17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 5:35 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  دین اور علم میں تعلق ۔۔۔۔ کیا سائنس اور دین میں کوئی اختلاف ہے ؟
2021-12-09   918

دین اور علم میں تعلق ۔۔۔۔ کیا سائنس اور دین میں کوئی اختلاف ہے ؟

  جب سے بنی نوع انسان نے اس صفحہء ہستی پر اپنے قدم رکھے ہیں اس وقت سے لیکر آج تک دین اور علم انسان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اور کبھی بھی یہ جدا نہیں ہوئے۔ چنانچہ سب سے پہلے نبی ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو خدا کی جانب سے حاصل ہونے والے دین نے انسان کو ہدایت و فضیلت کی جانب بلانے اور انحراف و گمراہی سے بچانے کی کوشش کی، تو وہیں پر علم عقل کی پیداوار تھا ، کیونکہ انسانی عقل نے اپنی تخلیق کے بعد کسی شئی کا انتظار کئے بغیر فعالیت و عمل کا آغاز کر دیا ، یوں اس نے آگ کوپہچان لیا تو اسے چیزوں کو گرم کرنے، کھانا پکانے اور روشنی حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا، سخت پتھروں کا انتخاب کرکے اور زمین کا سینہ چیر کر اس سے معادن نکال کر ان سے شکار کرنے کے اوزار اور اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ ایجاد کیا ۔

دوسری جانب چونکہ انسانی عقل غور و فکر کرنے اور ماحول سے اثر لینے کے عمل سے کبھی بھی نہیں رکتی ، لہذا اس کی ترقی کا سفر یہاں تک جا پہنچا کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ عقل ہی ہر مشکل کا حل اور ہر پریشانی کی دوا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایسی ایسی آوازیں اٹھیں کہ جن کی ساز پر ابھی تک انسانیت سوتی جاگتی ہے، یہی دراصل اس شبہے کی وجہ بنی کہ دین اور علم یعنی سائنس میں کوئی تضاد موجود ہے ۔

شاید اس شبہے کا آغاز نویں صدی کے اوائل میں ہوا جب عباسی خلیفہ مآمون کے دور میں یونانی فلسفہ نے عالم اسلامی کو اپنے لپیٹ میں لیا ،اس وقت سے لیکر آج تک یہ بحث کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن اس کا زیادہ چرچہ مغربی علمی محافل میں ہے بنسبت مشرقی علمی محافل کے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں طبیعی علوم اور سائنسی علوم نے بہت ترقی کی ہے، لہذا یہ سوال بھی اھل مغرب کے ہاں زیادہ شدت اور جدیت کے ساتھ اٹھتا ہے۔ جبکہ اھل مشرق کے ہاں علمی انحطاط اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی بے مائگی کی وجہ سے دین اور سائنس میں تضاد کا جو مسئلہ ہے وہ زیادہ جدیت کے ساتھ اٹھایا نہیں جاتا ۔

جن لوگوں نے دین اور علم میں جدائی کے نظرئے کو اختیار کیا ہے ،ان کےاقوال کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم سائنس اور علم کے درمیان رشتے کے بارے میں تین صورتوں کو فرض کر سکتے ہیں۔

-         دین اور علم ایک دوسرے کی ترقی میں مدد گار ہیں

-         دین اور علم میں مغائرت پائی جاتی ہے 

-         - دین اور علم آپس میں متضاد ہیں

اب ہم دین اور علم میں تعارض کے قائل لوگوں سے کہیں گے کہ آپ معین کریں کہ دین اور علم میں کس درجے یا کس سطح پر تعارض ہے ؟ کیا دینی اور علمی تعبیرات میں تعارض ہے ؟ یا دین اور سائنس کے مفروضوں اورتسلیم شدہ حقائق میں تعارض  ہے یا پھریہ کہ سائنس اور دین تصور کائنات – جو کہ ممکن ہے بعض چیزوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہوں مگر نتیجہ کے اعتبار سے شدید متعارض ہیں – میں ایک  دوسرے سے متعارض ہیں ؟ 

 اس مسئلے کو صحیح طریقے سے مورد بحث قرار دینے کے لئے ضروری ہےکہ  پہلے یہ تشخیص کی جائے کہ اصل اختلاف کیا ہے ؟ تاکہ مورد اختلاف کو سمجھنے کے بعد اس کا گہرا جائزہ لیا جائے اور حقیقت تک پہنچا جائے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات خود دین اور علم کی ماہیت کو بیان کرنا ہے ۔ کیونکہ دین اور سائنس کے حوالے سے بہت ساری بحثوں کی اصل وجہ بعض مفاہیم کے حقیقی مصداقوں کو بعض دیگر مصادیق، جوکہ ان مفاہیم کے حقیقی مصادیق نہیں ہیں، سے خلط کرنا ہے ۔

دین

مغربی ماہرین سماجیات کے نزدیک دین بعض قوانین و ضوابط کا مجموعہ ہے کہ جوکسی بھی انسانی معاشرے پر لاگو ہوتے ہیں ۔ اور زیادہ تر یہ بشری اور انسانی پہلو لئے ہوتے ہیں نہ کہ الہی۔ جبکہ علماء نفس کے نزدیک دین ایک نفساتی حالت اور انسانی ضرورت ہے کہ جس کی کو ہر انسان محسوس کرتا ہے ، اور اس حالت کا محور ہر انسان کا اپنا ذاتی شعور اور شخصی تجربہ ہے۔ اسی طرح علماء فلسفہء اخلاق کے نزدیک دین سے مراد وہ اخلاقی شعور ہے کہ جوانسان سے اللہ کی جانب سے بیان شدہ واجبات کو انجام دینے اور منہیات سے اجتناب کا تقاضی کرتا ہے۔ جبکہ مغربی متدین افراد کے نزدیک دین کی جو بھی تعریف ہو وہ اللہ پر ایمان رکھنے پر دلالت کرتی ہیں اور ان کا اصل محور ایمان اور اللہ کی لا متناہی قوت کا تصور ہے۔

فزکس کے ماہرین کے نزدیک دین سے مراد اوامر و نواہی کاایک ایسا مجموعہ کہ جو ہماری پوشیدہ صلاحیتوں کوابھرنے سے مانع ہیں، بلکہ ان میں سے بعض تو اس سے بھی آگے چلے گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ دین کچھ ایسے مطالب کا مجموعہ ہے کہ جو عقل و منطق کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور دین ایسے امور پر ایمان لانے کا نام ہے کہ جنہیں علم اور سائنس قبول نہیں کرتے ۔

مسلمانوں کے نزدیک دین کی تعریف کیا ہے

دین کی مختلف اور متعدد تعریفوں کی وجہ سے دین کی حقیقی تعریف تک پہنچنا ایک مشکل کام ہے ۔ کیونکہ دین مفہوم ماھوی نہیں بلکہ یہ ایک مفہوم انتزاعی ہے کہ جسے ایک جامع و مانع تعریف میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لہذا ہم دین کی حقیقی تعریف کی پیچیدگیوں میں پڑنے کی بجائے ہم  تعریفوں میں سے کسی ایک تعریف کواختیار کرتے ہیں کہ جو حقیقت کے ذیادہ قریب ہو اور وہ تعریف یہ ہے کہ دین سے مراد قرآن کریم اور سنت معصومین علیہم السلام میں موجود احکام کا مجموعہ ہے ۔

علم کیا ہے ؟

اگر ہم علم کی تعریف اور اس کے شعبے بیان کرنا شروع کریں تو بات بہت طویل ہو جائے گی ،اس لئے ہم نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے ضروری حد تک تعریف اور اہم نکات پر اکتفا کیا ہے۔

پس علم اپنے معمومی معنی میں مطلق جاننے کا نام ہے جو کہ جہل کے کے مقابلے میں ہے ۔ انگریزی میں علم کے اس معنی کے لئے لفظ  ( knowledge  استعمال ہوتا ہے ، جبکہ علم خصوصی معنی میں اس جاننے کو کہا جاتا ہے کہ جو براہ راست حسی تجربے سے حاصل ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم تاریخ ، فقہ ۔ وغیرہ وغیرہ علم کی اس تعریف کی رو سے دائرہ علم سے خارج ہیں، کیونکہ یہ علوم براہ راست حسی تجربے سے حاصل نہیں کئے جاتے ۔ علم کی اس قسم کے لئے انگریزی میں لفظ (science) یا (experimental science) کہا جاتا ہے۔

ہمارے لئے یہاں علم کا جو معنی اہم ہے وہ وہی معنی ہے کہ جو علم سے مادہ پرست اور دین و علم کے درمیان تعارض کے قائل لوگ مراد لیتے ہیں ۔ بریٹرنڈ رسل اور استاد ونڈل وغیرہ کی آراء کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ صرف تجریبی علم کو حقیقی علم سمجھتے ہیں ، اور جو کچھ تجربے کے زریعے حاصل نہ ہو وہ مبہمات اور مجہولات کے دائرے میں ہی باقی رہتے ہیں۔ 

مذکورہ بالا باتوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ملحدین اور طبیعیین نے جو علم  کی تعریفیں کی ہیں وہ سب کے سب ان کے پہلے سے موجود ذھنی احکام اور  سابقہ نظری مفروضات پر مبنی ہیں ۔ بلکہ ان لوگوں کا پہلے سے ہی اس بات کو ماننا کہ علم اور دین کے درمیان تعارض موجود ہے ،اور پھر اسی تناظر میں علم کی تعریف وضع کرنا ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

بنا بر این ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کہ جو لوگ دین اور علم کے درمیان تعارض کے قائل ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علم اور دین میں اختلاف ان سائنسی انکشافات کی وجہ سے نہیں ہے کہ جو بعض دینی عقائد سے ٹکراتی ہیں ، کیونکہ یہ دین اور سائنس کے درمیان قدیم جنگ کی ایک سطحی تفسیر ہے ۔ جبکہ دین اور علم کے درمیان اختلاف اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔ وولتر ستیش نے اپنی کتاب دین اور جدید عقل میں جو کہا ہے وہ اس بات کی بہترین دلیل ہے ۔ پس تعارض سائنس اور دین میں نہیں بلکہ ان دونوں کے مبانی اور فلسفی وعلمی مفروضات کے درمیان ہے کہ جن کے نتیجے میں افکار و عقائد میں تعارض پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ فلسفی و علمی مبانی جو دین کو علم پر مقدم سمجھنے کا نتیجہ ہوں وہ ان فلسفی و علمی مبانی جیسے نہیں ہو سکتے کہ جو علم کو دین پر ترجیح کے نتیجے میں قائم ہوں ۔   

یہی وجہ ہے کہ ہم اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ملحدین اور مادیین کا علم کو دین پر فوقیت دینا در اصل ان کے اس اعتقاد کا شاخسانہ ہے کہ جب کبھی کوئی سائنسی نظریہ دینی نظرئے سے ٹکرا جائے تو ضرور ان میں سے ایک کو جھٹلانا پڑے گا ، کیونکہ کسی بھی سائنسی نظرئے کے درست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یقنی طور پر دینی نظریہ باطل ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مغربی فلاسفہ کے ہاں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ علم اور دین دونوں کا کام ظواہر کو بیان کرنا اور ان کی وضاحت کرنا ہے ،یہی وہ خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے سائنس اور دین کے معارف آپس میں ایک دوسرے کے مقابل آجاتے ہیں ۔ خصوصا جب وہ دین اور سائنس کے موضوعات اور مقصد نہائی کو بھی ایک سمجھتے ہوں ۔ حقیقت میں یہی امر سبب بنا ہے کہ علم اور دین کے درمیان تعارض کا بیانیہ بنایا گیا، جبکہ یہ تعارض وہمی ہے کہ جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ علم اور دین مین تعارض- جوحقیقت میں موجود ہی نہیں ہے- دراصل محظ غلط فہمی ہے ، تجربیون طبیعت کے بعض قوانین و اصول کو دیکھ کر غلط فہمی کا شکار ہوئے اور بعض متدینین کو بھی غلط فہمی ہوئی ۔ ورنہ حقیقت دین اور حقیقت سائنس میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے ۔پس تجربہ اور مشاہدہ کے زریعے کسی چیز کی علت تک پہنچنے کا مطلب علمی دنیا میں یہ نہیں ہے کہ علل و اسباب کا کوئی اور سلسلہ بھی ہو کہ جس تک ابھی سائنس اور تجربہ نہیں پہنچا ۔ کتنے ہی علمی نظریات ہیں کہ جن کے بارے میں ہم نے یقین کر لیا لیکن بعد میں ان کا غلط ہونا ثابت ہوا اور ان کی جگہ کسی اور نظرئے نے لے لی کہ جو اس سے زیادہ بہتر اور کامل تر تھا ۔ اسی طرح دین کے کسی مسئلے کو غلط سمجھا جانا یا کسی دینی مسئلے کی غلط تفسیر ہو جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اصل دین میں کوئی خلل ہو بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ جس چیز کو ہم دین ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے وہ درست نہیں تھا ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018