17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 9:36 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  میٹافیزکس۔۔۔ آللہ اور انسان کے درمیان۔
2022-07-15   510

میٹافیزکس۔۔۔ آللہ اور انسان کے درمیان۔

انسان کو چند قسم کے حواس دے کر پیدا کیا گیا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے آپ اور اردگرد کی اشیاء کا احساس کرتا ہے ، ان حواس کے توسط سے  اپنا حجم ، جسم کی ترکیب اور جو اس کے جسم کو احاطہ کئے ہوئے ہے اس کا احساس کرتا ہے نیز اپنے ارد گرد کے اجسام کا حجم، مقدار، اشیاء کے اوصاف کو بھی حواس کے ذریعے سمجھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ کہاں پر زندگی گزار رہا ، کس کے ساتھ گزار رہا اور کیسے اور کیوں اس طرح گزار رہا ہے ۔ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کو سمجھنا اور ان کا جواب دینا چاہتا ہے ۔ اس کے ساتھ حواس کے ذریعے جس چیز کو اس نے درک کیا ہے اس کو اپنی فکر کے یعنی عقل کے حوالے کرتا ہے تاکہ اس سے عقلی نتائج حاصل کرسکے اور اپنے آپ کو دوسرے مخلوقات سے جدا کرے اور تمیز دے۔ یوں وہ انسان کی خلقت اور اس کے خوبصورت قالب و ڈھانچے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنے مقام پر مسلم ہے کہ وہ ان حواس ہی کے توسط سے حقیقت خلقت انسان سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ اس کے حواس کی حد سے خارج ہے۔ مثلا انسان اپنی سماعت کی حس کو دیکھے یہ ایک خاص ٍصوتی عضو ہے جو آواز اس حد سے تجاوز کرے گی اور اونچی ہوگی یا اس معینہ حد سے کمزور ہوگی اس آواز کا سنائی دینا ممکن نہیں۔ یہی مسئلہ آدمی کی نظر کے حوالے سے ہے اس لئے کہ آنکھ کی بھی ایک معین بصارتی حد ہے ،آنکھ اسی حد کے اندر موجود چیزوں کو دیکھ سکتی ہے اس سے دور کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتی، بعض دفعہ تو اس حد سے قریب ہو تو اس چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یہی امر انسان کے تعقل و فہم کی حدود  کے ساتھ بھی  ٍصادق ہے، کہ جن کو اس نے استقراء اور چھان پھٹک کرنے کے بعد معلوم کیا ہے اس پر ذہنی تحلیل و استفہام کا میکانیزم حاکم ہے۔

ہیئت، کائنات اور دوسرے غیرمحسوس اور غیر مادی موجودات کے ساتھ انسان کے تعلق کے لئے تو اس کے حواس سے بڑھ کر طاقتور حواس کی ضرورت ہے جو مادی چیزوں کو درک کرنے کی عقلی طاقت اور اس کے احاطے کی حد و مقدار سے بڑھ کر ہے ۔ اس لئے کہ کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو انسان کے عام حواس کے ادراک سے بالاتر ہیں اگرچہ یہ مادی اور ملموس حقائق ہیں لیکن یہ انسان کے معمولی حواس سے بالاتر اور اس کے عام سمجھ اور تصور کے لئے دشوار ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے سننے اور دیکھنے کے حوالے سے مثالیں دی ہیں۔ اسی طرح اس کائنات میں کچھ بڑے، وسیع اور پیچیدہ سے حقائق بھی موجود ہیں اور یہ انسان کے معمولی نظام حس سے خارج ہیں، بلکہ انسان کے علاوہ دوسرے مخلوقات کے فہم و سمجھ سے بھی دور تر ہیں، یہ ایسے حقائق ہیں جن کو ہم عالم الغیب یا ماوراء طبیعت (میٹافیزکس) کہتے ہیں ۔

اگرچہ انسان کے حواس محدود ہیں لیکن اس کے پاس کچھ ایسی فکری کنجیاں ہیں جن کے توسط سے عالم غیب کے کچھ حقائق تک پہنچ سکتا ہے اور اس کے لئے یہ ممکن ہوتا ہےکہ معمولی حواس کے ذریعے جس کو درک کیا ہے اس سے بڑھ کر ایک اور وجود کو کشف کرے دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی چھٹی حس یا اس کی بصیرت انسان کو کبھی ایسی حقیقت تک پہنچا دیتی ہے جس تک اس کے معمولی حواس  اور سادہ استقرائی عقل پہنچانے سے قاصر ہیں ۔

قرآنی نقطہ نگاہ سے۔ ۔ ۔

بیشک قرآن کریم  نے عقل بشری کے ماوراء معقولات تک پہنچنے کا بھی راستہ بیان کیا ہے ۔ قرآن کریم نے کچھ صور، کچھ سرمدی یا ازلی یا ابدی یا حتی امدی شھود والے حقائق کا ذکر فرمایا ہے۔ جدید تعبیر کے مطابق ان کو میٹافیزیکی شھود نام دیا جاسکتا ہے۔ ان کو مادی حیات کے علاوہ ایک حیات سے توصیف کرسکتے ہیں، یہ ایک حیات ہے جس کی فیزیکس وہ نہیں جس کو انسان کی عام عقل درک کرتی ہے، اور وہ حیات خود زمانہ اور اس کی حرکت ، روشنی اور اس کی رفتار ہے بلکہ وجود اور عدم بھی ہیں ، یہ ایسے حائق ہیں جن کا تصور عام عقل نہیں کرسکتی ۔ خاص طور پر وہ مادی عقل جو صرف  اپنے ماحول کے اندر کی اشیاء کو سمجھنے کی عادی ہے اور اس سے خارج کی جانب متوجہ بھی نہیں ہوتی ہے ، اپنی مادی مقررہ حد سے خارج ہوکر تلاش بھی نہیں کرتی ہے اس لئے کہ  جس کام کو یہ حواس نہیں کر سکتے اس میں پڑ جائیں تو یہ حواس ہی مفلوج ہوجائیں گے ۔

قرآن کریم کے وہ معانی و مفاہیم جن کی تاکید خود قرآن کررہا، ایسے عالم الغیب کا وجود ہے جس کو کسی بھی مصلحت کی بناء پر مادی عقل درک نہیں کرسکتی ، یہ ایک ایسا عالم ہے جو اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات کی معرفت سے مخصوص ہے، اس کے فہم سے بشری عقول قاصر ہیں۔ اس لئے کہ اس کی حقیقت ہی غیب ہونا ہے اسی وجہ سے اسے عالم  الغیب نام دیا گیا ہے اور یہ عالم شہادت کا نقیض ہے کہ جس کو ہم عالم حس کہتے ہیں، ہم اس دنیائے محسوس میں زندگی گزارتے ہیں ۔

قرآن کریم نے جس عالم الغیب کا ذکر کیا ہے اس سے آگاہی اور اس کے تصور کے لئے جب قرآن کا محقق، قرآن کریم کاغور سے مطالعہ کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ یہ عالم دو قسموں میں تقسیم ہوجاتا ہے، ایک عالم وہ ہے جس کو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی ذات سے مختص فرمایا ہے اور یہ خالق کی مختصات کا ایک غیب مخصوص ہے اور یہ وہ عالم ہے جس کو وہی یکتا و واحد عالم و آگاہ ہے ،اس تک مخلوقات میں سے کسی کو کوئی رسائی حاصل نہیں ہے اور علم حاصل کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے، چنانچہ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا :

((قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ))(سورة النمل ـ 65)،

 ترجمہ: کہہ دیجئیے کہ آسمانوں ا وزمین میں غیب کا جاننے والا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور یہ لوگ نہیں جانتے کہ انہیں کب دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ " نیز ارشاد فرمایا :

((وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ))(سورة الأنعام ـ59)

ترجمہ : اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں ا س کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر کا جاننے والا ہے ، کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے ، زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ  نہ ہو۔

اگر ہم دقیق تعبیر کرنا چاہیں تو یہ ہوگا کہ بنیادی اور اصلی اور ذاتی لحاظ سے علم غیب  صرف خدا وند متعال کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ ایک ایسا غیب ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنی ذات کے ساتھ مختص کیا ہے اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ یہ غیب کی پہلی قسم ہے ۔

اس کے علاوہ غیب کی ایک دوسری قسم بھی ہے جس تک بعض کو ایک محدود مصلحت کی بنیاد پر کسی حد تک رسائی مل سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بالاصالۃ نہیں بلکہ تبعی طور پر علم بالغیب کہلاتا ہے، یہ ذاتی لحاظ سے علم بالغیب نہیں ہے بالعرض  اور محدود ہے یہ وہ علم بالغیب نہیں ہے جو خدا وند قدوس کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ یہ علم جس کو بھی ملا ہے اللہ کے عطا اور اذن سے ہی ملا ہے ، یہ وہ علم غیب ہے جس کی تعلیم خود ذات احدیت نے بندوں میں سے کسی کو از راہ لطف دی اور ایسا علم عطا کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ علم  (باوجود اس کے کہ یہ علم غیب ہے ) ایک ایسا علم ہے جو عرضی اور اکتسابی کہلاتا ہے، البتہ یہ ایک جانب سے خاص صلاحیت و قید اور کچھ محدود اور  مخصوص بندوں کو عطا کیا جاتا ہے  جو انبیاء و اوصیاء اور ایسے بندے ہیں جن سے اللہ جل شأنہ راضی ہوا ہے ۔ سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہے ۔(۲۸)، نیز ارشاد ہوتا ہے:

((ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُون أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ))(سورة آل عمران ـ44)

ترجمہ :  پیغمبر یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کررہے ہیں اور آپ تو ان کے پاس نہیں تھے جب وہ قرعہ ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا اور آپ ان کے پاس نہیں تھے جب وہ  اس موضوع پر جھگڑا کررہے تھے ۔(۴۴) نیز ارشاد خداوندی ہے :

((مَّا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاء فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ))(سورة آل عمران ـ 179)

ترجمہ : خدا صاحبان ایمان کو انہیں حالات میں نہیں چھوڑ سکتا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کردے اور وہ تم کو غیب پر مطلع نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کر لیتا ہے لہذا تم خدا اور رسول پر ایمان رکھو اور اگر ایمان و تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لئے اجر عظیم ہے ۔(۱۷۹)

جن بندوں کے لئے اس قسم کے علم غیب کا مل جانا ممکن ہے  ان کا ذکر بھی خود قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ کیا ہے :

((عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (27) لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا(28))(سورة الجن ـ 26 ـ28)

ترجمہ : وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے (۲۶) مگر جس رسول کو پسند کرلے اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے ۔ )۲۷) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچا دیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے ،سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہے ۔(۲۸)، 

اور نیز ارشاد  پروردگار ہوتا ہے :

((ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ))(سورة يوسف ـ 102(

ترجمہ : پیغمبر یہ سب غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم وحی کے ذریعے آپ تک پہنچا رہے ہیں ورنہ آپ تو اس وقت نہ تھے جب وہ لوگ اپنے کام پر اتفاق کر رہے تھے اورر یوسف کے بارے میں بری تدبیریں کر رہے تھے (۱۰۲)

نتیجہ گفتگو یہ نکلا کہ غیب اللہ کے ساتھ مختص امور میں سے ہے لیکن وہ کسی بندے کو خاص حدود اور معین حالات کے تحت غیب سے مطلع فرماسکتا ہے، یہ اس کی جانب سے ایک لطف  اور اس کی خاص رحمت ہے جو اس بندے کو نصیب ہوئی ہے۔ جس کو اس نے چنا اور منتخب فرمایا ہے یہ اس کے حق میں ایک اکرام وانعام ہے ۔ 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018