعُدوانِ))(سورة المائدة ـ 2)

نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔

قرآن  معاشرے میں احسان کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

((وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى و َالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ....))(سورة النساء ـ 36)

اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔

قرآن کریم ہمیں عہد اور وثیقوں کے پورا کرنے معاشرے کے معاملات کو سچ کے ساتھ انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ.........) )(سورة المائدة ـ 1)

اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو۔۔۔

قرآن میں اللہ تعالی امانت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے:

((إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا))(سورة النساء ـ 58)

ے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

قرآن ہمیں حق کی مدد اور اہل دین سے متصف ہونے کا حکم دیتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

((إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ))(سورة الأنفال ـ 72)

ے شک جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور انہوں نے اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو ان کی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت نہ کریں، البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں فقیر، مسکین اور مسافر کی مدد کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (15)آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ (16) كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (17) وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (18) وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (19))(سورة الذاريات ـ 15 ـ19)

۱۵۔ (اس روز) اہل تقویٰ یقینا جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔۱۶۔ ان کے رب نے جو کچھ انہیں دیا ہے اسے وصول کر رہے ہوں گے، وہ یقینا اس (دن) سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔۱۷۔ وہ رات کو کم سویا کرتے تھے،۱۸۔ اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے۔

اللہ تعالی وحدت اختیار کرنے اور  اپنی رسی سے متمسک ہونے کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ))(سورة آل عمران ـ 103)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔

اللہ مومنین کے درمیان صلح کرانے کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

((إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ))(سورة الحجراتـ 10)

مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اللہ تعالی طنز،غیبت اور برے نام لینے سے پرہیز کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ))(سورة الحجرات ـ 11)

اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کیا کرو، ایمان لانے کے بعد برا نام لینا نامناسب ہے اور جو لوگ باز نہیں آتے پس وہی لوگ ظالم ہیں۔

اللہ تعالی صبر اختیار کرنے اور حق سے متمسک رہنے کی تلقین کرتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْر (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3))(سورة العصر ـ 2  3)

۲۔ انسان یقینا خسارے میں ہے ۔۳۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

نیکی اور بھلائی کو پھیلانے کے لیے اللہ تعالی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تعلیم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))( سورة أل عمران ـ 104)

اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔

اللہ تعالی کسی بھی دوسرے انسان پر کسی بھی قسم کی زیادتی چاہے وہ ظلم کی شکل میں ہو یا قتل کی صورت میں ہو اس سے منع کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((... ولا تَعتدُوا إنَّ اللهَ لا يُحبُّ المُعتَدينَ))(سورة البقرة ـ 190)

تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

اللہ تعالی ظالم حکمرانوں سے انسانوں کے مال کے ساتھ انصاف کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

((وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ))(سورة البقرة ـ 188)

اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔

اللہ تعالی گھروں کی حرمت کی حفاظت کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ))(سورة النور ـ 27)

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

اللہ تعالی لوگوں کو ان کے حقوق کو غصب کرنے سے منع کرتا ہے:

((وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ))(سورة هود ـ 85)

لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔

اللہ تعالی سوئے ظن ،تجسس اور غیبت سے منع کرتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ))(سورة الحجرات ـ 12)

اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

اللہ تعالی نے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے سے منع فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ))(سورة النور ـ 19)

جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے درمیان بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ یقینا جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے ۔

اللہ تعالی نے قصاص کے ذریعے انصاف کا نظام قائم کرنے کی تعلیم دی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ ))(سورة البقرة ـ 178)

اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، ہاں اگر مقتول کے بھائی کی طرف سے قاتل کو (قصاص کی) کچھ چھوٹ مل جائے تو اچھے پیرائے میں (دیت کا) مطالبہ کیا جائے اور (قاتل کو چاہیے کہ) وہ حسن و خوبی کے ساتھ اسے ادا کرے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے، پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کوفحاشی سے دور رہنے کا حکم دیا  اور ظاہری اور باطنی طور پر ٹیڑے  پن سے بچنے کی تلقین کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((... وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ....))(سورة الأنعام ـ 151)

اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ ۔۔۔

اللہ تعالی نے انصاف کو عام کرنے اور حق کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا))(سورة النساء ـ 135)

اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اللہ تعالی نے جہاں نص آ چکی ہو وہاں اجتہاد سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے اور جو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اسے حرام کرنے سے منع فرمایا ہے ارشاد باری تعالی ہوتاہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (87) وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ(88))(سورة المائدة ـ 87 ـ 88)

۸۷۔اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔۸۸۔ اور جو حلال اور پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہیں عنایت کر رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اس اللہ کا خوف کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔

اللہ تعالی ماضی سے جان چھڑا نے اور جو کچھ آباء و اجداد کے عقائد  تھے ان سے آزادی کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ))(سورة التوبة ـ 23)

اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

اللہ تعالی  امانت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ))(سورة الأنفال ـ 27)

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔

قرآن کریم نے اس طرح کے طریقہ خطاب پر اعتماد کیا ہے اور معاشرے کو نافرمانی اور غلطی میں پڑنے سے بچایا ہے۔ قرآن کریم ایسے مثالی معاشرے کی تشکیل کی تعلیم دیتا ہے جس میں ہدایت یافتہ دوسروں کی اصلاح کریں۔ معاشرے قرآن کے قیمتی اخلاقی نظام پر قائم ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ اور تعلق ہو جس سے معاشرے کو تحفظ مل رہا ہو۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018