17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 3:21 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں سیاست |  پرامن طرز معاشرت اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں:
2019-02-21   1583

پرامن طرز معاشرت اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں:

یہ بات واضح  ہے کہ اسلام اور ایمان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایمان سے مراد ہر اس چیز پر ایمان ہے کہ جو عالیشان دستور یعنی قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید میں جو کچھ بھی وارد ہوا ہے اس کا تعلق صرف ہدایت انسانی کے کمالات کے ساتھ ہے اور کوئی مسلمان بذات خود ان کمالات کو حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ ایک ایسی احتیاج کا شکار ہے کہ جو اسے ہر نماز میں ان کمالات کو اپنے خالق سے حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے،اور وہ دوران نماز اپنے خالق سے صراط مستقیم یعنی حق کے راستے کو طلب کرتا ہے تاکہ وہ اس ہدایت کے ذریعے سے خوشنودی خداوندمتعال،صحیح عقیدہ اور صحیح عقیدے کے مطابق عمل صالح کی توفیق حاصل کرسکے۔ اسی لیے قرآن مجید ہمیشہ نماز پڑھنے کی دعوت دیتا ہے جیسا کہ سورہ فاتحہ میں ارشاد ہوتا ہے " ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما "(سورہ الفاتحہ: 6)  اس لئے کہ صراط مستقیم وہ را ہ کمال ہے کہ جو تبعیض یعنی (جزویت) کو قبول نہیں کرتا اور اسلام نہ ہی اس تاویل اور تو جیہ کو قبول کرتا ہے کہ جس تو جیہ کو انسان کا تغیر پذیر مزاج نفس امارہ کی برائی کی طرف مائل ہو نے کی وجہ سے فرض کرتا ہے۔ اسی لیے ایک حقیقی مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر اس چیز پر مکمل ایمان لے کر آئے کہ جو صراط کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ اسلام کے پیغام کی آفاقیت پر ایمان لانا بھی اسلام کا حصہ ہے کیونکہ یہ پیغام ساری انسانیت کے لیے آیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے " اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے " (سورہ السبا آیت: 28)

اس پیغام کی آفاقیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان کسی بھی دوسرے صاحب عقیدہ کو قبول کرے اس لئے کہ خود خالق نے اس کائنات میں اختلاف اور تنوع کی بنیاد رکھی ہے رنگ و نسل اور زبانوں کا اختلاف اسی اختلاف کا مظہر ہے اور یہ وہ فطری امور ہیں کہ جن میں انسان کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کر سکتا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے" اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں " (سورۃ الروم آیت: 22) کیونکہ خداوند کریم اس آیت میں روش اختلاف کو اپنی خالقیت پر دلیل قرار دیتے ہوئے ایک نشانی قرار دیتا ہے جیسا کہ زمین آسمان خداوندمتعال کی تغیر پذیر نشانیوں سے لبریز ہیں لہذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اختلاف کی روش پر ایمان رکھیے اور اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے بعد ضروری ہے کہ قیامت تک باہمی امن و امان کے طرز معاشرت کو فروغ دیا جائے۔

اور بروز قیامت خداوندمتعال ان اختلافات کے بارے میں فیصلہ خود فرمائے گا جیسا کہ سورۃ الحج میں ارشاد ہوتا ہےکہ"  یقینا ایمان لانے والوں، یہودیوں، صابیوں، نصرانیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے" (سورہ الحج آیت: 17)

اور اسی طریقے سے روش اختلاف مسلمانوں پرلازم قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں تاکہ وہ اس رویے کے ذریعے اخلاق اسلامی کا نمونہ بن سکیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے" (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے " (سورۃ النحل آیت 125)

بطور خاص ان مسلمانوں پر اخلاق اسلامی کا نمونہ پیش کرنے کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ جو غیر مسلم ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں تا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی پرکشش تصویر پیش کر سکیں۔ خصوصا یہ ذمہ داری ان مسلمانوں پر زیادہ عائد ہوتی ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر غیرمسلموں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اس لئے ان پر اسلام کے گذشتہ بیان کردہ احکام اسلامی کو جاننا اور ان پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے اور احکام اسلامی میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ مسلمان کسی بھی ملک کے ان قوانین کے علاوہ جو آسان شریعت اسلامی کے قوانین سے متصادم نہہو تمام ریاستی قوانین کی پابندی کریں تاکہ وہ غیر مسلموں کے لئے یہ ثابت کر سکے کہ اسلام ایک مہذب اور اخلاقی دین ہے کہ جو دوسروں کے احترام کی ترغیب دلاتا ہے نیز اس بات کی ترغیب دلاتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس ملک کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آئیں اور یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب مسلمان غیر مسلم ملک کے اخلاقی اور معاشرتی اخلاق کی پابندی کریں ۔اس لئے کہ مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داریاں ان کو اس بات کی رغبت دلاتی ہے کہ وہ ایسی مشترک انسانی اور اخلاقی اقدار کو تلاش کریں کہ جو ان کو غیر مسلموں کے ساتھ اکٹھا کرتی ہیں تاکہ مسلمان اعتقادی اختلاف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شرعی اختلاف کا اعتراف کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ امن و امان کی زندگی بسر کرسکیں کیونکہ بعض وہ چیزیں جن کو غیرمسلم جائز سمجھتے ہیں اسلام ان کو حرام قرار دیتا ہے لہذا ان چیزوں سے گریز کرنا ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے جیسے شراب نوشی، ہم جنس ہم جنس پرستانہ شادی، خنزیر کا گوشت کھانا ،غیر شرعی طریقے سے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت کھانا، یا ایسے جانور کا گوشت کھانا جس میں ذبح کی شرائط پوری نہ ہوں، جیسے وہ جانور جس کو گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو یا وہ جانور جو چوٹ لگنے کی وجہ سے مر جائے وغیرہ۔

چنانچہ غیر مسلم ممالک میں الحاد، لادینیت، یہودیت، عیسائیت یا باقی ادیان کی موجودگی مسلمانوں پر لازم قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے دین کازیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنے دین کے بارے میں اعتقادی اور فکری پختگی حاصل کرسکیں۔ کیونکہ عقائد کی پختگی کے لئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ان مسلمانوں پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسے عقائد یا غیر اسلامی ماحول سے متاثر نہ ہوں کہ جو انکے عقائد اور ثقافت سے مختلف ہیں کیونکہ اس دین کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہنے والے ہر میدان میں اس کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اسکی زندہ مثال غیر مسلم طاقتوں کی طرف سے جھوٹ کی بنیاد پر اسلام کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کو تشکیل دینا ہے اور ان کا ہمیشہ یہ مقصد رہا ہے کہ یہ اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیں تاکہ یہ لوگوں کو ان کے دین اور ان کے نرم مزاج عقیدے سے دور کردیں۔

لہٰذا غیر مسلم ممالک میں زندگی بسر کرنے والے ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید اور رسول خدا کی اس صحیح سنت کی پیروی کریں جو قرآن کے مطابق ہو جیسا کہ سورۃ الحشر میں ارشاد ہوتا ہے: "اور رسول اللہ (ص) جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا سخت عذاب دینے والا ہے" (سورہ الحشر 7)

قرآن مجید کی بہت ساری آیات کی تلاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی اخلاق اور رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود تمام انسانوں میں برابری کے عقیدے کو بیان کر رہی ہیں اور اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول بہت ساری احادیث مساوات اور دوسروں کو قبول کرنے کے نظریے کو پیش فرما تی ہیں جیسا کہ آپ کا ایک فرمان ہے کہ( لا فرق بین عربی واعجمی الا بالتقوی) یعنی عربی اور عجمی میں تقوی کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے ۔یہ حدیث غیر مسلم معاشرے میں باہمی میل جول کے جواز کو بیان کر رہی ہے اور یہ حدیث غیر مسلم معاشرے میں روزمرہ کی زندگی کو بسر کرنے کے طریقہ کار کو بتا رہی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم معاشروں کے قوانین اور باہمی مشترک اخلاقی اقدار کی پیروی کریں ۔جیسے امانت کو ادا کرنا ،کام میں خلوص، دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا، پڑوسیوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کو اپنانا، ہمسایوں کے ساتھ تعامل اور اخوت کے جذبے کو پروان چڑھانا۔ اسلام ان تمام رویوں کا اعتراف ایسی بنیادی اخلاقی اقدار کے طور پر کرتا ہے کہ جو تمام انسانوں کے درمیان انسانی مماثلت کو تشکیل دیتی ہیں قرآن مجید اور سیرت رسول ان اقدار کی ترویج پر زور دیتے ہیں۔

یہاں پر ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی سیرت کی پیروی کی طرف اشارہ کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ ان ائمہ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور یہ اللہ تعالی کے پارسا بندے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں وارد ہوتا ہے (انی تارکم فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی) اس لیے کہ ان کا اخلاق قرآن مجید کا اخلاق ہے اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ جو ائمہ اطھار کے غیرمسلموں کے ساتھ انسانیت کی بنیاد پر برتاؤ کو بیان کرتی ہیں اور اس طرح ان کا وہ شاندار طرز گفتگو بھی ہے کہ جس نے بہت سارے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔

رسول خدا کے دور میں غیر مسلموں کے ساتھ پرامن طرز معاشرت:

دعوت اسلام کے آغاز میں مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں کئی قسم کی تکلیفوں کا شکار ہوئے، کیونکہ مشرکین مکہ دعوت اسلام سے بغض رکھتے تھے اور اس وقت مسلمان تعداد میں بھی کم تھے، ایسے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا تاکہ مسلمان محفوظ رہ سکیں اور دعوت اسلام کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں اور بطور خاص آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ انسانی مشترک اقدار کے وجود پر یقین رکھتے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت حبشہ کا حکم اس لئے دیا تھا کہ اس وقت حبشہ میں ایک عادل بادشاہ حکومت کررہا تھا اور کسی پر ظلم نہیں کرتا تھا اس موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنے اصحاب کو نصیحت کی کہ وہ حبشہ میں موجود غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں کیونکہ اس وقت حبشہ کے باسی عیسائیت کو ماننے والے تھے رسول خدا نے اپنے اصحاب کو یہ بھی نصیحت کی کہ وہ حبشہ کے بادشاہ اور اس کی رعیت کو اسلام کی دعوت دیں کہ یہ وہ آسمانی دین ہے جو مکہ میں رسول خدا پر نازل ہوا ہے حبشہ کا بادشاہ عیسائی ہونے کی وجہ سے جانتا تھا کہ آسمانی دین کا مطلب کیا ہوتا ہے اور پھر مسلمان مہاجرین نے بادشاہ حبشہ کے ساتھ ایک شاندار اور طویل مذہبی مکالمہ کیا یہاں تک کہ اس کو یقین ہو گیا کہ یہ واقعی ایک آسمانی دین کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور یوں اس نے بادشاہ حبشہ نے مسلمان مہاجرین کو عزت و شرف سے نوازا اور ان کو اپنے ملک میں پناہ لینے کی اجازت دے دی یہ۔ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غیر مسلموں کے ساتھ پرامن طرز معاشرت پر یقین رکھتے تھے اور انکے عقیدے کا احترام بھی کرتے تھے بلکہ اس بات پر تاکید فرمایاکرتے تھے کہ غیرمسلموں اور ان سے وابستہ چیزوں کا احترام کیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ وہ حد اعتدال سے تجاوز نہ کریں جیسا کہ مخالف عقیدے کو قبول کرنے کی ایک اور موثر دلیل یہ ہے کہ رسول خدا نے مدینہ میں ایک صحیفہ کو تشکیل دیا تھا جس میں اس وقت کے متمدن معاشرے کے تمام نظریات اور افکار کے مالک افراد کو رائے دہی کی آزادی فراہم کی گئی تھی اور یہ صحیفہ مسلمانوں، یہودیوں ،عیسائیوں بلکہ مشرکین کے ساتھ امن و امان کے معاہدے کی صورت میں وجود میں آیا تھا رسول خدا اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ یہ پرامن معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہے اور رسول خدا نے بطور خاص یہ شرط عائد فرمائی تھی کہ تمام لوگوں کو اس معاہدے کی پاسداری کرنا ہوگی تاکہ معاہدہ کرنے والوں میں سے کوئی بھی کسی دوسرے پر ظلم زیادتی نہ کر سکے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر اعتبار سے رسول خدا ( ص)کے اقوال، سیرت اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں خصوصا کسی بھی جگہ مخالف عقیدہ رکھنے والے افراد کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے بھی رسول خدا کی سیرت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018