17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 3:46 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقدس مزارات، اور تاریخی مقامات |  ابو ایوب انصاری
2020-12-24   736

ابو ایوب انصاری

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب نجاری تھا، اور آپ ابو ایوب انصاری کی کنیت سے معروف تھے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی، اور انصار میں سے قبیلہ بنی خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ بنی اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ان ۶۹مردوں اور دو خواتین میں شامل تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے، کہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر قسم کی مدد اور نصرت کرنے کی بیعت کی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اور اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک میں موجود تمام شرکا گواہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو آپ ؓ کے گھر استراحت فرمائی۔

جیسا کہ اس وقت یہ واقعہ فرمان یافتہ اونٹ کے واقعہ سے معروف اور مشہور ہوا، اس کی تفصیل یوں ہے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے تو انصار کے قبائل میں سے ہر قبیلہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اسے ہی شرفِ ضیافت سے نوازے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس کے گھر کے آگے اونٹنی رکے گئی اس کو یہ شرف حاصل ہوگا، توجوں جوں سواری آگے بڑھتی جاتی راستے میں انصارِ مدینہ انتہائی جوش ومسَرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں شرفِ ضیافت بخشیں مگر نبی کریم ہر ایک سے مسکراکر فرماتے تھے : اس کے راستے کو چھوڑ دو! جس جگہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی، پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور ایک مرتبہ چکر کاٹنے کے بعد واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی (یعنی ابوایوب انصاری کے گھر کے باہر) ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر ہی مہمان کے طور قیام فرمایا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس پر مدینہ والے رشک کیا کرتے تھے، اسی طرح مؤاخات مدینہ کے موقعہ پرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنارہے تھے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مصعب بن عمیر کا بھائی بنایا۔

حضرت ابوایوب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ آپ ؓ کی رسول اکرم سے پر خلوص محبت کا نتیجہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلے آپ امام علیؑ کی امامت اور ولایت کو قبول کرنے اورآخری دم تک آپ ؑ کے برحق خلیفہ اور جانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے پر قائم  رہنے والوں میں سے بن گئے۔ اور آپ ؓ نے اپنے اس  اصولی موقف سے کبھی بھی  اعراض نہیں کیا۔ بلکہ آپؓ ان بارہ افراد پر مشتمل  گروہ میں بھی شامل تھے کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد مسجد نبی میں امام علیؑ کے اللہ کی طرف سے امام برحق اور نبی کے جانشین ہونے کا دفاع کیا۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی امام علی کی  ؑ معیت میں گزاری، اور امام علیؑ نے اپنی  ظاہری خلافت کے دوران جتنی جنگیں لڑی اس میں بھی آپ شریک رہے، خاص کر جنگ نہروان میں آپ کے پاس امن کا پرچم بھی تھا۔

حضرت ابوایوب ان صحابیوں میں سے تھے جن سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں، اور آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں، آپ نے امام علی ؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بہت سی احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں، آپ ان راویوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین، اور حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ جیسا کہ اصبغ کہتا ہے کہ میں نے رحبہ کے دن لوگوں میں اعلان کیا ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان سنا ہے وہ کھڑے ہوجائے، اور صرف وہی لوگ  کھڑے ہوجائیں کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والا اعلان ولایت کو سنا ہے اور وہی بات بیان کریں کہ جس کو اس دن سنا ہے۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ (چند درجن)  کھڑے ہوئے ان میں سے ایک ابوایوب بھی تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس آگاہ رہو کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کا علی مولیٰ ہے، خدایا تو اس سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرتا ہے، تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے، اور تو اس کی مدد کر جو علی کی مدکرتا ہے۔  جیسا کہ ابوایوب انصاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول نقل کیا جا تا ہے  کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی  ابوایوب انصاری کو امام علیؑ کے ساتھ دینے کا بھی حکم صادر فرمایا۔

امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ رضاؑ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصحاب ؓ میں کچھ ایسے بھی تھے کہ جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلتے رہے، اورانہوں نے اس منھج اور سیرت کو تغییر اور تبدیل نہیں کیا، جیسے ابوایوب انصاری اور ان جیسے اصحاب، اللہ کی رضایت ان کے شامل حال ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔

جیسا کہ شیخ محی الدین مامقانی کہتے ہیں کہ ابوایوب انصاریؓ ان اصحاب میں سے تھے کہ جنہوں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور منھج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبدیل اور تغییر نہیں کی ۔اور اس سعادت سے ہی بہرمند ہونے والے بہت کم ہی تھے، جو لوگ ابوایوب کی زندگی، مقام ومنزلت، نظریات، اقوال، شہادات،اور رویات کو جانتا ہیں وہ یہ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ آپؓ ایک ثقہ اور جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ ثقات میں سے بہت زیادہ قابل اعتماد تھے اور اصحاب میں سے برجستہ ترین صحابی تھے، اور میرے نزدیک آپؓ سے نقل ہونے والی روایات صحیح ہیں اور قابل شک نہیں ہیں۔

ابوایوب انصاری رضوان الله تعالى عليه ۵۲ہجری کو وفات پاگئے، اور آپؓ قسطنطیہ ترکی میں مدفون ہیں، جو اس وقت ترکی کا ایک صوبہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے قسطنطیہ میں وفات پانے اور دفن ہونے کی خبر پہلے سے ہی دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسطنطیہ میں میرے اصحاب میں سے ایک صالح اور نیک صحابی کو دفن کیا جائے گا۔

مسجد ابو ايوب الأنصاري

مسجد ابو ايوب الأنصاري

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018